حفاظت زبان قرآن و سنت کی روشنی میں
محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور باہمی خون خرابہ کا آغاز ہوجائے۔
OTTAWA:
اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے گھر اور معاشرے کو آسودہ اور پُرمسرت دیکھنا چاہتا ہے۔
اسلام میں جہاں محبت، اخوت اور احترام و عزت کے جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث معاشرے کا امن و سکون برباد ہوجاتا ہو۔ محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور باہمی خون خرابہ کا آغاز ہوجائے۔ ان تمام باتوں کے نقصانات کو کتاب و سنت میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا انسان ایمان و یقین کے اجالے میں ان کو پڑھ کر غور کرے اور ان سے اجتناب کرے تو امن و سلامتی اور عزت و عظمت کے نرالے نمونے وہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لے گا۔
اسلامی معاشرے میں جہاں انسانوں کے دیگر اعضاء کے ذریعے جنم لینے والے گناہوں نے قبضہ جما رکھا ہے، وہیں زبان کے ذریعے پیدا ہونے والے گناہوں نے بھی اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ جس کے نتائج سے معاشرے میں نکھار کے بہ جائے تخریب کاری پھیل رہی ہے، جو معاشرے کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ واضح رہے کہ گناہ کوئی بھی ہو اور کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو، اس کا ارتکاب بندے کو اطاعت و عبادات بجا لانے سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کی نحوست سے انسان ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے میں گرجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں حفاظت زبان کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور بیہودہ گوئی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : '' بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔'' ( مومنون )
مومن کا تو ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے، اس کے کندھوں پر تو ذمے داریوں کا بارِگراں ہے۔ اس کو فرصت ہی کہاں کہ وہ بے کار اور فضول کاموں میں شرکت کرسکے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں : '' اے عزیز معلوم ہونا چاہیے کہ زبان عجائبات صفات الہٰی میں سے ہے، اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے، کیوں کہ وہ موجود و معدوم دونوں کا بیان کرتی ہے، زبان عقل کی نائب ہے اور عقل کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور جو کچھ عقل و وہم اور خیال میں آتا ہے، زبان اس کی تعبیر کرتی ہے۔ انسان کے کسی دوسرے عضو میں یہ صفت نہیں ہے۔'' ( کیمیائے سعادت )
زبان بے شک اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر ہم زندگی بھر کما حقہ ادا نہیں کرسکتے، مگر ہم نے اس بے مثال نعمت کی قدر نہیں کی۔ بل کہ اس کے برعکس اس کے ذریعے ہم نہ جانے کیسے کیسے غیر شرعی کام کرلیتے ہیں۔ اسی لیے تو حدیث پاک میں زبان کی حفاظت کے بارے میں تاکیداً حکم آیا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالتؐ میں عرض کیا، '' یا رسول اﷲ ﷺ نجات کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: اپنی زبان کو بری باتوں سے روکو۔''
حضرت سفیان بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالتؐ میں عرض کیا۔ یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو سرکار مدینہؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، '' اسے۔'' (ترمذی شریف)
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا : ''جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے۔''
زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑی کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔
حضرت یونس ابن عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں : '' میرا نفس بصرہ جیسے گرم شہر میں سخت گرمی کے دنوں میں روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتا ہے، لیکن فضول گوئی سے زبان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔'' (منہاج العابدین از امام غزالی)
امام غزالیؒ کے بیان کرد ہ وہ اصول و لوازمات ملاحظہ کریں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم کافی حد تک اپنی حیات مستعار میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ بسا اوقات انسان زبان کی وجہ سے ایسی مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہے جن سے نکلنا امر مشکل ہوجاتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے زندگی میں موجود سکون بے سکونی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
امام موصوف رقم طراز ہیں :
