گوادر کو کراچی نہ بننے دیں
ہمیں گوادر کو کراچی جیسی اہم بندرگاہ بنانا ہے اور کراچی جیسا تباہ حال شہر بننے سے بچانا ہے
KARACHI:
ہمیں گوادر کو کراچی جیسی اہم بندرگاہ بنانا ہے اور کراچی جیسا تباہ حال شہر بننے سے بچانا ہے۔ ہم گوادر کی جیو پولیٹیکل اسٹریٹجک اہمیت، پاکستان کی معیشت کے لیے اس کے فوائد وغیرہ کے بارے میں بے دریغ اپنی خداداد دانشوری بگھارتے رہتے ہیں ویسے بھی اندھا دھند خالی خولی باتیں بنانے کے ارزاں فن میں ہماری ہمسری کرنا اس دنیائے بے ثبات کے چند طے شدہ ناممکنات میں سے ہے۔
چنانچہ مجال ہے کہ گوادر کے موضوع پہ اپنی گونا ناگوں لن ترانیوں کا پھٹا ڈھول پیٹتے ہوئے جو کبھی ہم سے بنیادی اہمیت والے معاملات پہ گوہر افشانی سرزد ہو بیٹھے۔ حالانکہ یہی تو وہ وقت ہے کہ جب ہم بالکل شروع سے گوادر کی پلاننگ شروع کریں۔
بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ شہروں کو بنانے اور چلانے کے معاملے میں ہم اپنی قدرتی نا اہلی کے حوالے سے چہار سو ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں کہ ایک طرف ہماری بلند آہنگ گفتارکی شہسوار دیہی سندھ کی نمایندہ صوبائی حکومت نے غنیم کی پناہ گاہ جان کر کراچی کو کوڑاچی و کھنڈراچی بنا ڈالنے کا جمہوری انتقام لے ڈالا، تو دوسری جانب وفاق میں یکے بعد دیگرے براجمان ہونے والی انواع و اقسام کی حکومتوں نے اسلام آباد جیسے کبھی منظم شہرکو بھی کچی آبادیوں، افغان بستیوں اور لاری اڈوں سے شہ بالا بنا ڈالا۔
تو جناب پھر گوادر کو شروع سے ہی ایک مکمل منصوبہ بند شدہ شہر بنانے کی دہائی دینا تو گویا حسن بلا میں مخمور بھینس کے آگے بے وقت کی بے وقعت بین بجانا ہی ٹھہرانا۔ مگر چلیے کہ دل ناداں و نالاں کو بہلانے کو ہی سہی ہم اپنی سی صدا لگا چلتے ہیں۔ باقی جو زمانے کا چلن چلے۔
سب سے زیادہ اہمیت گوادر کے لوگوں کو دی جائے۔ جہاں یہاں کے لوگوں کو کارخانوں میں مشینیں چلانے کی تربیت دی جائے وہیں یہاں کے پڑھائی میں اچھے طالب علموں کو اسکالر شپ پہ کارخانے چلانے کی بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم بھی دلوائی جائے۔ گوادر شہر میں آنے والوں کا ہمیشہ مکمل ریکارڈ رکھا جائے اس سلسلے میں شہر کے تمام داخل ہونے کے مقامات پہ نادرا کا ایک خصوصی نظام کام کرے۔ ورنہ گوادر بھی کراچی کی طرح افغانیوں اور دوسرے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں، جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن جائے گا۔
اس کے علاوہ شہر میں کام کے لیے آنے والے لوگوں کو مخصوص معینہ مدت کے لیے ورک پرمٹ جاری کیے جائیں اور اس میں بھی پہلی ترجیح مکران اور پھر بقیہ بلوچستان اور پھر ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کو دی جائے تا کہ (الف) گوا در کی معیشت میں جتنی افرادی قوت کی کھپت کی گنجائش ہو اتنے ہی لوگ کام کے لیے گوادر آ سکیں ورنہ بیروزگاری اور جرائم کو فروغ حاصل ہو گا) مقامی آبادی میں احساس محرومی پیدا ہونے کے امکانات کا سدباب ہو سکے گا۔
