میدانِ سیاست کے بدلتے ہوئے رنگ
سانحہ کوئٹہ پر سوگ اور احتجاج پر انتخابی سرگرمیوں کا رخ تبدیل،الیکشن کمیشن کا عملہ خانہ شماری کا کام مکمل نہ کر سکا
گذشتہ ہفتے کے آغاز پر 'سیاسی ڈرون حملہ' اور 'لانگ مارچ' سیاسی درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنا۔
انہی سے متعلق اعلانات اور بیانات کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں میں قیاس آرائیوں اور تبصروں کا طوفانی سلسلہ بھی جاری رہا، جب کہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف، پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما اور وفاقی وزراء رحمن ملک، سید خورشید شاہ، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین و دیگر اہم سیاسی شخصیات بھی کراچی میں اہم سیاسی فیصلوں میں شریک رہے۔
واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری کئی دنوں سے کراچی میں قیام پذیر ہیں اور ان کی موجودگی میں بلاول ہاؤس میں خاصی گہماگہمی ہے۔ کارِ سیاست سے جڑی ہوئی شخصیات اور عوام میں یہی معاملات زیرِ بحث تھے کہ سانحۂ کوئٹہ کی وجہ سے فضاء سوگ وار ہو گئی اور اس کے بعد احتجاج اور دھرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں کاروبارِ زندگی شدید متأثر رہا۔
گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد طاہر القادری کا ساتھ دینے کے لیے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اور راہ نما ہی رہ گئے تھے، جو کراچی سے ٹرین اور بسوں پر قافلے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت کی طرف بڑھے۔
جمعے کے دن کراچی میں کینٹ اسٹیشن سے ٹرینوں کے قافلوں کو رخصت کرنے سے قبل تحریک منہاج القرآن کے مرکزی راہ نما خواجہ محمد اشرف اور عوامی تحریک (سندھ) کے صدر ڈاکٹر ضمیراحمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے لانگ مارچ کو ملک میں تبدیلی کا آغاز قرار دیا اور کہا تھاکہ اسلام آباد میں عوام کی پارلیمنٹ ملک کے فرسودہ نظام پر اپنا فیصلہ سنائے گی، جسے کوئی نہیں رد کرسکے گا۔ یہ لانگ مارچ ملکی سیاست اور حالات میں تبدیلی لانے میں کوئی کردار ادا کر سکا یا نہیں، لیکن اگلے چند دنوں تک میڈیا پر اس کے 'اثرات' ضرور دیکھے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی کراچی میں موجودگی کی وجہ سے بلاول ہاؤس کی سیاسی رونق میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایم کیو ایم کا لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی بلاول ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ اس سلسلے میں باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ جمعرات کو بلاول ہاؤس میں صدر آصف علی زرداری کے زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں لانگ مارچ کے مضمرات اور نتائج پر تفصیلی غوروخوص کیا گیا۔
صدر آصف زرداری نے ایم کیو ایم کے قایدین سے کہاکہ پاکستان کے موجودہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کو برقرار کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ باخبر ذرایع کے مطابق اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے وفاقی وزراء سید خورشید احمد شاہ اور رحمن ملک، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو لے کر گورنر ہاؤس پہنچے، جہاں انھوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ایم کیو ایم کے راہ نماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، بابر خان غوری اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے دیگر ارکان سے بات چیت کی۔ اس دوران سندھ میں نئے بلدیاتی قانون پر عمل درآمد، بلدیاتی اداروں کے مسائل اور دیگر ایشوز پر بھی بات ہوئی، مذاکرات کے دوران مختلف مراحل پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور صدر آصف علی زرداری سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا جاتا رہا، جس کے بعد رابطہ کمیٹی کا اجلاس لندن اور کراچی میں منعقد ہوا، اور طاہر القادری کو ایم کیو ایم کے بغیر لانگ مارچ کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین پچھلے دنوں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان بات چیت اور رابطوں میں خاصے سرگرم نظر آئے، ان کی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے جمعے کے دن علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، جس میں ملک کی سیاسی صورت حال اور اہم ایشوز کے ساتھ سندھ میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
