کراچی میں چکن گنیا کی وباء
بلدیہ والے نہ جانے کہاں مچھرمار اسپرے کرتے ہوں گے
گزشتہ چھ ماہ سے کراچی کے عوام ڈینگی، ملیریا اور خاص طورپر چکن گنیا جیسے وبائی امراض میں مبتلا ہیں، چکن گنیا نے تو شہرکراچی میں ڈیرا جمالیا ہے ، ہرچھوٹے بڑے اسپتال،کلینک اورڈسپنسریز میں چکن گنیا کے مریضوں کا رش لگا رہتا ہے،جن میں مرد،عورت، جوان، بوڑھے اور بچے شامل ہیں۔ایک مچھرآدمی کوچکن گنیا ، ڈینگی اورملیریا میں مبتلا کردیتا ہے، یہاں کراچی میں تو اس قدرمچھر اورمکھیوں کی بہتات ہے کہ راہ چلتے ہوئے آدمی کے منہ سے ٹکرا جاتے ہیں، اگر آدمی کہیں بیٹھا ہوا ہوتا ہے تو اس کے سر پرگھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بلدیہ والے نہ جانے کہاں مچھرمار اسپرے کرتے ہوں گے،اگرکرتے بھی ہوں گے تو مچھرمکھیوں پر اثرکیوں نہیں ہوتا ؟کوئی ایسی بات تو ضرور ہوگی کہ ان کی افزائش کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔آخرکیا وجہ ہے کہ اسپرے مہم کے باوجود کراچی مچھر اور مکھیوں سے پاک نہیں ہو پا رہا ہے ؟کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی میں کئی سال سے جراثیم کش اسپرے نہ ہونے سے مچھر اورمکھیوں کی افزائش نسل تیزی سے ہورہی ہے ۔ دسمبر 2016ء سے ڈنگی ، ملیریا اور چکن گنیا کے کیسوں میں کمی نہیں دکھائی دے رہی ہے،آخرکیوں ؟
اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جانے چاہیے جو اسپرے ادویات کی جانچ پڑتال کرے کہ کہیں ان میں ملاوٹ تو نہیں؟ مچھر اورمکھیوں کی بھی ڈی این اے چیک کیے جائیں کہ ان میں ایسا کیا ہے جو ان پر زہر بھی اثر انداز نہیں ہو پا رہا ہے ؟ میں مذاق نہیں کررہا واقعی یہ سوچنے کا مقام ہے کہ شہرکراچی میں ڈنگی پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام ، ملیریا کنٹرول پروگرام اور چکن گنیا کے مخصوص پانچ ٹیکوں کا ذکراکثر ہوتا رہتا ہے مگر وباء ہے کہ وبائی صورت اختیارکرچکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تین ہزار سے زائد ڈنگی اورملیریا کے کیسوں کی تصدیق کی گئی تھی لیکن ان امراض کے تدارک کے لیے حکمت عملی بنائی گئی نہ ہی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ۔ ملیر کے بعد چکن گنیا کی وباء پورے شہرکراچی میں میں پھیل گئی ،ایسا کیوں ہوا ؟ اس پر فوری طور پر قابوکیوں پایا نہیں گیا ؟ ۔ چکن گنیا سے بچائو سے متعلق قائم سر ویلینس سیل میں مریضوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں دیکھنے میں آیا؟
صوبائی محکمہ صحت کراچی میں ایسی لیبارٹری قائم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکی جس میں وائرل انفیکشن کی بیماریوں کی تصدیق ہوسکے؟ کراچی میں ایسی لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں سامنے آنے پر تصدیق کے لیے خون کے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں، یعنی خون کے نمونے کی رپورٹ آنے کے بعد ہی چکن گنیا اوردیگر بیماریوں کی تصدیق کی جاسکے گی اور اس حوالے سے کچھ کہا جاسکے کہ مریض کو کیا بیماری لاحق ہوگئی ہے تب تک مریض تکلیف میں تڑپتا رہے اگر خدا نخواستہ مریض زندگی کی بازی ہار جائے تو اسے تقدیرکا لکھا کہا جاتا ہے،ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یوں تو ہم سب فخریہ کہتے ہیں کہ کراچی معاشی حب ہے لیکن کیا کبھی کراچی کے بلکتے، تڑپتے کراہتے ہوئے غریب مزدور مریضوں کی بروقت اور سہولیات سے مزین علاج ومعالجے کے بارے میں سنجیدگی سے کسی نے سوچا بھی ہے؟