لانگ مارچ اور وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات

طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات کی ٹائمنگ ہر جگہ موضوع بحث بنی ہوئی ہے

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات نے ہر جانب بھونچال پیدا کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے واقع ڈی چوک میں جب ڈاکٹر طاہر القادری لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے۔

عین اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان نے رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا جب حکم دیا تو اس اقدام نے ملک بھر میں ایک بھونجال پیدا کردیا ہے، لانگ مارچ کے شرکاء تک جب وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات کی خبر پہنچی تو لانگ مارچ کے شرکاء کے جذبات دیدنی تھے، ہزاروں لوگ سجدے میں گرگئے اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے فلک شگاف آواز میں سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگائے ۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات کی ٹائمنگ ہر جگہ اس وقت موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ چودہ مارچ کی رات کو جب ڈاکٹر طاہرلقادری،وزیر اعظم،صدر مملکت اور پوری کابینہ کو اپنے خطاب میں سابق کہہ رہے تھے تو کوئی ان باتوں پر ظاہری طور پر یقین نہیں کررہا تھا مگرکچھ گھنٹون بعد سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات دے دیئے۔ ڈاکٹر طاہرلقادری کو جب بلٹ پروف کنٹینر پر دوران خطاب بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ فرط جذبات سے نشست پر سے اٹھ گئے اور کہا کہ آدھا کام ہوگیا ہے اورآدھا کام کل ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ کسی کرپشن کیس میں وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہ سپریم کورٹ کا اہم ترین فیصلہ ہے جس کے ملکی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہونگے، سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی وجہ سے ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو سکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کے احکامات پر راجہ پرویز اشرف کو نیب حکام گرفتار کرتے ہیں یا نہیں، آئینی ماہرین وزیراعظم کی گرفتاری کے احکامات بارے دو قسم کی آراء پیش کررہے ہیں کہ گرفتاری کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہیں گے جبکہ بعض ماہرین قانون کہہ رہے ہیں کہ کرپشن میں راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے بعد وہ اس عہدے پر نہیں رہ سکتے۔


ڈاکٹر طاہرلقادری کے لانگ مارچ نے اسلام آباد میں نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے کاروباری مراکز،سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے اور دیگر تمام ادارے عملا بند ہو کر رہ گئے تھے۔اسلام آباد شہر مکمل طور پر ایک چھاونی کا منظر پیش کررہا ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری بڑی حد تک لوگوں کی ایک معقول تعداد میں جناح ایونیو میں لانے میں کامیاب رہے ہیں،ان سطور کی تحریر تک لانگ مارچ مکمل طور پر پرامن ہے اگر اس لانگ مارچ میں تشدد کا عنصر شامل ہو گیا تو بڑی تباہی آسکتی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے لانگ مارچ کے شرکاء سے کئی بار حلف لیا کہ وہ کسی صورت یہاں سے واپس نہیں جائیں گے اور اگر کوئی واپس گیا تو وہ سب سے بڑا ظالم ہو گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ حکومت کے خلاف ایک جامع چارچ شیٹ پیش کردی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مطالبات کی منظوری تک لانگ مارچ ختم نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے، وفاقی حکومت عملی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے سات نکاتی ایجنڈا پیش کردیا ہے، پہلا نقطہ ملک کے اندر اور باہر امن کا قیام اور ساتواں نقطہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے بلاشبہ اقتدار کے ایوانوں پر ایک لرزہ طاری کردیا ہے ہر طرف بے یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں، اگر چہ ڈاکٹر طاہرالقادری بار بار اعلان کررہے ہیں کہ لانگ مارچ سے ایک گملا بھی نہیں ٹوٹے گا، ہم خود لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کریں گے اور زبردستی اور بندوق گولی کے زور پر اقتدار پر قبضہ نہیںکریں گے اور نہ انارکی پھیلائیں گے اور نہ ہی توڑ پھوڑ کریں گے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات اگر تسلیم نہ کئے گئے اور شرکاء ریڈ زون کے اندر جانے پر بضد ہوئے تو جوابی کاروائی سے حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عالمی برادری تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے انگریزی میں بھی خطاب کیا اور اسی حکومت کو دہشت گردی کے واقعات کا کئی بار زمہ دار ٹھرایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے میاں نواز شریف کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ وقت بھول گئے جب رات کے اندھیرے میں عسکری قیادت سے ملاقات کرنے کیلئے جاتے تھے، امریکہ برطانیہ پاک فوج اور دیگر طاقتوں کی پس پردہ حمایت کے بارے میں لگائے گئے الزامات کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے سخت الفاظ میں مسترد کیا ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عدلیہ اور فوج کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ دو ادارے ہیں جو اپنے فرائض عمدگی سے ادا کررہے ہیں۔

پاک فوج کے دہشتگردی کے خلاف اقدامات کو انھوں نے کئی بار شاندار الفاط میں خراج تحسین پیش کیا۔ ہزاروں شرکاء سے ڈاکٹر طاہرالقادری جب ایک جذباتی خطاب کے دوران اس مارچ کو عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے سے منسوب کررہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ عدلیہ امید کی کرن ہے اور ہم عدلیہ کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کرائیں گے۔ انہی لمحات کے دوران سپریم کورٹ کا ایک غیر معمولی فیصلہ آگیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو گرفتار کرنے میں اگر لیت ولعل سے کام لیا گیا تو سیاسی جماعتیں عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کریں گی ، بلاشبہ یہ لانگ مارچ اب حکومت پر دباو بڑھائے گا ۔

وزیر اعظم کی گرفتاری کو ایک مشکل مرحلہ سمجھا جارہا ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کے نتجے میں اہم تبدیلیوں اور سیاسی منظرنامہ بدلنے کی بابت قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں،عام انتخابات کے التواء اور ایک قومی حکومت کی تشکیل کے بارے میں خدشات اور وسوسے ظاہر کئے جارہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس لانگ مارچ کا منطقی انجام کیا ہوتا ہے، لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد کے بارے میں متضاد دعوے کئے جارہے ہیں ، ڈاکٹر طاہرالقادری شرکاء کو چار ملین کہہ رہے ہیں جبکہ دیگر ذرائع کچھ اور دعوی کر رہے ہیں۔
Load Next Story