ان ملاقاتوں میں چوہدری شجاعت حسین نے ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے ق لیگ کی طرف سے حکومت کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کی بات دہرائی ہے۔ سید قائم علی شاہ نے اپنے سیاسی مہمان سے ملاقات میں کہاکہ وفاق کی طرح سندھ میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے گا اور ان جماعتوں کا اتحاد ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین نے گورنر ہاؤس میں ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر ق لیگ کے دیگر راہ نما بھی موجود تھے۔ پچھلے دنوں ہی ق لیگ کے صوبائی جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ نے اپنے قاید کی سیاسی بصیرت اور فلسفے کا کراچی ڈویژن کے عہدے داروں سے ایک ملاقات میں ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ملکی مفاد کے منافی کسی بھی فیصلے کی حمایت نہیں کی جاسکتی، ق لیگ سیاست دانوں کو اقتدار، انقلاب اور لشکرکشی کے جنون سے نکال کر گفت و شنید سے معاملات طے کرنے کی طرف لانا چاہتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو ملکی سلامتی اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے، وہ دور اندیشی سے کام لینے والے سیاست داں ہیں، جنھوں نے کارکنوں کو امن اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کوئٹہ اور سوات میں شہید ہونے والوں کا لہو اتنا سستا نہیں کہ اس پر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں، دہشت گردی کی مذمت وہی کرے گا، جو پاکستان کی سلامتی چاہتا ہو۔
جماعت اسلامی کی جانب سے گذشتہ دنوں ایم اے جناح روڈ پر سانحہ کوئٹہ، سوات اور کراچی میں حکیم محمود برکاتی سمیت دیگر اپنے کارکنان کی شہادت اور شہر میں ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی، کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ عوام بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں ہی سے نہیں بلکہ وفاقی حکومت سے بھی عاجز آچکے ہیں، کراچی میں ٹارگیٹ کلرز کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، حکومت اوراتحادی اپنا حق حکم رانی کھو چکے ہیں۔
انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن، انصاف اور خوش حالی کے لیے جماعت اسلامی کی آئینی اور پُر امن جدوجہد کا ساتھ دیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سانحہ کوئٹہ و سوات، جنید زاہدی، ڈاکٹر پرویز، عبدالرشید فاروقی اور حکیم محمود برکاتی سمیت تمام شہداء کے قاتل فوری گرفتار کیے جائیں۔ اس موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنھوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرے کے دوران شرکاء سے دیگر راہ نماؤں نے بھی خطاب کیا اور حکومت پر شدید تنقید کی۔ اس موقع پر جنرل سیکریٹری جماعت اسلامی(کراچی) نسیم صدیقی کے علاوہ نائب امراء برجیس احمد، ڈاکٹر واسع شاکر، نصراللہ شجیع، حافظ انجینئر نعیم الرحمن، سید محمد اقبال، راجا عارف سلطان اور دیگر موجود تھے۔
گھر گھر ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور خانہ شماری کا کام شہر کے حالات کی نذر ہو گیا ہے۔ شیڈول کے مطابق خانہ شماری کا کام 14جنوری کو مکمل کیا جانا تھا۔ تاہم سانحہ کوئٹہ کے خلاف ہڑتال، دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج رہا، جس کی وجہ سے عملہ اپنا کام پورا نہیں کرسکا۔ صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کے مطابق خانہ شماری کے ضمن میں ضلع ملیر میں 60 فی صد اور ضلع شرقی میں 35 فی صد کام مکمل کر لیا گیا، پیر کے دن عملے کی قلت کے باعث ضلع غربی میں 20 فی صد، ضلع جنوبی میں 10فی صد اور ضلع وسطی میں 15فی صد خانہ شماری کی گئی، جب کہ مجموعی طور پر ضلع غربی میں 40 فی صد، ضلع جنوبی میں 75 فی صد اور ضلع وسطی میں 60 فی صد کام مکمل کرلیا گیا۔ شیڈول کے مطابق ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل 15جنوری سے شروع ہونا ہے اور یکم فروری تک مکمل کیا جانا ہے۔
پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام سانحۂ کوئٹہ کے شہداء کے ایصال ثواب کے لیے پیپلز سیکریٹریٹ میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے عہدے دار عبدالقادر پٹیل، نجمی عالم، سینیٹر سعید غنی، لطیف مغل، عابد ستی، سلیمان سندھی اور دیگر موجود تھے۔ قرآن خوانی میں ان راہ نماؤں کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
