اولین میثاق
اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے اہم تعلیم توحید ہے
BARA:
اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے اہم تعلیم توحید ہے۔ یہ اسلام کا سنگ بنیاد ہے۔اس کا محور ہے، اس کی جڑ ہے، اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ یہ حقیقی علم وشعور ہے۔ یہ انسان کا اپنے رب سے اولین میثاق اورعہدوپیمان ہے۔
اسلام نے الٰہ اور صفاتِ الٰہ کا ایک مکمل اورصحیح تصور پیش کیا ہے۔ صفاتِ الٰہی کے تصور سے وہ طاقت اور توانائی حاصل ہوتی ہے جو انسان کی تمام فکری اورعملی قوتوں پر محیط اور حکمران ہوجاتی ہے۔ صفات باری انسان کے تزکیہ نفس،اصلاح اخلاق، تنظیم اعمال اور قیام تمدن کے لیے ایک تیر بہدف نسخہ کیمیا ہے۔ صفات باری کا ایک مختصر تصور یہ ہے کہ اللہ معبود، صمد اور قیوم ہے وہ اول ہے آخر ہے، قادر مطلق اورحاکم مطلق ہے۔ اس کا علم ہرچیز پر محیط ہے وہ دلوں کے بھید اور نیتوں سے واقف ہے وہ حال ماضی اور مستقبل کا پورا علم رکھتا ہے۔
وہ صاحب قوت ہے اس کی طاقت سب پر غالب ہے، اس کی حکمت میں کوئی نقص نہیں۔ اس کے عدل میں کوئی شائبہ نہیں۔ وہ زندگی اوروسائل زندگی عطا کرتا ہے۔ وہ نفع نقصان کی ساری قوتوں کا مالک ہے۔اس کی بخشش اورنگہبانی کے سب محتاج ہیں وہ کسی دوسرے کے مشورے اورتعاون کا محتاج نہیں۔ وہ محض موجودات کا خالق اورتقدیر ساز ہی نہیں ہادی اور رہنما بھی ہے۔ وہ انسان کوکبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔
عقیدہ توحید میں اتنی بڑی طاقت ہے کہ انسان اگر اسے فی الواقع اپنے اندرجذب کرلے تو رضائے الٰہی پر نگاہ جماکر بے خطرآگ میں کود سکتا ہے، آروں کے نیچے چر سکتا ہے، پھانسی کے تختے پر کھڑا ہوسکتا ہے، پتھروں کی بارش میں ثابت قدم رہ سکتا ہے اورکیا نہیں ہوسکتا۔ شرط یہ ہے کہ انسان توحید کے تصور کو اپنے اندر حقیقتاً جذب اور راسخ کرلے۔
توحید صرف ایک علمی نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت بھی ہے۔ توحید کے تصور سے انسانی زندگی (خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی) کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ یہ عقیدہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ اورجانشیں ہونے کی حیثیت سے وہی روش اختیارکرے جو خدا کی روش ہے وہی سیرت اوراخلاق اپنے اندر پرورش کرے جو اللہ کی سیرت اور اخلاق ہے۔ اپنی حد تک صفات الٰہی کا زیادہ سے زیادہ ملکہ پیدا کرے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے خود کو اسی رنگ میں پیش کرے جو اللہ کا رنگ ہے جس کا وہ خلیفہ (ماتحت، نائب) ہے۔ مثلاً رحم اللہ کی ایک صفت ہے وہ بھی اپنے اندر رحم کی صفت پیدا کرے۔ اسی طرح خطا اورقصور معاف کرنا اور دوسروں کے عیب چھپانا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
اللہ کا جانشیں ہونے کی حیثیت سے وہ بھی عفوودرگزر سے کام لے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کی صفات، تقاضوں کے رنگ میں رنگ لے۔ صفات الٰہی کی ایک چلتی پھرتی منہ بولتی تصویر بن جائے۔ عقیدہ توحید کا انسانی زندگی پر سب سے نمایاں اثر یہ پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو آزادی اور مساوات کی دولت سے نوازتا ہے۔ انسان پرانسان کی حاکمیت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان میں بلا کی خود داری اور عزت نفس پیدا کرتا ہے۔ وہ خدا کے سوا تمام قوتوں سے بے نیازاور بے خوف ہوجاتا ہے۔
وہ صرف خدا کی غلامی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت خدا کے غلام کو اپنا غلام نہیں بناسکتی۔ اس کی گردن تن سے جدا تو ہوسکتی ہے لیکن کسی یزید کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ یہ عقیدہ انسان میں انتہا درجے کی عجزوانکساری اور بردباری پیدا کرتا ہے۔ وہ کبھی سرکش، غافل اور مغرور نہیں ہوسکتا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی دی ہوئی مقدس امانت ہے۔ وہ جس طرح دینے پر قادر ہے اسی طرح چھین لینے پر بھی قادر ہے۔
