جوڑ توڑ اور انتخابی ٹکٹ کے لیے بھاگ دوڑ
قومی اسمبلی کے حلقۂ 222 سے پیپلز پارٹی کے امیدوارنوید قمر کے متوقع مدمقابل امیدوار پیرسجادجان سرہندی ہیں۔
ٹنڈو محمد خان کی سیاسی صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخالف قوتوں کے لیے عام انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ٹنڈو محمد خان کے صوبائی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 53 پر پیپلز پارٹی کا مخالف ووٹ ماضی میں تین اضلاع حیدرآباد، ٹھٹہ اور بدین پر بٹا ہوا تھا۔ وہاں کی سیاست میں سرگرم میر اعجاز علی ٹالپر، میر مشتاق علی ٹالپر، سید قبول محمد شاہ، پیر سجاد جان سرہندی اور قوم پرست پارٹیاں اس ووٹ بینک پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ چند ماہ قبل پیر پگارا نے فنکشنل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر پی پی پی کی مخالف قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں وہ کافی کام یاب بھی ہو گئے تھے، مگر جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں، یہ گروپ اختلافات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔
میر مشتاق علی ٹالپر نے تاحال نیشنل پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما کی اپنی شناخت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر ارباب غلام رحیم دور میں سندھ اسمبلی کے ممبر رہے ہیں اور اسی دور میں ٹنڈو محمد خان کو ضلع کا درجہ دلانے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ 2013 کے متوقع عام انتخابات میں بھی میر مشتاق علی ٹالپر کی کوشش ہے کہ ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر یا وہ خود پی ایس 53 پر امیدوار ہوں، جس کے لیے اطلاعات کے مطابق میر علی نواز ٹالپر کے چچا اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست میر غلام اللہ ٹالپر، پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت سے رابطے میں ہیں۔
اگر پی پی پی کی جانب سے انھیں پی ایس 53 کے لیے امیدوار نام زد کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی تو میر غلام اللہ ٹالپر اور ان کے بھتیجے میر علی نواز ٹالپر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اگر پی پی پی سے ان کی ایڈجسٹمنٹ نہ ہو سکی تو ممکن ہے کہ میر علی نواز ٹالپر فنکشنل مسلم لیگ اور نیشنل پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ تاہم یہ ایڈجسٹمنٹ سابق سینیر وزیر میر اعجاز علی ٹالپر اور سابق ضلعی ناظم میر عنایت علی ٹالپر کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کیوں کہ صرف نیشنل پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے، جب کہ اس نشست پر سیاسی حلقوں میں میر عنایت علی ٹالپر کو پی پی پی کے مقابلے پر سب سے مضبوط امیدوار مانا جاتا ہے۔ اسی حلقے سے سندھ ترقی پسند پارٹی بھی اپنے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری کو امیدوار نام زد کر چکی ہے۔ قوم پرست تنظیموں کو توقع ہے کہ وہ اس حلقے کے ووٹروں کی مدد سے پی پی پی کے خلاف کام یاب ہو جائیں گے۔ تاہم سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ آسان نہیں ہو گا۔ اس حلقے پر عام انتخابات کے لیے اپنے امیدوار سے متعلق پی پی پی کی پالیسی تاحال واضح نہیں ہے۔
اس حلقے سے منتخب رکن سندھ اسمبلی، سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کو ایک سال بیت چکا ہے اور اسمبلی میں یہاں سے عوام کی نمایندگی کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔ 25 فروری 2012 کے ضمنی انتخابات میں سید محسن شاہ کی اہلیہ سیدہ وحیدہ شاہ بخاری کی کام یابی پولنگ افسر کو تھپڑ مارنے کے بعد گویا ہوا میں معلق ہے۔ سید محسن شاہ بخاری کے کزن سید اعجاز شاہ بخاری اس نشست پر پی پی پی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے باوجود ضمنی الیکشن کے التواء کے باعث انتخابی عمل تک نہیں پہنچے اور ابھی تک عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار کا حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ حکومتی دور میں اس حلقے کے دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ رکھی ہے جب کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ٹنڈو محمد خان سٹی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی حلقے میں شہر کی سول سوسائٹی اور تاجر برادری کے نمایندوں پر مشتمل تنظیم سٹیزن فورم نے گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی۔ تاہم گذشتہ پانچ سال سے اس تنظیم کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے سٹیزن فورم اور پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے اثرات متوقع عام انتخابات میں نظر آئیں گے۔
قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 222 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار، موجودہ وزیر دفاع سید نوید قمر کے متوقع مدمقابل امیدوار پیر سجاد جان سرہندی ہیں۔ وہ گذشتہ انتخابات میں شکست کے باوجود اپنے حلقے کے عوام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دیہی علاقوں کی چند یونین کونسلوں میں بھی ان کا اچھا خاصا سیاسی اثر ہے اور ان کے تین بھائی ارباب غلام رحیم کے دور میں یہاں کی یو سیز کے ناظم بھی رہے۔ انھوں نے خصوصی طور پر ٹنڈو محمد خان شہر میں آباد متعدد بڑی برادریوں سے تعلقات کو بڑھایا اور اسے مستحکم کیا اور اپنی فلاحی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مقامی نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا ہے۔ اس مرتبہ ان کے پاس پُرجوش نوجوانوں کی ایک پوری ٹیم موجود ہے، جو انتخابات میں اس حلقے کے شہری علاقوں میں ان کے لیے انتہائی موثر ثابت ہو گی۔
