پاناما کیس کا فیصلہ اپریل کے وسط میں متوقع
پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی لارجر بنچ میں سے چند ججز فیصلے کو تحریری شکل دے رہے ہیں، ذرائع
سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا محفوظ کردہ فیصلہ اپریل کے وسط میں سنائے جانے کا امکان ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی لارجر بنچ میں سے چند ججز فیصلے کو تحریری شکل دے رہے ہیں جب کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے فیصلے کے اعلان کے حوالے سے اب تک کوئی سرکاری کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔
ذرائع کے مطابق پاناما کیس کی سماعت کرنے والے تمام 5 ججز انفرادی طور پر پوائنٹ لکھ رہے ہیں تاہم عام کیسز میں ایک جج نوٹ لکھتا ہے اور دیگر ججز اس کی توثیق کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تمام 5 ججز اسلام آباد میں موجود ہیں جن کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ وہ رواں ہفتے اسلام آباد رجسٹری میں بیٹھیں گے جب کہ 5 رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے ہیں اور بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا اور بینج کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کی حساس نوعیت کی وجہ سے مختصر آرڈر جاری نہیں کیا جاسکتا۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی لارجر بنچ میں سے چند ججز فیصلے کو تحریری شکل دے رہے ہیں جب کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے فیصلے کے اعلان کے حوالے سے اب تک کوئی سرکاری کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔
ذرائع کے مطابق پاناما کیس کی سماعت کرنے والے تمام 5 ججز انفرادی طور پر پوائنٹ لکھ رہے ہیں تاہم عام کیسز میں ایک جج نوٹ لکھتا ہے اور دیگر ججز اس کی توثیق کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تمام 5 ججز اسلام آباد میں موجود ہیں جن کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ وہ رواں ہفتے اسلام آباد رجسٹری میں بیٹھیں گے جب کہ 5 رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے ہیں اور بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا اور بینج کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کی حساس نوعیت کی وجہ سے مختصر آرڈر جاری نہیں کیا جاسکتا۔