امن تو بہر حال قائم کرنا ہی ہو گا

آج بھی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت مل کر جامع منصوبہ بنائیں تو طالبان کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے۔

کسی دوسرے کا درد کوئی کیا جانے؟ یہ درد تو اسی کو محسوس ہوتا ہے جس کے گھر سے جنازہ اٹھتا ہے۔ جن مائوں کے جوان لال مارے جائیں، خواتین کے سہاگ اجڑ جائیں، بہنوں کے بھائی موت کا نوالہ بن جائیں اور بیٹیوں کے باپ ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں، ان کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہو گا؟ کہیں خود کش حملہ یا دھماکا ہوتا ہے۔

حملہ آور سمیت میرے ملک عزیز کے نجانے کتنے لوگ اندھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے کسی بھی واقعے کے بعد میرے ملک کے صاحب اقتدار حضرات بیان دیتے ہیں کہ عنقریب ہم دہشت گردی کو ختم کر دیں گے، لیکن کچھ ہی دن بعد اسی قسم کا کوئی اور سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ اب تک میرے وطن کے ہزاروں لوگ ان حملوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ صرف 2012 میں ایسے واقعات میں 2050 افراد جاں بحق اور 3822 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اچانک موت کا خوف الگ رہا جو ہر شہری کے دماغ پر سوار ہے۔

ایک عرصے سے خودکش حملوں اور دھماکوں کا عفریت منہ کھولے ہڑپ کرنے کو تیار ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی مضبوط لائحہ عمل سامنے آیا نہ ہی اس مصیبت سے چھٹکارہ پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی۔ جب کسی ایسے واقعے میں کوئی بڑی شخصیت نشانہ بنتی ہے تو چند دن کے لیے کچھ ہلچل نظر آتی ہے اور اس کے بعد ایک لمبی خاموشی چھا جاتی ہے۔

اگرچہ خودکش حملوں اور دھماکوں کا سہرا آمریت کے سر پر ہی بندھتا ہے لیکن اس کے بعد جمہوریت نے اقتدار سنبھالا وہ بھی تو اس کا کچھ حل نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ہر بار کہا جاتا ہے کہ ہم دشمن کو شکست سے دو چار کریں گے۔ لیکن شکست کون دے رہا ہے، روز لاشے گرانے والے یا لاشے اٹھا نے والے؟ کیا حملہ آوروں کا ہر بار اپنے ہدف کو نشانہ بنا لینا ان کی کامیابی نہیں ہے؟

حملے کرنے والے تو پوری تیاری سے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ وہ مضبوط منصوبہ بندی اور بلند عزم رکھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے مشن کو جان سے بھی عزیز تصور کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مشن پر جان بھی نچھاور کرنے کو تیار ہوں، بھلا ان کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے؟ ان کو عسکریت پسند کہیں، انتہا پسند کہیں یا پھر دہشت گرد کہیں، اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ لوگ تو اپنی بات پر سختی سے قائم ہیں۔ وہ نہ تو کسی کی مخالفت سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ساری دنیا نے جتنی ان کی مخالفت کی ہے اب تک تو ان کو عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ لیکن کسی کی مخالفت سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ جب کسی قسم کی سختی ان لوگوں کو نہیں روک سکتی تو پھر ان کو روکنے کے لیے کوئی دوسرا طریقہ اپنانا چاہیے۔


حکومت ان خودکش حملوں کی سب سے زیادہ ذمے دار تحریک طالبان پاکستان کو سمجھتی ہے، جن کو حکومت نے ذمے دار گردانا ان پاکستانی طالبان نے خود ہی مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے، اے این پی نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے، مولانا فضل الرحمن بھی اس پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت پر مذاکرات کا مثبت جواب دینے پر زور دے رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سے امن کی کوئی سبیل تو سجھائی دی۔ لیکن بعض لوگ امن قائم کرنے کے لیے آپریشن کرنے پر ہی زور دے رہے ہیں۔

