سانحہ کوئٹہ صبر اور جمہوریت کی جیت

ہمارے یہاں تشدد اور تصادم کی فضا ہے لیکن ہم نے ہندوستان میں عدم تشدد کے شاندار مظاہرے دیکھے ہیں

zahedahina@gmail.com

کراچی میں ٹھنڈک کی لہر کوئٹہ سے آتی ہے لیکن اس بار اس لہر میں ہلاک کیے جانے والے بے گناہوں کے بدن کی ٹھنڈک اور ان کے سوگواروں کے آنسوئوں کی خنکی بھی ہے جو اس لیے موت کا نوالہ بنے کہ وہ اکثریت سے تعلق نہ رکھتے تھے۔

کھلے آسمان کے نیچے برفیلے پہاڑوں سے آنے والی تیز ہوائوں کو سہتے ہوئے ان کشتگان ناحق کے 87 بے گور لاشے، انصاف کی دہائی دینے والے ماتم داروں کے حلقے میں رکھے رہے اور اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ کوئی تو ان کی فریاد سنے۔ کوئی تو ان کے لیے انصاف کا پروانہ لائے۔ جانے والوں نے چار دن بعد اب خاک کی چادر اوڑھ لی ہے اور ان کے پرسہ دار ظالموں کے درمیان رہتے ہوئے سوچتے ہیں، شاید ایک دوسرے سے یہ کہتے بھی ہوں کہ وہ اس سنگ دل سماج میں کیوں پیدا ہوئے۔

ان دنوں ہمارے یہاں تشدد اور تصادم کی فضا ہے لیکن بیسویں صدی میں ہم نے ہندوستان میں عدم تشدد کے شاندار مظاہرے دیکھے ہیں۔ یہ دیکھا ہے کہ ہزاروں کا مجمع ہے جس کے ہاتھ میں ایک پتھر اور ایک لاٹھی نہیں اور وہ مسلح سپاہیوں،گھڑ سوار دستوں کے سامنے ہے۔ ان پر لاٹھی چارج ہوا، آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے ، گولیاں چلیں، لوگ گرفتار ہوئے، لیکن کسی نے اپنے ساتھ تشدد کرنے والوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ایسا ایک بار نہیں، بار بار ہوا۔ عدم تشدد کے اس رویے نے سپاہیوں اور تشدد کرنے والوں کو کس طرح بوکھلایا اس کی تفصیل پڑھنی ہے تو برصغیر کی آزادی کی اس تاریخ کو پڑھیے جو عدم تشدد کا شاندار ورثہ ہے۔ یہ وہ عدم تشدد تھا جس نے متشدد برطانوی راج کے قدم اکھاڑ دیے ۔

کوئٹہ کی ایک شاہراہ پر جو لوگ اپنے پیاروں کے تابوت لے کر بیٹھے، انھوں نے غم و اندوہ، گہری آزردگی اور تنائو کے باوجود صبر کیا۔ وہ ظالموں سے تصادم میں نہ گئے۔ سر جھکاکر انتظار کرتے رہے جب حکمرانوں کے اعصاب ٹوٹ جائیں اور وہ ان کے پاس چل کر آئیں۔ ان کے اس مطالبے پر عمل کریں کہ مظلوموں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ انھوں نے تابوت میں سونے والوں کا نہ خون بہا طلب کیا، نہ قصاص۔ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے نوجوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں نے صبر اور ضبط کو جس طرح ہتھیار بنایا اور اخلاقی میدان میں اپنے قاتلوں اور اپنے نااہل حکمرانوں کو جس طرح شکست دی ، وہ یادگار رہے گی۔ فیض جب منٹگمری جیل میں تھے توانھوں نے ایک نظم ''دریچہ'' لکھی تھی۔ وہ یادآتی ہے۔

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتلِ مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر وجمال
لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں

ہمارے یہاں شہید جسموں کو اٹھانے کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی تاریخ۔ اب چند برسوں سے مختلف مسالک بالخصوص شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو جس طرح چن چن کر قتل کیا گیا، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایسی آگ بھڑکتی جو بجھائے نہ بجھتی۔ یہ قتل کروائے بھی اسی لیے گئے کہ کسی طرح ملک کی بُنت کو ادھیڑ کر ڈال دیا جائے اور اس کی شریانیں کاٹ دی جائیں۔ لیکن ابھی تک صبر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاکتوں کا نشانہ بننے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ وہ ملکی اور غیر ملکی عناصر کروار رہے ہیں جو اس ملک میں مخصوص مفادات رکھتے ہیں اور جس کی نیابتی جنگ خاص طور پر بلوچستان میں لڑی جارہی ہے۔ 2007 میں بے نظیر بھٹو اور سیکڑوں لوگوں کے لہو میں غلطاں جس جمہوریت نے 2008 میں ظہور کیا، جس کی نااہلیوں پر ہم سب نوحہ کناں ہیں، اس کے باوجود سب ہی جانتے ہیں کہ آخر کار انتخابات اور ایک منتخب آئینی اور جمہوری حکومت ہی لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ صبر کیا جارہا ہے ۔ وہ جو دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں انھیں سب کچھ معلوم ہے اور اپنے منصوبوں میں ناکام ہونے والوں کا غصہ اپنی انتہائوں کو پہنچ رہا ہے۔

