افغانستان کا بحران نئی کروٹ لینے والا ہے

ٹرمپ انتظامیہ کا حتمی مقصد یہ ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت میں مصالحت کرا دی جائے

فوٹو: فائل

امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا حتمی مقصد یہ ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت میں مصالحت کرا دی جائے۔ اس خیال کا اظہار امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے جمعہ کے روز یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر برسلز میں منعقد ہونے والے نیٹو کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا۔ یہ افغان طالبان کے بارے میں ٹرمپ حکومت کی سوچ کے بارے میں اولین اور بامقصد بیان ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیویارک میں امریکہ کے عالمی تجارتی مرکز کی مینارنما عمارتوں پر دو مسافر طیاروں کے ٹکرانے سے ان کی تباہی کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت کو گرا دیا تھااور اس کی جگہ ماڈریٹ افغانوں پر مشتمل حکومت قائم کی گئی لیکن اس کے بعد افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی مزاحمت شروع ہو گئی جو تقریباً دو عشروں سے اب تک جاری ہے۔

اس حوالے سے امریکی دباؤ پر پاکستان نے طالبان اور افغان حکومت میں مصالحت کرانے کی اپنی سی کوششیں بھی کیں مگر وہ بار آور ثابت نہ ہو سکیں بلکہ جب کسی مثبت نتیجہ پر پہنچنے کی امید پیدا ہوئی امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے کسی اہم طالبان لیڈر کو ہلاک کر دیا اور پھر بات وہیں پہنچ گئی جہاں سے شروع ہوئی تھی اب بھی ایسی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان بیک چینل روابط چل رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ 20جنوری سے اقتدار سنبھال چکی ہے مگر افغانستان کے بارے میں ابھی تک اپنی پالیسی کی تشکیل مکمل نہیں کر سکی۔ امریکہ نے اپنی اس پالیسی کو ''ایف پاک'' کا نام دے رکھا ہے یعنی اس میں افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے جسے سابق صدر جارج بش کے دور میں نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

البتہ سینئر امریکی حکام اس علاقے کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے عمومی طور پر احتراز کرتے ہیں مگر امریکی وزیر خارجہ کی تقریر کا جو متن ہفتے کے روز جاری کیا گیا ہے اس میں افغانستان کے ساتھ امریکہ نے اپنے طویل المیعاد وعدے پورے کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اس وقت امریکہ کے لئے سب سے بڑا کام افغان حکومت کے ساتھ برسرپیکار طالبان کی مفاہمت کرانا ہے جبکہ افغانستان کی طرف سے شروع ہی سے اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جب تک غیرملکی فوجیں ان کی سرزمین سے باہر نہیں نکلتیں وہ مفاہمتی عمل میں شریک نہیں ہوں گی۔


امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی قومی فوج کی تربیت مکمل کریں تاکہ وہ اپنے ملکی سکیورٹی کے انتظامات کو احسن طور پر سنبھال سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیٹو افغان فوجوں کو نہ صرف تربیت دے گی اور ان کی مدد کرے گی بلکہ ہر موقع پر ان کے تحفظ کے لئے بھی موجود ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی فوج کو اس قدر مضبوط اور توانا بنا دیا جائے گا کہ وہ پورے خطے کی سکیورٹی کے لئے کردار ادا کر سکیں اور القاعدہ اور داعش کی دہشت گردیوں کا موثر جواب دے سکیں۔

مسٹر ٹلرسن کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ اب کسی نہ کسی صورت افغانستان سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے کیونکہ افغانستان کے ساتھ طویل مدتی تعاون امریکہ کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے اور اس کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ 2016ء کی صدارتی مہم کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی سابق حکومتوں پر تنقید کی کہ انہوں نے امریکہ کو ایسی جنگوں میں پھنسا دیا جس کا امریکی خزانے کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا 'یہی وجہ ہے کہ مسٹرریکس ٹلرسن نے برسلز میں نیٹو ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے کردار میں مزید اضافہ کرے اور دفاعی اخراجات کو بڑھایا جائے۔

البتہ ٹلرسن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور نیٹو کے درمیان تعاون جاری رہے گا اور امریکی فوجوں کو افغانستان میں نیٹو کی مدد کی ضرورت ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں نیٹو کے حوالے سے بھی متنازع بیانات دیتے رہے ہیں اور یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ امریکہ نیٹو کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا لیکن مسٹر ٹلرسن کے خطاب سے یہی لگتا ہے کہ نیٹو اور امریکہ کے درمیان تعاون جاری رہے گا۔ مسٹر ٹلرسن سے قبل امریکی نائب صدر مائیک پنس اور وزیر دفاع جم میٹس نے بھی 28رکنی نیٹو کے اجلاس سے خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ نیٹو ممالک کو اپنے اخراجات میں کم از کم 2فیصد اضافہ ضرور کر دینا چاہیے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسٹر ٹلرسن کا خطاب اس موقع پر ہوا جب افغانستان میں طالبان کی مزاحمت میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ کے دو جرنیلوں نے جن میں جان نکلسن اور جوزف ووٹل شامل ہیں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے حالات پر قابو پانے کے لئے مزید فوجی دستے بھی بھجوائے جائیں' ان دونوں امریکی جرنیلوں نے روس پر الزام عائد کیا کہ وہ طالبان کو خفیہ طریقے سے ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان کا بحران نئی کروٹ لے رہا ہے' پاکستان کی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان میں چند دن پہلے روسی فوج کے وفد نے دورہ کیا'یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ادھر افغان طالبان کے بھی ماسکو کے روابط اب ڈھکے چھپے نہیں ہیں' افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ایک سابق جہادی لیڈر گلبدین حکمت یار افغان حکومت سے تعلقات استوار کر چکے ہیں' یہ ہے وہ منظرنامہ جو افغانستان میں ترتیب پا رہا ہے' صدرڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور اقتدار میں افغانستان کا بحران حل کرنا چاہیں گے کیونکہ امریکیوں کو نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں روس بھی اثرونفوذ حاصل کر چکا ہے اور اگر امریکہ افغانستان میں جنگ جاری رکھتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جن اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کا اعلان کیا انہیں حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ امریکہ کے وسائل افغانستان اور دیگر ملکوں میں جاری جنگوں پر خرچ ہوتے رہے ہیں' امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا برسلز میں بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 
Load Next Story