ڈیل کی باتیں سطحی سوچ کی غماز
نہ حکومت اِس طرح کی کوئی ڈیل کرکے اپنے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ تبدیل کرواسکتی ہے
شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت پر رہائی پر ہمارے یہاں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ حکومت اورپیپلزپارٹی کے درمیان ایک خفیہ ڈیل یا مک مکا کا نتیجہ ہے۔ عام لوگ اگر ایسی باتیں کریں توکچھ سمجھ میں بھی آتا ہے کیونکہ عام لوگوںکو سیاسی معاملات کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی لیکن بیس سال سے سیاست کی میدان میںسرپٹ گھوڑے دوڑانے والے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اگر ایسی باتیں کریں تو اُن کی قابلیت پرکفِ افسوس ہی ملا جاسکتا ہے۔ وہ بچکانہ اور غیر ذمے دارانہ سیاست کے ابھی تک امین بنے ہوئے ہیں۔
اُن کی باتوں اور حکمتِ عملیوں میں وہ پختگی اور بالغ نظری ہنوز ناپید ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل میچ کے انعقاد پر اُن کے بیانوں سے اُن کے چاہنے والوں کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا اُنہیں اِس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں اور وہ مسلسل اُسی طرزِ سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں یوٹرن لینے کے بہت بڑے پیرو کار کہلائے جاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ماڈل گرل ایان علی کو ضمانت پر رہائی سپریم کورٹ کے ایک حکم پر ملی تھی نہ کہ حکومت کی ایماء پر۔ حکومت تو اُس کا نام '' ای سی ایل'' سے کسی طور نکالنے پر رضامندہی نہ تھی۔ مگر پہلے اُس کے حق میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا جسے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا مگر وہاں بھی اُسی فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر حکومت ایان علی کو رہا نہ کرنے پر بضد رہتی تو اُسے یقینا توہینِ عدالت جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اِس کے بعد شرجیل میمن کو اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن آنے پر بھی عبوری ضمانت پر رہائی اگر ملی ہے تو وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے۔ اِس میں نواز حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ اُس نے تو وہاں بھی اِس عبوری ضمانت کی بھر پور مخالفت کی تھی۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی مقدمے میں ضمانت کا حصول ہر اُس شخص کا قانونی حق ہوتا ہے جسے کسی ایسے مبینہ الزام کی پاداش میں گرفتارکیا گیا ہوجو ابھی ثابت بھی نہیں ہو پایا اور اُسے یا توگرفتار کرلیاگیا ہو یا پھر اُسے گرفتاری کا خوف ہو۔ یہ سب ایسے قانونی معاملات ہیں جن کی سوجھ بوجھ شاید عام آدمی کو تو نہیں ہوتی لیکن سیاست اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دانشور حضرات اور تبصرہ نگار بحرحال اِس سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔ مگر اُن کی جانب سے ایسی ہرزائی سرائی سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ وہ واقعی یاتو اتنے بھولے اور معصوم ہیں کہ اُنہیں کچھ پتہ نہیں یا پھروہ جان بوجھ کر لاعلمی کا اظہارکر رہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں سابق وزیرِ مذہبی اُمور حامد سعید کاظمی کے کیس کی جانب جنھیں چار سال قید گزارلینے کے بعد اگرآج رہائی ملی ہے تو وہ بھی ہماری عدلیہ کی جانب سے۔ حکومت نے اُن کی سزا جوں کی توں برقرار رکھنے کی نہ صرف استدعا کی تھی بلکہ مہنگے ترین وکلاء کے ذریعے قانونی کاروائی میں حصہ لیتے ہوئے اُن کی رہائی کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسی طرح اب ڈاکٹر عاصم حسین بھی اگر 19 ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں تو اُس میں بھی ہماری حکومت کی کسی خواہش کا عندیہ نہیں ملتا ہے۔ اُنہیں سندھ ہائی کورٹ کے ایک مشکل فیصلے کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ دو ججوں میں اختلاف کے بعد ریفری جج کی جانب سے ضمانت کے حق میں فیصلہ آجانے سے یہ معاملہ طے ہوپایا ہے بصورتِ دیگر اُن کی رہائی مشکل اور ناممکن تھی۔
