پہلے اصلاحات پھر انتخابات
پاکستان میں زیادہ عرصہ مارشل لاء کی حکومتیں رہیں
ہماری بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان میں زیادہ عرصہ مارشل لاء کی حکومتیں رہیں، جنھوں نے اداروں کے معاملات میں دخل اندازی کی جس کے نتیجے میں ملکی ترقی بری طرح متاثر ہوئی۔ خاص طور پر سب سے زیادہ نقصان سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے اداروں کو پہنچایا، ملکی یکجہتی پارہ پارہ ہوئی۔لسانی، صوبائی، علاقائی اور مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہر آمرحکمراں اپنے تعلقات کو امریکا سے استوارکرنے میں ڈو مورکرتا رہا اورجابر حکمران ملاؤں اورغیر حقیقی سیاستدانوں کے ذریعے اپنی حکمرانی کو طول دیتے رہے اور جب کبھی جمہوری حکومت آئی تو ایسے سیاستدا ں اکثریت سے جیتے جنھیں حکومت اور سیاست کی ابجد بھی نہیں آتی تھی۔ قائداعظم محمدعلی جناح اور ذوالفقارعلی بھٹو جیسے ذہین سیاست دان حکومت کرتے رہے ہیں، وہاں ان سے بہتر لوگوں کو ان کی جگہ آنا چاہیے تھا یا کم سے کم ان جیسے ذہین سیاستدان جن میں لیڈرشپ کی صلاحیت ہوتی وہ آتے مگر 1977ء کے مار شل لاء نے تمام سیاسی اداروں کو تباہ وبربادکردیا۔
بھٹو دشمنی میں پاکستان کی مقبول ترین وفاق پرست جماعت کودیوار سے لگا کر ان کے مقابلے میں مصنوعی سیاستدانوں کو آگے لایا گیا۔ یہ وہ سیاستداں تھے جن میں ایک کونسلر بننے کی بھی صلاحیت نہ تھی اور سب سے زیادہ وطن کو نقصان ان جماعتوں نے پہنچایا جو مذہب کی آڑ میں سیاست کرتی رہیں۔ وہ جماعتیں کسی طور دینی جماعت نہیں تھیں نہ ہیں یہ سب مسلکی، مذہبی جماعتیں ہیں جو اپنے اپنے عقیدے اپنے مسلک کو جبراً پاکستان پر مسلط کر نا چاہتی ہے۔ جب بھی انتخابات کا آٓغاز ہوتا ہے یہ جماعتیں اسلام اورشریعت کا نام لے کر اپنی سیاسی مہم چلاتی ہیں اور ہمار ے بھولے بھالے مسلمان مذہبی جذباتی نعروں کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے وہ قوم پرست سیاستدان جو پاکستانی قوم کو ایک قوم ماننے کو تیار نہیں وہ صوبائی اور لسانی فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، اس طرح ہمارے بھولے بھالے لوگ ان کے فریب میں آ جا تے ہیں۔
یہ سلسلہ 1970ء کے انتخابات سے آج تک جاری ہے۔ کسی نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ تمام انتخابات میں لسانیت اور مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی اجازت نہ ہو بلکہ اہلیت اورکارکردگی کی بنیاد پر ووٹر فیصلہ کرے۔ ووٹر لسانیت اور صوبائیت، مذہبی فرقہ پرستی اور برادری میں تقسیم کر دیا جاتا ہے وہ اسی میں گھرے رہتے ہیںاور جب انتخبی نتیجہ آتا ہے توکچھ اس طرح ہو تا ہے بلوچی ووٹ بلوچ قوم پرستوں کو پختون ووٹ پختون قوم پرست جماعت کو اور سندھی ووٹ سندھی قوم پرست جماعت کو مہاجر ووٹ مہاجر قوم پرست جماعت کو مذہبی فرقے کا ووٹ فرقہ پرست جماعت کو جاتا ہے اور آنے والی حکومت پاکستان پرست پالیسی پر عمل نہیں کر پاتی۔ اب عنقر یب نئے انتخابات کو نظریہ پاکستان اور وحدت ملی کے جذبے سے لڑا جائے تو بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔کم سے کم یہ با ت طے ہو جو امیدوار ہو اس کے پا س دہری شہریت نہ ہو۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں وہی امیدوار ہو جس نے پہلے کبھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میںکامیابی حاصل کی ہو، اسی طرح صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا وہ شخص اہل ہو جوکم سے کم کونسلرکا انتخاب لڑ چکا ہو اور جیت چکا ہو۔ یہی وہ شفاف طریقہ ہے جس کے ذریعے منجھے ہوئے پارلیمینٹرین اسمبلیوں میں آئیں گے۔ کسی ایسے شخص کو امیدوار نہ بننے دیا جائے جس پرکوئی ایسا مقدمہ ہو جس میں اس پر فرد جرم عائد ہو چکی ہو۔ کسی ایسے شخص کو امیدوار نہ بنایا جائے جس نے کبھی بھی قرضہ لے کے معاف کرایا ہو۔ صدر اور وزیر اعظم کو صرف دو دفعہ منتخب ہونے کا حق دیا جائے۔
کسی ایسے امیدوارکو جو انکم ٹیکس میں فائلر نہ ہو، اسے امیدواری کا حق نہ ہو، اور جب غیر جانبدارنہ حکومت تشکیل دی جائے اس میں صرف بیوروکریٹس، سابق جج صاحبان، سابق فو جی جنرل اور پو لیس اور رینجر ز کے اعلیٰ افسران ہوں جن کی غیر جانبداری کو یقینی بنایا جائے اور کسی سیاستدان کو بیرون ملک سے بیٹھ کر سیاست کر نے کا حق نہ ہو۔ اگر ان مختصر سی اصلاحات پر انتخابا ت سے قبل عمل کروایا جائے توکم سے کم آیندہ ایسے ارکان اسمبلی منتخب ہو ںگے جو پاکستان پرست ہوں گے اور ملک کو ایسی قیادت ملے گی جس کا مشن پاکستان میں پیداوارکو بڑھانا، روزگار کے مواقعے پیدا کرنا، بجلی، پانی، گیس اور انفرا اسٹکچر کو بہتر بنانا ہو گا۔
اگر سابقہ انداز سے انتخابات ہوئے تو ملک میں بدعنوانی کرپشن، بے روزگاری بڑھتی جائے گی اور ملک کے عوام جو اب تک شدید ترین مہنگائی کو برداشت کر رہے ہیں اس میں خاطر خواہ کمی کے بجائے مزید اضافہ ہو جائے گا اور ملک کا متوسط ترین طبقہ سب سے زیادہ متا ثر ہو گا اور پاکستان میں ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔
بھٹو دشمنی میں پاکستان کی مقبول ترین وفاق پرست جماعت کودیوار سے لگا کر ان کے مقابلے میں مصنوعی سیاستدانوں کو آگے لایا گیا۔ یہ وہ سیاستداں تھے جن میں ایک کونسلر بننے کی بھی صلاحیت نہ تھی اور سب سے زیادہ وطن کو نقصان ان جماعتوں نے پہنچایا جو مذہب کی آڑ میں سیاست کرتی رہیں۔ وہ جماعتیں کسی طور دینی جماعت نہیں تھیں نہ ہیں یہ سب مسلکی، مذہبی جماعتیں ہیں جو اپنے اپنے عقیدے اپنے مسلک کو جبراً پاکستان پر مسلط کر نا چاہتی ہے۔ جب بھی انتخابات کا آٓغاز ہوتا ہے یہ جماعتیں اسلام اورشریعت کا نام لے کر اپنی سیاسی مہم چلاتی ہیں اور ہمار ے بھولے بھالے مسلمان مذہبی جذباتی نعروں کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے وہ قوم پرست سیاستدان جو پاکستانی قوم کو ایک قوم ماننے کو تیار نہیں وہ صوبائی اور لسانی فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، اس طرح ہمارے بھولے بھالے لوگ ان کے فریب میں آ جا تے ہیں۔