انہی سے متعلق اعلانات اور بیانات کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں میں قیاس آرائیوں اور تبصروں کا طوفانی سلسلہ بھی جاری رہا، جب کہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف، پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما اور وفاقی وزراء رحمن ملک، سید خورشید شاہ، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین و دیگر اہم سیاسی شخصیات بھی کراچی میں اہم سیاسی فیصلوں میں شریک رہے۔
واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری کئی دنوں سے کراچی میں قیام پذیر ہیں اور ان کی موجودگی میں بلاول ہاؤس میں خاصی گہماگہمی ہے۔ کارِ سیاست سے جڑی ہوئی شخصیات اور عوام میں یہی معاملات زیرِ بحث تھے کہ سانحۂ کوئٹہ کی وجہ سے فضاء سوگ وار ہو گئی اور اس کے بعد احتجاج اور دھرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں کاروبارِ زندگی شدید متأثر رہا۔
گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد طاہر القادری کا ساتھ دینے کے لیے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اور راہ نما ہی رہ گئے تھے، جو کراچی سے ٹرین اور بسوں پر قافلے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت کی طرف بڑھے۔
جمعے کے دن کراچی میں کینٹ اسٹیشن سے ٹرینوں کے قافلوں کو رخصت کرنے سے قبل تحریک منہاج القرآن کے مرکزی راہ نما خواجہ محمد اشرف اور عوامی تحریک (سندھ) کے صدر ڈاکٹر ضمیراحمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے لانگ مارچ کو ملک میں تبدیلی کا آغاز قرار دیا اور کہا تھاکہ اسلام آباد میں عوام کی پارلیمنٹ ملک کے فرسودہ نظام پر اپنا فیصلہ سنائے گی، جسے کوئی نہیں رد کرسکے گا۔ یہ لانگ مارچ ملکی سیاست اور حالات میں تبدیلی لانے میں کوئی کردار ادا کر سکا یا نہیں، لیکن اگلے چند دنوں تک میڈیا پر اس کے 'اثرات' ضرور دیکھے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی کراچی میں موجودگی کی وجہ سے بلاول ہاؤس کی سیاسی رونق میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایم کیو ایم کا لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی بلاول ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ اس سلسلے میں باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ جمعرات کو بلاول ہاؤس میں صدر آصف علی زرداری کے زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں لانگ مارچ کے مضمرات اور نتائج پر تفصیلی غوروخوص کیا گیا۔
صدر آصف زرداری نے ایم کیو ایم کے قایدین سے کہاکہ پاکستان کے موجودہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کو برقرار کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ باخبر ذرایع کے مطابق اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے وفاقی وزراء سید خورشید احمد شاہ اور رحمن ملک، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو لے کر گورنر ہاؤس پہنچے، جہاں انھوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ایم کیو ایم کے راہ نماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، بابر خان غوری اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے دیگر ارکان سے بات چیت کی۔ اس دوران سندھ میں نئے بلدیاتی قانون پر عمل درآمد، بلدیاتی اداروں کے مسائل اور دیگر ایشوز پر بھی بات ہوئی، مذاکرات کے دوران مختلف مراحل پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور صدر آصف علی زرداری سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا جاتا رہا، جس کے بعد رابطہ کمیٹی کا اجلاس لندن اور کراچی میں منعقد ہوا، اور طاہر القادری کو ایم کیو ایم کے بغیر لانگ مارچ کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین پچھلے دنوں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان بات چیت اور رابطوں میں خاصے سرگرم نظر آئے، ان کی گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے جمعے کے دن علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، جس میں ملک کی سیاسی صورت حال اور اہم ایشوز کے ساتھ سندھ میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