عدالتوں سے ضمانتوں پررہا ہونے کے اِن تمام فیصلوں کو حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیل قرار دینے والے دراصل اپنی عدلیہ پر بھی اُس ڈیل میں شامل ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔اُسی عدلیہ پر جس کی تعریفیں کرتے خان صاحب کی زبان آج کل تھکتی نہیں ہے اور وہ پانامہ کیس سے متعلق معزز ججوں کی شان میں قصیدے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام افراد کی رہائی میں وہ عدلیہ کو برا بھلا کہنے سے نہ صرف اجتناب برت رہے ہیں بلکہ ناقابلِ یقین حد تک احتیاط سے کام لیتے ہوئے خاموشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
خداکرے اُن کی جانب سے ملکی عدالتوں کا احترام اِسی طرح قائم ودائم رہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ پاناما کیس کا فیصلہ اُن کی خواہشوں اور توقعات کے مطابق اگر نہ آیا تو پھر وہ اپنی پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے کہیں عدلیہ کے وقار کو بھی تہس نہس نہ کرڈالیں۔ خان صاحب کو اپنے سوا ہرکوئی غلط کار اورمجرم دکھائی دیتا ہے۔ سیاست میں وہ صرف محاذ آرائی کے دلدادہ ہیں۔اُنہیں دنگا فساد اورمارکٹائی کی سیاست بہت عزیز ہے۔جو اُن کی پالیسیوں کی حمایت نہ کرے وہ اُس جماعت سے بہت جلد ناراض اور نالاں ہوجاتے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ سبھی اُن کی تائیدو حمایت کریں۔پاکستان پیپلز پارٹی یقینا ایک بڑی جماعت ہے ۔وہ بھلا کیونکر آنکھیں بند کرکے خان صاحب کی حکمتِ عملیوں کو اپنا منشور بنالے۔ اُس کی اپنی پالیسیاں اور طرز سیاست ہے، مگر خان صاحب کو پیپلز پارٹی کی یہ ادا ہرگز نہیں بھاتی اور وہ اُسے حکومت کے ساتھ مک مکا کا طعنہ دیاکرتے رہتے ہیں اورشاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوگوں کو عدلیہ کی جانب سے ملنے والے حالیہ ریلیف کو وہ حکمرانوں کے ساتھ مبینہ ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔حالانکہ اِس ڈیل کا نواز حکومت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ یہ خود نہیں جانتے ہیں۔
نہ حکومت اِس طرح کی کوئی ڈیل کرکے اپنے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ تبدیل کرواسکتی ہے اورنہ پاکستان پیپلزپارٹی اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال کر نواز حکومت کو کوئی ریلیف دلواسکتی ہے۔ ویسے بھی اب الیکشن قریب آتے جارہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی حکمرانوں سے کسی مفاہمت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے اُسے حکومت کو یقینا ٹف ٹائم دینا ہوگا۔ زرداری صاحب سیاست کے داؤ پیج اچھی طرح جانتے ہیں۔ سیاسی بساط پر مہرے کب اور کس طرح چلنے ہیں یہ کوئی اور سیاستدان زرداری صاحب سے بہتر نہیں جانتا۔''ایک زرداری سب پر بھاری'' کوئی یونہی نہیں کہا جاتا ہے۔ اِس نعرے کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت میںوہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی کئی قدم آگے ہیں تو یقینا بے جا نہ ہوگا۔
