مظلوم گھریلو ملازمین
گھریلو ملازمین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے یہ واقعات نہ جانے کب سے پیش آرہے ہیں
پولیس نے شہر قائد کراچی کے پوش علاقہ ڈیفنس کے ایک بنگلے پر چھاپہ مار کر ایک گیارہ سالہ بچے علی اصغرکو 23 مارچ کے اس تاریخ ساز دن بازیاب کرایا جب قوم یوم پاکستان منا رہی تھی۔ گھر کے مالک میاں بیوی کو بھی گرفتار کرلیا گیا جو کمسن ملازم پر تشدد کرنے کے الزام میں ملوث تھے۔
پولیس کا کہناہے کہ ملازم بچے کے جسم پر ظلم وتشدد کے نشانات موجود پائے گئے۔ ملازم لڑکے کے والد نے جو بدین کا رہنے والا ہے یہ اطلاع دی تھی کہ اس کا بیٹا ایک گھر میں کام کرتا ہے جس کے مالکان اس کے گھر والوں سے مل کر آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ لڑکے کے والد نے انھیں شکایت میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کے بیٹے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
گھریلو ملازمین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے یہ واقعات نہ جانے کب سے پیش آرہے ہیں مگر ان کے منظر عام پر آنے کا سلسلہ ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے جس کا کریڈٹ ہماری میڈیا کو جاتا ہے۔ ظلم و ستم کی یہ داستانیں کراچی اور لاہور سے لے کر اسلام آباد اور ملتان سمیت ہر بڑے شہرکے پوش علاقوں میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔
آپ کسی بھی بڑے گھرانے میں چلے جائیں یہ مظلوم غلام آپ کو مشروبات پیش کرتے ہوئے اور محلات نما بنگلوں اور کوٹھیوں میں جھاڑو پوچا کرتے ہوئے نظر آئیں گے یا گندے برتن دھوتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بے کسی، بے بسی اور مظلومیت آپ کو ان بد نصیبوں کے چہروں سے ٹپکتی ہوئی صاف نظر آئے گی۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو مالک کی ڈانٹ پھٹکارکی صورت میں ان کی غیرت اورعزت نفس کا جنازہ بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دے اور ان کی خاموش لمبوں سے پھوٹتی ہوئی یہ صدا بھی سنائی دے:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجائوں یہ مرضی میرے صیادکی ہے
آپ کسی بڑے شاپنگ مال میں چلے جائیں یا کسی فیشن ایبل مارکیٹ میں داخل ہوجائیں وہاں بیگمات کی غلامی میں مصروف آپ کی نظریں ان کے لاڈلوں کو اپنی گود میں اٹھائے ان ابھاگنوں پر ضرور پڑیںگی جو ان کے بچوں کے اسٹرالرز بھی کھینچ رہے ہوں گے۔ اگر آپ کسی اچھے ریستوران میں چلے جائیں تو وہاں آپ کو بڑے لوگوں کی فیملیاں خوش گپیاں لڑاتی ہوئی اور طرح طرح کی خوش ذائقہ ڈشوں سے لطف اندوز ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہوںگی اور یہ مظلوم غلام کچھ ہی فاصلے پر اچھوتوں کی طرح انھیں حسرت سے تکتے ہوئے نظر آئیںگے۔ ذرا سوچیے کہ اس وقت ان بے کسوں کے دلوں پر کیا کیفیت گزر رہی ہوگی۔ ہائے! ہائے!
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
وطن عزیز کے امرا و رئوساء کے گھرانوں میں غربت وافلاس کے ماری ہوئی پیاری پیاری بچیاں گھریلو ملازمائوں کی شکل میں اپنا بچپن قربان کررہی ہیں، جس کے عوض انھیں محض چند سو روپے بطور معاوضہ ادا کیے جاتے ہیں۔ نہ ان کے دکھ بیماری سے مالکان کوکوئی غرض ہے نہ ان کی پریشانیوں سے کوئی واسطہ۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے بقول غالب:
پڑیے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجایے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
گھر کے کوڑے کچرے کی صفائی یہ کریں، گندے کپڑے یہ دھوئیں اور بیگم صاحبہ کے حصے کی چپاتیاں یہ پکائیں، ستم بالائے ستم یہ کہ صاحب اور بیگم صاحب کے ناز نخرے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اس کے علاوہ۔ ہائے رے مجبوری:
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
اسلامی جمہوریہ کہلانے والے وطن عزیز میں یہ ظلم وستم کا سلسلہ مدت دراز سے جاری ہے اور ہم سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، اس تناظر میں بھگت کبیرؔ یاد آرہے ہیں۔ جنھوں نے فرمایا تھا:
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیراؔ روئے
ان پاٹن بیچ آئے کے ثابت رہا نہ کوئے
سال 2016 اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جب ہمیں مظلوم طیبہ کی المناک داستان سننے کو ملی جو انصاف کے رکھوالے اسلام آباد کے ایک جج صاحب کی گھریلو ملازمہ ہوا کرتی تھی۔ اس بے چاری کا قصور یہ بتایا گیا کہ گھر کی جھاڑو گم ہوگئی جس کی پاداش میں جج صاحب کی بیگم صاحبہ نے مبینہ طور پر اس کا ہاتھ جلادیا اور اس کے بعد اسے ایک اسٹور روم میں بند کردیا۔ قدرت کا کرشمہ یہ ہوا کہ جج صاحب کے باضمیر انسان دوست پڑوسی کو اس کی بھنک پڑگئی اور معاملہ طشت از بام ہوگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہی ہے۔ قصہ مختصر:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مناجات
