حیوانیات یہ ہے قدرت کی شان
زمانۂ قدیم کے منجمد جانورجو ہزاروں سال سے برف میں محفوظ ہیں
PESHAWAR:
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری دنیا منجمد برف، پانی اور خشکی پر مشتمل ہے۔ اس خشکی میں ریگستان بھی شامل ہیں اور پانی والے حصے میں ہزاروں سال سے منجمد ٹھوس برف ایسی زمین کی شکل اختیار کرچکی ہے، جس پر لوگ رہتے بستے بھی ہیں۔ یہ ٹھوس برف آج سے نہیں بلکہ ابتدائی برفانی دور سے موجود ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ٹھوس ہوتی چلی جارہی ہے۔
البتہ کرۂ ارض کی حالیہ تبدیلی کے بعد ہمارا یہ سیارہ گرم ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی صدیوں سے منجمد ٹھوس برف بھی اب پگھلنے لگی ہے۔ اس کے نتیجے میں متعدد ایسے جانوروں کی لاشیں یاڈھانچے بھی دریافت ہونے لگے ہیں جو کسی زمانے میں یا ابتدائی برفانی دور میں اس کرۂ ارض پر رہتے اور دندناتے پھرتے تھے۔
حال ہی میں سائبیریا میں منجمد اونی مموتھ یعنی wooly mammooth محفوظ حالت میں دریافت کیے گئے ہیں۔ مموتھ ایک قدیم قسم کا دیوقامت ہاتھی تھا جس کی نسل صدیوں پہلے معدوم ہوچکی تھی۔ لیکن اس قدیم ہاتھی کی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصویریں آج بھی ملتی ہیں۔ ان ہاتھیوں کی منجمد لاشیں یا باقیات ملیں تو ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس دانوں نے ان پر تحقیق کی، ان کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اب ان کے نتائج مرتب کیے جارہے ہیں۔ برفانی دور کے ان جانوروں کی منجمد لاشوں کی نمائش جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہوگی۔اور ہماری دنیا پر نئے نئے انکشافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ان منجمد لاشوں کے بارے میں ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ یہ 39,000 پرانی لاشیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اونی مموتھ کی یہ منجمد لاشیں مردانہ نہیں بل کہ زنانہ ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ اونی مموتھ دلدل میں پھنس گئے تھے جہاں سے زندہ نہ نکل سکے اور وہیں پھنسے پھنسے مرگئے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ان کے خون کے نمونے حاصل کریں گے اور پھر اس کا کلون تیار کریں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے کرۂ ارض پر سائبیریا دنیا کا دور افتادہ اور برفانی خطہ ہے۔ اس خطے میں اکثر و بیشتر زمانۂ قدیم کے ان جانوروں کے منجمد اجسام دریافت ہوتے رہتے ہیں جو بہت پہلے معدوم ہوچکے تھے۔ اصولاً تو ان جانوروں کی باقیات کو ختم ہوجانا چاہیے تھا، مگر جانوروں کے یہ اجسام اس خطے کی نہایت دبیز اور موٹی برفانی چادروں میں اس لیے محفوظ رہ گئے ہیں، کیوں کہ انہیں برف نے گلنے سڑنے سے بچالیا۔
دور قدیم کے جانوروں کی ان لاشوں میں صرف اونی مموتھ ہی شامل نہیں ہیں، بل کہ ان میں ان قدیم ہاتھیوں سے لے کر قدیم گھوڑوں کی جمی ہوئی اور محفوظ لاشیں تک شامل ہیں۔ یہ لاشیں قدرتی طور پر اتنی عمدگی کے ساتھ محفوظ ہوچکی ہیں کہ بعض رپورٹس میں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ ان جانوروں کا گوشت اس حد تک تازہ ہے کہ اسے کھایا بھی جاسکتا ہے اور بعض جانوروں کی باقیات میں مائع خون تک موجود ہے۔ گویا ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پہلے روز کی طرح تروتازہ ہیں۔