2008ء میں جنرل پرویزمشرف کو اُنہوں نے جس طرح مواخذے کا خوف دلا کر ازخود استعفیٰ پر مجبورکر دیا تھا اور بعدازاں خود مسندِ صدارت پر براجمان ہوگئے تھے، یہ سب اُنہی کی ذہانت اور قابلیت کا طرہ امتیاز ہے۔ ہماری کوئی اور سیاستداں اُن کی اِس سوچ تک پہنچ بھی نہیں سکتا ہے۔ وہ کتنے زیرک اوردانا سیاستداں ہیں خان صاحب کو اُن کی اِن خوبیوں اورکرامتوں کا ابھی پتہ بھی نہیں ہے۔ وہ تو ابھی تک طفلِ مکتب ہیں۔ ڈیل کیا ہوتی ہے اورکیسے کی جاتی ہے یہ زرداری صاحب بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ 1993ء میںجیل سے سیدھے وفاقی کابینہ میں اور 2008ء جلاوطنی سے فوراً صدارت کے عہدے پر فائز ہوجانا کوئی معمولی کرشمہ نہیں ہے۔خان صاحب کو یہ باتیں سمجھنے میں ابھی کئی سال اور لگیں گے۔
اُن کی باتوں اور حکمتِ عملیوں میں وہ پختگی اور بالغ نظری ہنوز ناپید ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل میچ کے انعقاد پر اُن کے بیانوں سے اُن کے چاہنے والوں کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا اُنہیں اِس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں اور وہ مسلسل اُسی طرزِ سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں یوٹرن لینے کے بہت بڑے پیرو کار کہلائے جاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ماڈل گرل ایان علی کو ضمانت پر رہائی سپریم کورٹ کے ایک حکم پر ملی تھی نہ کہ حکومت کی ایماء پر۔ حکومت تو اُس کا نام '' ای سی ایل'' سے کسی طور نکالنے پر رضامندہی نہ تھی۔ مگر پہلے اُس کے حق میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا جسے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا مگر وہاں بھی اُسی فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر حکومت ایان علی کو رہا نہ کرنے پر بضد رہتی تو اُسے یقینا توہینِ عدالت جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اِس کے بعد شرجیل میمن کو اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن آنے پر بھی عبوری ضمانت پر رہائی اگر ملی ہے تو وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے۔ اِس میں نواز حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ اُس نے تو وہاں بھی اِس عبوری ضمانت کی بھر پور مخالفت کی تھی۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی مقدمے میں ضمانت کا حصول ہر اُس شخص کا قانونی حق ہوتا ہے جسے کسی ایسے مبینہ الزام کی پاداش میں گرفتارکیا گیا ہوجو ابھی ثابت بھی نہیں ہو پایا اور اُسے یا توگرفتار کرلیاگیا ہو یا پھر اُسے گرفتاری کا خوف ہو۔ یہ سب ایسے قانونی معاملات ہیں جن کی سوجھ بوجھ شاید عام آدمی کو تو نہیں ہوتی لیکن سیاست اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دانشور حضرات اور تبصرہ نگار بحرحال اِس سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔ مگر اُن کی جانب سے ایسی ہرزائی سرائی سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ وہ واقعی یاتو اتنے بھولے اور معصوم ہیں کہ اُنہیں کچھ پتہ نہیں یا پھروہ جان بوجھ کر لاعلمی کا اظہارکر رہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں سابق وزیرِ مذہبی اُمور حامد سعید کاظمی کے کیس کی جانب جنھیں چار سال قید گزارلینے کے بعد اگرآج رہائی ملی ہے تو وہ بھی ہماری عدلیہ کی جانب سے۔ حکومت نے اُن کی سزا جوں کی توں برقرار رکھنے کی نہ صرف استدعا کی تھی بلکہ مہنگے ترین وکلاء کے ذریعے قانونی کاروائی میں حصہ لیتے ہوئے اُن کی رہائی کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسی طرح اب ڈاکٹر عاصم حسین بھی اگر 19 ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں تو اُس میں بھی ہماری حکومت کی کسی خواہش کا عندیہ نہیں ملتا ہے۔ اُنہیں سندھ ہائی کورٹ کے ایک مشکل فیصلے کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ دو ججوں میں اختلاف کے بعد ریفری جج کی جانب سے ضمانت کے حق میں فیصلہ آجانے سے یہ معاملہ طے ہوپایا ہے بصورتِ دیگر اُن کی رہائی مشکل اور ناممکن تھی۔