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ملتان اور اسلام آبادکی گھریلو ملازمائوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ اسلام آباد کی بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کا قصہ یہ ہے کہ اسے چار سال سے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں ملی اور مبینہ طور پر اسے گرم چھولوں سے داغا گیا اور چمڑے کی ہینٹ سے مارا پیٹا گیا اس الزام میں اس کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
ملتان کا واقعہ ایک دس سالہ گھریلو ملازمہ بچی کا ہے، جو مبینہ طور پر ایک یونین کونسل کے چیئرمین کے گھر میں کام کرتی تھی۔ گھر کے مالکان کے ظلم و تشدد سے تنگ آکر ایک روز یہ بچی گھر سے فرار ہوکر ایک ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوگئی۔
ان تمام واقعات میں جو چیز سب سے نمایاں اور توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ظلم و تشدد کرنے والوں میں جاہل یا ان پڑھ لوگ نہیں بلکہ معاشرے کے وہ افراد ملوث ہیں جو عرف عام میں پڑھے لکھے اور معزز یا شرفا کہلاتے ہیں۔ اس سے قبل جاگیرداروں اور وڈیروں ہی کے ظلم کی داستانیں ہمارے میڈیا کی زینت بنا کرتی تھیں۔ اب پے درپے رونما ہونے والے اس قسم کے واقعات کا دائرہ ہمارے نام نہاد طبقہ اشرافیہ تک وسیع ہوتا جا رہا ہے جس میں جج اورکونسلر جیسے ذمے دار افراد بھی شامل ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ فہرست مزید طویل ہوجائے گی۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
شاید وہ دن بھی اب زیادہ دور نہیں جب ڈاکٹروں، انجینئروں اور تاجر حضرات کے گھروں میں چل رہی اسی طرح کی دکھ بھری کہانیاں بھی منظر عام پر آنا شروع ہوجائیںگی۔ دولت کے غیر منصفانہ تقسیم ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے بے شمار بیماریوں کی اصل جڑ ہے۔ ہر کوئی دولت کے نشے میں اندھا ہوگیا ہے اور راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پڑا ہوا ہے جس نے جائز و ناجائز کی تمیز ختم کردی ہے۔
پولیس کا کہناہے کہ ملازم بچے کے جسم پر ظلم وتشدد کے نشانات موجود پائے گئے۔ ملازم لڑکے کے والد نے جو بدین کا رہنے والا ہے یہ اطلاع دی تھی کہ اس کا بیٹا ایک گھر میں کام کرتا ہے جس کے مالکان اس کے گھر والوں سے مل کر آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ لڑکے کے والد نے انھیں شکایت میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کے بیٹے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
گھریلو ملازمین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے یہ واقعات نہ جانے کب سے پیش آرہے ہیں مگر ان کے منظر عام پر آنے کا سلسلہ ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے جس کا کریڈٹ ہماری میڈیا کو جاتا ہے۔ ظلم و ستم کی یہ داستانیں کراچی اور لاہور سے لے کر اسلام آباد اور ملتان سمیت ہر بڑے شہرکے پوش علاقوں میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔
آپ کسی بھی بڑے گھرانے میں چلے جائیں یہ مظلوم غلام آپ کو مشروبات پیش کرتے ہوئے اور محلات نما بنگلوں اور کوٹھیوں میں جھاڑو پوچا کرتے ہوئے نظر آئیں گے یا گندے برتن دھوتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بے کسی، بے بسی اور مظلومیت آپ کو ان بد نصیبوں کے چہروں سے ٹپکتی ہوئی صاف نظر آئے گی۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو مالک کی ڈانٹ پھٹکارکی صورت میں ان کی غیرت اورعزت نفس کا جنازہ بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دے اور ان کی خاموش لمبوں سے پھوٹتی ہوئی یہ صدا بھی سنائی دے:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجائوں یہ مرضی میرے صیادکی ہے
آپ کسی بڑے شاپنگ مال میں چلے جائیں یا کسی فیشن ایبل مارکیٹ میں داخل ہوجائیں وہاں بیگمات کی غلامی میں مصروف آپ کی نظریں ان کے لاڈلوں کو اپنی گود میں اٹھائے ان ابھاگنوں پر ضرور پڑیںگی جو ان کے بچوں کے اسٹرالرز بھی کھینچ رہے ہوں گے۔ اگر آپ کسی اچھے ریستوران میں چلے جائیں تو وہاں آپ کو بڑے لوگوں کی فیملیاں خوش گپیاں لڑاتی ہوئی اور طرح طرح کی خوش ذائقہ ڈشوں سے لطف اندوز ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہوںگی اور یہ مظلوم غلام کچھ ہی فاصلے پر اچھوتوں کی طرح انھیں حسرت سے تکتے ہوئے نظر آئیںگے۔ ذرا سوچیے کہ اس وقت ان بے کسوں کے دلوں پر کیا کیفیت گزر رہی ہوگی۔ ہائے! ہائے!