یہ سلسلہ 1970ء کے انتخابات سے آج تک جاری ہے۔ کسی نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ تمام انتخابات میں لسانیت اور مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی اجازت نہ ہو بلکہ اہلیت اورکارکردگی کی بنیاد پر ووٹر فیصلہ کرے۔ ووٹر لسانیت اور صوبائیت، مذہبی فرقہ پرستی اور برادری میں تقسیم کر دیا جاتا ہے وہ اسی میں گھرے رہتے ہیںاور جب انتخبی نتیجہ آتا ہے توکچھ اس طرح ہو تا ہے بلوچی ووٹ بلوچ قوم پرستوں کو پختون ووٹ پختون قوم پرست جماعت کو اور سندھی ووٹ سندھی قوم پرست جماعت کو مہاجر ووٹ مہاجر قوم پرست جماعت کو مذہبی فرقے کا ووٹ فرقہ پرست جماعت کو جاتا ہے اور آنے والی حکومت پاکستان پرست پالیسی پر عمل نہیں کر پاتی۔ اب عنقر یب نئے انتخابات کو نظریہ پاکستان اور وحدت ملی کے جذبے سے لڑا جائے تو بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔کم سے کم یہ با ت طے ہو جو امیدوار ہو اس کے پا س دہری شہریت نہ ہو۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں وہی امیدوار ہو جس نے پہلے کبھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میںکامیابی حاصل کی ہو، اسی طرح صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا وہ شخص اہل ہو جوکم سے کم کونسلرکا انتخاب لڑ چکا ہو اور جیت چکا ہو۔ یہی وہ شفاف طریقہ ہے جس کے ذریعے منجھے ہوئے پارلیمینٹرین اسمبلیوں میں آئیں گے۔ کسی ایسے شخص کو امیدوار نہ بننے دیا جائے جس پرکوئی ایسا مقدمہ ہو جس میں اس پر فرد جرم عائد ہو چکی ہو۔ کسی ایسے شخص کو امیدوار نہ بنایا جائے جس نے کبھی بھی قرضہ لے کے معاف کرایا ہو۔ صدر اور وزیر اعظم کو صرف دو دفعہ منتخب ہونے کا حق دیا جائے۔
کسی ایسے امیدوارکو جو انکم ٹیکس میں فائلر نہ ہو، اسے امیدواری کا حق نہ ہو، اور جب غیر جانبدارنہ حکومت تشکیل دی جائے اس میں صرف بیوروکریٹس، سابق جج صاحبان، سابق فو جی جنرل اور پو لیس اور رینجر ز کے اعلیٰ افسران ہوں جن کی غیر جانبداری کو یقینی بنایا جائے اور کسی سیاستدان کو بیرون ملک سے بیٹھ کر سیاست کر نے کا حق نہ ہو۔ اگر ان مختصر سی اصلاحات پر انتخابا ت سے قبل عمل کروایا جائے توکم سے کم آیندہ ایسے ارکان اسمبلی منتخب ہو ںگے جو پاکستان پرست ہوں گے اور ملک کو ایسی قیادت ملے گی جس کا مشن پاکستان میں پیداوارکو بڑھانا، روزگار کے مواقعے پیدا کرنا، بجلی، پانی، گیس اور انفرا اسٹکچر کو بہتر بنانا ہو گا۔
اگر سابقہ انداز سے انتخابات ہوئے تو ملک میں بدعنوانی کرپشن، بے روزگاری بڑھتی جائے گی اور ملک کے عوام جو اب تک شدید ترین مہنگائی کو برداشت کر رہے ہیں اس میں خاطر خواہ کمی کے بجائے مزید اضافہ ہو جائے گا اور ملک کا متوسط ترین طبقہ سب سے زیادہ متا ثر ہو گا اور پاکستان میں ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