گوادر شہر کی تمام پلاننگ میں کھیل کے میدانوں، اسپورٹس کمپلیکس اور پارکس کے لیے جگہیں مخصوص ہونا لازمی ہیں تا کہ شہر کے بچوں، نوجوانوں اور فیمیلز کے ساتھ ساتھ گوادر میں کام کرنے والے غیر ملکیوں مثلاً چینی باشندے بھی گھٹن کا شکار ہونے سے بچیں اور ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔ شروع سے گوادر شہر میں کچی آبادیاں قائم ہونی نہ دی جائیں۔ گوادر شہر میں کام کرنے والوں کے لیے مختلف معیار کے بلند بلڈنگز والے فلیٹس تعمیر کیے جائیں جن میں وہ کرائے یا ماہانہ قسطوں کے عوض رہیں۔
بجائے کچی آبادیوں کے۔ چینی کمپنیوں نے چین بھر میں اس طرح کے وسیع رہائشی کمپلیکس تعمیر کیے ہیں اور وہ بھی کم قیمت پر۔ چنانچہ ان چینی کمپنیوں سے گوادر میں بھی ایسی تعمیرات کروائی جا سکتی ہیں۔ گوادر میں غیر مقامی مچھیروں اور فشنگ ٹرالرز پر پابندیاں رکھی جائیں تا کہ مقامی آبادی متاثر نہ ہو۔ گوادر کو دنیا کے جدید شہروں کی طرح زیادہ سے زیادہ عمودی یعنی ورٹیکل طرز پر تعمیر کیا جائے بجائے افقی یعنی ہاریزینٹل کے، تا کہ شہر حد سے زیادہ نہ پھیلے۔
مزید یہ کہ گوادر شہر کو مستقبل میں لا متناہی چاروں طرف پھیلانے کے بجائے کچھ فاصلوں پر سیٹلائٹ ٹاؤنز قائم کیے جائیں۔ ساتھ ہی آس پاس کے دوسرے شہروں کو بھی ترقی دی جائے تا کہ آبادی کا دباؤ تقسیم ہو جائے اور گوادر حد سے زیادہ پھیل کر کراچی کی طرح ناقابل انتظام نہ ہو جائے۔
گوادر شہر میں سیوریج کا جدید ترین نظام قائم کیا جائے جس میں ایک طرف تو شہری سیوریج نظام میں صنعتیں مکمل ٹریٹمنٹ کے بغیر اپنا فضلہ نہیں شامل کرسکیں دوسری طرف شہری فضلہ بھی مکمل ٹریٹمنٹ کے بغیر گوادر کے سمندر میں نہ جائے اس سلسلے میں شہری فضلے سے توانائی پیدا کرنے والے جدید ترین WTE یعنی Waste To Energy پلانٹس ضرور لگائے جائیں تاکہ شہر کا فضلہ اور کوڑا شہر کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچائے۔ گوادر شہر میں پلاسٹک یعنی پولی تھن کی تھیلیوں کے روز مرہ استعمال پر پابندی لگائی جائے جس سے ایک طرف تو شہر میں کوڑا کم سے کم ہوگا دوسرے قدرتی ماحول بھی محفوظ ہوگا۔
گوادر اور آس پاس کا تمام علاقہ شمسی توانائی کے لیے آئیڈیل ہے۔ ویسے بھی وقت گزرنے کے ساتھ سولر انرجی کی لاگت اور قیمتوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے چنانچہ اس علاقے میں سولر انرجی پلانٹس کو خصوصی پیکیج دیے جائیں اور ساتھ ہی گوادر بندرگاہ کے ایک حصے کو سولر انرجی کے تجارتی حب کے طور پر بھی ڈیویلپ کیا جائے۔
گوادر شہر میں بجلی کے تار جنھیں ہمارے لاہوری دانشور ضد میں ''تاریں'' کہتے اور لکھتے ہیں زیر زمیں بچھائے جائیں تاکہ بجلی چوری سے بچا جاسکے۔ شہر میں سبزہ کاری کی جائے جس میں دو باتوں کا خاص خیال رکھاجائے کہ ایک تو تمام پودے مقامی یعنی Indigenous ہوں دوسرے کم پانی استعمال کرنے والے ہوں۔ سمندری پانی کو میٹھا کرنے والے پلانٹس کا قیام ضروری ہوگا۔ اس کے علاوہ بارشوں کے سیلابی پانی کو محفوظ کرنے والے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بھی گوادر شہر میں ابھی سے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع ہوجانا چاہیے۔
چلیے کراچی پر تو فرزندان بے زمیں و بے اماں کا شہر ہونے کی تہمت تھی کہ یہ شہر شہر ناپرساں ٹھہرا مگر گوادر کا تو معاملہ کچھ اور ہے اس کو تو کم از کم کراچی کے سے انجام سے بچا لیجیے اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔
