مقامی حکومتیں اور اختیارات کی جنگ 

پاکستان کے سیاسی نظام میں مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر اختیارات کی جنگ ہمیشہ سے بنیادی مسئلہ کے طور پر رہی ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کے سیاسی نظام میں مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر اختیارات کی جنگ ہمیشہ سے بنیادی مسئلہ کے طور پر رہی ہے ۔یہ مسئلہ محض سیاسی سطح پر نہیں بلکہ انتظامی معاملات میں بھی اختیارات کی تقسیم نے کئی سطح پر پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔

عمومی طور پر جو بھی ریاست یا حکومت کا نظام اپنے اپنے قانونی اور سیاسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرتا ہے وہاں اختیارات کی تقسیم کے مسائل زیادہ شدت سے نظر نہیں آتے۔ لیکن ہماری جیسی ریاستوں یا حکمرانی کے نظام میں موجود مسائل میں اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور وسائل کی تقسیم کے تناظر میں اداروں کی سطح پر ایک دوسرے کے درمیان تناؤ، غلط فہمیاں اور بداعتمادی کی فضا قائم رہتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں کی توقعات اور خواہشات کے برعکس کام کرتا ہے اور نتائج بھی عوامی خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد خیال تھا کہ مرکز سے صوبوں اور صوبوں سے اضلاع کی طرف اختیارات کی تقسیم کا کوئی ایسا مناسب نظام زیادہ موثر انداز میں وضع ہوسکے گا جو بہتر حکمرانی کے نظام کو طاقت فراہم کرے گا۔

1973ء کے آئین کی شق 140-A کے تحت تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے بعد ان مقامی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر ان اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنائیں گی۔ یہ عمل بنیادی طور پر ملک میں مرکز اور صوبے کے بعد مقامی حکومت کے نظام کو وضع کرتا ہے۔ لیکن یہاں آئین کی بالادستی تو محض سیاسی حکمرانوں کے لیے ایک سیاسی کھلونا یا سیاسی ہتھیار ہے جسے وہ اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کے انتخابات کے بعد مقامی حکومتوں کا نظام عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ان اداروں کی تشکیل سیاسی حکومتوں کی خواہش سے زیادہ سپریم کورٹ کے فیصلہ اور دباو کی صورت میں ممکن ہوا تھا، اگر سپریم کورٹ ان ادارو ں کی تشکیل میں مداخلت یا فیصلہ نہ دیتی تو ابھی بھی ان اداروں کے انتخابات کا عمل ممکن نہ ہوتا۔ لیکن سیاسی حکومتوں نے دباؤ میں آکر مقامی انتخابات کے بعد اداروں کی تشکیل تو کردی، لیکن ان مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔

اگرچہ تمام صوبائی حکومتیں دعویٰ تو کرتی ہیں کہ ہم نے مقامی حکومتوں کو یقینی بنادیا ہے، لیکن مسئلہ اداروں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو اختیارات کی مدد سے بااختیار بنانا بھی تھا۔اس وقت چاروں صوبوں میں قائم مقامی حکومتوں سے وابستہ ناظمین، نائب ناظمین، چیرمین، وائس چیرمین، کونسلرز سب ہی اس کمزور مقامی حکومتوں کے نظام میں خود کو بے بس تصور کرتے ہیں۔

کچھ مقامی منتخب افراد جو خاص طور پر حکومت میں ہیں وہ بھی صوبائی حکومتوں یا اپنی سیاسی جماعتوں کے دوہرے معیار پر اپنے شدید تحفظات رکھتے ہیں ۔ کیونکہ یہ نظام جماعتی بنیادوں پر قائم ہوا ہے، اس لیے صوبہ میں جس جماعت کی بھی صوبائی حکومت ہے وہ ان اداروں میں اپنے مخالف کوئی بات حکمران جماعت کے نمائندوں سے سننے کو تیار نہیں۔ لیکن حکومتی ارکان دبے لفظوں میں اپنی بے بسی اور لاچارگی کا اظہار مختلف طریقوں سے کررہے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور پنجاب ،بلوچستان میں مسلم لیگ)ن( کی صوبائی حکومتیں عملی طور پر مقامی اختیارات پرخود قابض ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جو مقامی نظام ہے اس میں کسی حد تک مقامی لوگوں کو بااختیار بنایا گیا ہے، لیکن عملی طور پر وہاں بھی صوبائی حکومت اختیارات کی تقسیم میں سنجیدہ نہیں۔سندھ کے بڑے شہر کراچی میں منتخب میئر وسیم اختر کے بقول مجھ پر کراچی کی گندگی کے ڈھیروں کا الزام لگایا جاتا ہے، لیکن اگر اداروں کی خودمختاری اور اختیارات پر صوبائی حکومت قابض ہوجائے تو کراچی کی شہری حکومت کیا کرسکتی ہے۔


عمران خان بھی جب خیبر پختونخوا میں کوئی بڑی عوامی تقریب کرتے ہیں تو ان کو سب سے زیادہ شکایات اختیارات کے تناظر میں مقامی نمائندوں کی جانب سے سننے کو ملتی ہیں جبکہ اس کے برعکس بلوچستان کے مقامی اداروں پر تو محض ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

