اب تمہاری باری ہے
بھارت کی دم سے بندھا یہ ملک کسی کو کیا دے سکتا ہے
ISLAMABAD:
میں بہت توجہ اور شوق سے بھارت کے صحافی کا ترجمہ شدہ کالم پڑھتا ہوں کیونکہ یہ ایک مہذب لب و لہجے کا کام بھی بھارت کی صحافت کا ''پول'' کھول دیتا ہے کہ کس طرح ان کی دلی خواہش اور آرزو ہے کہ پاکستان کا نام و نشان نہ رہے۔ بہت جلد یہ مودی کے بھارت کے اس اقدام کی حمایت بھی کرینگے یا کرچکے ہوں گے کہ پاکستان کو جانے والے دریاؤں کی قدرتی گزرگاہ کو تبدیل کرکے پانی پاکستان نہ جانے دیا جائے اور پاکستان کو ان کے بقول ''پیاسا'' مار دیا جائے۔
تو اس کالم میں جو 23 دسمبر کو شایع ہوا ہے انھوں نے بنگلہ دیش کی شکایت کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی املاک کو تباہ و برباد کرنیوالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ ساتھ ہی انھوں نے مجیب الرحمن کے ساتھ اپنی ملاقات میں شیخ مجیب الرحمن کا کہا ہوا جملہ لکھا ہے کہ بنگالی کو اگر ایک گھونٹ پانی بھی کوئی پلا دے تو وہ اس کا احسان نہیں بھولتے۔
پاکستان نے 1970 تک بنگلہ دیش کو کیا کچھ دیا تھا۔ اس کے اعداد و شمار موجود ہیں دیکھ لیجیے اور بنگلہ دیش نے پاکستان کو کیا دیا یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کی دم سے بندھا یہ ملک کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ سرکاری دہشت گردی کے تحت مسلمان ملک میں مسلمان شہریوں کو پھانسی پر لٹکا کر اس نے کس کو خوش کیا ہے بھارت سرکار کو! آپ اب بھی خوش نہیں ہوئے۔
اب آپ خالدہ ضیا کی درپردہ حمایت پر قلم زن ہوگئے کیونکہ حسینہ سے امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں اور حسینہ کے تیور خطرناک ہیں۔ بنگالی ایک ذہین اور چالاک قوم ہیں۔ یہ ''جعفر از بنگال'' تاریخ میں موجود ہے اور آپ نے تو پڑھ رکھا ہوگا۔ تو جعفر کا کردار صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے یہ ایک کردار ہے جو اپنے مفادات کے لیے اپنی قوم تک کے مفادات کو قربان کردیتا ہے چاہے آقا انگریز ہو یا اندراگاندھی۔
تو بنگال کے ساری تاریخ کے نشیب و فراز دیکھ رہے ہیں۔ انگریزکو بھی خاصا مشکل میں ڈالے رکھا تھا بنگال نے اور اس وجہ سے اس نے اس کے دو ٹکڑے کردیے جو آج تک دو ٹکڑے ہیں ایک بانگلہ دیش ہے اور ایک آپ کے پہلو میں کلبلا رہا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ کشمیر میں آپ کیا کر رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ آپ کیا کر رہے ہیں، افغانستان میں آپ کیا کر رہے ہیں۔ بکنے والوں کی کمی نہیں ہے اور افغان قوم کے بارے میں محاورہ بھی آپ کو یاد ہوگا اور وہ اس پر پورے اتر رہے ہیں جس کا کھا رہے ہیں اس کو تباہ کر رہے ہیں۔
تو بنگال نے بھی وہی شروع کردیا ہے جو آپ کشمیر میں کر رہے ہیں۔ جو آپ نے مشرقی پاکستان کے غداروں سے بلکہ 1965 کی شکست کا بدلہ تھا اور جس طرح لاشوں کے انبار لگائے گئے 1947 میں جو سکھوں نے کیا تھا وہ 1971 میں آپ نے یعنی ہندوؤں نے کیا تھا، ہاں اپنی فوج داخل کرکے مداخلت کرکے ایک ملک کے معاملات میں جس پر ساری دنیا خاموش رہی کیونکہ اقوام متحدہ مفادات کا کھیل ہے جو آج بھی جاری ہے۔ مشرقی تیمور فوراً قائم ہوجاتا ہے۔ کشمیر، فلسطین ستر سال میں بلکہ اس سے زیادہ حل نہیں ہوئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو بھی اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں سیکولرازم کا نظام قائم کرنا چاہیے۔