اس کے علاوہ ''دی سائبیرین ٹائمز'' نے ایک اور حیران کن انکشاف بھی کیا ہے، وہ یہ کہ جانوروں کی ان منجمد لاشوں میں غاروں میں رہنے والے شیروں کے بچوں کی دو لاشیں ایسی ملی ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے بالکل فریش اور تروتازہ بھی ہیں اور انہیں سائنسی ماہرین نے قابل استعمال بھی قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ شیروں کے بچوں کی یہ منجمد لاشیں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 10'000سال پرانی ہیں، مگر وہ حالیہ موسم گرما کے اوائل میں دریافت ہوئی تھیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ ہماری زمین کا درجۂ حرارت بڑھا اور یہاں گرمی نے اپنا زور دکھایا تو برف پگھلی اور یہ منجمد لاشیں منظر عام پر آگئیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام منجمد لاشیں جمہوریہ سائبیریا کے علاقے Sakha (Yakutia) سے ملی تھیں۔
دنیا کے دیگر مقامات کے علاوہ مذکورہ مقام برفانی دور کے جانوروں کی باقیات ملنے کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی مشہور رہا ہے اور وہاں ایسی ہی بے شمار دریافتیں بھی کی گئی ہیں جو دنیا والوں کے لیے حیران کن ہیں۔ ماضی قدیم کے یہ جانور Pleistocene دور یعنی ابتدائی برفانی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بار بار برفانی دور کی گرفت میں جاتی رہی۔ اس زمانے میں اس کرۂ ارض پر گلیشیئرز وسیع ہوتے رہے اور کبھی آگے بڑھتے رہے اور کبھی پیچھے ہٹتے رہے۔ اس خطے میں غاروں میں رہنے والے شیروں کے ڈھانچے، ان کی کھوپڑیاں، ان کے دانت اور ہڈیوں کے ریزے مسلسل دریافت ہوتے رہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جانور اپنے دور میں ایسے ہی غاروں میں قیام کرتے تھے۔
عہدقدیم کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ یوریشین یعنی یورپ و ایشیا کے غاروں والے شیروں کے بچے ہیں اور اس نسل کو ماہرین حیاتیاتPanthera spelaea کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ شیروں کی وہ دیوقامت اقسام ہیں جن سے بڑی اقسام کرۂ ارض پر دوسری موجود نہیں تھیں۔ یہ اتنا لحیم شحیم جانور تھا جس کی اونچائی کندھے تک1.2میٹر یعنی 3.9فٹ تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دیوقامت شیر غاروں سے نکل کر نیچے چراگاہوں اور گھاس کے میدانوں میں گئے ہوں گے اور ان کے ساتھ دوسرے جانور مثلاً رینڈیئر، گھوڑے اور ممکنہ طور پر نوجوان مموتھ یا قدیم ہاتھی نے بھی ان میدانوں کا رخ کیا ہوگا جہاں یہ سب جانور مل جل کر اس خوب صورت مقام پر رہتے ہوں گے۔
لیکن یہ جانور یہاں سے یکایک کہاں غائب ہوگئے، اس سوال کا جواب ابھی تک غیریقینی ہے، کوئی بھی ماہر اس ضمن میں اپنی جانب سے یقینی رائے نہیں دے سکا۔ لیکن بعض ماہرین اس رائے پر متفق ہیں کہ چوں کہ ان کا شکار کرنے والے یا ان کی تاک میں رہنے والے دوسرے جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہوں گے جس کی وجہ آب و ہوا کی یکایک تبدیلی بھی ہوسکتی ہے اور انسان کی جانب سے ان کا بے دردی سے شکار بھی ہوسکتا ہے، چناں چہ یورپ کے شمالی سرد مقام سے ان کا وجود ہی مٹ گیا ہوگا۔
ہم بات کررہے تھے غاروں میں رہنے والے شیروں کے بچوں کی منجمد لاشوں کی، اس وقت انہی پر ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور ان کے بارے میں ریسرچ کرتے رہے۔اس حوالے سے مقامی دریافتوں اور ٹھوس برف میں کی جانے والی کھدائی کے نتائج اور مفروضے بھی ماہرین کے مطالعے کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔
ماہرین ماضی بعید کے مموتھ یا قدیم ہاتھیوں، اونی گینڈوں اور قدیم جنگلی بھینسوں کے حوالے سے اپنی حتمی آراء بھی پیش کردیں گے۔ چوں کہ ماہرین اس بات کے لیے فکرمند ہیں کہ کہیں دور قدیم کے ان جانوروں کی باقیات سے ملنے والے نمونے مضر رساں نہ ہوں، اس لیے وہ انہیں شروع میں سب کی ایک ساتھ نمائش نہیں کریں گے، بلکہ پہلے یہ دیکھیں گے کہ آیا ان میں خاص قسم کے مہلک اور مضر انفیکشن تو نہیں ہیں جیسے مہلک انتھراکس اور دیگر جرثومے، اس کے بعد ہی انہیں منظر عام پر لایا جائے گا۔ اس وقت تک تمام دریافتوں، نتائج اور ریسرچ کی کڑی نگرانی کی جاتی رہے گی۔
کچھ دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کرۂ ارض پر 370,000 سے لے کر 10,000 سال پہلے تک پورے روس اور یورپ میں غاروں والے یورپی شیر دندناتے پھرتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیو قامت اور لحیم و شحیم شیر انسان کے ساتھ رہتے تھے۔ گویا انسان اور یہ شیر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جیسے آج کے دور میں کُتے بلیاں اور انسان رہتے ہیں۔
ان کے وجود کا پتا غاروں سے ملنے والی پینٹنگز سے بھی ملتا ہے۔ فرانس کے کچھ غاروں سے لگ بھگ 17000سال پرانی پینٹنگز ملی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یورپ کا غار میں رہنے والا شیر امریکا کے غاروں میں رہنے والے شیروں سے قریبی اور گہرا تعلق رکھتا ہے جو بعد میں معدوم ہوگیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ سائبیریا کے غاروں والے شیروں کے یہ منجمد بچے آگے چل کر ہمیں اس قدیم جانور کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین نے کچھ درج ذیل چیزیں جمع کی ہیں:
Lyuba دور قدیم کے اونی مموتھ یا قدیم ہاتھی کا بچھڑا ہے جو 41,800 سال پرانا ہے۔ یہ بچھڑا روس میں اس حنوط شدہ حالت میں 2007ء میں ملا تھا۔ یہ اتنی اچھی حالت میں تھا کہ سائنس دانوں نے اس پر ریسرچ کرکے یہ معلوم کرلیا کہ اس کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی اور دھول مٹی نے اس کا دم گھونٹ دیا تھا۔Lyuba کی ماں کا دودھ بھی اس کی انہضامی نالی میں خالص حالت میں موجود تھا اور وہ ابھی تک جراثیم سے پاک تھا۔ جب ماہرین نے اسکی آنتوں میں موجود سبزیوں کا مطالعہ کیا تو انہوں نے اس ماحول کو سمجھ لیا ۔
پرمافروسٹ یا ٹھوس برف میں قدرتی طور پر محفوظ ہوجانے والے یہ تمام جانور بیش قیمت ہیں، ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ جانور کس طرح رہتے تھے اور یہ دنیا سے کیوں اور کیسے مٹ گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یورپ کے غاروں والے یہ شیر کیسے معدوم ہوگئے اور نہ یہ پتا چل پارہا ہے کہ کیا ان کے مٹنے کا سبب انسان تھے یا کسی اور بلا نے انہیں مٹادیا۔ یہ تو پتا چل چکا ہے کہ اس دور میں غاروں والے شیر اور انسان ساتھ ساتھ رہتے تھے، ویسے ماہرین کا خیال ہے کہ کبھی کبھار انسان ان شیروں کو اپنی خوراک بنالیتے ہوں گے۔ لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ اگر ان غاروں والے شیروں پر تفصیلی مطالعہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ جانور کونسی غذا استعمال کرتے تھے اور یہ کہ وہ برفانی دور کے اواخر میں دنیا سے کیسے مٹ گئے۔
٭کچھ شواہد: جرمنی میں ایک شکاری کو برف کی ایک سل میں ایک منجمد لومڑی ملی ہے جو بالکل محفوظ ہے۔ خیال ہے کہ یہ لومڑی دریائے ڈینیوب میں گرگئی ہوگی ۔ یہ واقعہ ایک Franz Stehle نامی شکاری کے ساتھ 2 جنوری کو پیش آیا تھا۔ اس نے لومڑی کو برف کی سل سے باہر نکالا جس کی بعد میں نمائش بھی کی گئی۔ Franz Stehle کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا کہ میں نے ایک منجمد لومڑی کو اس کے برفانی قید خانے سے نجات دلائی۔ اس کے علاوہ میں پہلے بھی دریائے ڈینیوب سے ایک منجمد ہرن اور ایک منجمد ریچھ نکال چکا ہوں۔