پنجاب میں بھی جو حکمرانی کا نظام ہے وہ عدم مرکزیت پر قائم ہے اور بالخصوص مقامی حکومتوں کے مقابلے میں بیس سے زیادہ مختلف اتھارٹیوں کے قیام سے صوبائی حکومت نے مقامی اختیارات کو اپنی سطح تک محدود کرلیا ہے۔اتھارٹیوں کا قیام بنیادی طور پر مقامی حکومتوں کے نظام میں مداخلت اور ایک متبادل نظام ہے جو عملاً صوبائی اور مقامی حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم میں ٹکراو پیدا کررہا ہے۔

ایک مسئلہ عوام کے منتخب مقامی نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی یا انتظامی اداروں کو سیاسی نمائندوں یا اداروں کے مقابلے میں زیادہ بااختیار بنانا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی نظام یا مقامی جمہوری نظام کے مقابلے میں بیوروکریسی یا انتظامی اداروں کو طاقتور بنا کر جمہوری عمل کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔اول دن سے ہی بیوروکریسی اس نظام میں اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے جس میں وہ کافی کامیاب ہے۔

پنجاب میں تو مقامی حکومت سے وابستہ منتخب افراد تو کجا صوبائی اسمبلی کے ارکان، صوبائی وزراء اور مشیر بھی اختیارات کی عدم موجودگی پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔ کیونکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تو کسی بھی طور پر اختیارات کو تقسیم کرنے میں سنجیدہ نہیں، بلکہ انہوں نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر صوبائی وزراتوں میں بھی ایسی تقسیم پیدا کردی ہے، جو مزید مسائل کو جنم دے رہی ہے۔

2018ء کے انتخابات کے تناظر میں اب صوبائی حکومتوںکی ساری توجہ انتخابات میں اپنی برتری پر ہوگی۔ اس برتری کے حصول کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کا سب سے زیادہ استحصال دیکھنے کو ملے گا۔ وسائل مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں ممکنہ ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدواروں اور جو پہلے سے ارکان اسمبلی ہیں ان میں تقسیم کر کے مقامی حکومتوں کے بجٹ پر سیاسی ڈکیتی کی جارہی ہے۔ نالیاں، سڑکیں اور دیگر بنیادی نوعیت کے ترقیاتی مسائل کا تعلق مقامی حکومتوں کے نظام سے ہے، لیکن صوبائی اور مرکزی ارکان میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم سے ان اداروں کو اور زیادہ سیاسی استحصال کا شکار کیا جائے گا۔

اب منتخب چیرمین اور وائس چیرمین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس زیادتی کے خلاف کیسے اپنی ہی جماعت کے خلاف برملا اظہار کرے۔وسائل کی تقسیم میں بھی صوبائی سطح سے ہی ہمیں غیر منصفانہ عمل غالب نظر آتا ہے۔ صوبائی وزیر اعلی اپنی سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کے تحت ان علاقوں کی ترقی پر زیادہ فوقیت دے رہے ہیںجو ان کو انتخابی سیاست میں فائدہ دے سکے۔ جب وزیر اعلیٰ خود ہی مقامی نظام کو نظرانداز کرکے وسائل پر قابض ہوکر مقامی مسائل کے حل کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھالے تو پھر یہ نظام کیسے کامیابی سے چل سکے گا۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی نظام تنیوں ہی مقامی ترقی کو بنیاد بنا کر ترقیاتی فنڈ کے حصول کی جنگ میں شریک ہیں۔

یہ عمل سوائے ٹکراو اور بداعتمادی سمیت اداروں میں انتشار کو جنم دے گا۔چیرمین یا ناظمین تو کجا خود مرد اور خواتین کونسلر کے پاس کیا اختیار ہیں، وہ بھی ایک درد ناک کہانی ہے۔ یعنی صوبائی حکومتوں نے تالے تو ان منتخب لوگوں کو دے دیے ہیں، لیکن چابی اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے ۔ہماری سیاسی اور جمہوری قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس ملک میں جو حکمرانی کا کمزور نظام ہے اس کی وجہ ہی مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف ہے۔

سیاسی جماعتیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نعرے تو بہت لگاتی ہیں، لیکن عملی طورپر ان کا سیاسی ریکارڈ خود ہی جمہوری اور قانونی اصولوں کے برعکس ہے۔جب ان مقامی حکومتوں کے نظام کو جمہوریت کی بنیادی نرسری کہا جاتا ہے تو ان ہی بنیادی نرسریوں کو نظرانداز کرکے جمہوریت کی بڑی جنگ جیتنا بھی ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔اس لیے یہ جنگ تین سطحوں پر لڑی جانی چاہیے۔ اول مقامی حکومتوں سے وابستہ منتخب افراد پارٹی پالیسی کے فریم ورک میں رہ کر اپنے سیاسی، انتظامی اور مالی حقوق پر آواز اٹھائیں اور خاموشی کو توڑیں۔

دوئم سیاسی جماعتوں اور اہل دانش سمیت سول سوسائٹی کے وہ لوگ جو مضبوط مقامی حکمرانی کے نظام کے حامی ہیں ان کو اپنی اپنی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی پر دباو ڈالنا ہوگا کہ وہ صوبوں سے اضلاع میں مقامی اختیارات تقسیم کریں۔ سوئم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر یہ بحث پھیلائی جانی چاہیے کہ مقامی حکومتوں کو خود مختار، موثر اور اختیارات دے کر ہی ملک میں جمہوریت،قانون کی حکمرانی اور طرز حکمرانی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story