ہمیں گوادر کو کراچی جیسی اہم بندرگاہ بنانا ہے اور کراچی جیسا تباہ حال شہر بننے سے بچانا ہے۔ ہم گوادر کی جیو پولیٹیکل اسٹریٹجک اہمیت، پاکستان کی معیشت کے لیے اس کے فوائد وغیرہ کے بارے میں بے دریغ اپنی خداداد دانشوری بگھارتے رہتے ہیں ویسے بھی اندھا دھند خالی خولی باتیں بنانے کے ارزاں فن میں ہماری ہمسری کرنا اس دنیائے بے ثبات کے چند طے شدہ ناممکنات میں سے ہے۔
چنانچہ مجال ہے کہ گوادر کے موضوع پہ اپنی گونا ناگوں لن ترانیوں کا پھٹا ڈھول پیٹتے ہوئے جو کبھی ہم سے بنیادی اہمیت والے معاملات پہ گوہر افشانی سرزد ہو بیٹھے۔ حالانکہ یہی تو وہ وقت ہے کہ جب ہم بالکل شروع سے گوادر کی پلاننگ شروع کریں۔
بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ شہروں کو بنانے اور چلانے کے معاملے میں ہم اپنی قدرتی نا اہلی کے حوالے سے چہار سو ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں کہ ایک طرف ہماری بلند آہنگ گفتارکی شہسوار دیہی سندھ کی نمایندہ صوبائی حکومت نے غنیم کی پناہ گاہ جان کر کراچی کو کوڑاچی و کھنڈراچی بنا ڈالنے کا جمہوری انتقام لے ڈالا، تو دوسری جانب وفاق میں یکے بعد دیگرے براجمان ہونے والی انواع و اقسام کی حکومتوں نے اسلام آباد جیسے کبھی منظم شہرکو بھی کچی آبادیوں، افغان بستیوں اور لاری اڈوں سے شہ بالا بنا ڈالا۔
تو جناب پھر گوادر کو شروع سے ہی ایک مکمل منصوبہ بند شدہ شہر بنانے کی دہائی دینا تو گویا حسن بلا میں مخمور بھینس کے آگے بے وقت کی بے وقعت بین بجانا ہی ٹھہرانا۔ مگر چلیے کہ دل ناداں و نالاں کو بہلانے کو ہی سہی ہم اپنی سی صدا لگا چلتے ہیں۔ باقی جو زمانے کا چلن چلے۔
سب سے زیادہ اہمیت گوادر کے لوگوں کو دی جائے۔ جہاں یہاں کے لوگوں کو کارخانوں میں مشینیں چلانے کی تربیت دی جائے وہیں یہاں کے پڑھائی میں اچھے طالب علموں کو اسکالر شپ پہ کارخانے چلانے کی بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم بھی دلوائی جائے۔ گوادر شہر میں آنے والوں کا ہمیشہ مکمل ریکارڈ رکھا جائے اس سلسلے میں شہر کے تمام داخل ہونے کے مقامات پہ نادرا کا ایک خصوصی نظام کام کرے۔ ورنہ گوادر بھی کراچی کی طرح افغانیوں اور دوسرے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں، جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن جائے گا۔
اس کے علاوہ شہر میں کام کے لیے آنے والے لوگوں کو مخصوص معینہ مدت کے لیے ورک پرمٹ جاری کیے جائیں اور اس میں بھی پہلی ترجیح مکران اور پھر بقیہ بلوچستان اور پھر ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کو دی جائے تا کہ (الف) گوا در کی معیشت میں جتنی افرادی قوت کی کھپت کی گنجائش ہو اتنے ہی لوگ کام کے لیے گوادر آ سکیں ورنہ بیروزگاری اور جرائم کو فروغ حاصل ہو گا) مقامی آبادی میں احساس محرومی پیدا ہونے کے امکانات کا سدباب ہو سکے گا۔