اس کا کہنا تھا کہ منجمد لومڑی کی دریافت یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے نومبر کے مہینے میں دو منجمد ہرن الاسکا کی ایک جھیل سے نکالے جاچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لومڑی عام طور سے برف میں ضرور پھنستی ہے۔ اس سے پہلے 2012میں ناروے کی ایک جھیل میں ایک لومڑی اور پھر 2014میں سوئیڈن کی ایک منجمد جھیل سے بھی ایک لومڑی مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ ناروے میں Lovund کے شمالی جزیرے کے قریب ایک بڑی منجمد مچھلی بھی ملی تھی جسے گزرے وقتوں نے اہل دنیا کے لیے بہ طور مثال محفوظ کردیا تھا۔ موسم سرما کے اوائل میں ناروے کی جھیل میں ایک سالم اور منجمد بارہ سنگھا بھی ملا تھا جو آدھا برف میں دبا ہوا تھا اور آدھا برف سے باہر نکلا ہوا تھا۔
ہماری دنیا اتنی بڑی اور وسیع و عریض ہے کہ ہم اس کے بارے میں ابھی تک سب کچھ نہیں جان سکے ہیں اور نہ ہی اس کے چپے چپے پر قدم رکھنے میں کام یاب ہوئے ہیں، ہمارے کرۂ ارض کی بڑی شان ہے کہ اس کا ہر چپہ ایک الگ اور منفرد خصوصیت کا مالک ہے۔ کہیں جانور مرنے کے بعد فوری طور پر گل سڑ جاتے ہیں تو کہیں یہ انسانی نظروں سے دور ہزاروں برس تک محفوظ پڑے رہتے ہیں۔ آج بھی اس دنیا میں ایسے بے شمار مقامات ہوں گے جہاں تک انسانی قدم نہ پہنچے ہوں اور آج بھی ان مقامات پر نہ جانے کتنے ہی جانور نہ جانے کتنی کیفیات میں پڑے ہوں گے۔ کاش! ہم ان تک پہنچ سکیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرکے اہل دنیا کو بتاسکیں کہ یہ ہے قدرت کی شان!
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری دنیا منجمد برف، پانی اور خشکی پر مشتمل ہے۔ اس خشکی میں ریگستان بھی شامل ہیں اور پانی والے حصے میں ہزاروں سال سے منجمد ٹھوس برف ایسی زمین کی شکل اختیار کرچکی ہے، جس پر لوگ رہتے بستے بھی ہیں۔ یہ ٹھوس برف آج سے نہیں بلکہ ابتدائی برفانی دور سے موجود ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ٹھوس ہوتی چلی جارہی ہے۔
البتہ کرۂ ارض کی حالیہ تبدیلی کے بعد ہمارا یہ سیارہ گرم ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی صدیوں سے منجمد ٹھوس برف بھی اب پگھلنے لگی ہے۔ اس کے نتیجے میں متعدد ایسے جانوروں کی لاشیں یاڈھانچے بھی دریافت ہونے لگے ہیں جو کسی زمانے میں یا ابتدائی برفانی دور میں اس کرۂ ارض پر رہتے اور دندناتے پھرتے تھے۔
حال ہی میں سائبیریا میں منجمد اونی مموتھ یعنی wooly mammooth محفوظ حالت میں دریافت کیے گئے ہیں۔ مموتھ ایک قدیم قسم کا دیوقامت ہاتھی تھا جس کی نسل صدیوں پہلے معدوم ہوچکی تھی۔ لیکن اس قدیم ہاتھی کی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصویریں آج بھی ملتی ہیں۔ ان ہاتھیوں کی منجمد لاشیں یا باقیات ملیں تو ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس دانوں نے ان پر تحقیق کی، ان کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اب ان کے نتائج مرتب کیے جارہے ہیں۔ برفانی دور کے ان جانوروں کی منجمد لاشوں کی نمائش جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہوگی۔