وہ جو اپنے تابوتوں میں سے آسمان کو تک رہے تھے اور انصاف کے طلب گار تھے، ان میں سے ایک 33 برس کا عرفان علی بھی تھا، وہ بہت دنوں سے ناانصافی کا شکار ہونے والی اپنی ہزارہ برادری کے لوگوں کو حق و انصاف دلانے کے لیے لڑرہا تھا۔وہ انسانی حقوق اور امن کی تحریک کا ایک سرگرم کارکن تھا۔ اسے جب پہلے دھماکے کی خبر ملی تو وہ اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ دوڑ کر وہاں پہنچا۔ وہ زخمیوں کو بچانے گیا تھا لیکن دوسرے بم دھماکے نے اسے اس وقت شکار کیاجب وہ دوسروں کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ وہ دوسروں کے کام آتا تھا اور آخری سانس بھی اس نے دوسروں کو بچاتے ہوئے لی۔ چار دن بعد اب اسے بھی خاک کے بستر پر آرام آیاہے۔ ایسا آرام جو اس کے دوستوں کو اور ان لوگوں کو بھی مضطرب کرگیا ہے جو اس سے واقف نہ تھے۔ وہ سو گیا ہے اور ہم سے رواداری، امن اور انسانی حقوق پر ایمان رکھنے والوں کوحوصلہ عطا کرگیا ہے۔

مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ہلاکتیں کس حد کو پہنچ چکی ہیں ، اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف 2012میں فرقہ وارانہ حملوں کی تعداد 1,577 تھی جن میں 2,050 لوگ ہلاک اور 3,822 زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ کراچی، کوئٹہ، کرم ایجنسی اور گلگت کے لوگ بنے۔ ہزارہ قبیلے کے لوگوں کو بہ طور خاص نشانہ بنایا گیا۔ انھیں بسوں سے اتار کر اور شناخت کرکے ہلاک کیا گیا۔ کوئٹہ کی حالیہ دہشت گردی فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی بدترین مثال ہے۔ ہزارہ قبیلہ کیا کرتا؟ وہ ہتھیار اٹھا سکتے تھے، وہ بھی خون کے دریا بہا سکتے تھے، لاشیں بچھانی انھیں بھی آتی تھیں۔ لیکن انھیں سلام کہ انھوں نے صبر کیا اور اپنے پیاروں کے لاشے لے کر خاک پر بیٹھے رہے اور انتظار کرتے رہے۔ انھوں نے انتظار اور صبر کی انتہا کردی۔ انھوں نے نااہل حکمرانوں کو اخلاقی شکست دے دی۔ ایک گولی چلائے بغیر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ تشدد اور دہشت گردی کے اس ہنگام میں سب سے مؤثر فلسفہ عدم تشدد ہے۔ عدم تشدد جس کے سامنے بڑے بڑے شداد ہار جاتے ہیں۔

اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے کہ جمہوری نظام میں ہی پُرامن طور پر مکالمے کے ذریعے معاملات اور مطالبات طے کیے جاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم جناب پرویز اشرف جب ہزارہ برادری کے معززین سے مذاکرات میںمصروف تھے تو ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب دھیمے اور نرم مزاج والے وزیر اطلاعات بھی اعصابی تنائوکا شکار ہوکر یہ کہہ بیٹھے کہ وزیر اعظم سے ڈائیلاگ نہیں کیا جاتا، جس پر ایک نوجوان نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سے ڈائیلاگ کیوں نہیں ہوسکتے۔ کیا یہ وائسرائے ہیں۔ اس موقعے پر ہزارہ برادری کے بزرگوں نے نوجوان سے کہا کہ جب بڑے مصروف گفتگو ہوں تو چھوٹے نہیں بولتے۔ اس مرحلے پر وزیر اعظم اور قمر زمان کائرہ نے بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔

آج جو لوگ جمہوریت اور آئین کو یکسر پامال کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل پاکستان میں مکالمے کے خاتمے اور تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔
Load Next Story