ایک قلیل عرصے سے کراچی کچرا کنڈی بنارہا، بلدیاتی نظام سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے، عدالتی حکم کے تحت بلدیاتی انتخابات ہو توگئے لیکن بلدیاتی اختیارات کا توازن بگاڑ دیا گیا ۔ جوکام بلدیہ عظمیٰ اور اس کے ضلع انتظامیہ کو کرنے چاہیے تھے وہ سندھ حکومت اور چائنا کی ایک کمپنی کے سپرد ہیں اور عنقریب ایک دوسری کمپنی بھی کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے آنے والی ہے ۔ جہاں شہرکی صفائی کا توازن بگڑجائے وہاں وبائی امراض کو پھوٹنا ہی ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر گھر مچھر مار مہم چلائی جائے اسپرے مہم کا ایک ہاتھ چکر لگانے سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اس کے لیے ایک گرینڈ مچھر مار مہم کی ضرورت ہے ۔ دسمبر 2016ء کو کراچی کے علاقے ملیر میں تیز بخار کی پراسرار بیماری میں مبتلا درجنوں افراد کو علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا تھا جس سے عوام میں خوف وہراس پھیل گیا تھا۔
طبی ٹیم نے مریضوں کے خون کے نمونے حاصل کرکے انھیں ٹیسٹ کے لیے اسلام آباد بجھوایا گیا تھا جس کی رپورٹ وزارت صحت اسلام آباد کی لیبارٹری نے جاری کردی تھی جس میں پراسرار بیماری کی تشخیص چکن گنیا کے نام سے کی، اس طرح پاکستان بالخصوص کراچی میں پہلی بار چکن گنیا بیماری کی تصدیق کی گئی۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے بچائو کے لیے اقدامات کا اعلان کیا گیا ، شعبہ صحت میں اجلاس منعقد کیے گئے اورحکمت عملی مرتب کی گئی، محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام الرٹ ہوگئے، تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کے احکامات صادرکیے گئے، کراچی کے تمام اسپتالوں میں ادویات اورڈرپس فراہم کردی گئی، بلدیہ عظمیٰ کراچی، ضلع بلدیاتی اداروں اور ملیریا پروگرام نے کراچی میں بھرپورجراثیم کش ادویات کی اسپرے مہم شروع کرنے کے دعوے کیے گئے، تاہم اب بھی چکن گنیا کے مریض اسپتالوں کے چکر لگارہے ہیں جن کی تعداد میں کمی دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ رحم فرمائے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چکن گنیا ایک وبائی مرض ہے جس کا سبب ایک RNAوائرس ہے ، یہ وائرس دوقسم کے مچھروں کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے اور انسان تیز بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ بخار مخصوص مادہ مچھرکے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے ۔ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چکن گنیا کے مریض ازخود اینٹی بائیٹک دوا استعمال نہ کریں بلکہ تیز بخارکی صورت میں صرف تین وقت پیراسیٹامول استعمال کریں،اس مرض میں غیر ضروری اینٹی بائیٹک دوائوں کا استعمال انتہائی مضر صحت ہے۔
چکن گنیا کی علامات یہ ہیں، بخار اورجوڑوں میں درد ہونا ، پٹھوں اور سر میں درد ، جوڑوں کی سوجن ، متلی ہونا، ابکائیاں آنا ، ذہنی وجسمانی تھکاوٹ اور جلد پر سرخ دھبوں کا ابھر آنا شامل ہیں ۔ چکن گنیا کی علامات ڈنگی وائرس کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ چکن گنیا کی وباء پہلی بار 1952ء میں تنزانیا میں پھوٹی تھی جس کا مقامی زبان میں مطلب ہاتھ پائوں کا مڑجانا ہے ۔ مچھروں کی افزائش کے مقامات جیسے گندے پانی کے جوہڑ ، تالاب ، آبی ذخائر وغیرہ چکن گنیا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ چکن گنیا سے بچائو کے لیے ان تمام جگہوں کا خاتمہ ضروری ہے ۔ جس کے لیے مچھر مار اسپرے کیا جائے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر ایسا لباس زیب تن کریں جس سے کم سے کم اعضا کھلے ہوں ، چہرے اور ہاتھوں پر مچھر کو دفع کرنے والے لوشن وغیرہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔دن کے اوقات میں سونے والے افراد خاص طور پر چھوٹے بچے اوربزرگ مچھر دانی کا استعمال کریں ۔ علاوہ ازیں کمروں میں مچھر بھگانے والی کوائل اوراسی نوع کی دوسری اشیاء کا استعمال بھی ضروری ہے۔
