پیاس کہتی ہے کہ اب ریت نچوڑی جائے

سندھ میں جب کبھی قحط کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہی پڑتا ہے

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسف نے خبردارکیا ہے کہ پاکستان میں مزید 5 لاکھ بچے خوراک کی قلت کی وجہ سے لاغر اور معذور ہوسکتے ہیں۔ سندھ میں خاموش ایمرجنسی کا بھی سامنا ہے جہاں شدید قحط کی صورتحال ہے۔

یہ رپورٹ بظاہرکوئی سنسنی نہیں پھیلاتی کیونکہ سندھ میں جب کبھی قحط کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہی پڑتا ہے اور وہ آغاز زندگی میں ہی کمزور رہ جاتے ہیں، اس بیماری میں بچے وزن اور قد کاٹھ کے اعتبار سے اپنی عمر سے کہیں کم دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں 44 فیصد بچے لاغر پن، آئرن اور خون کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس کی بنا پر ایشیا اور افریقہ میں تقریباً 30 لاکھ بچے پانچ سال سے کم عمر کے دوران ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

تھرپارکر سندھ کا کینسر جیسا علاقہ ہے جہاں سلگتے ہوئے زخم بھرتے نہیں سڑتے ہیں، اذیت دیتے ہیں۔ برسہا برس سے وہاں بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب غربت اور اس سے منسوب غذائی قلت اور پانی کی شدید قلت ہے۔ افسوس برسہا برس سے ہمارے حکمران ایک ایک سڑک کے چار چار بار فیتے کاٹ کر بھی شرم سے پانی پانی نہیں ہوئے۔

انتخابات سے قبل ملک کے کونے کونے میں جاکر یہ عوام کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور انتخاب جیت کر اپنے اپنے محلوں میں جاچھپتے ہیں۔ بیرون ملک اثاثے چھپاتے اور عوام کو آسرے میں رکھتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے نمایندے حکومتی ترقی کے اعداد وشمار کے حوالے سے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ اب جب کہ ملک میں اس سال 5 لاکھ بچوں کے لاغر اور ذہنی طور پر معذور یا کند ذہن رہ جانے کی باتیں سامنے آئیں تو انھیں خود سوچنا چاہیے کہ جہاں ناسمجھی معیار بن جائے وہاں علم کا کیا کام۔

سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سیاسی تاریخ میں کتنی بار برسر اقتدار آئی لیکن اس نے کبھی تھرپارکر کی طرف نگاہ غلط بھی نہ ڈالی جہاں بیشتر نابینا بچے سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لیے لکڑی کے برتن میں گھلی سرخ مرچ کا قطرہ ڈھونڈتے ہیں، جہاں کے گھروں کے میزبان مہمانوں کے سامنے پانی کا آدھا گلاس بھر کر پیش کرتے ہیں، تھرپارکر ہی سندھ کا وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں فاقوں اور پیاس نے لوگوں کی زندگی چھینی اور اجیرن بنا رکھی ہے۔

تھرپارکر کے ایک گاؤں میں سو سے زائد ایسے گھر ہیں جہاں کسی ایک میں بھی قرآن پاک موجود نہیں، جہاں کوئی بچہ ایک لفظ پڑھنے سے قاصر ہے۔ تھرپارکر کے مندروں میں ہندو آبادی نے دیوی دیوتاؤں کے بتوں کی جگہ ان کی پھٹی پرانی تصویریں رکھی ہوئی ہیں کیونکہ بت ان کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ یہ ہے صوبہ سندھ کے تھرپارکر کی ایک چشم کشا حقیقت۔

دبئی آج دنیا بھر میں ہر خاص و عام کو اپیل کرتا شہر ہے جہاں ایک بار جانے یا بس جانے کی اکثریت کے دلوں میں حسرت ہے۔ اسی دبئی کی بنیاد 1970ء کی دہائی میں رکھی گئی تھی جو آج دنیا کے ان چند بین الاقوامی شہروں میں شامل ہوچکا ہے جن کے بغیر سیاحت مکمل نہیں ہوسکتی۔

ایک ایسا شہر جو تین دہائیوں پہلے تک فقط ایک صحرا تھا، جس کی ایئرلائن صرف دو طیاروں پر مشتمل تھی جسے پاکستان کی مدد درکار تھی، آج دنیا کے پسندیدہ ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور ایئرلائن کا حال یہ ہے کہ پی آئی اے کا تمام کاروبار اب امارات کے ہاتھ میں ہے، دبئی کا ہوائی اڈہ دنیا کے معروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے، شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں کے لیے دبئی سے پرواز نہ جاتی ہو، احمد آباد سے لے کر سڈنی تک اور ادیس ابابا سے لے کر میامی تک دبئی پروازوں کا مرکز ہے۔