یہ عقیدہ انسان میں قناعت اور بے نیازی کی شان پیدا کردیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ رزق کی تقسیم خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے زیادہ دے جس کو چاہے کم دے۔ دولت، عزت، طاقت، شہرت اور حکومت سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور وہ نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت دلوا نہیں سکتی۔ یہ عقیدہ انسان میں عزم اور حوصلے کی زبردست قوت پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنے کے لیے کمرکستا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی پشت پر زمین اور آسمان کے بادشاہ کی طاقت ہے۔ یہ خیال اس کو چٹان کی طرح مضبوطی عطا کردیتا ہے اور دنیا کی ساری مشکلات اور مصائب اور مخالف قوتوں کا گٹھ جوڑ بھی اس کو اس کے عزم سے نہیں ہٹا سکتی یہ عقیدہ انسان کو شیر کی طرح بہادر بنادیتا ہے۔ اس کے نزدیک جان لینے کی قدرت کسی انسان، کسی حیوان یا توپ اور تلوار میں نہیں اس کا اختیار صرف خدا کو ہے۔ اس نے موت کا جو وقت مقرر کردیا ہے اس سے پہلے دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی چاہیں تو کسی کی جان نہیں لے سکتے۔
یہ عقیدہ رکھنے والا کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے خدا پر ایمان رکھتا ہے جو زمین وآسمان کا خالق مشرق و مغرب کا مالک اور تمام جہان کا رب ہے۔اس یقین کے بعد ساری کائنات کی کوئی چیز اسے اجنبی اور غیر نظر نہیں آتی وہ سب کو اپنی ذات کی طرح ایک ہی مالک کی ملکیت اور ایک ہی بادشاہ کی رعیت اور ایک ہی خالق کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرتا ہے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔اس کی ہمدردی، محبت، خدمت اور درد دل کسی رنگ، نسل، علاقے اور زبان کے دائرہ کا پابند نہیں ہوتا بلکہ آفاقی اورکائناتی ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو خدا کے قانون کا پابند بناتا ہے۔اس کو یقین ہوتا ہے کہ خدا ہر چیز سے باخبر ہے۔ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔تنہائی اور تاریکی میں کیے ہوئے گناہ کا اس کو علم ہوتا ہے۔ انسان کہیں تنہا نہیں ہوتا ہرجگہ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے وہ خدا سے نہیں چھپ سکتا۔ یہ یقین انسان کو خدا کا فرمانبردار اور وفادار بنادیتا ہے۔ وہ احکام خداوندی پر سختی سے عمل کرتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایک ایسی پولیس لگی ہوئی ہے جو کسی حال میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اس کو ایک ایسی عدالت کا کھٹکا لگا رہتا ہے جس کے وارنٹ سے وہ کہیں بھاگ ہی نہیں سکتا۔
وحدت الٰہ کا تصور وحدت آدم کا تصور پیش کرتا ہے۔ قوم پرستی اور وطن پرستی دراصل شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی قوم پرستی نے گزشتہ صدی میں تاریخ انسان کی دو خوفناک جنگوں کو جنم دیا اور آج بھی انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اگر انسانیت صبح کی بھولی شام کو گھر لوٹ آئے اور اسلام کے پیش کردہ وحدت الٰہ اور وحدت نسل انسانی کے نظریے پر اتفاق رائے کرلے تو عالمی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔ یہ مختلف قوموں کے درمیان قدر مشترک ہوسکتی ہے۔ سب ایک ہی خدا کو مانیں اسی کے قانون کو ضابطہ حیات بنائیں۔ ایک ہی آدم کی اولاد سمجھیں۔ اس طرح ایک خدا ایک آدم، ایک قانون کی بنیاد پر ایک عالم گیر انسانی برادری اور ایک عالمی سیاسی تنظیم وجود میں آسکتی ہے۔ آگ و خون کے دریا خشک ہوسکتے ہیں۔ امن عالم فقط دامن توحید میں ہے۔ اقوام عالم کے لیے عقیدہ توحید میں نصیحت اور درس عبرت ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازگِلستاں پیدا
اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے اہم تعلیم توحید ہے۔ یہ اسلام کا سنگ بنیاد ہے۔اس کا محور ہے، اس کی جڑ ہے، اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ یہ حقیقی علم وشعور ہے۔ یہ انسان کا اپنے رب سے اولین میثاق اورعہدوپیمان ہے۔
اسلام نے الٰہ اور صفاتِ الٰہ کا ایک مکمل اورصحیح تصور پیش کیا ہے۔ صفاتِ الٰہی کے تصور سے وہ طاقت اور توانائی حاصل ہوتی ہے جو انسان کی تمام فکری اورعملی قوتوں پر محیط اور حکمران ہوجاتی ہے۔ صفات باری انسان کے تزکیہ نفس،اصلاح اخلاق، تنظیم اعمال اور قیام تمدن کے لیے ایک تیر بہدف نسخہ کیمیا ہے۔ صفات باری کا ایک مختصر تصور یہ ہے کہ اللہ معبود، صمد اور قیوم ہے وہ اول ہے آخر ہے، قادر مطلق اورحاکم مطلق ہے۔ اس کا علم ہرچیز پر محیط ہے وہ دلوں کے بھید اور نیتوں سے واقف ہے وہ حال ماضی اور مستقبل کا پورا علم رکھتا ہے۔
وہ صاحب قوت ہے اس کی طاقت سب پر غالب ہے، اس کی حکمت میں کوئی نقص نہیں۔ اس کے عدل میں کوئی شائبہ نہیں۔ وہ زندگی اوروسائل زندگی عطا کرتا ہے۔ وہ نفع نقصان کی ساری قوتوں کا مالک ہے۔اس کی بخشش اورنگہبانی کے سب محتاج ہیں وہ کسی دوسرے کے مشورے اورتعاون کا محتاج نہیں۔ وہ محض موجودات کا خالق اورتقدیر ساز ہی نہیں ہادی اور رہنما بھی ہے۔ وہ انسان کوکبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔
عقیدہ توحید میں اتنی بڑی طاقت ہے کہ انسان اگر اسے فی الواقع اپنے اندرجذب کرلے تو رضائے الٰہی پر نگاہ جماکر بے خطرآگ میں کود سکتا ہے، آروں کے نیچے چر سکتا ہے، پھانسی کے تختے پر کھڑا ہوسکتا ہے، پتھروں کی بارش میں ثابت قدم رہ سکتا ہے اورکیا نہیں ہوسکتا۔ شرط یہ ہے کہ انسان توحید کے تصور کو اپنے اندر حقیقتاً جذب اور راسخ کرلے۔
توحید صرف ایک علمی نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت بھی ہے۔ توحید کے تصور سے انسانی زندگی (خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی) کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ یہ عقیدہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ اورجانشیں ہونے کی حیثیت سے وہی روش اختیارکرے جو خدا کی روش ہے وہی سیرت اوراخلاق اپنے اندر پرورش کرے جو اللہ کی سیرت اور اخلاق ہے۔ اپنی حد تک صفات الٰہی کا زیادہ سے زیادہ ملکہ پیدا کرے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے خود کو اسی رنگ میں پیش کرے جو اللہ کا رنگ ہے جس کا وہ خلیفہ (ماتحت، نائب) ہے۔ مثلاً رحم اللہ کی ایک صفت ہے وہ بھی اپنے اندر رحم کی صفت پیدا کرے۔ اسی طرح خطا اورقصور معاف کرنا اور دوسروں کے عیب چھپانا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
اللہ کا جانشیں ہونے کی حیثیت سے وہ بھی عفوودرگزر سے کام لے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کی صفات، تقاضوں کے رنگ میں رنگ لے۔ صفات الٰہی کی ایک چلتی پھرتی منہ بولتی تصویر بن جائے۔ عقیدہ توحید کا انسانی زندگی پر سب سے نمایاں اثر یہ پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو آزادی اور مساوات کی دولت سے نوازتا ہے۔ انسان پرانسان کی حاکمیت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان میں بلا کی خود داری اور عزت نفس پیدا کرتا ہے۔ وہ خدا کے سوا تمام قوتوں سے بے نیازاور بے خوف ہوجاتا ہے۔
وہ صرف خدا کی غلامی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت خدا کے غلام کو اپنا غلام نہیں بناسکتی۔ اس کی گردن تن سے جدا تو ہوسکتی ہے لیکن کسی یزید کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ یہ عقیدہ انسان میں انتہا درجے کی عجزوانکساری اور بردباری پیدا کرتا ہے۔ وہ کبھی سرکش، غافل اور مغرور نہیں ہوسکتا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی دی ہوئی مقدس امانت ہے۔ وہ جس طرح دینے پر قادر ہے اسی طرح چھین لینے پر بھی قادر ہے۔
