کیڈٹ کالج حسن ابدال۔۔کچھ یادیں

بلاشبہ جنرل نجیب کالج کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے بڑے جذبے اور ولولے سے کام کررہے ہیں

zulfiqarcheema55@gmail.com

کیڈٹ کالج میں قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا تھا۔ ایک بار گھڑسواری کرتے ہوئے تین سواروں نے باگیں کھلی چھوڑدیں تو گھوڑے رائڈنگ اسکول سے باہر نکل گئے ، آزادی کسے پیاری نہیں ہوتی،آزادی ملی تومست ہوکرگھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے اور جب رکے تو کالج کی حدُود نظروں سے اوجھل ہوچکی تھیں۔

تینوں سواروں کی شکایت ہوئی اور بلااجازت کالج کی حدُود عبور کرنے پرتینوں کا دس روز کے لیے کالج کی حدود میں داخلہ بند کردیا گیا۔ نیم عسکری ادارے میں حدود و قیود کی پابندی انسانوں کے لیے ہی نہیں جانوروں کے لیے بھی لازم تھی لہٰذا سزا سے گھوڑے بھی نہ بچ سکے اور انھیں سب پہ بھاری۔اے ڈی بخاری کو اپنے اوپر لاد کر پورے کالج کے چکر لگانا پڑے جس سے وہ بیچارے پچک کر رہ گئے۔ رائیڈنگ ماسٹر نے طلباء اور گھوڑوں کے مشترکہ اجتماع میں للکارتے ہوئے کہا دیکھو ذرا سی غلطی پر۔گھوڑے بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ گھوڑے بیچارے بے زبان تھے دلیل اور وکیل کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ دلیل نہ سہی وکیل ہی کیا ہوتا تو سزا کا قصّہ پاک ہوجاتا ۔کبھی ہڑتال اور کبھی دستاویزات کی پڑتال کے نام پر وہ اتنی تاریخیں لیتا کہ عدالت خود ہاتھ جوڑ لیتی اور باعزّت چھوڑ دیتی۔ ملزمان میں راقم کے علاوہ دوسرے دو سوار فاروق خان اور جمیل خٹک تھے۔

گیارہویں دن دو تو کالج واپس آگئے مگرفاروق خان نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ پہلے انجینئرنگ کی، پھر ڈاکٹر بنے اور پھر اسلام کے معروف اسکالر کے طور پر ملکی افق پر نمودار ہوئے۔ عمران خان صاحب کے ابتدائی ساتھیوں اور مشیروں میں بھی شامل رہے۔اُدھر سے مایوس ہوکر فاٹا کے گمراہ ہونے والے نوجوانوں کو اسلام کے صحیح مفہوم سے آگاہی کے لیے فوج کے ساتھ ملکر سوات میں ایک ادارہ قائم کیا۔ میری ان سے آخری ملاقات 2008میں ہوئی جب میں کوہاٹ میں ڈی آئی جی تھا۔ ہم گھنٹوں بیٹھ کر ماضی کی یادیں کریدتے رہے اور مستقبل کے منصوبے ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہے۔ پھر ایک روز ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی کہ 'دہشت گردوں نے معروف اسکالر ڈاکٹر محمد فاروق خان کو شہید کردیاہے'۔ جہالت اور درندگی کی آندھی نے علم ودانش کا ایک روشن چراغ گُل کردیا۔

یہ وہ دور تھا جب کالج میںٹیلویژن نیا نیا آیا تھا، ہر ونگ کو ہفتے میں ایک روز ٹی وی دیکھنے کی عیّاشی یا سہولت حاصل تھی۔ اکثر رات کو ایسا ہوتا کہ ایک ونگ کے طلباء ہال میں بیٹھے ٹی وی پر الف نون کا ڈرامہ دیکھتے تو دوسرے ونگز والے اسی ہال کی کھڑکیوں سے لٹک کر اندر بیٹھے ہوئے ناظرین کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے رہے ۔ ہوسٹلوں کے غسلخانے تعمیر کرتے وقت سب سے زیادہ توجّہ ان کی پختگی اور پائیدار ی پر دی گئی تھی اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا تھا کہ غسل و طہارت گاہیں جدیدیّت کی آلائشوں سے مکمل طور پرپاک رہیں۔ اسی لیے ٹوائلٹس کی زنجیر شاہی محلّات کے باہر لٹکی ہوئی زنجیرِ عدل کیطرح اکثر اٹک جاتی اور اسے نیچے لانے کے لیے اُسی طرح اجتماعی زور لگانا پڑتا جسطرح آجکل حکومتوں کو نیچا دکھانے کے لیے اقتدار سے محروم پارٹیاں ملکر زور لگاتی ہیں۔