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
وطن عزیز کے امرا و رئوساء کے گھرانوں میں غربت وافلاس کے ماری ہوئی پیاری پیاری بچیاں گھریلو ملازمائوں کی شکل میں اپنا بچپن قربان کررہی ہیں، جس کے عوض انھیں محض چند سو روپے بطور معاوضہ ادا کیے جاتے ہیں۔ نہ ان کے دکھ بیماری سے مالکان کوکوئی غرض ہے نہ ان کی پریشانیوں سے کوئی واسطہ۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے بقول غالب:
پڑیے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجایے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
گھر کے کوڑے کچرے کی صفائی یہ کریں، گندے کپڑے یہ دھوئیں اور بیگم صاحبہ کے حصے کی چپاتیاں یہ پکائیں، ستم بالائے ستم یہ کہ صاحب اور بیگم صاحب کے ناز نخرے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اس کے علاوہ۔ ہائے رے مجبوری:
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
اسلامی جمہوریہ کہلانے والے وطن عزیز میں یہ ظلم وستم کا سلسلہ مدت دراز سے جاری ہے اور ہم سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، اس تناظر میں بھگت کبیرؔ یاد آرہے ہیں۔ جنھوں نے فرمایا تھا:
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیراؔ روئے
ان پاٹن بیچ آئے کے ثابت رہا نہ کوئے
سال 2016 اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جب ہمیں مظلوم طیبہ کی المناک داستان سننے کو ملی جو انصاف کے رکھوالے اسلام آباد کے ایک جج صاحب کی گھریلو ملازمہ ہوا کرتی تھی۔ اس بے چاری کا قصور یہ بتایا گیا کہ گھر کی جھاڑو گم ہوگئی جس کی پاداش میں جج صاحب کی بیگم صاحبہ نے مبینہ طور پر اس کا ہاتھ جلادیا اور اس کے بعد اسے ایک اسٹور روم میں بند کردیا۔ قدرت کا کرشمہ یہ ہوا کہ جج صاحب کے باضمیر انسان دوست پڑوسی کو اس کی بھنک پڑگئی اور معاملہ طشت از بام ہوگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہی ہے۔ قصہ مختصر:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مناجات
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ملتان اور اسلام آبادکی گھریلو ملازمائوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ اسلام آباد کی بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کا قصہ یہ ہے کہ اسے چار سال سے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں ملی اور مبینہ طور پر اسے گرم چھولوں سے داغا گیا اور چمڑے کی ہینٹ سے مارا پیٹا گیا اس الزام میں اس کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
ملتان کا واقعہ ایک دس سالہ گھریلو ملازمہ بچی کا ہے، جو مبینہ طور پر ایک یونین کونسل کے چیئرمین کے گھر میں کام کرتی تھی۔ گھر کے مالکان کے ظلم و تشدد سے تنگ آکر ایک روز یہ بچی گھر سے فرار ہوکر ایک ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوگئی۔
ان تمام واقعات میں جو چیز سب سے نمایاں اور توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ظلم و تشدد کرنے والوں میں جاہل یا ان پڑھ لوگ نہیں بلکہ معاشرے کے وہ افراد ملوث ہیں جو عرف عام میں پڑھے لکھے اور معزز یا شرفا کہلاتے ہیں۔ اس سے قبل جاگیرداروں اور وڈیروں ہی کے ظلم کی داستانیں ہمارے میڈیا کی زینت بنا کرتی تھیں۔ اب پے درپے رونما ہونے والے اس قسم کے واقعات کا دائرہ ہمارے نام نہاد طبقہ اشرافیہ تک وسیع ہوتا جا رہا ہے جس میں جج اورکونسلر جیسے ذمے دار افراد بھی شامل ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ فہرست مزید طویل ہوجائے گی۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
شاید وہ دن بھی اب زیادہ دور نہیں جب ڈاکٹروں، انجینئروں اور تاجر حضرات کے گھروں میں چل رہی اسی طرح کی دکھ بھری کہانیاں بھی منظر عام پر آنا شروع ہوجائیںگی۔ دولت کے غیر منصفانہ تقسیم ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے بے شمار بیماریوں کی اصل جڑ ہے۔ ہر کوئی دولت کے نشے میں اندھا ہوگیا ہے اور راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پڑا ہوا ہے جس نے جائز و ناجائز کی تمیز ختم کردی ہے۔