ٹنڈو محمد خان کے صوبائی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 53 پر پیپلز پارٹی کا مخالف ووٹ ماضی میں تین اضلاع حیدرآباد، ٹھٹہ اور بدین پر بٹا ہوا تھا۔ وہاں کی سیاست میں سرگرم میر اعجاز علی ٹالپر، میر مشتاق علی ٹالپر، سید قبول محمد شاہ، پیر سجاد جان سرہندی اور قوم پرست پارٹیاں اس ووٹ بینک پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ چند ماہ قبل پیر پگارا نے فنکشنل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر پی پی پی کی مخالف قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں وہ کافی کام یاب بھی ہو گئے تھے، مگر جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں، یہ گروپ اختلافات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔
میر مشتاق علی ٹالپر نے تاحال نیشنل پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما کی اپنی شناخت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر ارباب غلام رحیم دور میں سندھ اسمبلی کے ممبر رہے ہیں اور اسی دور میں ٹنڈو محمد خان کو ضلع کا درجہ دلانے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ 2013 کے متوقع عام انتخابات میں بھی میر مشتاق علی ٹالپر کی کوشش ہے کہ ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر یا وہ خود پی ایس 53 پر امیدوار ہوں، جس کے لیے اطلاعات کے مطابق میر علی نواز ٹالپر کے چچا اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست میر غلام اللہ ٹالپر، پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت سے رابطے میں ہیں۔
اگر پی پی پی کی جانب سے انھیں پی ایس 53 کے لیے امیدوار نام زد کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی تو میر غلام اللہ ٹالپر اور ان کے بھتیجے میر علی نواز ٹالپر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اگر پی پی پی سے ان کی ایڈجسٹمنٹ نہ ہو سکی تو ممکن ہے کہ میر علی نواز ٹالپر فنکشنل مسلم لیگ اور نیشنل پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ تاہم یہ ایڈجسٹمنٹ سابق سینیر وزیر میر اعجاز علی ٹالپر اور سابق ضلعی ناظم میر عنایت علی ٹالپر کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کیوں کہ صرف نیشنل پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے، جب کہ اس نشست پر سیاسی حلقوں میں میر عنایت علی ٹالپر کو پی پی پی کے مقابلے پر سب سے مضبوط امیدوار مانا جاتا ہے۔ اسی حلقے سے سندھ ترقی پسند پارٹی بھی اپنے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری کو امیدوار نام زد کر چکی ہے۔ قوم پرست تنظیموں کو توقع ہے کہ وہ اس حلقے کے ووٹروں کی مدد سے پی پی پی کے خلاف کام یاب ہو جائیں گے۔ تاہم سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ آسان نہیں ہو گا۔ اس حلقے پر عام انتخابات کے لیے اپنے امیدوار سے متعلق پی پی پی کی پالیسی تاحال واضح نہیں ہے۔
اس حلقے سے منتخب رکن سندھ اسمبلی، سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کو ایک سال بیت چکا ہے اور اسمبلی میں یہاں سے عوام کی نمایندگی کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔ 25 فروری 2012 کے ضمنی انتخابات میں سید محسن شاہ کی اہلیہ سیدہ وحیدہ شاہ بخاری کی کام یابی پولنگ افسر کو تھپڑ مارنے کے بعد گویا ہوا میں معلق ہے۔ سید محسن شاہ بخاری کے کزن سید اعجاز شاہ بخاری اس نشست پر پی پی پی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے باوجود ضمنی الیکشن کے التواء کے باعث انتخابی عمل تک نہیں پہنچے اور ابھی تک عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار کا حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ حکومتی دور میں اس حلقے کے دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ رکھی ہے جب کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ٹنڈو محمد خان سٹی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی حلقے میں شہر کی سول سوسائٹی اور تاجر برادری کے نمایندوں پر مشتمل تنظیم سٹیزن فورم نے گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی۔ تاہم گذشتہ پانچ سال سے اس تنظیم کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے سٹیزن فورم اور پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے اثرات متوقع عام انتخابات میں نظر آئیں گے۔
قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 222 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار، موجودہ وزیر دفاع سید نوید قمر کے متوقع مدمقابل امیدوار پیر سجاد جان سرہندی ہیں۔ وہ گذشتہ انتخابات میں شکست کے باوجود اپنے حلقے کے عوام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دیہی علاقوں کی چند یونین کونسلوں میں بھی ان کا اچھا خاصا سیاسی اثر ہے اور ان کے تین بھائی ارباب غلام رحیم کے دور میں یہاں کی یو سیز کے ناظم بھی رہے۔ انھوں نے خصوصی طور پر ٹنڈو محمد خان شہر میں آباد متعدد بڑی برادریوں سے تعلقات کو بڑھایا اور اسے مستحکم کیا اور اپنی فلاحی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مقامی نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا ہے۔ اس مرتبہ ان کے پاس پُرجوش نوجوانوں کی ایک پوری ٹیم موجود ہے، جو انتخابات میں اس حلقے کے شہری علاقوں میں ان کے لیے انتہائی موثر ثابت ہو گی۔