جناب والا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ آپ بنگالی حسینہ سے وعدہ وفا کرنے کا خیال رکھتے ہیں جو خام ہے۔ یہ بات لکھ رکھیے کہ بنگال نے پاکستان کو سکھ نہیں دیا تو آپ بھی آرام سے نہیں رہ سکیں گے اور اس جنگ آزادی میں جسے آپ جنگ آزادی اور ہم پاکستان اور مسلمانوں سے بغاوت سمجھتے ہیں اور نمک حرامی سے تشبیہ دیتے ہیں کہ 23 سال ایک ملک کا نمک کھا کر اس سے غداری کی۔ پاکستان نے کون سا ڈھاکہ کو لاہور یا کراچی کا نام دے دیا تھا ڈھاکہ، ڈھاکہ ہی رہا۔
جناب والا تاریخ بہت ظالم ہے اور وقت تبدیل ہوتا ہے۔ آپ کا ملک اپنے یہاں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے جس کی تفصیل بھی کچھ عرض کرونگا۔ مسلمانوں کا جانی دشمن ہے حالانکہ مسلمانوں کی یادگاروں سے ہی بھارت بھارت کہلاتا ہے ورنہ وہاں رکھا ہی کیا ہے۔ تو اب تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے ہوسکتا ہے کہ دس بیس سال لگ جائیں مگر بھارت کو ٹوٹنا ہے۔ اس کے ٹکڑے ہو جائینگے چاہے وہاں دس موذی اور پیدا ہوجائیں۔
ہم کسی کے ٹکڑوں سے خوش نہیں ہوتے، نہ ہم نے کسی کے ٹکڑے کیے ہیں۔ ہم تو نصف صدی سے مہمان نوازی اور دہشتگردی دونوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ مہمان نوازی کی مدت تو صدیوں پر محیط ہے۔ ہمیشہ وہاں کے آنیوالے یہاں مہمان رہے دہشتگردی چوتھائی صدی سے آئی ہے جس کو آپ اور کچھ عرب ممالک اور امریکا Sponsor کر رہا ہے اور آپ اس کے چیف ایجنٹ بلکہ دہشتگردی کے وائسرائے ہیں۔
افغانستان آپ کے لہجے میں مسلمان ملک کے خلاف بول رہا ہے جس کے پاس اس کے لاکھوں شہری مہمان ہیں عرصہ دراز سے اس سے زیادہ بے غیرتی اور بے شرمی کوئی سب ایجنٹ کیا دکھا سکتا ہے۔ پاکستان کے علاقے کے سردار وہاں مہمان ہیں اور آپ بلوچستان پر نظریں لگائے ہیں بھوکے کتے کی طرح مگر یہ کتا بھوکا ہی رہے گا اور آخر کار ایک فائر سے ہلاک ہوگا۔
بنگلہ بندھو اور ان کے اقوال تو صاحب مضمون کو بہت یاد ہیں اور بنگال میں ہندوؤں کو اقلیت کہہ کر ان کے ساتھ اچھے سلوک کے متقاضی ہیں، پر کشمیر میں کیا کرنا چاہیے بھارت کو، بھارت میں کیا کرنا چاہیے بھارت کو، جہاں ایک قصائی وزیر اعظم ہے جو گجرات کے بعد پورے بھارت میں گائے کو انسان سے زیادہ مقدس قرار دے کر ایک ڈھونگ رچا رہا ہے۔ جو خدا بن رہا ہے نعوذباللہ، دریاؤں کو روک رہا ہے۔ شاید پہاڑوں کو بھی بدل دے گا بعد میں ہماری ہمالیہ رینج کو بھارت لے جائے گا۔ ایسا نہیں ہوگا۔
