دوستی مہنگی پڑگئی

جنوبی کوریا کی خاتون صدر کے اقتدار کا سورج غروب۔

چند روز قبل پارک گیون ہائی نے اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے ایک بار پھر معافی مانگی۔ فوٹو : فائل

دوستی ایک بہت ہی خوب صورت رشتہ ہے، اس رشتے میں بندھے لوگ زندگی بھر ایک دوسرے کے دل کے قریب ہوتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے دُور بھی ہوجائیں تو بھی ہم آہنگی، ہم خیالی اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم کو اپنی خوشی اور غم سمجھنا کم نہیں ہوتا۔ لیکن سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر چیز کی زیادتی خطرناک ہوتی ہے چاہے وہ دوستی ہی کیوں نہ ہو، اگر دوستی حد سے بڑھ جائے تو کوئی نہ کوئی نقصان ضرور ہوتا ہے، ایسا ہی کچھ جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر پارک گیون ہائی (Park Geun-Hye) کے ساتھ ہوا، جنھوں نے دوستی نبھانے کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ انھیں دوست کو نوازنے کے الزامات کے تحت برطرفی کی ذلت سہنی پڑی ہے۔ اس کے علاوہ اختیارات سے تجاوز اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزامات بھی پارک گیون ہائی کے خلاف جاری کی گئی فرد جرم میں شامل کیے گئے ہیں۔

جنوبی کوریا کے آئین کے آرٹیکل 65 شق (۱) کے مطابق اگر صدر، وزیراعظم یا کوئی دوسرا رکن اسمبلی آئین اور قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے تو پارلیمنٹ میں اُس کا مواخذہ کرسکتی ہے۔

جب پارک گیون ہائی کے مواخذے کی تحریک پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تو بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو اسی وقت یقین ہوگیا تھا کہ پارک گیون ہائی کا سیاسی مستقبل تاریک بلکہ ختم ہوگیا ہے۔



یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ''اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت''، اصل اقتدار صرف خالق کائنات ہی کو زیبا ہے۔ نادان اور بے وقوف ہیں وہ لوگ جو وقتی اقتدار اور اختیارات کو پاکر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، اور قانون و آئین کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ایسے ایسے اقدامات کرتے ہیں جو کسی بھی حکم راں کو زیبا نہیں دیتے۔

کافی عرصے سے جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر پر یہ الزامات عائد کیے جارہے تھے کہ وہ اپنی دوست چوئی سون سل (Choi Soon-Sil) پر ضرورت سے زیادہ ہی مہربان ہیں جس کی وجہ سے امور مملکت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سابق صدر نے 2013 سے لے کر 2016 کے عرصے میں اپنی دوست کو ریاستی معاملات میں اپنا رازدار بنایا ہوا تھا جو دیگر حکام کے لیے بہت پریشان کن بات تھی۔ تاہم پارک گیون ہائی کے وکلا نے عدالت میں اور ان کے ساتھی ارکان اسمبلی نے ایوان میں اس تاثر کو رد کیا اور کہا کہ چوئی سون سل کو انتہائی محدود کردار دیا گیا ہے۔ سابق خاتون صدر پر یہ بھی الزامات تھے کہ انھوں نے اپنی دوست کی بات نہ ماننے والے بہت سے اعلیٰ افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کیں اور مختلف اداروں اور کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ اُن کی دوست کی کمپنی کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کریں۔

پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک منظور ہونے کے بعد جنوبی کوریا کی عدالت عظمیٰ نے پارک گیون ہائی کو صدارتی منصب سے برطرف کردیا۔ اس تاریخی فیصلے کے سامنے آتے ہی جہاں پارک گیون کے مخالفین نے ملک بھر میں جشن منایا تو دوسری طرف اُن کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد عدالتی فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی، سیؤل سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے جن میں پارک گیون ہائی کی بحالی کے مطالبات قابل ذکر تھے۔

پارک گیون ہائی کے زوال کے سفر پر اگر تاریخ وار نگاہ ڈالیں تو اکتوبر 2016 میں ایوہا (Ewha) ویمن یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ 24 اکتوبر کو ایک صحافی نے پارک کی دوست کے ایک کمپیوٹر کی دستاویزات منظر عام پر لانے کا اعلان کیا جن کے مطابق چوئی سون سل کو اہم حکومتی معاملات کے حوالے سے خفیہ ای میلز اور دیگر اہم دستاویزات دی جاتی رہی تھیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے اگلے ہی دن پارک گیون نے اس معاملے پر قوم سے معافی بھی مانگی اور اپنی حد سے بڑھی دوستی کا اعتراف بھی کیا۔



اکتوبر کی آخری تاریخوں میں سیؤل میں صدر کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ صدر مخالف ریلیوں میں لاکھوں افراد کی شرکت کی رپورٹس نے پارک گیون ہائی کے اقتدار کی ڈوبتی کشتی میں مزید شگاف ڈال دیے تھے۔ مظاہرین کے احتجاج میں صرف ایک ہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ صدر کو برطرف کرکے اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ پارک کی دوست اور اس تنازعے کی مرکزی کردار چوئی سون لی کو بھی سیؤل واپسی پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔


عوامی احتجاج کی شدت بڑھتی دیکھ کر 29 نومبر 2016 کو پارک گیون ہائی نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی، تاہم ایوان اقتدار چھوڑنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں جس کی وجہ سے عوام کا غم و غصہ مزید بڑھ گیا۔

گذشتہ سال دسمبر میں جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے صدر کے مواخذے کی منظوری دی اور صدارتی اختیارات فوری طور پر وزیراعظم کو سپرد کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ پارلیمنٹ میں خاتون صدر کے مواخذے کی تحریک56کے مقابلے میں 234 ووٹوں سے منظور کی گئی، یعنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ نے پارک گیون کو گھر بھیجنے کے لیے ووٹ دیا۔ 9 ارکان کی رائے مختلف وجوہ کی بنا پر ووٹنگ میں شمار نہیں کی گئی۔

چند روز قبل پارک گیون ہائی نے اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے ایک بار پھر معافی مانگی۔ تاہم ''اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت'' کے مصداق پارک گیون ہائی کو دو بار مسند اقتدار نہیں مل سکتی۔ اپنے سیاسی زوال کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے پارک گیون ہائی یقینی طور پر اپنے اقدامات، پالیسیوں اور اپنی دوست کو حد سے زیادہ مراعات و سہولت دینے پر پچھتارہی ہوں گی اور انھیں رہ رہ کر یہ خیال بھی شاید آرہا ہو کہ اگر وہ اپنی دوست پر اتنی نوازشات نہ کرتیں تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو ایک انتہائی تلخ، کرب ناک، ذلت آمیز اور عبرت انگیز حقیقت کی صورت میں اُن کے ساتھ ہے۔

پارک گیون ہائی تو چلی گئیں، جنوبی کوریا میں بالخصوص اور عالمی سیاسی ماہرین کے سامنے اب یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ جنوبی کوریا کا نیا صدر اب کون ہوگا؟ اس منصب کے لیے بہت سے نام گردش میں ہیں، کوئی کسی شخصیت کو صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں سب سے آگے دیکھ رہا ہے تو کسی کی رائے میں کوئی اور شخصیت سب سے موزوں ہے۔



جنوبی کوریا کے عوام کے آرا پر مشتمل عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست داں مون جے ان (Moon Jae-in) اس فہرست میں ایک اہم نام ہیں، وہ پارک گیون ہائی کے اقدامات کے خلاف مسلسل آواز اٹھانے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے علاوہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون کا نام بھی جنوبی کوریا کے آئندہ صدر کی حیثیت سے لیا جارہا ہے۔ تاہم پارک گیون ہائی کی پارٹی کے قریب ہونے کی وجہ سے سیاسی حلقے بان کی مون کو اس عہدے کا اہل نہیں سمجھ رہے۔

بان کی مون سابق جنوبی کوریائی صدر کی سیاسی جماعت کے باقاعدہ رن نہیں ہیں۔ تاہم انھیں پارک کی پارٹی کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے۔ پارک گیون کے مواخذے کے ایک اور حامی جے مائی ینگ (Jae-Myung) کا نام بھی آئندہ صدر کے لیے مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے، حال ہی میں پارک گیون کے خلاف ہونے والے لاکھوں افراد پر مشتمل احتجاج مظاہروں میں جے مائی ینگ بھی واضح طور پر آگے آگے دیکھے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سیؤل کے میئر پارک وان سون (Park Won- Soon) اور سافٹ ویئر کمپنی کے مالک این چیول سو (Ahn Cheol Soo) بھی ایوان صدر جانے کے خواہشمندوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

پارک گیون ہائی کا عروج و زوال نہ صرف جنوبی کوریا بل کہ دنیا بھر کے حکم رانوں کے لیے نشان عبرت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقتدار وہی پائے دار اور حاکم وہی عزت دار ہوتا ہے جو ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دے۔ قریبی لوگوں، رشتے داروں اور منظور نظر افسران کو یہ بتا کر قومی خزانے میں حصے دار بنادینا کہ ''اب ہمارا اقتدار کبھی ختم نہیں ہوگا جو جی میں آئے کھاؤ پیو مزے اڑاؤ''، انتہائی غلط، احمقانہ، قابل مذمت اور قابل گرفت پالیسی ہے۔



حکمراں چاہے کسی بھی ملک کے ہوں اگر وہ اپنی قوم ، اپنے عوام اور اپنے ملک سے وفادار نہیں تو اُن کے ایسے اقتدار کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ ظاہری طور پر تخت پر بیٹھے نظر آتے ہیں، لیکن جب وقت کی کتاب کے صفحات الٹے جاتے ہیں تو اُن کا قصہ کہیں نہیں ملتا، قومی خزانے کو اپنی ملکیت سمجھ کر عیش و عشرت کے دروازے کھول دینا، سیاسی اور انتظامی اختیارات سے تجاوز کرنا اور عوام کو نظرانداز کرنا ایسے جرائم ہیں جن کی سزا عدالت نہیں عوام دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ جنوبی کوریا کی خاتون صدر پارک گیون ہائی کے ساتھ ہوا جو اب صدر نہیں رہیں۔
Load Next Story