پاکستانی تنازع آئی او سی کا فیصلہ 15 فروری کو متوقع
معاملات کا جائزہ لینے کیلیے ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو لوزانے سوئٹزرلینڈ طلب کرلیا گیا۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈہاک لگائے جانے کے حوالے سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا فیصلہ 15 فروری کو متوقع ہے۔
معاملات کا جائزہ لینے کیلیے آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو لوزانے، سوئٹزرلینڈ طلب کرلیا گیا، میٹنگ سے قبل کھیلوں میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے محاذ آرائی ختم نہ ہوئی تو کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں میں شرکت پر پابندی لگنے کا خدشہ ہے۔تفصیلات کے مطابق پاکستان میں اسپورٹس پالیسی 2005 میں بنائی گئی تھی لیکن بوجوہ عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا، بعدازاں عدالتی چارہ جوئی کے بعد فیصلہ اسپورٹس بورڈ کے حق میں ہوا جس کے تحت کسی بھی کھیلوں کی تنظیم میں کوئی عہدیدار2 سے زیادہ ٹرم کیلیے عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔
پی او اے کے صدر عارف حسن نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیا اور ایتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر جنرل(ر) اکرم ساہی کو انتخابات میں شکست دے کر تیسری بار عہدہ پایا، ناکام امیدواروں نے خوب شور مچایا کہ اسپورٹس پالیسی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ایک بار پھر عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں، دوسری طرف عارف حسن کا موقف تھا کہ پی او اے کسی تنظیم کے بجائے آئی او سی چارٹر کے مطابق معاملات چلانے کی پابند ہے،اس صورتحال میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے پاکستان میں کھیلوں کے نظام اور فیڈریشنز میں حکومتی مداخلت پر ایکشن لینے کی تنبیہ کری۔
لندن گیمز سے قبل اسپورٹس تنظیموں کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت برقرار رکھنے کا طرز عمل اپنانے کیلیے ڈیڈ لائن دی گئی جس میں پی اواے کی درخواست پر توسیع کیے جانے کے بعد کھلاڑیوں کو میگا ایونٹ میں ملکی نمائندگی کی اجازت ملی،تاحال اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے مابین تنازع حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈہاک لگانے اور گذشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمزکو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے انھیں دوبارہ اسلام آباد میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پی ایس بی کی جانب سے آصف باجوہ کی زیرسربراہی7 رکنی ایڈہاک کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ دوسری طرف پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدیدار بدستور اس موقف پر قائم ہیں کہ اسپورٹس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ وہ کسی فیصلے کے پابند نہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی او اے کا الحاق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے اور وہ آئی او سی چارٹر پر مکمل طور پر عمل پیرا ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈ ہاک لگائے جانے کے حوالے سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا فیصلہ15 فروری کو لوزانے میں ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے، معاملات کا جائزہ لینے کیلیے آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا گیا۔
میٹنگ سے قبل کھیلوں میں سیاسی مداخلت پر مبنی فیصلوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو پاکستانی کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں میں شرکت پر پابندی لگ جائے گی،پلیئرز ملکی پرچم کے بجائے آئی اوسی کے بینر تلے انٹرنیشنل ایونٹس میں حصہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے، بدھ کو پی او اے کی ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ میں صورتحال پر غور ہوگا، 12 فروری کے جنرل کونسل اجلاس میں فیصلوں کی توثیق کرانے کے بعد لوزانے میں موقف بھرپور طریقے سے پیش کرنے کیلیے تیاری کی جائے گی۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی اوسی پہلے ہی5 خطوط متعلقہ وزارت اور اسپورٹس بورڈ حکام کو بھیج کر معاملے کی حساس نوعیت سے آگاہ کرچکی ہے،محاذ آرائی ختم نہ ہوئی تو پابندی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔
معاملات کا جائزہ لینے کیلیے آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو لوزانے، سوئٹزرلینڈ طلب کرلیا گیا، میٹنگ سے قبل کھیلوں میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے محاذ آرائی ختم نہ ہوئی تو کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں میں شرکت پر پابندی لگنے کا خدشہ ہے۔تفصیلات کے مطابق پاکستان میں اسپورٹس پالیسی 2005 میں بنائی گئی تھی لیکن بوجوہ عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا، بعدازاں عدالتی چارہ جوئی کے بعد فیصلہ اسپورٹس بورڈ کے حق میں ہوا جس کے تحت کسی بھی کھیلوں کی تنظیم میں کوئی عہدیدار2 سے زیادہ ٹرم کیلیے عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔
پی او اے کے صدر عارف حسن نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیا اور ایتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر جنرل(ر) اکرم ساہی کو انتخابات میں شکست دے کر تیسری بار عہدہ پایا، ناکام امیدواروں نے خوب شور مچایا کہ اسپورٹس پالیسی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ایک بار پھر عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں، دوسری طرف عارف حسن کا موقف تھا کہ پی او اے کسی تنظیم کے بجائے آئی او سی چارٹر کے مطابق معاملات چلانے کی پابند ہے،اس صورتحال میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے پاکستان میں کھیلوں کے نظام اور فیڈریشنز میں حکومتی مداخلت پر ایکشن لینے کی تنبیہ کری۔
لندن گیمز سے قبل اسپورٹس تنظیموں کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت برقرار رکھنے کا طرز عمل اپنانے کیلیے ڈیڈ لائن دی گئی جس میں پی اواے کی درخواست پر توسیع کیے جانے کے بعد کھلاڑیوں کو میگا ایونٹ میں ملکی نمائندگی کی اجازت ملی،تاحال اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے مابین تنازع حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈہاک لگانے اور گذشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمزکو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے انھیں دوبارہ اسلام آباد میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پی ایس بی کی جانب سے آصف باجوہ کی زیرسربراہی7 رکنی ایڈہاک کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ دوسری طرف پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدیدار بدستور اس موقف پر قائم ہیں کہ اسپورٹس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ وہ کسی فیصلے کے پابند نہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی او اے کا الحاق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے اور وہ آئی او سی چارٹر پر مکمل طور پر عمل پیرا ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈ ہاک لگائے جانے کے حوالے سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا فیصلہ15 فروری کو لوزانے میں ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے، معاملات کا جائزہ لینے کیلیے آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا گیا۔
میٹنگ سے قبل کھیلوں میں سیاسی مداخلت پر مبنی فیصلوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو پاکستانی کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں میں شرکت پر پابندی لگ جائے گی،پلیئرز ملکی پرچم کے بجائے آئی اوسی کے بینر تلے انٹرنیشنل ایونٹس میں حصہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے، بدھ کو پی او اے کی ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ میں صورتحال پر غور ہوگا، 12 فروری کے جنرل کونسل اجلاس میں فیصلوں کی توثیق کرانے کے بعد لوزانے میں موقف بھرپور طریقے سے پیش کرنے کیلیے تیاری کی جائے گی۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی اوسی پہلے ہی5 خطوط متعلقہ وزارت اور اسپورٹس بورڈ حکام کو بھیج کر معاملے کی حساس نوعیت سے آگاہ کرچکی ہے،محاذ آرائی ختم نہ ہوئی تو پابندی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