ان کی یہ بات اس وقت تو ٹھیک ہو سکتی تھی کہ جب آپریشن سے امن بحال ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہوتی لیکن یہاں تو ایسی کوئی مبہم سی توقع بھی نہیں۔ حکومت اس سے پہلے طالبان کے خلاف کئی بار آپریشن کر چکی ہے لیکن حکومت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ آج تک نہ تو امن قائم ہوا ہے اور نہ ہی طالبان اپنے مشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹے ہیں اور قبائلیوں کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے، تاریخ کا مطالعہ اس بات کی شہادت دے سکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت قوت کے ساتھ کیونکر ان کو ان کے مشن سے پیچھے ہٹا سکتی ہے۔

بعض لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ طالبان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے کیونکہ انھوں نے غیر مسلح ہونے سے انکار کیا ہے۔ اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ طالبان حملوں سے سب سے زیادہ متاثر اے این پی ہے، جب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تو باقیوں کو بھی مذاکرات پر راضی ہو جانا چاہیے؟ حکومت نے طالبان کے خلاف جہاں ضرورت پڑی کارروائی کی۔ اس کے باوجود نتیجہ صفر ہی رہا ہے۔ اگر بغیر کون خرابے کے معاملہ حل ہو جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟

یہ بات بھی نہیں کہ طالبان سے مذاکرات ناممکن ہیں۔ ان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود بھی امن کے ہی خواہاں ہیں۔ امن قائم کرنے کی خاطر ان سے مذاکرات کر لینا شکست نہیں بلکہ دانشمندی ہے۔ اگر امریکا اور افغان حکومت متعدد بڑے بڑے لیڈروں کو قتل کرنے والے طالبان سے دس سال جنگ لڑنے کے بعد مذاکرات کر سکتے ہیں تو ہماری حکومت طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتی؟ اگر یہ کہا جائے کہ ماضی میں بھی مذاکرات ہوئے مگر کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا تو عرض یہ ہے کہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کہیں نہ کہیں فریق ہی ذمے دار ہیں، اس کے لیے فریقین کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔

اگر ہماری حکومت امریکا کی خوشی کے لیے مذاکرات نہیں کر رہی تو واضح رہے کہ امریکا تو جلد یا بدیر یہاں سے چلا جائے گا، اس کے بعد ہم نے ہی مل کر رہنا ہے، امریکا تو چاہتا ہے کہ پاکستان میں امن قائم نہ ہو، اسی لیے جب سے طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی ہے اس وقت سے امریکا نے پاکستان پر ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ہم طالبان سے اپنے تعلقات بہتر نہیں کرتے تو بدامنی میں گزارہ کیسے ہو گا؟ اور طالبان کو ختم کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے باآسانی امن کے قیام کے لیے جو موقع بھی ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔

آج بھی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت مل کر جامع منصوبہ بنائیں تو طالبان کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے۔ عسکری قیادت نے بھی طالبان سے مذاکرات کی ذمے داری سیاسی قیادت پر ڈال دی ہے۔ اب حکومت کو پوری ذمے داری سے اس معاملے کو نمٹانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلائے، جس میں سینئیر صحافیوں، تمام مسالک کے علماء، سیاسی و مذہبی رہنمائوں کو بلایا جائے۔ تا کہ سب مل کر کوئی حل تلاش کریں، کیونکہ یہ ملک یہاں کے ہر شہری کا ہے، ہر ایک کو مل کر ہی اس ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے اور ایسا کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے جس میں سب کی بھلائی ہو۔ اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات نہیں کرنے تو نہ کرے، لیکن پاکستان میں امن قائم کرنا بہرحال حکومت کی ہی ذمے داری ہے، اگر مذاکرات کے بغیر امن قائم ہو سکتا ہے تو امن قائم کر لیا جائے، جس طرح بھی ممکن ہو پاکستانی عوام کو تو پاکستان میں امن چاہیے۔
Load Next Story