یہ عقیدہ انسان میں قناعت اور بے نیازی کی شان پیدا کردیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ رزق کی تقسیم خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے زیادہ دے جس کو چاہے کم دے۔ دولت، عزت، طاقت، شہرت اور حکومت سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور وہ نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت دلوا نہیں سکتی۔ یہ عقیدہ انسان میں عزم اور حوصلے کی زبردست قوت پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنے کے لیے کمرکستا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی پشت پر زمین اور آسمان کے بادشاہ کی طاقت ہے۔ یہ خیال اس کو چٹان کی طرح مضبوطی عطا کردیتا ہے اور دنیا کی ساری مشکلات اور مصائب اور مخالف قوتوں کا گٹھ جوڑ بھی اس کو اس کے عزم سے نہیں ہٹا سکتی یہ عقیدہ انسان کو شیر کی طرح بہادر بنادیتا ہے۔ اس کے نزدیک جان لینے کی قدرت کسی انسان، کسی حیوان یا توپ اور تلوار میں نہیں اس کا اختیار صرف خدا کو ہے۔ اس نے موت کا جو وقت مقرر کردیا ہے اس سے پہلے دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی چاہیں تو کسی کی جان نہیں لے سکتے۔
یہ عقیدہ رکھنے والا کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے خدا پر ایمان رکھتا ہے جو زمین وآسمان کا خالق مشرق و مغرب کا مالک اور تمام جہان کا رب ہے۔اس یقین کے بعد ساری کائنات کی کوئی چیز اسے اجنبی اور غیر نظر نہیں آتی وہ سب کو اپنی ذات کی طرح ایک ہی مالک کی ملکیت اور ایک ہی بادشاہ کی رعیت اور ایک ہی خالق کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرتا ہے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔اس کی ہمدردی، محبت، خدمت اور درد دل کسی رنگ، نسل، علاقے اور زبان کے دائرہ کا پابند نہیں ہوتا بلکہ آفاقی اورکائناتی ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو خدا کے قانون کا پابند بناتا ہے۔اس کو یقین ہوتا ہے کہ خدا ہر چیز سے باخبر ہے۔ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔تنہائی اور تاریکی میں کیے ہوئے گناہ کا اس کو علم ہوتا ہے۔ انسان کہیں تنہا نہیں ہوتا ہرجگہ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے وہ خدا سے نہیں چھپ سکتا۔ یہ یقین انسان کو خدا کا فرمانبردار اور وفادار بنادیتا ہے۔ وہ احکام خداوندی پر سختی سے عمل کرتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایک ایسی پولیس لگی ہوئی ہے جو کسی حال میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اس کو ایک ایسی عدالت کا کھٹکا لگا رہتا ہے جس کے وارنٹ سے وہ کہیں بھاگ ہی نہیں سکتا۔
وحدت الٰہ کا تصور وحدت آدم کا تصور پیش کرتا ہے۔ قوم پرستی اور وطن پرستی دراصل شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی قوم پرستی نے گزشتہ صدی میں تاریخ انسان کی دو خوفناک جنگوں کو جنم دیا اور آج بھی انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اگر انسانیت صبح کی بھولی شام کو گھر لوٹ آئے اور اسلام کے پیش کردہ وحدت الٰہ اور وحدت نسل انسانی کے نظریے پر اتفاق رائے کرلے تو عالمی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔ یہ مختلف قوموں کے درمیان قدر مشترک ہوسکتی ہے۔ سب ایک ہی خدا کو مانیں اسی کے قانون کو ضابطہ حیات بنائیں۔ ایک ہی آدم کی اولاد سمجھیں۔ اس طرح ایک خدا ایک آدم، ایک قانون کی بنیاد پر ایک عالم گیر انسانی برادری اور ایک عالمی سیاسی تنظیم وجود میں آسکتی ہے۔ آگ و خون کے دریا خشک ہوسکتے ہیں۔ امن عالم فقط دامن توحید میں ہے۔ اقوام عالم کے لیے عقیدہ توحید میں نصیحت اور درس عبرت ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازگِلستاں پیدا