دنیا کے ارب پتیوں اور سپر اسٹارز نے یہاں پرتعیش اپارٹمنٹس لے رکھے ہیں، خود ہمارے وطن عزیز کے بیشتر حکمرانوں اور سیاست دانوں کے وہاں اپارٹمنٹ ہیں، کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ صحرائی، ریتیلا نخلستان آج پانی کے ڈیموں سے آراستہ ہے، بلند و بالا خریداری کے مراکز لوگوں کے لیے ہیں، تاحد نگاہ روشنیوں سے جگمگاتی عمارتیں ہیں، جن میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر ہیں، دنیا کے تمام امرا کے لیے دبئی ایک ایسا لائف اسٹائل پیش کرتا ہے جسے اپناناکسی بھی شخص کا خواب ہوسکتا ہے، بینک اکاؤنٹس میں رکھی بڑی رقم بھی اس لائف اسٹائل کے لیے کم ہے۔

دبئی 1970ء کے صحرائی اور خاک اڑاتی سرزمین پر نگاہ کی جائے اور سندھ کے تھرپارکر کی دھول سے اٹی زمین کو دیکھا جائے اور پھر دبئی اور سندھ کے حکمرانوں کی حکمت عملی یا ان کے اذہان پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ گھڑی ہمیں وقت کا پتہ ضرور دیتی ہے لیکن وقت ہمیں لوگوں کی اوقات بتاتا ہے۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ تھرپارکر کے رہنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت کی زندگیوں میں کوئی امید نہیں اور جس زندگی میں امید نہ ہو وہ بھلا کس کام کی؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کا بنیادی سبب پانی کی شدید قلت ہے اسی وجہ سے وہاں کئی سال خشک سالی رہتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے موجودہ آبی ذخائر پاکستان میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں اور جلد ہی پاکستان میں پانی کی قلت کا سامنا لوگوں کو کرنا ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت انسانی ضروریات کے لیے پانی کی دستیابی فی کس ایک ہزار کیوبک میٹر سالانہ سے کم ہے۔ جب کہ 1950ء میں ملک کی آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ تھی اور فی شخص کے لیے 5260 کیوبک میٹر پانی موجود تھا۔ اس لیے غذائی تحفظ کے استحکام اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے پانی کے ذخائر، تقسیم اور آبپاشی کے پانی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کو انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح کی ایک اور رپورٹ کے تحت 1947ء میں پاکستان کے پاس جتنا پانی تھا اس وقت اس کا پانچواں حصہ باقی رہ گیا ہے، دو لاکھ ایکڑ زمین اسی وجہ سے بنجر ہوچکی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات میں خرابی کے سبب اوسطاً سالانہ 20 ملین ایکڑ فٹ پانی ضایع ہوجاتا ہے۔

پانی کے مسائل کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ بھی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، اور یہ بھی سبھی کے علم میں ہے کہ بھارت کی طرف سے اکثر پانی بند کرنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں کیونکہ وہ بوند بوند پانی سندھ طاس معاہدے سے انکاری ہے اور اسے یکسر ختم کر دینا چاہتا ہے۔ اور وہ جب چاہتا ہے سندھ اور پنجاب میں اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑ کر تباہی و بربادی پھیلا دیتا ہے اور ہمارے ارباب اختیار بااختیار ہوکر بھی بے اختیاری کے مجسمے بنے دکھائی دیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سارا بوجھ یونیسف، اقوام متحدہ، این جی اوز یا فلاحی اداروں اور تنظیموں پر ڈالنے کے بجائے ہمارے حکمرانوں کو اپنے مسائل خود سمجھنے اور انھیں خود حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بالخصوص سندھ کے حکمرانوں کو ہر سال صحرائی علاقوں میں رونما ہونے والی قحط کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں شکار ہونے والے بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے سنجیدہ قسم کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

گو آج کے دور میں بڑی اور عظیم طاقتیں ان ملکوں کو قرار دیا جاتا ہے جو کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگیوں کو تلف اور زیادہ سے زیادہ املاک کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ مگر آنے والے کل کے دور میں بڑی اور عظیم طاقتیں وہ قرار پائیں گی جو کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگیوں کو بچانے اور زیادہ سے زیادہ املاک کو محفوظ کرنے کی طاقت یا شعور رکھتی ہوں گی۔
Load Next Story