ایم کیو ایم کی لانگ مارچ سے علیحدگی
پاکستانی معاشرہ عمودی اور افقی طور پر تقسیم در تقسیم ہے ۔ دھرنوں اور لانگ مارچز کا رجحان انتہائی خطرناک ہے۔
پورے ملک کی طرح سندھ کے لوگ بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ تحریک منہاج القرآن کے لانگ مارچ کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں بھی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں۔ سندھ کی کسی بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعت کی طرف سے لانگ مارچ میں شرکت نہیں کی گئی اور سندھ کے لوگ بھی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہیں۔ اگر کچھ لوگ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں سے انفرادی طور پر لانگ مارچ میں شرکت کے لئے گئے ہوں گے تو ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔ پورے صوبے میں تحریک منہاج القرآن کے مطالبات کے حق میں عوام میں کوئی جوش وخروش نہیں پایاجاتا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن اور اس کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ سے سندھ مجموعی طور پر لاتعلق ہے۔ اگر اس لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی غیر آئینی تبدیلی رونما ہوتی ہے یا جمہوری تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو اس پر سندھ میں شدید غم وغصہ پیدا ہوسکتا ہے۔
کیونکہ سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کو سندھ کے عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ یہ غیر جمہوری قوتوں کی سازش ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) نے پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تیاریاں بھی شروع کردی تھیں۔ لانگ مارچ کے لئے لوگوں سے رضاکارانہ طور پر چندہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ کراچی شہر میں بینرز اور پوسٹرز بھی لگادیئے گئے تھے۔ جن میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ انقلاب کے لئے اسلام آباد چلیں۔ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے مرکز نائن زیرو بلاکر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب بھی کرایا تھا۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم اور تحریک منہاج القرآن دو جسم اور ایک روح ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی جلسے میں کہا تھا کہ جو کچھ تحریک منہاج القرآن چاہتی ہیں، وہی پروگرام ایم کیو ایم کا ہے ۔ اس جلسہ کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے تھے اور یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ حکومت سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء میں ترامیم پر غور کررہی ہے۔ یہ وہ قانون ہے جس کے بارے میں سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام نافذ کردیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی نے بقول ان اپوزیشن جماعتوں کے ایم کیو ایم کے کہنے پر سندھ کو عملاً تقسیم کردیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس دوران ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے کئے اور اسے لانگ مارچ میں شرکت سے روکنے کے لئے بات چیت کی۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، وزیرداخلہ رحمن ملک اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی کراچی آکر ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات میں صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ٹیلی فون پر مسلسل رابطے میں رہے اور بالاآخر لانگ مارچ سے دو روز قبل ایم کیو ایم نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایم کیو ایم تحریک منہاج القرآن کی اخلاقی حمایت جاری رکھے گی یعنی ایم کیو ایم نے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ ایم کیو ایم اس بات کو ضرور مدنظر رکھے گی کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد ختم ہونے کی صورت میں اس کے سندھ میں سیاسی اہداف متاثر نہ ہوں۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد اچانک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نموردار ہوئے اور چھاگئے۔ کسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ طاہر القادری پاکستان کی سیاست میں اس طرح کا کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس کے لئے پہلے سے تیاریاں ہورہی ہوں گی اور مختلف اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تیاریوں میں مصروف رہی ہوں گی لیکن کسی کو پتہ نہیں چلا ۔اس اچانک پیدا ہونے والی صورتحال سے سندھ کے لوگ سکتے میں آگئے ہیں لیکن یہ نظر آرہا ہے کہ اگر جمہوری عمل کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو سندھ کے عوام اسے ہضم نہیں کرسکیں گے ۔ سندھ نے پاکستان میں جمہورت کی بحالی اور وفاق کے استحکام کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔
سندھ کی مزاحمتی تحریک ابھی تک اپنی قوت کے ساتھ جاری ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادی کی سندھ میں کوئی سیاسی جڑیں نہیں ہیں اور سندھ کسی بھی طرح اس نام نہاد انقلاب میں ملوث نہیں ہے ۔ سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے زخم ابھی تازہ ہیں ۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے اثرات بھی سندھ کی تہذیب و ثقافت پر نمایاں ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور سندھ کے ہزاروں جمہوری کارکنوں کے قتل پر غم و غصہ کی شدت ابھی کم نہیں ہوئی ہے جس جمہوریت کے لئے سندھ کے لوگوں نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں اس جمہوریت کی بحالی کو وہ انقلاب تصور کرتے ہیں اور اس جمہوریت کے خلاف ہونے والی ہر کوشش کو وہ رد انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اگر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لئے لانگ مارچ اور دھرنوں کے اس نئے طریقے کو آزمایا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان میں کئی مذہبی ،سیاسی ، فرقہ وارانہ ،لسانی اور قوم پرست قوتوں کے پاس دھرنے اور لانگ مارچ کے لئے طاہر القادری سے زیادہ افرادی قوت ہے ۔ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ پاکستانی معاشرہ عمودی اور افقی طور پر تقسیم در تقسیم ہے ۔ دھرنوں اور لانگ مارچز کا رجحان انتہائی خطرناک ہے ۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پہلے ہی اس بات پر شدید غم و غصہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو نہیں چلنے دیا جارہا، اب اگر تحریک منہاج القرآن کا یہ دھرنا کسی غیر آئینی تبدیلی یا منتخب نمائندوں سے نگراں حکومت کے قیام کے اختیارات چھیننے کا سبب بنا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پھر دھرنا اسلام آباد میں نہیں بلکہ بین الصوبائی سرحدوں پر دھرنے دیئے جائیں ۔ اس قسم کی صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے پاکستان کے مقتدر حلقے ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں ۔ عوام کی مقبول سیاسی اور قوم پرست جماعتیں اس قدر کمزور نہیں ہیں جس طرح انہیں ظاہر کیا جارہا ہے .