ان ملاقاتوں میں چوہدری شجاعت حسین نے ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے ق لیگ کی طرف سے حکومت کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کی بات دہرائی ہے۔ سید قائم علی شاہ نے اپنے سیاسی مہمان سے ملاقات میں کہاکہ وفاق کی طرح سندھ میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے گا اور ان جماعتوں کا اتحاد ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین نے گورنر ہاؤس میں ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر ق لیگ کے دیگر راہ نما بھی موجود تھے۔ پچھلے دنوں ہی ق لیگ کے صوبائی جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ نے اپنے قاید کی سیاسی بصیرت اور فلسفے کا کراچی ڈویژن کے عہدے داروں سے ایک ملاقات میں ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ملکی مفاد کے منافی کسی بھی فیصلے کی حمایت نہیں کی جاسکتی، ق لیگ سیاست دانوں کو اقتدار، انقلاب اور لشکرکشی کے جنون سے نکال کر گفت و شنید سے معاملات طے کرنے کی طرف لانا چاہتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو ملکی سلامتی اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے، وہ دور اندیشی سے کام لینے والے سیاست داں ہیں، جنھوں نے کارکنوں کو امن اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کوئٹہ اور سوات میں شہید ہونے والوں کا لہو اتنا سستا نہیں کہ اس پر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں، دہشت گردی کی مذمت وہی کرے گا، جو پاکستان کی سلامتی چاہتا ہو۔
جماعت اسلامی کی جانب سے گذشتہ دنوں ایم اے جناح روڈ پر سانحہ کوئٹہ، سوات اور کراچی میں حکیم محمود برکاتی سمیت دیگر اپنے کارکنان کی شہادت اور شہر میں ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی، کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ عوام بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں ہی سے نہیں بلکہ وفاقی حکومت سے بھی عاجز آچکے ہیں، کراچی میں ٹارگیٹ کلرز کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، حکومت اوراتحادی اپنا حق حکم رانی کھو چکے ہیں۔
انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن، انصاف اور خوش حالی کے لیے جماعت اسلامی کی آئینی اور پُر امن جدوجہد کا ساتھ دیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سانحہ کوئٹہ و سوات، جنید زاہدی، ڈاکٹر پرویز، عبدالرشید فاروقی اور حکیم محمود برکاتی سمیت تمام شہداء کے قاتل فوری گرفتار کیے جائیں۔ اس موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنھوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرے کے دوران شرکاء سے دیگر راہ نماؤں نے بھی خطاب کیا اور حکومت پر شدید تنقید کی۔ اس موقع پر جنرل سیکریٹری جماعت اسلامی(کراچی) نسیم صدیقی کے علاوہ نائب امراء برجیس احمد، ڈاکٹر واسع شاکر، نصراللہ شجیع، حافظ انجینئر نعیم الرحمن، سید محمد اقبال، راجا عارف سلطان اور دیگر موجود تھے۔
گھر گھر ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور خانہ شماری کا کام شہر کے حالات کی نذر ہو گیا ہے۔ شیڈول کے مطابق خانہ شماری کا کام 14جنوری کو مکمل کیا جانا تھا۔ تاہم سانحہ کوئٹہ کے خلاف ہڑتال، دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج رہا، جس کی وجہ سے عملہ اپنا کام پورا نہیں کرسکا۔ صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کے مطابق خانہ شماری کے ضمن میں ضلع ملیر میں 60 فی صد اور ضلع شرقی میں 35 فی صد کام مکمل کر لیا گیا، پیر کے دن عملے کی قلت کے باعث ضلع غربی میں 20 فی صد، ضلع جنوبی میں 10فی صد اور ضلع وسطی میں 15فی صد خانہ شماری کی گئی، جب کہ مجموعی طور پر ضلع غربی میں 40 فی صد، ضلع جنوبی میں 75 فی صد اور ضلع وسطی میں 60 فی صد کام مکمل کرلیا گیا۔ شیڈول کے مطابق ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل 15جنوری سے شروع ہونا ہے اور یکم فروری تک مکمل کیا جانا ہے۔
پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام سانحۂ کوئٹہ کے شہداء کے ایصال ثواب کے لیے پیپلز سیکریٹریٹ میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے عہدے دار عبدالقادر پٹیل، نجمی عالم، سینیٹر سعید غنی، لطیف مغل، عابد ستی، سلیمان سندھی اور دیگر موجود تھے۔ قرآن خوانی میں ان راہ نماؤں کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