احتجاج اور تنقید کا موسم
الطاف حسین کا ’سیاسی ڈورن حملہ‘ حیدرآباد کے سرد موسم میں گرما گرم مباحث کا باعث بنا۔
حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے سانحہ کوئٹہ اور سوات کے خلاف یوم سوگ کے اعلان پر کاروبارِ زندگی معطل رہا۔
جب کہ الطاف حسین کا 'سیاسی ڈورن حملہ' شہر کے سرد موسم میں گرما گرم مباحث کا باعث بنا۔ اس پر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کی جانب سے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ منائی گئی اور ایک تقریب میں شریک وفاقی وزیر اور پی پی پی (سندھ) کے سینیر نائب صدر مولا بخش چانڈیو کا میڈیا سے بات چیت میں کہنا تھا کہ اس بات انھیں یقین تھاکہ متحدہ قومی موومنٹ اعلان کے باوجود ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرے گی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم نے عوام کو اپنے سندھ دوست ہونے کا یقین دلانے کے لیے بڑی محنت کی ہے، اب سندھ کی تقسیم کی باتیں کرکے اپنی ان کوششوں کو ضایع نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام پر متحدہ کے مطالبات جائز ہیں اور تنقید کرنا ان کا حق ہے، لیکن سندھ کی تقسیم کی بات ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو نے لیاقت یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، جامشورو کے سالانہ کانووکیشن میں منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طاہر القادری ڈکٹیٹروں کی زبان بول رہے ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرکے آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کرنے جارہی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نظام کی بہتری کے لیے معاملات طے کیے گئے ہیں۔ مولا بخش چانڈیو کی طرح نثار کھوڑو نے بھی ایم کیو ایم پر نرم لہجے میں تنقید کرتے ہوئے کہاکہ پورے ملک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام موجود ہے، لیکن اس کے تحت کہیں بھی انتخابات نہیں ہوئے اور یہی صورت حال سندھ میں بھی ہے۔ جلسۂ تقسیم اسناد میں پرنسپل سیکریٹری، گورنر سندھ پروفیسر ڈاکٹر نوشاد احمد شیخ نے بھی شرکت کی۔
ماضی میں ایسے جلسۂ تقسیمِ اسناد میں یونی ورسٹیوں کے چانسلر شرکت کرتے تھے، لیکن موجودہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اندرون سندھ یونی ورسٹیوں کے متعدد پروگراموں میں شرکت نہیں کی ہے۔ ان کی جگہ نثار کھوڑو شریک نظر آتے ہیں، جس سے یہ تأثر ابھر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اتحادی جماعت کے گورنر پر اندرونِ سندھ اس سلسلے میں پابندی عاید کر رکھی ہے۔ گورنر سندھ نے لگ بھگ دو سال سے حیدرآباد کا بھی دورہ نہیں کیا ہے اور یہاں کے بیش تر ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب گورنر ہاؤس کراچی ہی میں منعقد ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال حیدرآباد میں میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد ہے، جو گورنر ہاؤس کراچی میں رکھ دیا گیا۔ اس میڈیکل یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر حیدرآباد زون کے انچارج محمد شریف و اراکین زونل کمیٹی، ایم این اے صلاح الدین اور ایم پی ایز نے اپنے قائد الطاف حسین، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کو مبارک باد پیش کی اور کہا ہے کہ طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات سے حیدرآباد ہی نہیں بلکہ سندھ کے ہر فرد کو بلاتفریق فائدہ ہو گا۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سیاسی ڈورن حملے کے لیے خطاب میں حکومت سے بلدیاتی نظام کے بارے میں اپنا موقف دینے کے معاملے پر مختلف قوم پرست جماعتوںکی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، سندھ ترقی پسند پارٹی اور سندھیانی تحریک کی جانب سے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے علیحدہ علیحدہ احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں بڑی تعداد میں کارکنان شریک تھے۔
اس موقع پر عالم شاہ، عمرہ سموں، حسنہ راہوجو، فیروز منگی و دیگر کا کہنا تھاکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے بلدیاتی نظام جاری نہ رکھنے کی صورت میں سندھ کی تقسیم کا بیان قابل مذمت ہے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے بلدیاتی نظام کے خلاف قاسم آباد میں احتجاجی کیمپ پر پارٹی کے قائدین حیدر شاہانی، مظفر کلہوڑو و دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ کے خلاف انتہائی سخت لہجہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین میں ہمت ہے تو وہ کھل کر سامنے آئیں اور سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگائیں، پھر دیکھتے ہیں کہ کراچی میں نائن زیرو کس طرح چلتا ہے، مہاجر صوبے کی حمایت کرنے والوں کو سندھ میں برداشت نہیں کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اور الطاف حسین کی سیاست سے سندھ سے متعلق کبھی کوئی اچھی امید نہیں رکھی جاسکتی، سندھ دھرتی کے لیے صرف ہم صدیوں سے قربانیاں دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے، ہر حملہ آور نے سندھیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ خود ختم ہوگئے۔
