ماضی کے اثرات
انسانی زندگی میں ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے اہمیت کے حامل ہیں
انسانی زندگی میں ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے اہمیت کے حامل ہیں۔ ماضی ایک بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جس سے حال کی عمارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کچی بنیاد اور حال کی ناقص عمارت، مستقبل کے مربوط سائبان سے محروم رہ جاتی ہے۔ سب سے پہلے بنیاد کو دیکھنا پڑتا ہے۔ آپ کتنی توانائی بنیاد کو مضبوط بنانے پر صرف کرتے ہیں۔ یہ توانائی، حال اور مستقبل کے حالات کا تعین کرتی ہے۔
فطرت کا تمام ترکاروبار، اس مضبوط بنیاد کے اردگرد گھومتا ہے۔ بیج کو زرخیز زمین چاہیے۔ بنیاد بیج کے بجائے زمین کی زرخیزی ہے۔ زمین زرخیز نہ ہو تو اس کی کوکھ ویران رہ جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح انسانی زندگی میں محبت، توجہ اور ضروریات کی فراہمی ہو مگر یقین کا عنصر نہ ہو تو بھی رشتوں کی عمارت شکستہ رہ جاتی ہے۔ زندگی ورشتوں کے لیے یقین ایک پختہ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ نباتات کی زندگی میں درختوں، ہوا، پانی اورروشنی کے ساتھ نگہداشت کی اہمیت ہے۔ کسی ایک کی کمی مطلوبہ نتائج کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔انسانی زندگی کی تمام تر رکاوٹیں کسی نہ کسی کمی کو ظاہرکرتی ہیں۔ چاہے وہ ارادے کی ناپختگی ہی کیوں نہ ہو۔ مضبوط ارادے، تکمیل کا ہنر جانتے ہیں۔ جب کہ بے یقینی بنتے کام بھی بگاڑ دیتی ہے۔ بقول ول ڈیورائٹ کے کہ ''یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ ماضی مرچکا ہے۔ کوئی بھی واقعہ جوکبھی رونما ہوا اس کا اثر لمحہ موجود تک باقی ہے۔ حال بھی دراصل تھان کی طرح لپٹا ہوا ماضی ہے اور وقت کے موجود ثانیے میں مرتکز ہوگیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم کسی طور ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ماضی، ہمارے حال کا مستقل پیچھا کرتا رہتا ہے۔ مثال 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد بھٹو کی پھانسی سے لے کر آج تک غیر انسانی واقعات کے تسلسل میں کہیں نہ کہیں ماضی کی غلطیاں ضرور یاد آتی ہیں۔
نفرت کا بیج بوکے محبت کی فصل سے فیض یاب نہیں ہوا جاسکتا۔ لہٰذا حکمرانوں کے غلط فیصلے کئی نسلوں کے روشن خوابوں کو تاریکی میں بدل دیتے ہیں۔
ول ڈیورائٹ مزید کہتا ہے ''آپ بھی اپنا ماضی ہیں۔ اکثر آپ کا چہرہ آپ کی سوانح عمری سناتا ہے۔ آپ آج جو کچھ ہیں وہ اس لیے ہیں جو آپ ماضی میں تھے۔ آپ جوکچھ ہیں اپنے ورثے کی وجہ سے ہیں اگرچہ وہ اب گزشتہ نسلوں کے دھندلکوں میں گم ہوچکا ہے۔'' یہ سچ ہے گزرا ہوا وقت، حال کے لمحوں سے جھلکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا ماضی، موروثی بیماریوں اور ورثے میں منتقل ہونے والی اچھی بری عادات سمیت ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ایک دور میں کسی حادثے سے گزرنے والی نسل کا خوف اور خود رحمی تمام آنے والی نسلوں کے لیے ڈراؤنے خوابوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
جھوٹ، منافقت کا پیچھا کرتا ہے۔ بے ایمانی ، موقعہ پرستی کو ڈھونڈتی ہے۔ خود رحمی، شیطانی قوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ آپ کی ذات میں اگر خامیاں ہیں تو وقت پر ان کا ازالہ کرلیں۔ تاکہ برائی کا یہ دیمک آپ کی نسلوں میں منتقل نہ ہونے پائے۔