عدالتوں سے ضمانتوں پررہا ہونے کے اِن تمام فیصلوں کو حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیل قرار دینے والے دراصل اپنی عدلیہ پر بھی اُس ڈیل میں شامل ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔اُسی عدلیہ پر جس کی تعریفیں کرتے خان صاحب کی زبان آج کل تھکتی نہیں ہے اور وہ پانامہ کیس سے متعلق معزز ججوں کی شان میں قصیدے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام افراد کی رہائی میں وہ عدلیہ کو برا بھلا کہنے سے نہ صرف اجتناب برت رہے ہیں بلکہ ناقابلِ یقین حد تک احتیاط سے کام لیتے ہوئے خاموشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
خداکرے اُن کی جانب سے ملکی عدالتوں کا احترام اِسی طرح قائم ودائم رہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ پاناما کیس کا فیصلہ اُن کی خواہشوں اور توقعات کے مطابق اگر نہ آیا تو پھر وہ اپنی پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے کہیں عدلیہ کے وقار کو بھی تہس نہس نہ کرڈالیں۔ خان صاحب کو اپنے سوا ہرکوئی غلط کار اورمجرم دکھائی دیتا ہے۔ سیاست میں وہ صرف محاذ آرائی کے دلدادہ ہیں۔اُنہیں دنگا فساد اورمارکٹائی کی سیاست بہت عزیز ہے۔جو اُن کی پالیسیوں کی حمایت نہ کرے وہ اُس جماعت سے بہت جلد ناراض اور نالاں ہوجاتے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ سبھی اُن کی تائیدو حمایت کریں۔پاکستان پیپلز پارٹی یقینا ایک بڑی جماعت ہے ۔وہ بھلا کیونکر آنکھیں بند کرکے خان صاحب کی حکمتِ عملیوں کو اپنا منشور بنالے۔ اُس کی اپنی پالیسیاں اور طرز سیاست ہے، مگر خان صاحب کو پیپلز پارٹی کی یہ ادا ہرگز نہیں بھاتی اور وہ اُسے حکومت کے ساتھ مک مکا کا طعنہ دیاکرتے رہتے ہیں اورشاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوگوں کو عدلیہ کی جانب سے ملنے والے حالیہ ریلیف کو وہ حکمرانوں کے ساتھ مبینہ ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔حالانکہ اِس ڈیل کا نواز حکومت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ یہ خود نہیں جانتے ہیں۔
نہ حکومت اِس طرح کی کوئی ڈیل کرکے اپنے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ تبدیل کرواسکتی ہے اورنہ پاکستان پیپلزپارٹی اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال کر نواز حکومت کو کوئی ریلیف دلواسکتی ہے۔ ویسے بھی اب الیکشن قریب آتے جارہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی حکمرانوں سے کسی مفاہمت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے اُسے حکومت کو یقینا ٹف ٹائم دینا ہوگا۔ زرداری صاحب سیاست کے داؤ پیج اچھی طرح جانتے ہیں۔ سیاسی بساط پر مہرے کب اور کس طرح چلنے ہیں یہ کوئی اور سیاستدان زرداری صاحب سے بہتر نہیں جانتا۔''ایک زرداری سب پر بھاری'' کوئی یونہی نہیں کہا جاتا ہے۔ اِس نعرے کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت میںوہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی کئی قدم آگے ہیں تو یقینا بے جا نہ ہوگا۔
2008ء میں جنرل پرویزمشرف کو اُنہوں نے جس طرح مواخذے کا خوف دلا کر ازخود استعفیٰ پر مجبورکر دیا تھا اور بعدازاں خود مسندِ صدارت پر براجمان ہوگئے تھے، یہ سب اُنہی کی ذہانت اور قابلیت کا طرہ امتیاز ہے۔ ہماری کوئی اور سیاستداں اُن کی اِس سوچ تک پہنچ بھی نہیں سکتا ہے۔ وہ کتنے زیرک اوردانا سیاستداں ہیں خان صاحب کو اُن کی اِن خوبیوں اورکرامتوں کا ابھی پتہ بھی نہیں ہے۔ وہ تو ابھی تک طفلِ مکتب ہیں۔ ڈیل کیا ہوتی ہے اورکیسے کی جاتی ہے یہ زرداری صاحب بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ 1993ء میںجیل سے سیدھے وفاقی کابینہ میں اور 2008ء جلاوطنی سے فوراً صدارت کے عہدے پر فائز ہوجانا کوئی معمولی کرشمہ نہیں ہے۔خان صاحب کو یہ باتیں سمجھنے میں ابھی کئی سال اور لگیں گے۔