کالج میں قیام کے کچھ عرصے بعد جب طالب علم نے محسوس کیا کہ انگریزی زبان ابھی تک پورا تعاون نہیں کررہی اور کسی اَن فرینڈلی اپوزیشن کیطرح رکاوٹ بن رہی ہے تو اس نے انگلستان سے آئے ہوئے انگریزی کے ٹیچر مسٹر گرین سے مدد کی درخواست کی۔ گورے کی زبان گورے استاد کے سامنے گھر کی باندی کیطرح ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ انھوں نے چند ہفتوں میں ہی لب و لہجہ درست کراکے نہ صرف مجھے بولنا سکھادیابلکہ انگریزی میں تقریر کے لیے اسٹیج پر بھی چڑہادیا ۔ انگریزی کے پہلے مباحثے میں ہی میری دوسری پوزیشن آئی۔ کچھ عرصے کے بعد جب طالب علم یہاں سے فارغ ہوکر گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو اُسکی نمایندگی کرتے ہوئے ملک بھر میں انگریزی کے مشہور انٹر کالجیٹ مباحثوں میں حصّہ لیا، درجنوں کپ اور ٹرافیاں جیتیں اور G.C.کے رول آف آنر کا حقدار قرار پایا۔

اِس درسگاہ کے بہت سے فارغ التحصیل طلباء نے آرمڈ فورسز میں شامل ہوکر جرأت و بہادری کی داستانیں رقم کی ہیںاورکئی بلند بخت شہادت کے مرتبے پر بھی فائز ہوئے۔کالج کے ڈائننگ ہال انھی شہیدوں کے نام سے موسوم کیے گئے ہیں۔ 1971میں جب وطنِ عزیز کو بدمست اور بدکردار قیادت کے باعث شکست ہوگئی تو ہزاروں فوجی(جن میں سے زیادہ تر سرنڈر نہیں کرنا چاہتے تھے) جنگی قیدی بن گئے۔


اُن میں نادر پرویز نام کا ایک ابدالین بھی تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کالج کا ہر استاد اس کی بے مثال جرأت کا ذکر کرتے ہوئے پورے یقین سے کہا کرتا تھا کہ ''بھارت کی جیلیں اور قلعوں کی اونچی دیواریں میجر نادر پرویز کو نہیں روک سکتیں۔ دیکھ لینا وہ ہندوؤںکی تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا نکلے گا یا جان دے دیگا یا پاکستان واپس پہنچے گا''۔اور پھر ایساہی ہوا۔ نادر پرویز کی جرأت ہر رکاوٹ اور ہر دیوار سے بلند تر،اور اس کا عزم ہر قلعے سے مضبوط ترنکلا۔ اس کی جرأت اور عزم کے سامنے ہر رکاوٹ ہیچ ثابت ہوئی ، وہ تمام رکاوٹوں کو توڑتا ہوا جیل سے نکل گیا۔ جیلر اور گارڈ اسے پکڑنے کے لیے جب اس کے پیچھے بھاگے اُسوقت وہ اپنی پاک سرزمین پر پہنچ کر اس کی مٹی کوچوم رہا تھا۔

کالج سے نکلے ہوئے چاردہائیاں بیت چکی تھیں، جب طالبعلم ملک کے انتہائی ممتاز اور محترم ادارے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کا سربراہ(انسپکٹر جنرل) تھا تو قدرت نے ناچیز کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ اسے اپنی عظیم مادرِ علمی میں ایک مہمان کی حیثیّت سے بلایا گیا،کالج کے پرنسپل میجر جنرل نجیب طارق صاحب نے ریسیو کیا اور لائن میں کھڑے تمام اساتذہ سے تعارف کرایا۔ اس کے بعد مقابلے جیتنے والے کیڈٹس کو شیلڈز اور انعامات دلوائے اور ہال میں طلباء سے خطاب کرایا۔