پہلا اصول: وہ جو سیدنا حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ انسان روزانہ صبح جب بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے مخاطب ہوکر اسے تاکید کرتے ہیں کہ دن میں درستی اور صداقت پر قائم رہنا اور بیہودہ گوئی سے بچے رہنا، کیوں کہ اگر تُو درست اور ٹھیک رہے گی۔ تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تُو کج روی کے راستے پر چلے گی تو ہم بھی کج روی کے راستے پر چل پڑیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ زبان کی اچھی بری باتیں انسانی جسم کے تمام اعضاء پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اچھی باتیں تو مزید توفیق خداوندی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں اور بُری ذلت و خواری کا باعث۔
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں: جب تم اپنے دل میں قساوت، بدن میں سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول اور لایعنی کلمے نکل گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے۔''
دوسرا اصول: وقت بہت قیمتی شے ہے اس کی قدر کرنا بہت ضرور ی ہے اور ذکر الہٰی کے سوا اس کی حفاظت ناممکن ہے کیوں کہ بندے سے لغو اور بے کار باتیں ہو جاتی ہیں اور ان فضول باتوں میں پڑکر وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ حضرت حسان بن سنانؓ سے مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گذرے تو اس کے مالک سے دریافت کیا : یہ بالا خانہ بنائے تمہیں کتنا عرصہ گذرا ہے ؟ یہ سوا ل کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور نفس سے مخاطب ہوکر فرمایا : '' اے مغرور نفس! تو فضول و لایعنی سوالات میں وقت عزیز کو ضایع کرتا ہے۔'' پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال روزے رکھے۔
وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو وقت عزیز کی قیمت جان کر اس کی قدر کرتے ہیں اور اپنی اصلاح نفس میں مصروف رہتے ہیں اور کتنے بدقسمت اور احمق ہیں وہ لوگ جنہوں نے زبان کی لگام ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور لغویات میں مشغول رہتے ہیں۔
تیسرا اصول: حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ کیوں کہ جو شخص زبان کی نگہداشت نہیں کرتا، بل کہ ہر وقت گفت گو میں مصروف رہتا ہے، تو لامحالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور غیبت اعمال صالحہ کو اس طرح تباہ کرتی ہے جس طرح آسمانی بجلی۔ غیبت کرنے والے آدمی کے اعمال اس طرح ضایع ہوتے ہیں جس طرح پتھر منجنیق (ایک طرح کی توپ) میں رکھ کر مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں پھینک دیے جائیں۔
حضرت امام حسن بصریؒ کو کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے، تو آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کجھوروں کا ایک تھال بھر کر روانہ کیا اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ سنا ہے کہ تُونے مجھے اپنی نیکیاں ہدیہ کی ہیں، تو میں نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی زبان کی حفاظت اسی وقت کرسکے گا، جب خاموشی اختیار کرے گا۔ جب زبان کھلے گی ہی نہیں تو لایعنی باتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا : ''جو چُپ رہا وہ سلامت رہا۔ ''
اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو اختیار کرے گا یقینا وہ کئی اعمال اس کے ذریعے کرے گا۔ خاموش رہنا تو ایک طرح سے سوچنا ہی ہے اور کائنات خدا وندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ عمل ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت کریمہ کی ایک آیت کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا پہچاننا مشکل ہے، تمہارے اُوپر اور نیچے، تمہارے دائیں اور بائیں میری مصنوعات اور تخلیقات کا جو بازار سجا ہوا ہے۔
اسی میں غور و فکر کرو، ہر چیز یہ پکارتی ہوئی سنائی دے گی کہ وہ اپنی نیرنگیوں سمیت خود بہ خود موجود نہیں ہوگئی بل کہ اس کا بنانے والا ہے، جو سب کچھ جاننے والا۔ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ ذرا دیکھو بیج کا دانہ شق ہو رہا ہے اس میں ایک نرم و نازک بالی نکل آئی ہے، اسے آپ کم زور نہ سمجھیے یہ تو مٹی کی کئی انچ موٹی تہہ کو چیر کر نکلی ہے۔ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، وہ بالی اب ایک ننھے سے تنے میں تبدیل ہورہی ہے، ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کے لیے مناسب فاصلوں پر اس میں گرہیں ڈالی جارہی ہیں، اب اس کے سر پر ایک خوشہ سا نمودار ہوگیا ہے۔
اس کی جیبیں اب دانوں سے بھرگئی ہیں، یہ پودا جو پہلے ہرا بھرا اور نرم و نازک تھا۔ اب اپنا رنگ تبدیل کر رہا ہے۔ غور کرنے والی آنکھ خود فیصلہ کرلے کہ یہ کیا اندھے مادے کی کاری گری ہے یا علیم و خبیر پروردگار کی صناعی کا اعجاز ہے۔ پھل لگنے سے لے کر پکنے تک اس کی مقدار، اس کی خوش بو اور اس کے ذائقے میں آہستہ آہستہ موقع بہ موقع جو تبدیلیاں رو نما ہو تی رہتی ہیں، اسی پر انسان غور کرے تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔
اسی طرح کئی ایک آیات ربانی میں مخلوقات خداوندی کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ احادیث کریمہ میں بھی رحمت عالمین ﷺ نے غور و فکر کرنے کی اپنے چاہنے والوں کو تاکید فرمائی۔ چناں چہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا : '' رموز کائنات میں ایک گھڑی کا تفکر و تدبر ستّر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔''
ہم کائنات خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت میں کرسکتے ہیں، جب ہم فضول اور بیہودہ گوئی کے بہ جائے خاموشی کو اپنائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے، بل کہ مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے اور لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا کہ بری بات کرنے سے چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔ جب آدمی خاموش ہوتا ہے اور مجلس میں اچھی باتیں کہی جا رہی ہیں تو گویا وہ صحیح طور پر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلام ایسے ہی افراد تیار کرتا ہے، جو سوچنے والے زیادہ ہوں اور فضول گوئی سے چپ رہنے کو محبوب جانتے ہوں۔
اسلاف کرامؒ کی حیات پاک کا مطالعہ کرنے سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح حفظِ لسان کا خیال رکھا اور فضول و لایعنی باتوں سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کا درس دیا۔
ابن ابی مطیعؒ فرماتے ہیں: '' زبان گھات میں چھپے ہوئے شیر کی مانند ہے جو موقع پانے پر غارت گری کرتا ہے۔ اس لیے اسے خاموشی کی لگام دے کر لغویات سے بند رکھ، اس طرح تو بہت سی آفات و بلیات سے بچ جائے گا۔''
ہمارے اسلاف نے حفاظت زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظت زبان ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا ۔ اور '' ایک چپ سو سکھ'' کے مصداق رہے۔
لیکن موجودہ معاشرہ فضول گوئی و بیہودگی میں سابقہ ادوار پر بازی لے گیا۔ گندے مذاق، شغل و یاوہ گوئی معاشرے کے افراد میں خوراک کی حد تک رچ پس گئی ہے۔
جب تک ہم قرآن و سنت اور اسلاف کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر اپنی زبان کی حفاظت نہیں کریں گے تب تک ہمارے رزق میں برکت، مال کی فراوانی، عزت و مقام اور جاہ و جلال میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیںِ زبان کی حفاظت کی توفیق دے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے گھر اور معاشرے کو آسودہ اور پُرمسرت دیکھنا چاہتا ہے۔
اسلام میں جہاں محبت، اخوت اور احترام و عزت کے جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث معاشرے کا امن و سکون برباد ہوجاتا ہو۔ محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور باہمی خون خرابہ کا آغاز ہوجائے۔ ان تمام باتوں کے نقصانات کو کتاب و سنت میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا انسان ایمان و یقین کے اجالے میں ان کو پڑھ کر غور کرے اور ان سے اجتناب کرے تو امن و سلامتی اور عزت و عظمت کے نرالے نمونے وہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لے گا۔
اسلامی معاشرے میں جہاں انسانوں کے دیگر اعضاء کے ذریعے جنم لینے والے گناہوں نے قبضہ جما رکھا ہے، وہیں زبان کے ذریعے پیدا ہونے والے گناہوں نے بھی اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ جس کے نتائج سے معاشرے میں نکھار کے بہ جائے تخریب کاری پھیل رہی ہے، جو معاشرے کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ واضح رہے کہ گناہ کوئی بھی ہو اور کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو، اس کا ارتکاب بندے کو اطاعت و عبادات بجا لانے سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کی نحوست سے انسان ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے میں گرجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں حفاظت زبان کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور بیہودہ گوئی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : '' بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔'' ( مومنون )
مومن کا تو ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے، اس کے کندھوں پر تو ذمے داریوں کا بارِگراں ہے۔ اس کو فرصت ہی کہاں کہ وہ بے کار اور فضول کاموں میں شرکت کرسکے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں : '' اے عزیز معلوم ہونا چاہیے کہ زبان عجائبات صفات الہٰی میں سے ہے، اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے، کیوں کہ وہ موجود و معدوم دونوں کا بیان کرتی ہے، زبان عقل کی نائب ہے اور عقل کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور جو کچھ عقل و وہم اور خیال میں آتا ہے، زبان اس کی تعبیر کرتی ہے۔ انسان کے کسی دوسرے عضو میں یہ صفت نہیں ہے۔'' ( کیمیائے سعادت )