انھوں نے کہاکہ سندھیوں کو چاہیے کہ وہ متحدہ سے لاتعلقی کا اظہار کریں، جو متحدہ کا رکن ہوگا اسے سندھ میں نہیں رہنے دیا جائے گا بلکہ اسے چاہیے کہ وہ ٹکٹ کٹوا کر باہر چلا جائے اور وہاں الطاف حسین کی قدم بوسی کرے، کہا جا رہا ہے کہ اگر بلدیاتی نظام نہیں دیا گیا اور بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے گئے تو پھر ہم سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا دیں گے، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں، ہمت ہے تو پھر سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا دیں، پھر ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کراچی میں نائن زیرو اور حیدرآباد میں واقع ان کے دفتر کیسے چلتے ہیں۔
ہم ان کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ جو بھی مہاجر صوبے کا حامی ہے اسے سندھ میں نہیں رہنے دیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر نئے صوبے کی سازش کو نہیں روکا گیا یا پھر نیا صوبہ بنانے کی جانب پیش قدمی جاری رکھی گئی تو پھر ہم اعلان کر دیں گے کہ ہمارا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خطاب کے جواب میں بیس جنوری تک ہفتۂ یک جہتی سندھ منانے کا اعلان بھی کیا۔ دوسری جانب عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایاز لطیف پلیجو نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کی تقریر میں بلدیاتی نظام کے عدم نفاذ کی صورت میں تقسیمِ سندھ کی دھمکی اور قائد اعظم محمد علی جناح سے متعلق بیان کی شدید مذمت کی اور کہا کہ سندھ کی تقسیم متحدہ کا پرانا خواب ہے، جس کے لیے جناح پور کے نقشے اور دیگر مواد ریکارڈ پر موجود ہیں۔
انھوں نے الزام عاید کیا کہ متحدہ نے عامر خان اور سلیم شہزاد کی نگرانی میں کراچی صوبے کی مہم چلائی، لیکن اس سندھ دشمن منصوبے کو عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک نے چیلنج کیا، بائیس مئی کو عوامی تحریک کی قیادت میں لاکھوں سندھیوں نے محبت سندھ ریلی نکالی، جس پر حملہ ہوا اور چودہ سندھیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر کراچی صوبے کی مہم کو دفن کردیا، بلدیاتی نظام سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے، جس کے خلاف سندھ بھر کی عوام سراپا احتجاج ہے۔
انھوں نے کہا کہ ڈرون حملہ کرنے کی ایم کیو ایم کی دھمکی کا اصل مقصد بلدیاتی نظام کو برقرار رکھنا، کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو روکنا اور کراچی پر غیر قانونی قبضہ برقرار رکھنا ہے اور لگتا ہے کہ گذشتہ رات پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات منظور کر کے سندھ اسمبلی اور سندھی عوام کی رائے اور احتجاج کو بلڈوز کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔
انھوں نے کہا کہ الطاف حسین کا اپنی تقریر کے دوران برطانیہ سے آزادی دلانے والے قائد اعظم محمد علی جناح پر تنقید کر کے انہیں متنازع شخصیت بنانے کا مقصد بیرونی قوتوں کو خوش کرنا تھا، ملک کا کوئی بھی محب وطن شہری متحدہ کے قائد کے اس عمل کو برداشت نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ اپنی تقریر کے دوران سندھ کی تقسیم، ملک کی وحدانیت پر حملے اور ملک کے بانی کو متنازع بنانے پر الطاف حسین نے آئین کے آرٹیکل چھے کی خلاف ورزی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے سندھ کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ الطاف حسین کے سندھ اور ملک دشمن بیان کا از خود نوٹس لے کر قانونی کارروائی کی جائے۔ انھوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم سے تمام وزارتیں اور گورنر شپ واپس لی جائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان، آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ایم کیو ایم کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز کی رکنیت معطل کرے۔
سانحہ کوئٹہ کے بعد مجلس وحدت المسلمین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، شعیہ علماء کونسل و دیگر تنظیموں نے جس طرح ملک بھر میں شدید احتجاج کیا، اس میں حیدرآباد کے عوام بھی پیچھے نہ رہے۔ حیدرآباد میں تقریباً 48 گھنٹوں تک معصوم بچے، خواتین، بزرگ، نوجوان سب حیدرآباد بائی پاس پر موجود رہے اور اپنے جائز مطالبات کی منظوری تک بیٹھے رہے۔ اس دوران متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی تحریک کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہ نما بھی وہاں اس واقعے کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظاہرین سے اظہار یک جہتی کے لیے پہنچے۔