اپنی تقریرمیں پرنسپل صاحب نے ناچیز کے بارے میں کلماتِ خیر کہتے ہوئے کہا ''اس کالج میں فوج کے جرنیل تو بڑی دفعہ آئے ہیں مگر اس دفعہ ہم نے مہمانِ خصوصی کے طور پر پولیس کے ایک جرنیل کو مدعو کیا ہے جس کی intergrityاور کیریکٹر نے اُسے نیک نامی اور اس کے محکمے کو عزّت بخشی ہے''۔۔۔ ناچیز کا سر خدائے بزرگ و برتر کے حضور جھک گیا کہ اس کی بے پناہ رحمتوں اور فضل و کرم کا شکر ادا ہی نہیں کیا جاسکتا۔ پرنسپل صاحب راقم کو کالج کا راؤنڈ لگواتے رہے اور مختلف عمارتوں اور ہوسٹلوں کی اپنی نگرانی میں کرائی گئی renovation دکھاتے رہے اور پھر وہ اس غیر معمولی شخصیّت کی قبر پر لے گئے جو اس عظیم درسگاہ کا بانی بھی تھا اور معمار بھی۔

کالج کے موجودہ اور سابق تمام پرنسپل صاحبان متفق ہیں کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ جنابCatchpoleجیسا عظیم استاد اس کا بانی پرنسپل تھا۔ جنرل صاحب بتارہے تھے کہ'' یکم فروری 1997کو کیچ پول صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تو انھیں ان کی وصیّت کے مطابق اس درسگاہ (کیڈٹ کالج حسن ابدال) کے احاطے میں دفن کیا گیا کہ اِسکی بنیادوں میں ان کا خونِ جگر شامل تھا۔ اس کی تعمیر و ترقّی کے لیے وہ لندن میں اپنی جائیداد بیچ کر پیسہ لگاتے رہے اور تنخواہ سے پس انداز کی ہوئی رقم بھی اس کالج کی بہتری پر خرچ کرتے رہے''۔راقم سر جھکائے یہی سوچتا رہا کہ کہاں ہیں اب ایسے استاد!۔کہاں چلے گئے ایسے انسان۔کہ جنھیں دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔

بلاشبہ جنرل نجیب کالج کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے بڑے جذبے اور ولولے سے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے ڈسپلن کا معیار بلند کرنے کے علاوہ کالج کی زیب و زینت میں بہت اضافہ کیا ہے۔ رخصت ہوتے وقت میں نے بصداحترام کہا''جنرل صاحب ! ادارے سنگ و خشت سے نہیں بنتے، ملک میںاسوقت کئی ایسے ادارے ہیں جنکے ہوسٹلوں میں اس کالج سے زیادہ سہولتیں میسّر ہیں لیکن جو چیز اداروں کو ممتاز کرتی ہے، وہ ہے اس کی فیکلٹی ، اس کے اساتذہ ، اُنکی قابلیت ، اُنکا جذبہ و جنون اور درسگاہ کا ماحول اور روایات۔ سر! بہترین اساتذہ کا انتخاب کیجیے اور انھیں بہترین پیکیج اور سہولتیں فراہم کیجیے۔ بہترین ٹیچرز ہی اس قابلِ فخر درسگاہ کی ممتاز حیثیّت برقرار رکھ سکتے ہیں۔

بہترین اساتذہ ۔اس کی پہچان اور طلباء کی کردار سازی ۔اس کی امتیازی شان بن جائے تو یہ آج بھی ایشیاء کا بہترین ادارہ کہلائے گا''۔ چند روزپہلے کالج کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین سے بھی یہی کہا تھا کہ ''ہماری خواہش بھی ہے اور دعا بھی کہ سرخ اینٹوں کی یہ دیدہ زیب عمارت صرف ایک کالج نہ رہے، علم و آگہی کے مینارِ نور میں تبدیل ہوجائے اور والدین کو یقین ہو کہ یہ عمارت صرف ایک تعلیمی درسگاہ نہیں ، نوجوان طلباء کی کردار سازی کا کارخانہ ہے''۔ جسطرح 1971میں میجر نادر پرویز کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ وہ بھارت کی قید سے ضرور نکلے گا۔ اسی طرح یہاں کے فارغ التّحصیل ہر سیاستدان، بیوروکریٹ،جج، جرنیل، جرنلسٹ، ڈاکٹر، انجینئر اور بزنس مین کے بارے میں سب کو یقین ہوکہ وہ صرف اور صرف رزقِ حلال کھائیگا ، وہ کسی قسم کی بددیانتی کا مرتکب نہیں ہوگا، وہ آئین کی پاسداری کریگا، وہ ذاتی مفاد کو ملک کے مفاد پر قربان کردیگا ۔کیونکہ وہ ابدالین ہے۔
Load Next Story