زبان بے شک اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر ہم زندگی بھر کما حقہ ادا نہیں کرسکتے، مگر ہم نے اس بے مثال نعمت کی قدر نہیں کی۔ بل کہ اس کے برعکس اس کے ذریعے ہم نہ جانے کیسے کیسے غیر شرعی کام کرلیتے ہیں۔ اسی لیے تو حدیث پاک میں زبان کی حفاظت کے بارے میں تاکیداً حکم آیا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالتؐ میں عرض کیا، '' یا رسول اﷲ ﷺ نجات کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: اپنی زبان کو بری باتوں سے روکو۔''
حضرت سفیان بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالتؐ میں عرض کیا۔ یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو سرکار مدینہؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، '' اسے۔'' (ترمذی شریف)
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا : ''جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے۔''
زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑی کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔
حضرت یونس ابن عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں : '' میرا نفس بصرہ جیسے گرم شہر میں سخت گرمی کے دنوں میں روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتا ہے، لیکن فضول گوئی سے زبان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔'' (منہاج العابدین از امام غزالی)
امام غزالیؒ کے بیان کرد ہ وہ اصول و لوازمات ملاحظہ کریں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم کافی حد تک اپنی حیات مستعار میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ بسا اوقات انسان زبان کی وجہ سے ایسی مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہے جن سے نکلنا امر مشکل ہوجاتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے زندگی میں موجود سکون بے سکونی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
امام موصوف رقم طراز ہیں :
پہلا اصول: وہ جو سیدنا حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ انسان روزانہ صبح جب بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے مخاطب ہوکر اسے تاکید کرتے ہیں کہ دن میں درستی اور صداقت پر قائم رہنا اور بیہودہ گوئی سے بچے رہنا، کیوں کہ اگر تُو درست اور ٹھیک رہے گی۔ تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تُو کج روی کے راستے پر چلے گی تو ہم بھی کج روی کے راستے پر چل پڑیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ زبان کی اچھی بری باتیں انسانی جسم کے تمام اعضاء پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اچھی باتیں تو مزید توفیق خداوندی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں اور بُری ذلت و خواری کا باعث۔
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں: جب تم اپنے دل میں قساوت، بدن میں سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول اور لایعنی کلمے نکل گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے۔''
دوسرا اصول: وقت بہت قیمتی شے ہے اس کی قدر کرنا بہت ضرور ی ہے اور ذکر الہٰی کے سوا اس کی حفاظت ناممکن ہے کیوں کہ بندے سے لغو اور بے کار باتیں ہو جاتی ہیں اور ان فضول باتوں میں پڑکر وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ حضرت حسان بن سنانؓ سے مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گذرے تو اس کے مالک سے دریافت کیا : یہ بالا خانہ بنائے تمہیں کتنا عرصہ گذرا ہے ؟ یہ سوا ل کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور نفس سے مخاطب ہوکر فرمایا : '' اے مغرور نفس! تو فضول و لایعنی سوالات میں وقت عزیز کو ضایع کرتا ہے۔'' پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال روزے رکھے۔
وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو وقت عزیز کی قیمت جان کر اس کی قدر کرتے ہیں اور اپنی اصلاح نفس میں مصروف رہتے ہیں اور کتنے بدقسمت اور احمق ہیں وہ لوگ جنہوں نے زبان کی لگام ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور لغویات میں مشغول رہتے ہیں۔
تیسرا اصول: حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ کیوں کہ جو شخص زبان کی نگہداشت نہیں کرتا، بل کہ ہر وقت گفت گو میں مصروف رہتا ہے، تو لامحالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور غیبت اعمال صالحہ کو اس طرح تباہ کرتی ہے جس طرح آسمانی بجلی۔ غیبت کرنے والے آدمی کے اعمال اس طرح ضایع ہوتے ہیں جس طرح پتھر منجنیق (ایک طرح کی توپ) میں رکھ کر مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں پھینک دیے جائیں۔