اور ہماری دنیا پر نئے نئے انکشافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ان منجمد لاشوں کے بارے میں ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ یہ 39,000 پرانی لاشیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اونی مموتھ کی یہ منجمد لاشیں مردانہ نہیں بل کہ زنانہ ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ اونی مموتھ دلدل میں پھنس گئے تھے جہاں سے زندہ نہ نکل سکے اور وہیں پھنسے پھنسے مرگئے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ان کے خون کے نمونے حاصل کریں گے اور پھر اس کا کلون تیار کریں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے کرۂ ارض پر سائبیریا دنیا کا دور افتادہ اور برفانی خطہ ہے۔ اس خطے میں اکثر و بیشتر زمانۂ قدیم کے ان جانوروں کے منجمد اجسام دریافت ہوتے رہتے ہیں جو بہت پہلے معدوم ہوچکے تھے۔ اصولاً تو ان جانوروں کی باقیات کو ختم ہوجانا چاہیے تھا، مگر جانوروں کے یہ اجسام اس خطے کی نہایت دبیز اور موٹی برفانی چادروں میں اس لیے محفوظ رہ گئے ہیں، کیوں کہ انہیں برف نے گلنے سڑنے سے بچالیا۔
دور قدیم کے جانوروں کی ان لاشوں میں صرف اونی مموتھ ہی شامل نہیں ہیں، بل کہ ان میں ان قدیم ہاتھیوں سے لے کر قدیم گھوڑوں کی جمی ہوئی اور محفوظ لاشیں تک شامل ہیں۔ یہ لاشیں قدرتی طور پر اتنی عمدگی کے ساتھ محفوظ ہوچکی ہیں کہ بعض رپورٹس میں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ ان جانوروں کا گوشت اس حد تک تازہ ہے کہ اسے کھایا بھی جاسکتا ہے اور بعض جانوروں کی باقیات میں مائع خون تک موجود ہے۔ گویا ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پہلے روز کی طرح تروتازہ ہیں۔
اس کے علاوہ ''دی سائبیرین ٹائمز'' نے ایک اور حیران کن انکشاف بھی کیا ہے، وہ یہ کہ جانوروں کی ان منجمد لاشوں میں غاروں میں رہنے والے شیروں کے بچوں کی دو لاشیں ایسی ملی ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے بالکل فریش اور تروتازہ بھی ہیں اور انہیں سائنسی ماہرین نے قابل استعمال بھی قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ شیروں کے بچوں کی یہ منجمد لاشیں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 10'000سال پرانی ہیں، مگر وہ حالیہ موسم گرما کے اوائل میں دریافت ہوئی تھیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ ہماری زمین کا درجۂ حرارت بڑھا اور یہاں گرمی نے اپنا زور دکھایا تو برف پگھلی اور یہ منجمد لاشیں منظر عام پر آگئیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام منجمد لاشیں جمہوریہ سائبیریا کے علاقے Sakha (Yakutia) سے ملی تھیں۔
دنیا کے دیگر مقامات کے علاوہ مذکورہ مقام برفانی دور کے جانوروں کی باقیات ملنے کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی مشہور رہا ہے اور وہاں ایسی ہی بے شمار دریافتیں بھی کی گئی ہیں جو دنیا والوں کے لیے حیران کن ہیں۔ ماضی قدیم کے یہ جانور Pleistocene دور یعنی ابتدائی برفانی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بار بار برفانی دور کی گرفت میں جاتی رہی۔ اس زمانے میں اس کرۂ ارض پر گلیشیئرز وسیع ہوتے رہے اور کبھی آگے بڑھتے رہے اور کبھی پیچھے ہٹتے رہے۔ اس خطے میں غاروں میں رہنے والے شیروں کے ڈھانچے، ان کی کھوپڑیاں، ان کے دانت اور ہڈیوں کے ریزے مسلسل دریافت ہوتے رہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جانور اپنے دور میں ایسے ہی غاروں میں قیام کرتے تھے۔