سیاسی جماعتیں بھی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں۔ سندھ کی کسی بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعت کی طرف سے لانگ مارچ میں شرکت نہیں کی گئی اور سندھ کے لوگ بھی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہیں۔ اگر کچھ لوگ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں سے انفرادی طور پر لانگ مارچ میں شرکت کے لئے گئے ہوں گے تو ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔ پورے صوبے میں تحریک منہاج القرآن کے مطالبات کے حق میں عوام میں کوئی جوش وخروش نہیں پایاجاتا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن اور اس کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ سے سندھ مجموعی طور پر لاتعلق ہے۔ اگر اس لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی غیر آئینی تبدیلی رونما ہوتی ہے یا جمہوری تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو اس پر سندھ میں شدید غم وغصہ پیدا ہوسکتا ہے۔
کیونکہ سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کو سندھ کے عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ یہ غیر جمہوری قوتوں کی سازش ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) نے پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تیاریاں بھی شروع کردی تھیں۔ لانگ مارچ کے لئے لوگوں سے رضاکارانہ طور پر چندہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ کراچی شہر میں بینرز اور پوسٹرز بھی لگادیئے گئے تھے۔ جن میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ انقلاب کے لئے اسلام آباد چلیں۔ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے مرکز نائن زیرو بلاکر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب بھی کرایا تھا۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم اور تحریک منہاج القرآن دو جسم اور ایک روح ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی جلسے میں کہا تھا کہ جو کچھ تحریک منہاج القرآن چاہتی ہیں، وہی پروگرام ایم کیو ایم کا ہے ۔ اس جلسہ کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے تھے اور یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ حکومت سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء میں ترامیم پر غور کررہی ہے۔ یہ وہ قانون ہے جس کے بارے میں سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام نافذ کردیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی نے بقول ان اپوزیشن جماعتوں کے ایم کیو ایم کے کہنے پر سندھ کو عملاً تقسیم کردیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس دوران ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے کئے اور اسے لانگ مارچ میں شرکت سے روکنے کے لئے بات چیت کی۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، وزیرداخلہ رحمن ملک اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی کراچی آکر ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات میں صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ٹیلی فون پر مسلسل رابطے میں رہے اور بالاآخر لانگ مارچ سے دو روز قبل ایم کیو ایم نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایم کیو ایم تحریک منہاج القرآن کی اخلاقی حمایت جاری رکھے گی یعنی ایم کیو ایم نے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ ایم کیو ایم اس بات کو ضرور مدنظر رکھے گی کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد ختم ہونے کی صورت میں اس کے سندھ میں سیاسی اہداف متاثر نہ ہوں۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد اچانک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نموردار ہوئے اور چھاگئے۔ کسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ طاہر القادری پاکستان کی سیاست میں اس طرح کا کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس کے لئے پہلے سے تیاریاں ہورہی ہوں گی اور مختلف اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تیاریوں میں مصروف رہی ہوں گی لیکن کسی کو پتہ نہیں چلا ۔اس اچانک پیدا ہونے والی صورتحال سے سندھ کے لوگ سکتے میں آگئے ہیں لیکن یہ نظر آرہا ہے کہ اگر جمہوری عمل کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو سندھ کے عوام اسے ہضم نہیں کرسکیں گے ۔ سندھ نے پاکستان میں جمہورت کی بحالی اور وفاق کے استحکام کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔
سندھ کی مزاحمتی تحریک ابھی تک اپنی قوت کے ساتھ جاری ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادی کی سندھ میں کوئی سیاسی جڑیں نہیں ہیں اور سندھ کسی بھی طرح اس نام نہاد انقلاب میں ملوث نہیں ہے ۔ سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے زخم ابھی تازہ ہیں ۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے اثرات بھی سندھ کی تہذیب و ثقافت پر نمایاں ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور سندھ کے ہزاروں جمہوری کارکنوں کے قتل پر غم و غصہ کی شدت ابھی کم نہیں ہوئی ہے جس جمہوریت کے لئے سندھ کے لوگوں نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں اس جمہوریت کی بحالی کو وہ انقلاب تصور کرتے ہیں اور اس جمہوریت کے خلاف ہونے والی ہر کوشش کو وہ رد انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اگر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لئے لانگ مارچ اور دھرنوں کے اس نئے طریقے کو آزمایا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان میں کئی مذہبی ،سیاسی ، فرقہ وارانہ ،لسانی اور قوم پرست قوتوں کے پاس دھرنے اور لانگ مارچ کے لئے طاہر القادری سے زیادہ افرادی قوت ہے ۔ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ پاکستانی معاشرہ عمودی اور افقی طور پر تقسیم در تقسیم ہے ۔ دھرنوں اور لانگ مارچز کا رجحان انتہائی خطرناک ہے ۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پہلے ہی اس بات پر شدید غم و غصہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو نہیں چلنے دیا جارہا، اب اگر تحریک منہاج القرآن کا یہ دھرنا کسی غیر آئینی تبدیلی یا منتخب نمائندوں سے نگراں حکومت کے قیام کے اختیارات چھیننے کا سبب بنا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پھر دھرنا اسلام آباد میں نہیں بلکہ بین الصوبائی سرحدوں پر دھرنے دیئے جائیں ۔ اس قسم کی صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے پاکستان کے مقتدر حلقے ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں ۔ عوام کی مقبول سیاسی اور قوم پرست جماعتیں اس قدر کمزور نہیں ہیں جس طرح انہیں ظاہر کیا جارہا ہے .