حضرت امام حسن بصریؒ کو کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے، تو آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کجھوروں کا ایک تھال بھر کر روانہ کیا اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ سنا ہے کہ تُونے مجھے اپنی نیکیاں ہدیہ کی ہیں، تو میں نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی زبان کی حفاظت اسی وقت کرسکے گا، جب خاموشی اختیار کرے گا۔ جب زبان کھلے گی ہی نہیں تو لایعنی باتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا : ''جو چُپ رہا وہ سلامت رہا۔ ''
اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو اختیار کرے گا یقینا وہ کئی اعمال اس کے ذریعے کرے گا۔ خاموش رہنا تو ایک طرح سے سوچنا ہی ہے اور کائنات خدا وندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ عمل ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت کریمہ کی ایک آیت کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا پہچاننا مشکل ہے، تمہارے اُوپر اور نیچے، تمہارے دائیں اور بائیں میری مصنوعات اور تخلیقات کا جو بازار سجا ہوا ہے۔
اسی میں غور و فکر کرو، ہر چیز یہ پکارتی ہوئی سنائی دے گی کہ وہ اپنی نیرنگیوں سمیت خود بہ خود موجود نہیں ہوگئی بل کہ اس کا بنانے والا ہے، جو سب کچھ جاننے والا۔ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ ذرا دیکھو بیج کا دانہ شق ہو رہا ہے اس میں ایک نرم و نازک بالی نکل آئی ہے، اسے آپ کم زور نہ سمجھیے یہ تو مٹی کی کئی انچ موٹی تہہ کو چیر کر نکلی ہے۔ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، وہ بالی اب ایک ننھے سے تنے میں تبدیل ہورہی ہے، ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کے لیے مناسب فاصلوں پر اس میں گرہیں ڈالی جارہی ہیں، اب اس کے سر پر ایک خوشہ سا نمودار ہوگیا ہے۔
اس کی جیبیں اب دانوں سے بھرگئی ہیں، یہ پودا جو پہلے ہرا بھرا اور نرم و نازک تھا۔ اب اپنا رنگ تبدیل کر رہا ہے۔ غور کرنے والی آنکھ خود فیصلہ کرلے کہ یہ کیا اندھے مادے کی کاری گری ہے یا علیم و خبیر پروردگار کی صناعی کا اعجاز ہے۔ پھل لگنے سے لے کر پکنے تک اس کی مقدار، اس کی خوش بو اور اس کے ذائقے میں آہستہ آہستہ موقع بہ موقع جو تبدیلیاں رو نما ہو تی رہتی ہیں، اسی پر انسان غور کرے تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔
اسی طرح کئی ایک آیات ربانی میں مخلوقات خداوندی کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ احادیث کریمہ میں بھی رحمت عالمین ﷺ نے غور و فکر کرنے کی اپنے چاہنے والوں کو تاکید فرمائی۔ چناں چہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا : '' رموز کائنات میں ایک گھڑی کا تفکر و تدبر ستّر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔''
ہم کائنات خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت میں کرسکتے ہیں، جب ہم فضول اور بیہودہ گوئی کے بہ جائے خاموشی کو اپنائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے، بل کہ مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے اور لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا کہ بری بات کرنے سے چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔ جب آدمی خاموش ہوتا ہے اور مجلس میں اچھی باتیں کہی جا رہی ہیں تو گویا وہ صحیح طور پر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلام ایسے ہی افراد تیار کرتا ہے، جو سوچنے والے زیادہ ہوں اور فضول گوئی سے چپ رہنے کو محبوب جانتے ہوں۔
اسلاف کرامؒ کی حیات پاک کا مطالعہ کرنے سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح حفظِ لسان کا خیال رکھا اور فضول و لایعنی باتوں سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کا درس دیا۔
ابن ابی مطیعؒ فرماتے ہیں: '' زبان گھات میں چھپے ہوئے شیر کی مانند ہے جو موقع پانے پر غارت گری کرتا ہے۔ اس لیے اسے خاموشی کی لگام دے کر لغویات سے بند رکھ، اس طرح تو بہت سی آفات و بلیات سے بچ جائے گا۔''
ہمارے اسلاف نے حفاظت زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظت زبان ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا ۔ اور '' ایک چپ سو سکھ'' کے مصداق رہے۔
لیکن موجودہ معاشرہ فضول گوئی و بیہودگی میں سابقہ ادوار پر بازی لے گیا۔ گندے مذاق، شغل و یاوہ گوئی معاشرے کے افراد میں خوراک کی حد تک رچ پس گئی ہے۔
جب تک ہم قرآن و سنت اور اسلاف کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر اپنی زبان کی حفاظت نہیں کریں گے تب تک ہمارے رزق میں برکت، مال کی فراوانی، عزت و مقام اور جاہ و جلال میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیںِ زبان کی حفاظت کی توفیق دے۔ آمین