آپ قید و بند سے ڈرتے ہیں لہٰذا آپ کا قلم سب اچھا لکھتا ہے بھارت کے حق میں اور کیوں نہ ہو، بھارت ہو پاکستان۔ رواج یہی ہے کہ قلم فروخت کردو اچھے دام ملیں تو۔ بھارت میں تو زیادہ تر مانگے کے اور بکے ہوئے قلم اور زبانیں ہیں پاکستان میں بھی بدقسمتی سے ایسا ہے یہاں بھی قابل فروخت کا بورڈ بہت سے قلموں کے ساتھ لگا ہوا ہے جو اچھے دام دے دے وہی بولی بولنے لگتے ہیں آپ کی صحبت کا اثر ہے۔دنیا بدل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اور ظلم اور ستم صرف پاکستان کے لیے رہ گیا ہے۔ یا دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے رہ گیا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
مضمون بہت پھیل گیا ہے، اس کو سمیٹتے ہیں اور نیئر صاحب یہی عرض کرتے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے یہ آپ نے اپنے بزرگوں سے سنا ہوگا ہم نے بھی سنا اور دیکھا ہے اور اب یہ یاد رکھیے کہ پاکستان اپنے حصے کے عذاب سہ چکا ہے ۔ ستر سال سے آپ ہمیں غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر اتنا عرصہ اپنے عوام کے لیے کچھ کرتے تو بھارت اور ترقی کرچکا ہوتا اور سارے تجربے سوائے بنگلہ دیش کے ناکام نہ ہوتے۔ آپ آرام سے رہتے آرام سے رہنے دیتے تو دونوں کا بھلا ہوتا۔
اب وقت قریب ہے کہ تاریخ بدل جائے گی اور یاد رکھیے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ تاریخ اندر سے بدلتی ہے بنگلہ دیش کی مثال آپ کے سامنے ہے تو بھارت کی تاریخ بھی انشا اللہ بدلنے والی ہے۔ اس کی زمین میں مسلمانوں کا خون ہے اور خون مسلم رائیگاں نہیں جاتا۔
یہ ایک بار پھر بنگال سے آسام تک برقی لہر کی صورت اختیار کرے گا اور آپ نے بنگلہ دیش عرف سابقہ مشرقی پاکستان سے جو شکایات کی ہیں ان کا جواب یہ ہے کہ جو ہونا تھا ہوچکا۔ اب تمہاری باری ہے۔
میں بہت توجہ اور شوق سے بھارت کے صحافی کا ترجمہ شدہ کالم پڑھتا ہوں کیونکہ یہ ایک مہذب لب و لہجے کا کام بھی بھارت کی صحافت کا ''پول'' کھول دیتا ہے کہ کس طرح ان کی دلی خواہش اور آرزو ہے کہ پاکستان کا نام و نشان نہ رہے۔ بہت جلد یہ مودی کے بھارت کے اس اقدام کی حمایت بھی کرینگے یا کرچکے ہوں گے کہ پاکستان کو جانے والے دریاؤں کی قدرتی گزرگاہ کو تبدیل کرکے پانی پاکستان نہ جانے دیا جائے اور پاکستان کو ان کے بقول ''پیاسا'' مار دیا جائے۔
تو اس کالم میں جو 23 دسمبر کو شایع ہوا ہے انھوں نے بنگلہ دیش کی شکایت کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی املاک کو تباہ و برباد کرنیوالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ ساتھ ہی انھوں نے مجیب الرحمن کے ساتھ اپنی ملاقات میں شیخ مجیب الرحمن کا کہا ہوا جملہ لکھا ہے کہ بنگالی کو اگر ایک گھونٹ پانی بھی کوئی پلا دے تو وہ اس کا احسان نہیں بھولتے۔
پاکستان نے 1970 تک بنگلہ دیش کو کیا کچھ دیا تھا۔ اس کے اعداد و شمار موجود ہیں دیکھ لیجیے اور بنگلہ دیش نے پاکستان کو کیا دیا یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کی دم سے بندھا یہ ملک کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ سرکاری دہشت گردی کے تحت مسلمان ملک میں مسلمان شہریوں کو پھانسی پر لٹکا کر اس نے کس کو خوش کیا ہے بھارت سرکار کو! آپ اب بھی خوش نہیں ہوئے۔
