ایم کیو ایم کی ساکھ متأثر

دیہی علاقوں میں ایم کیو ایم کے ہم دردوں کی بڑی تعداد اب دوسرے پلیٹ فارم کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں ایم کیو ایم کی ساکھ بری طرح متأثر ہوئی ہے. فوٹو: فائل

سانحۂ کوئٹہ کے بعد سکھر اور اس سے جڑے ہوئے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور پچھلے دنوں مقامی سیاست پر احتجاج اور سوگ کا رنگ نمایاں رہا۔

اس کے علاوہ گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے قاید الطاف حسین کی جانب سے 'سیاسی ڈرون حملے' کے بعد بالائی سندھ میں سیاست کا رخ تبدیل ہوتا نظر آیا۔ بلدیاتی نظام کے بارے میں بیان دیتے ہوئے سندھ سے الگ ہونے کی بات کرنے پر سیاسی میدان میں ایم کیو ایم کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ رابطہ کمیٹی، اندرون سندھ تنظیمی کمیٹی اور مختلف زونل تنظیموں نے بالائی سندھ میں انتہائی مؤثر انداز سے کام کیا تھا۔

اردو بولنے والوں کے علاوہ سندھی، بلوچی، پشتون سمیت دیگر برادریوں کے افراد نے بڑی تعداد میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور عوام کی توجہ حاصل کی، لیکن حالیہ بیان سے سندھ کے قوم پرستوں کو ان کے خلاف ایک ایشو مل گیا ہے اور اس جماعت کی ساکھ بری طرح متأثر ہوئی ہے۔ دیہی علاقوں میں ایم کیو ایم کے ہم دردوں کی بڑی تعداد اب دوسرے پلیٹ فارم کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔ الطاف حسین کے حالیہ بیان اور طاہر القادری کے لانگ مارچ سے اچانک لاتعلقی کے اعلان پر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کسی صورت اقتدار سے باہر نہیں رہنا چاہتی اور وہ اب اس سیاسی تالاب کا حصہ ہے، جس میں صرف وڈیروں اور جاگیر داروں کی حمایت کی جاتی ہے۔

گذشتہ ہفتے سانحہ کوئٹہ کے خلاف یوم سوگ منایا گیا۔ اس موقع پر تمام تجارتی مارکیٹیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ ایم کیو ایم کے ذمے داروں نے وحدت المسلمین سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ببرلو بائی پاس پر دیے جانے والے دھرنے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ شرکاء کو ضروری سامان بھی پہنچایا۔


اب چلتے ہیں لانگ مارچ کی جانب، جسے تحریک منہاج القرآن کی طرف سے سسٹم کی تبدیلی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ مقامی سطح پر بھی لانگ مارچ کے لیے تیاریوں کے نتیجے میں کئی افراد ٹرین اور بسوں کے ذریعے لانگ مارچ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سلسلے میں یہاں خاصی گہماگہمی دیکھنے میں آئی تھی، لیکن کوئٹہ کے سانحے نے سکھر میں بھی فضاء سوگ وار کر دی، جس کے بعد وحدت المسلمین اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیاگیا۔ مظاہرین نے ببرلو بائی پاس، روہڑی ریلوے اسٹیشن ٹریک پر دھرنا دے کر ٹریفک اور ٹرینوں کی آمد و رفت معطل کردی، جب کہ مختلف امام بارگاہوں سے ریلیاں نکالی گئیں۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے وحدت المسلمین سے اظہار یک جہتی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

پی پی پی کے گڑھ نو ڈیرو، لاڑکانہ میں 15جنوری کو مسلم لیگ ن کا جلسۂ عام پچھلے دنوں میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد ملتوی کردیا گیا۔ ایک عرصے بعد مسلم لیگ سکھر کے ضلعی راہ نما سرور لطیف، شہزادو بھٹو و دیگر انتہائی متحرک نظر آئے تھے اور انھوں نے مختصر وقت میں ضلع کی مختلف یونین کونسلوں میں کارکنوں، ذمے داروں کو فعال بنایا تھا۔ تاہم اس افسوس ناک واقعے کے بعد انھیں خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر نادر اکمل خان لغاری سکھر سمیت آس پاس کے علاقوں میں اپنی قیادت کے مابین اختلافات ختم کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔ انھوں نے کارکنوں سے ملاقات کرنے کے علاوہ گذشتہ دن ایک پریس میں کہا کہ سیاسی مفاد کے لیے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف بات کرنا قابل مذمت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سندھیوں کے الگ صوبے کی بات کر کے الطاف حسین نے عوام میں نفرتیں پھیلانے کی کوشش کی ہے، کراچی کو سندھ سے الگ کرنے اور سندھ کی وحدت پر وار کرنے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے، جس نے نچلی سطح سے مرکزی عہدوں تک باقاعدہ الیکشن کرائے ہیں، ہم نے حکومت سازی کے لیے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، انتخابات میں کسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے، نوجوان امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دے کر الیکشن کے اخراجات کے لیے پارٹی فنڈ سے رقم بھی فراہم کریں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کی جانب سے 'سیاسی ڈرون حملے' نے بالائی سندھ میں اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر متحرک کردیا ہے، جو عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو سکھر سے پی ایس ون پر مشکلات سے دوچار کریں گے۔
Load Next Story