جب کہ الطاف حسین کا 'سیاسی ڈورن حملہ' شہر کے سرد موسم میں گرما گرم مباحث کا باعث بنا۔ اس پر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کی جانب سے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ منائی گئی اور ایک تقریب میں شریک وفاقی وزیر اور پی پی پی (سندھ) کے سینیر نائب صدر مولا بخش چانڈیو کا میڈیا سے بات چیت میں کہنا تھا کہ اس بات انھیں یقین تھاکہ متحدہ قومی موومنٹ اعلان کے باوجود ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرے گی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم نے عوام کو اپنے سندھ دوست ہونے کا یقین دلانے کے لیے بڑی محنت کی ہے، اب سندھ کی تقسیم کی باتیں کرکے اپنی ان کوششوں کو ضایع نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام پر متحدہ کے مطالبات جائز ہیں اور تنقید کرنا ان کا حق ہے، لیکن سندھ کی تقسیم کی بات ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو نے لیاقت یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، جامشورو کے سالانہ کانووکیشن میں منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طاہر القادری ڈکٹیٹروں کی زبان بول رہے ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرکے آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کرنے جارہی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نظام کی بہتری کے لیے معاملات طے کیے گئے ہیں۔ مولا بخش چانڈیو کی طرح نثار کھوڑو نے بھی ایم کیو ایم پر نرم لہجے میں تنقید کرتے ہوئے کہاکہ پورے ملک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام موجود ہے، لیکن اس کے تحت کہیں بھی انتخابات نہیں ہوئے اور یہی صورت حال سندھ میں بھی ہے۔ جلسۂ تقسیم اسناد میں پرنسپل سیکریٹری، گورنر سندھ پروفیسر ڈاکٹر نوشاد احمد شیخ نے بھی شرکت کی۔
ماضی میں ایسے جلسۂ تقسیمِ اسناد میں یونی ورسٹیوں کے چانسلر شرکت کرتے تھے، لیکن موجودہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اندرون سندھ یونی ورسٹیوں کے متعدد پروگراموں میں شرکت نہیں کی ہے۔ ان کی جگہ نثار کھوڑو شریک نظر آتے ہیں، جس سے یہ تأثر ابھر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اتحادی جماعت کے گورنر پر اندرونِ سندھ اس سلسلے میں پابندی عاید کر رکھی ہے۔ گورنر سندھ نے لگ بھگ دو سال سے حیدرآباد کا بھی دورہ نہیں کیا ہے اور یہاں کے بیش تر ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب گورنر ہاؤس کراچی ہی میں منعقد ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال حیدرآباد میں میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد ہے، جو گورنر ہاؤس کراچی میں رکھ دیا گیا۔ اس میڈیکل یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر حیدرآباد زون کے انچارج محمد شریف و اراکین زونل کمیٹی، ایم این اے صلاح الدین اور ایم پی ایز نے اپنے قائد الطاف حسین، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کو مبارک باد پیش کی اور کہا ہے کہ طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات سے حیدرآباد ہی نہیں بلکہ سندھ کے ہر فرد کو بلاتفریق فائدہ ہو گا۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سیاسی ڈورن حملے کے لیے خطاب میں حکومت سے بلدیاتی نظام کے بارے میں اپنا موقف دینے کے معاملے پر مختلف قوم پرست جماعتوںکی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، سندھ ترقی پسند پارٹی اور سندھیانی تحریک کی جانب سے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے علیحدہ علیحدہ احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں بڑی تعداد میں کارکنان شریک تھے۔
اس موقع پر عالم شاہ، عمرہ سموں، حسنہ راہوجو، فیروز منگی و دیگر کا کہنا تھاکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے بلدیاتی نظام جاری نہ رکھنے کی صورت میں سندھ کی تقسیم کا بیان قابل مذمت ہے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے بلدیاتی نظام کے خلاف قاسم آباد میں احتجاجی کیمپ پر پارٹی کے قائدین حیدر شاہانی، مظفر کلہوڑو و دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ کے خلاف انتہائی سخت لہجہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین میں ہمت ہے تو وہ کھل کر سامنے آئیں اور سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگائیں، پھر دیکھتے ہیں کہ کراچی میں نائن زیرو کس طرح چلتا ہے، مہاجر صوبے کی حمایت کرنے والوں کو سندھ میں برداشت نہیں کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اور الطاف حسین کی سیاست سے سندھ سے متعلق کبھی کوئی اچھی امید نہیں رکھی جاسکتی، سندھ دھرتی کے لیے صرف ہم صدیوں سے قربانیاں دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے، ہر حملہ آور نے سندھیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ خود ختم ہوگئے۔