اب آپ خالدہ ضیا کی درپردہ حمایت پر قلم زن ہوگئے کیونکہ حسینہ سے امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں اور حسینہ کے تیور خطرناک ہیں۔ بنگالی ایک ذہین اور چالاک قوم ہیں۔ یہ ''جعفر از بنگال'' تاریخ میں موجود ہے اور آپ نے تو پڑھ رکھا ہوگا۔ تو جعفر کا کردار صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے یہ ایک کردار ہے جو اپنے مفادات کے لیے اپنی قوم تک کے مفادات کو قربان کردیتا ہے چاہے آقا انگریز ہو یا اندراگاندھی۔
تو بنگال کے ساری تاریخ کے نشیب و فراز دیکھ رہے ہیں۔ انگریزکو بھی خاصا مشکل میں ڈالے رکھا تھا بنگال نے اور اس وجہ سے اس نے اس کے دو ٹکڑے کردیے جو آج تک دو ٹکڑے ہیں ایک بانگلہ دیش ہے اور ایک آپ کے پہلو میں کلبلا رہا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ کشمیر میں آپ کیا کر رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ آپ کیا کر رہے ہیں، افغانستان میں آپ کیا کر رہے ہیں۔ بکنے والوں کی کمی نہیں ہے اور افغان قوم کے بارے میں محاورہ بھی آپ کو یاد ہوگا اور وہ اس پر پورے اتر رہے ہیں جس کا کھا رہے ہیں اس کو تباہ کر رہے ہیں۔
تو بنگال نے بھی وہی شروع کردیا ہے جو آپ کشمیر میں کر رہے ہیں۔ جو آپ نے مشرقی پاکستان کے غداروں سے بلکہ 1965 کی شکست کا بدلہ تھا اور جس طرح لاشوں کے انبار لگائے گئے 1947 میں جو سکھوں نے کیا تھا وہ 1971 میں آپ نے یعنی ہندوؤں نے کیا تھا، ہاں اپنی فوج داخل کرکے مداخلت کرکے ایک ملک کے معاملات میں جس پر ساری دنیا خاموش رہی کیونکہ اقوام متحدہ مفادات کا کھیل ہے جو آج بھی جاری ہے۔ مشرقی تیمور فوراً قائم ہوجاتا ہے۔ کشمیر، فلسطین ستر سال میں بلکہ اس سے زیادہ حل نہیں ہوئے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو بھی اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں سیکولرازم کا نظام قائم کرنا چاہیے۔
جناب والا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ آپ بنگالی حسینہ سے وعدہ وفا کرنے کا خیال رکھتے ہیں جو خام ہے۔ یہ بات لکھ رکھیے کہ بنگال نے پاکستان کو سکھ نہیں دیا تو آپ بھی آرام سے نہیں رہ سکیں گے اور اس جنگ آزادی میں جسے آپ جنگ آزادی اور ہم پاکستان اور مسلمانوں سے بغاوت سمجھتے ہیں اور نمک حرامی سے تشبیہ دیتے ہیں کہ 23 سال ایک ملک کا نمک کھا کر اس سے غداری کی۔ پاکستان نے کون سا ڈھاکہ کو لاہور یا کراچی کا نام دے دیا تھا ڈھاکہ، ڈھاکہ ہی رہا۔
جناب والا تاریخ بہت ظالم ہے اور وقت تبدیل ہوتا ہے۔ آپ کا ملک اپنے یہاں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے جس کی تفصیل بھی کچھ عرض کرونگا۔ مسلمانوں کا جانی دشمن ہے حالانکہ مسلمانوں کی یادگاروں سے ہی بھارت بھارت کہلاتا ہے ورنہ وہاں رکھا ہی کیا ہے۔ تو اب تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے ہوسکتا ہے کہ دس بیس سال لگ جائیں مگر بھارت کو ٹوٹنا ہے۔ اس کے ٹکڑے ہو جائینگے چاہے وہاں دس موذی اور پیدا ہوجائیں۔