بلدیہ والے نہ جانے کہاں مچھرمار اسپرے کرتے ہوں گے،اگرکرتے بھی ہوں گے تو مچھرمکھیوں پر اثرکیوں نہیں ہوتا ؟کوئی ایسی بات تو ضرور ہوگی کہ ان کی افزائش کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔آخرکیا وجہ ہے کہ اسپرے مہم کے باوجود کراچی مچھر اور مکھیوں سے پاک نہیں ہو پا رہا ہے ؟کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی میں کئی سال سے جراثیم کش اسپرے نہ ہونے سے مچھر اورمکھیوں کی افزائش نسل تیزی سے ہورہی ہے ۔ دسمبر 2016ء سے ڈنگی ، ملیریا اور چکن گنیا کے کیسوں میں کمی نہیں دکھائی دے رہی ہے،آخرکیوں ؟
اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جانے چاہیے جو اسپرے ادویات کی جانچ پڑتال کرے کہ کہیں ان میں ملاوٹ تو نہیں؟ مچھر اورمکھیوں کی بھی ڈی این اے چیک کیے جائیں کہ ان میں ایسا کیا ہے جو ان پر زہر بھی اثر انداز نہیں ہو پا رہا ہے ؟ میں مذاق نہیں کررہا واقعی یہ سوچنے کا مقام ہے کہ شہرکراچی میں ڈنگی پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام ، ملیریا کنٹرول پروگرام اور چکن گنیا کے مخصوص پانچ ٹیکوں کا ذکراکثر ہوتا رہتا ہے مگر وباء ہے کہ وبائی صورت اختیارکرچکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تین ہزار سے زائد ڈنگی اورملیریا کے کیسوں کی تصدیق کی گئی تھی لیکن ان امراض کے تدارک کے لیے حکمت عملی بنائی گئی نہ ہی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ۔ ملیر کے بعد چکن گنیا کی وباء پورے شہرکراچی میں میں پھیل گئی ،ایسا کیوں ہوا ؟ اس پر فوری طور پر قابوکیوں پایا نہیں گیا ؟ ۔ چکن گنیا سے بچائو سے متعلق قائم سر ویلینس سیل میں مریضوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں دیکھنے میں آیا؟
صوبائی محکمہ صحت کراچی میں ایسی لیبارٹری قائم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکی جس میں وائرل انفیکشن کی بیماریوں کی تصدیق ہوسکے؟ کراچی میں ایسی لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں سامنے آنے پر تصدیق کے لیے خون کے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں، یعنی خون کے نمونے کی رپورٹ آنے کے بعد ہی چکن گنیا اوردیگر بیماریوں کی تصدیق کی جاسکے گی اور اس حوالے سے کچھ کہا جاسکے کہ مریض کو کیا بیماری لاحق ہوگئی ہے تب تک مریض تکلیف میں تڑپتا رہے اگر خدا نخواستہ مریض زندگی کی بازی ہار جائے تو اسے تقدیرکا لکھا کہا جاتا ہے،ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یوں تو ہم سب فخریہ کہتے ہیں کہ کراچی معاشی حب ہے لیکن کیا کبھی کراچی کے بلکتے، تڑپتے کراہتے ہوئے غریب مزدور مریضوں کی بروقت اور سہولیات سے مزین علاج ومعالجے کے بارے میں سنجیدگی سے کسی نے سوچا بھی ہے؟ایک قلیل عرصے سے کراچی کچرا کنڈی بنارہا، بلدیاتی نظام سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے، عدالتی حکم کے تحت بلدیاتی انتخابات ہو توگئے لیکن بلدیاتی اختیارات کا توازن بگاڑ دیا گیا ۔ جوکام بلدیہ عظمیٰ اور اس کے ضلع انتظامیہ کو کرنے چاہیے تھے وہ سندھ حکومت اور چائنا کی ایک کمپنی کے سپرد ہیں اور عنقریب ایک دوسری کمپنی بھی کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے آنے والی ہے ۔ جہاں شہرکی صفائی کا توازن بگڑجائے وہاں وبائی امراض کو پھوٹنا ہی ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر گھر مچھر مار مہم چلائی جائے اسپرے مہم کا ایک ہاتھ چکر لگانے سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اس کے لیے ایک گرینڈ مچھر مار مہم کی ضرورت ہے ۔ دسمبر 2016ء کو کراچی کے علاقے ملیر میں تیز بخار کی پراسرار بیماری میں مبتلا درجنوں افراد کو علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا تھا جس سے عوام میں خوف وہراس پھیل گیا تھا۔
طبی ٹیم نے مریضوں کے خون کے نمونے حاصل کرکے انھیں ٹیسٹ کے لیے اسلام آباد بجھوایا گیا تھا جس کی رپورٹ وزارت صحت اسلام آباد کی لیبارٹری نے جاری کردی تھی جس میں پراسرار بیماری کی تشخیص چکن گنیا کے نام سے کی، اس طرح پاکستان بالخصوص کراچی میں پہلی بار چکن گنیا بیماری کی تصدیق کی گئی۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے بچائو کے لیے اقدامات کا اعلان کیا گیا ، شعبہ صحت میں اجلاس منعقد کیے گئے اورحکمت عملی مرتب کی گئی، محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام الرٹ ہوگئے، تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کے احکامات صادرکیے گئے، کراچی کے تمام اسپتالوں میں ادویات اورڈرپس فراہم کردی گئی، بلدیہ عظمیٰ کراچی، ضلع بلدیاتی اداروں اور ملیریا پروگرام نے کراچی میں بھرپورجراثیم کش ادویات کی اسپرے مہم شروع کرنے کے دعوے کیے گئے، تاہم اب بھی چکن گنیا کے مریض اسپتالوں کے چکر لگارہے ہیں جن کی تعداد میں کمی دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ رحم فرمائے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چکن گنیا ایک وبائی مرض ہے جس کا سبب ایک RNAوائرس ہے ، یہ وائرس دوقسم کے مچھروں کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے اور انسان تیز بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ بخار مخصوص مادہ مچھرکے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے ۔ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چکن گنیا کے مریض ازخود اینٹی بائیٹک دوا استعمال نہ کریں بلکہ تیز بخارکی صورت میں صرف تین وقت پیراسیٹامول استعمال کریں،اس مرض میں غیر ضروری اینٹی بائیٹک دوائوں کا استعمال انتہائی مضر صحت ہے۔
چکن گنیا کی علامات یہ ہیں، بخار اورجوڑوں میں درد ہونا ، پٹھوں اور سر میں درد ، جوڑوں کی سوجن ، متلی ہونا، ابکائیاں آنا ، ذہنی وجسمانی تھکاوٹ اور جلد پر سرخ دھبوں کا ابھر آنا شامل ہیں ۔ چکن گنیا کی علامات ڈنگی وائرس کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ چکن گنیا کی وباء پہلی بار 1952ء میں تنزانیا میں پھوٹی تھی جس کا مقامی زبان میں مطلب ہاتھ پائوں کا مڑجانا ہے ۔ مچھروں کی افزائش کے مقامات جیسے گندے پانی کے جوہڑ ، تالاب ، آبی ذخائر وغیرہ چکن گنیا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ چکن گنیا سے بچائو کے لیے ان تمام جگہوں کا خاتمہ ضروری ہے ۔ جس کے لیے مچھر مار اسپرے کیا جائے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر ایسا لباس زیب تن کریں جس سے کم سے کم اعضا کھلے ہوں ، چہرے اور ہاتھوں پر مچھر کو دفع کرنے والے لوشن وغیرہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔دن کے اوقات میں سونے والے افراد خاص طور پر چھوٹے بچے اوربزرگ مچھر دانی کا استعمال کریں ۔ علاوہ ازیں کمروں میں مچھر بھگانے والی کوائل اوراسی نوع کی دوسری اشیاء کا استعمال بھی ضروری ہے۔