انھوں نے کہاکہ سندھیوں کو چاہیے کہ وہ متحدہ سے لاتعلقی کا اظہار کریں، جو متحدہ کا رکن ہوگا اسے سندھ میں نہیں رہنے دیا جائے گا بلکہ اسے چاہیے کہ وہ ٹکٹ کٹوا کر باہر چلا جائے اور وہاں الطاف حسین کی قدم بوسی کرے، کہا جا رہا ہے کہ اگر بلدیاتی نظام نہیں دیا گیا اور بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے گئے تو پھر ہم سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا دیں گے، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں، ہمت ہے تو پھر سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا دیں، پھر ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کراچی میں نائن زیرو اور حیدرآباد میں واقع ان کے دفتر کیسے چلتے ہیں۔
ہم ان کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ جو بھی مہاجر صوبے کا حامی ہے اسے سندھ میں نہیں رہنے دیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر نئے صوبے کی سازش کو نہیں روکا گیا یا پھر نیا صوبہ بنانے کی جانب پیش قدمی جاری رکھی گئی تو پھر ہم اعلان کر دیں گے کہ ہمارا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خطاب کے جواب میں بیس جنوری تک ہفتۂ یک جہتی سندھ منانے کا اعلان بھی کیا۔ دوسری جانب عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایاز لطیف پلیجو نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کی تقریر میں بلدیاتی نظام کے عدم نفاذ کی صورت میں تقسیمِ سندھ کی دھمکی اور قائد اعظم محمد علی جناح سے متعلق بیان کی شدید مذمت کی اور کہا کہ سندھ کی تقسیم متحدہ کا پرانا خواب ہے، جس کے لیے جناح پور کے نقشے اور دیگر مواد ریکارڈ پر موجود ہیں۔
انھوں نے الزام عاید کیا کہ متحدہ نے عامر خان اور سلیم شہزاد کی نگرانی میں کراچی صوبے کی مہم چلائی، لیکن اس سندھ دشمن منصوبے کو عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک نے چیلنج کیا، بائیس مئی کو عوامی تحریک کی قیادت میں لاکھوں سندھیوں نے محبت سندھ ریلی نکالی، جس پر حملہ ہوا اور چودہ سندھیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر کراچی صوبے کی مہم کو دفن کردیا، بلدیاتی نظام سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے، جس کے خلاف سندھ بھر کی عوام سراپا احتجاج ہے۔
انھوں نے کہا کہ ڈرون حملہ کرنے کی ایم کیو ایم کی دھمکی کا اصل مقصد بلدیاتی نظام کو برقرار رکھنا، کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو روکنا اور کراچی پر غیر قانونی قبضہ برقرار رکھنا ہے اور لگتا ہے کہ گذشتہ رات پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات منظور کر کے سندھ اسمبلی اور سندھی عوام کی رائے اور احتجاج کو بلڈوز کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔
انھوں نے کہا کہ الطاف حسین کا اپنی تقریر کے دوران برطانیہ سے آزادی دلانے والے قائد اعظم محمد علی جناح پر تنقید کر کے انہیں متنازع شخصیت بنانے کا مقصد بیرونی قوتوں کو خوش کرنا تھا، ملک کا کوئی بھی محب وطن شہری متحدہ کے قائد کے اس عمل کو برداشت نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ اپنی تقریر کے دوران سندھ کی تقسیم، ملک کی وحدانیت پر حملے اور ملک کے بانی کو متنازع بنانے پر الطاف حسین نے آئین کے آرٹیکل چھے کی خلاف ورزی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے سندھ کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ الطاف حسین کے سندھ اور ملک دشمن بیان کا از خود نوٹس لے کر قانونی کارروائی کی جائے۔ انھوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم سے تمام وزارتیں اور گورنر شپ واپس لی جائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان، آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ایم کیو ایم کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز کی رکنیت معطل کرے۔
سانحہ کوئٹہ کے بعد مجلس وحدت المسلمین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، شعیہ علماء کونسل و دیگر تنظیموں نے جس طرح ملک بھر میں شدید احتجاج کیا، اس میں حیدرآباد کے عوام بھی پیچھے نہ رہے۔ حیدرآباد میں تقریباً 48 گھنٹوں تک معصوم بچے، خواتین، بزرگ، نوجوان سب حیدرآباد بائی پاس پر موجود رہے اور اپنے جائز مطالبات کی منظوری تک بیٹھے رہے۔ اس دوران متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی تحریک کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہ نما بھی وہاں اس واقعے کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظاہرین سے اظہار یک جہتی کے لیے پہنچے۔