عہدقدیم کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ یوریشین یعنی یورپ و ایشیا کے غاروں والے شیروں کے بچے ہیں اور اس نسل کو ماہرین حیاتیاتPanthera spelaea کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ شیروں کی وہ دیوقامت اقسام ہیں جن سے بڑی اقسام کرۂ ارض پر دوسری موجود نہیں تھیں۔ یہ اتنا لحیم شحیم جانور تھا جس کی اونچائی کندھے تک1.2میٹر یعنی 3.9فٹ تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دیوقامت شیر غاروں سے نکل کر نیچے چراگاہوں اور گھاس کے میدانوں میں گئے ہوں گے اور ان کے ساتھ دوسرے جانور مثلاً رینڈیئر، گھوڑے اور ممکنہ طور پر نوجوان مموتھ یا قدیم ہاتھی نے بھی ان میدانوں کا رخ کیا ہوگا جہاں یہ سب جانور مل جل کر اس خوب صورت مقام پر رہتے ہوں گے۔
لیکن یہ جانور یہاں سے یکایک کہاں غائب ہوگئے، اس سوال کا جواب ابھی تک غیریقینی ہے، کوئی بھی ماہر اس ضمن میں اپنی جانب سے یقینی رائے نہیں دے سکا۔ لیکن بعض ماہرین اس رائے پر متفق ہیں کہ چوں کہ ان کا شکار کرنے والے یا ان کی تاک میں رہنے والے دوسرے جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہوں گے جس کی وجہ آب و ہوا کی یکایک تبدیلی بھی ہوسکتی ہے اور انسان کی جانب سے ان کا بے دردی سے شکار بھی ہوسکتا ہے، چناں چہ یورپ کے شمالی سرد مقام سے ان کا وجود ہی مٹ گیا ہوگا۔
ہم بات کررہے تھے غاروں میں رہنے والے شیروں کے بچوں کی منجمد لاشوں کی، اس وقت انہی پر ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور ان کے بارے میں ریسرچ کرتے رہے۔اس حوالے سے مقامی دریافتوں اور ٹھوس برف میں کی جانے والی کھدائی کے نتائج اور مفروضے بھی ماہرین کے مطالعے کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔
ماہرین ماضی بعید کے مموتھ یا قدیم ہاتھیوں، اونی گینڈوں اور قدیم جنگلی بھینسوں کے حوالے سے اپنی حتمی آراء بھی پیش کردیں گے۔ چوں کہ ماہرین اس بات کے لیے فکرمند ہیں کہ کہیں دور قدیم کے ان جانوروں کی باقیات سے ملنے والے نمونے مضر رساں نہ ہوں، اس لیے وہ انہیں شروع میں سب کی ایک ساتھ نمائش نہیں کریں گے، بلکہ پہلے یہ دیکھیں گے کہ آیا ان میں خاص قسم کے مہلک اور مضر انفیکشن تو نہیں ہیں جیسے مہلک انتھراکس اور دیگر جرثومے، اس کے بعد ہی انہیں منظر عام پر لایا جائے گا۔ اس وقت تک تمام دریافتوں، نتائج اور ریسرچ کی کڑی نگرانی کی جاتی رہے گی۔
کچھ دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کرۂ ارض پر 370,000 سے لے کر 10,000 سال پہلے تک پورے روس اور یورپ میں غاروں والے یورپی شیر دندناتے پھرتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیو قامت اور لحیم و شحیم شیر انسان کے ساتھ رہتے تھے۔ گویا انسان اور یہ شیر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جیسے آج کے دور میں کُتے بلیاں اور انسان رہتے ہیں۔
ان کے وجود کا پتا غاروں سے ملنے والی پینٹنگز سے بھی ملتا ہے۔ فرانس کے کچھ غاروں سے لگ بھگ 17000سال پرانی پینٹنگز ملی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یورپ کا غار میں رہنے والا شیر امریکا کے غاروں میں رہنے والے شیروں سے قریبی اور گہرا تعلق رکھتا ہے جو بعد میں معدوم ہوگیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ سائبیریا کے غاروں والے شیروں کے یہ منجمد بچے آگے چل کر ہمیں اس قدیم جانور کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین نے کچھ درج ذیل چیزیں جمع کی ہیں:
Lyuba دور قدیم کے اونی مموتھ یا قدیم ہاتھی کا بچھڑا ہے جو 41,800 سال پرانا ہے۔ یہ بچھڑا روس میں اس حنوط شدہ حالت میں 2007ء میں ملا تھا۔ یہ اتنی اچھی حالت میں تھا کہ سائنس دانوں نے اس پر ریسرچ کرکے یہ معلوم کرلیا کہ اس کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی اور دھول مٹی نے اس کا دم گھونٹ دیا تھا۔Lyuba کی ماں کا دودھ بھی اس کی انہضامی نالی میں خالص حالت میں موجود تھا اور وہ ابھی تک جراثیم سے پاک تھا۔ جب ماہرین نے اسکی آنتوں میں موجود سبزیوں کا مطالعہ کیا تو انہوں نے اس ماحول کو سمجھ لیا ۔
پرمافروسٹ یا ٹھوس برف میں قدرتی طور پر محفوظ ہوجانے والے یہ تمام جانور بیش قیمت ہیں، ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ جانور کس طرح رہتے تھے اور یہ دنیا سے کیوں اور کیسے مٹ گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یورپ کے غاروں والے یہ شیر کیسے معدوم ہوگئے اور نہ یہ پتا چل پارہا ہے کہ کیا ان کے مٹنے کا سبب انسان تھے یا کسی اور بلا نے انہیں مٹادیا۔ یہ تو پتا چل چکا ہے کہ اس دور میں غاروں والے شیر اور انسان ساتھ ساتھ رہتے تھے، ویسے ماہرین کا خیال ہے کہ کبھی کبھار انسان ان شیروں کو اپنی خوراک بنالیتے ہوں گے۔ لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ اگر ان غاروں والے شیروں پر تفصیلی مطالعہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ جانور کونسی غذا استعمال کرتے تھے اور یہ کہ وہ برفانی دور کے اواخر میں دنیا سے کیسے مٹ گئے۔
٭کچھ شواہد: جرمنی میں ایک شکاری کو برف کی ایک سل میں ایک منجمد لومڑی ملی ہے جو بالکل محفوظ ہے۔ خیال ہے کہ یہ لومڑی دریائے ڈینیوب میں گرگئی ہوگی ۔ یہ واقعہ ایک Franz Stehle نامی شکاری کے ساتھ 2 جنوری کو پیش آیا تھا۔ اس نے لومڑی کو برف کی سل سے باہر نکالا جس کی بعد میں نمائش بھی کی گئی۔ Franz Stehle کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا کہ میں نے ایک منجمد لومڑی کو اس کے برفانی قید خانے سے نجات دلائی۔ اس کے علاوہ میں پہلے بھی دریائے ڈینیوب سے ایک منجمد ہرن اور ایک منجمد ریچھ نکال چکا ہوں۔
اس کا کہنا تھا کہ منجمد لومڑی کی دریافت یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے نومبر کے مہینے میں دو منجمد ہرن الاسکا کی ایک جھیل سے نکالے جاچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لومڑی عام طور سے برف میں ضرور پھنستی ہے۔ اس سے پہلے 2012میں ناروے کی ایک جھیل میں ایک لومڑی اور پھر 2014میں سوئیڈن کی ایک منجمد جھیل سے بھی ایک لومڑی مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ ناروے میں Lovund کے شمالی جزیرے کے قریب ایک بڑی منجمد مچھلی بھی ملی تھی جسے گزرے وقتوں نے اہل دنیا کے لیے بہ طور مثال محفوظ کردیا تھا۔ موسم سرما کے اوائل میں ناروے کی جھیل میں ایک سالم اور منجمد بارہ سنگھا بھی ملا تھا جو آدھا برف میں دبا ہوا تھا اور آدھا برف سے باہر نکلا ہوا تھا۔
ہماری دنیا اتنی بڑی اور وسیع و عریض ہے کہ ہم اس کے بارے میں ابھی تک سب کچھ نہیں جان سکے ہیں اور نہ ہی اس کے چپے چپے پر قدم رکھنے میں کام یاب ہوئے ہیں، ہمارے کرۂ ارض کی بڑی شان ہے کہ اس کا ہر چپہ ایک الگ اور منفرد خصوصیت کا مالک ہے۔ کہیں جانور مرنے کے بعد فوری طور پر گل سڑ جاتے ہیں تو کہیں یہ انسانی نظروں سے دور ہزاروں برس تک محفوظ پڑے رہتے ہیں۔ آج بھی اس دنیا میں ایسے بے شمار مقامات ہوں گے جہاں تک انسانی قدم نہ پہنچے ہوں اور آج بھی ان مقامات پر نہ جانے کتنے ہی جانور نہ جانے کتنی کیفیات میں پڑے ہوں گے۔ کاش! ہم ان تک پہنچ سکیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرکے اہل دنیا کو بتاسکیں کہ یہ ہے قدرت کی شان!