گوادر شہر کی تمام پلاننگ میں کھیل کے میدانوں، اسپورٹس کمپلیکس اور پارکس کے لیے جگہیں مخصوص ہونا لازمی ہیں تا کہ شہر کے بچوں، نوجوانوں اور فیمیلز کے ساتھ ساتھ گوادر میں کام کرنے والے غیر ملکیوں مثلاً چینی باشندے بھی گھٹن کا شکار ہونے سے بچیں اور ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔ شروع سے گوادر شہر میں کچی آبادیاں قائم ہونی نہ دی جائیں۔ گوادر شہر میں کام کرنے والوں کے لیے مختلف معیار کے بلند بلڈنگز والے فلیٹس تعمیر کیے جائیں جن میں وہ کرائے یا ماہانہ قسطوں کے عوض رہیں۔
بجائے کچی آبادیوں کے۔ چینی کمپنیوں نے چین بھر میں اس طرح کے وسیع رہائشی کمپلیکس تعمیر کیے ہیں اور وہ بھی کم قیمت پر۔ چنانچہ ان چینی کمپنیوں سے گوادر میں بھی ایسی تعمیرات کروائی جا سکتی ہیں۔ گوادر میں غیر مقامی مچھیروں اور فشنگ ٹرالرز پر پابندیاں رکھی جائیں تا کہ مقامی آبادی متاثر نہ ہو۔ گوادر کو دنیا کے جدید شہروں کی طرح زیادہ سے زیادہ عمودی یعنی ورٹیکل طرز پر تعمیر کیا جائے بجائے افقی یعنی ہاریزینٹل کے، تا کہ شہر حد سے زیادہ نہ پھیلے۔
مزید یہ کہ گوادر شہر کو مستقبل میں لا متناہی چاروں طرف پھیلانے کے بجائے کچھ فاصلوں پر سیٹلائٹ ٹاؤنز قائم کیے جائیں۔ ساتھ ہی آس پاس کے دوسرے شہروں کو بھی ترقی دی جائے تا کہ آبادی کا دباؤ تقسیم ہو جائے اور گوادر حد سے زیادہ پھیل کر کراچی کی طرح ناقابل انتظام نہ ہو جائے۔
گوادر شہر میں سیوریج کا جدید ترین نظام قائم کیا جائے جس میں ایک طرف تو شہری سیوریج نظام میں صنعتیں مکمل ٹریٹمنٹ کے بغیر اپنا فضلہ نہیں شامل کرسکیں دوسری طرف شہری فضلہ بھی مکمل ٹریٹمنٹ کے بغیر گوادر کے سمندر میں نہ جائے اس سلسلے میں شہری فضلے سے توانائی پیدا کرنے والے جدید ترین WTE یعنی Waste To Energy پلانٹس ضرور لگائے جائیں تاکہ شہر کا فضلہ اور کوڑا شہر کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچائے۔ گوادر شہر میں پلاسٹک یعنی پولی تھن کی تھیلیوں کے روز مرہ استعمال پر پابندی لگائی جائے جس سے ایک طرف تو شہر میں کوڑا کم سے کم ہوگا دوسرے قدرتی ماحول بھی محفوظ ہوگا۔
گوادر اور آس پاس کا تمام علاقہ شمسی توانائی کے لیے آئیڈیل ہے۔ ویسے بھی وقت گزرنے کے ساتھ سولر انرجی کی لاگت اور قیمتوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے چنانچہ اس علاقے میں سولر انرجی پلانٹس کو خصوصی پیکیج دیے جائیں اور ساتھ ہی گوادر بندرگاہ کے ایک حصے کو سولر انرجی کے تجارتی حب کے طور پر بھی ڈیویلپ کیا جائے۔
گوادر شہر میں بجلی کے تار جنھیں ہمارے لاہوری دانشور ضد میں ''تاریں'' کہتے اور لکھتے ہیں زیر زمیں بچھائے جائیں تاکہ بجلی چوری سے بچا جاسکے۔ شہر میں سبزہ کاری کی جائے جس میں دو باتوں کا خاص خیال رکھاجائے کہ ایک تو تمام پودے مقامی یعنی Indigenous ہوں دوسرے کم پانی استعمال کرنے والے ہوں۔ سمندری پانی کو میٹھا کرنے والے پلانٹس کا قیام ضروری ہوگا۔ اس کے علاوہ بارشوں کے سیلابی پانی کو محفوظ کرنے والے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بھی گوادر شہر میں ابھی سے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع ہوجانا چاہیے۔
چلیے کراچی پر تو فرزندان بے زمیں و بے اماں کا شہر ہونے کی تہمت تھی کہ یہ شہر شہر ناپرساں ٹھہرا مگر گوادر کا تو معاملہ کچھ اور ہے اس کو تو کم از کم کراچی کے سے انجام سے بچا لیجیے اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