ہم کسی کے ٹکڑوں سے خوش نہیں ہوتے، نہ ہم نے کسی کے ٹکڑے کیے ہیں۔ ہم تو نصف صدی سے مہمان نوازی اور دہشتگردی دونوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ مہمان نوازی کی مدت تو صدیوں پر محیط ہے۔ ہمیشہ وہاں کے آنیوالے یہاں مہمان رہے دہشتگردی چوتھائی صدی سے آئی ہے جس کو آپ اور کچھ عرب ممالک اور امریکا Sponsor کر رہا ہے اور آپ اس کے چیف ایجنٹ بلکہ دہشتگردی کے وائسرائے ہیں۔
افغانستان آپ کے لہجے میں مسلمان ملک کے خلاف بول رہا ہے جس کے پاس اس کے لاکھوں شہری مہمان ہیں عرصہ دراز سے اس سے زیادہ بے غیرتی اور بے شرمی کوئی سب ایجنٹ کیا دکھا سکتا ہے۔ پاکستان کے علاقے کے سردار وہاں مہمان ہیں اور آپ بلوچستان پر نظریں لگائے ہیں بھوکے کتے کی طرح مگر یہ کتا بھوکا ہی رہے گا اور آخر کار ایک فائر سے ہلاک ہوگا۔
بنگلہ بندھو اور ان کے اقوال تو صاحب مضمون کو بہت یاد ہیں اور بنگال میں ہندوؤں کو اقلیت کہہ کر ان کے ساتھ اچھے سلوک کے متقاضی ہیں، پر کشمیر میں کیا کرنا چاہیے بھارت کو، بھارت میں کیا کرنا چاہیے بھارت کو، جہاں ایک قصائی وزیر اعظم ہے جو گجرات کے بعد پورے بھارت میں گائے کو انسان سے زیادہ مقدس قرار دے کر ایک ڈھونگ رچا رہا ہے۔ جو خدا بن رہا ہے نعوذباللہ، دریاؤں کو روک رہا ہے۔ شاید پہاڑوں کو بھی بدل دے گا بعد میں ہماری ہمالیہ رینج کو بھارت لے جائے گا۔ ایسا نہیں ہوگا۔
آپ قید و بند سے ڈرتے ہیں لہٰذا آپ کا قلم سب اچھا لکھتا ہے بھارت کے حق میں اور کیوں نہ ہو، بھارت ہو پاکستان۔ رواج یہی ہے کہ قلم فروخت کردو اچھے دام ملیں تو۔ بھارت میں تو زیادہ تر مانگے کے اور بکے ہوئے قلم اور زبانیں ہیں پاکستان میں بھی بدقسمتی سے ایسا ہے یہاں بھی قابل فروخت کا بورڈ بہت سے قلموں کے ساتھ لگا ہوا ہے جو اچھے دام دے دے وہی بولی بولنے لگتے ہیں آپ کی صحبت کا اثر ہے۔دنیا بدل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اور ظلم اور ستم صرف پاکستان کے لیے رہ گیا ہے۔ یا دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے رہ گیا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
مضمون بہت پھیل گیا ہے، اس کو سمیٹتے ہیں اور نیئر صاحب یہی عرض کرتے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے یہ آپ نے اپنے بزرگوں سے سنا ہوگا ہم نے بھی سنا اور دیکھا ہے اور اب یہ یاد رکھیے کہ پاکستان اپنے حصے کے عذاب سہ چکا ہے ۔ ستر سال سے آپ ہمیں غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں اگر اتنا عرصہ اپنے عوام کے لیے کچھ کرتے تو بھارت اور ترقی کرچکا ہوتا اور سارے تجربے سوائے بنگلہ دیش کے ناکام نہ ہوتے۔ آپ آرام سے رہتے آرام سے رہنے دیتے تو دونوں کا بھلا ہوتا۔
اب وقت قریب ہے کہ تاریخ بدل جائے گی اور یاد رکھیے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ تاریخ اندر سے بدلتی ہے بنگلہ دیش کی مثال آپ کے سامنے ہے تو بھارت کی تاریخ بھی انشا اللہ بدلنے والی ہے۔ اس کی زمین میں مسلمانوں کا خون ہے اور خون مسلم رائیگاں نہیں جاتا۔
یہ ایک بار پھر بنگال سے آسام تک برقی لہر کی صورت اختیار کرے گا اور آپ نے بنگلہ دیش عرف سابقہ مشرقی پاکستان سے جو شکایات کی ہیں ان کا جواب یہ ہے کہ جو ہونا تھا ہوچکا۔ اب تمہاری باری ہے۔