ماضی کو فقط سبق سیکھنے کی حد تک یاد رکھنا چاہیے۔ یورپ و امریکا سمیت کئی قومیں برے حالات و حادثات سے گزرتے ہوئے قومی زندگی میں بہتری لے کر آئیں۔ ماضی کا زہر ایک بار پی کر اسے آب حیات بنالیا۔
ماضی سے وابستگی کے کئی نقصانات ہیں۔ انسان حال سے کٹ جاتا ہے۔ حقیقت پسند رویوں سے دور ہوجاتا ہے اور خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سوچ اور رویوں کا دوغلا پن، ماضی سے وابستگی کی نشانی ہے۔ یہ نرگسی رویوں کی علامت بھی ہے۔ جس میں انسان کی ذات اہمیت کی حامل ہے۔ وہ اپنا ایک الگ جہاں بنالیتا ہے۔ مغالطوں اور واہموں کا شکار ہوجاتا ہے۔
ماضی کی سوچ فراریت پسندی کا عارضی سائبان ہے۔ جو انسان کو حال میں غیر موجود کردیتا ہے۔ ہماری قومی زندگی کا المیہ بھی ماضی میں رہنے کی عادت کے اردگرد گھومتا ہے ۔ ایک دوسرے سے کل کی باتوں کی وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔ یہ کوئی نہیں غور کرتا کہ آج کیا ہو رہا ہے۔ آج، جو ہماری ذاتی ذمے داری ہے۔ ہمیں اسے بہتر بنانا ہے۔ گزرتے ہوئے کل کی بات کرکے، حال کے لمحوں کا حسن کیوں غارت کریں۔
غلطیاں انفرادی ذمے داری ہے۔ غلطی کرنے والے کو خود محاسبہ کرنا چاہیے۔ اسے کوئی اور کیوں احساس دلائے۔ ہم دوسروں کی پرکھ میں ذات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
ماضی، حد درجہ وابستگی ہے دنیاوی زندگی سے۔ یہ نفرت، رقابت اور حسد کو زندہ رکھتا ہے۔ وابستگی کرب کا دوسرا نام ہے۔ وہ توقعات جو پوری نہ ہوسکیں۔ نفرت کا زہر بن کے رگوں میں دوڑتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب لوگ آپس میں لڑتے ہیں تو پرانی باتوں کے حوالے دیتے ہیں۔ جب کہ برے رویے یا احساس کو محسوس کرکے اچھی طرح اس دکھ کو اپنے اندر جذب کرکے بھلا دینا چاہیے۔
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دشمن اس کا ماضی ہے۔ جو اسے حال میں جینے نہیں دیتا۔ ماضی، لاشعور میں محفوظ ہوتا ہے۔ لاشعور ایک گہرا بھنور ہے۔ جو اس بھنور میں ڈوبے اپنا نشان تک گنوا بیٹھے۔
پرانی یادیں، گزری ہوئی تلخیاں یا خوشگوار لمحے اور ان کی ذہن میں تکرار بہت سی سچائیوں اور حقائق سے دور لے کر جاتی ہیں۔ انسان کا سرمایہ گزرا ہوا وقت نہیں بلکہ لمحہ موجود ہے۔ ذہن میں ماضی کی تکلیف دہ یادوں کا کاٹھ کباڑ نکال کر باہر پھینک دینا، مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ ذہن کے خلیوں کو اچھی طرح سانس لینے کے لیے کشادہ جگہ چاہیے تاکہ سانسیں زندگی کی روانی کو محسوس کرسکیں۔ تلخ رویوں کی یاد، انسان کا رابطہ متحرک توانائی سے منقطع کردیتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں جتنے بھی مسائل ہیں۔ وہ حال سے غفلت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دکھ، ندامت اور پشیمانی کے بوجھ سے آزاد ایک تازہ اور خوشگوار دن آپ کا منتظر ہے۔
فطرت کا تمام ترکاروبار، اس مضبوط بنیاد کے اردگرد گھومتا ہے۔ بیج کو زرخیز زمین چاہیے۔ بنیاد بیج کے بجائے زمین کی زرخیزی ہے۔ زمین زرخیز نہ ہو تو اس کی کوکھ ویران رہ جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح انسانی زندگی میں محبت، توجہ اور ضروریات کی فراہمی ہو مگر یقین کا عنصر نہ ہو تو بھی رشتوں کی عمارت شکستہ رہ جاتی ہے۔ زندگی ورشتوں کے لیے یقین ایک پختہ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ نباتات کی زندگی میں درختوں، ہوا، پانی اورروشنی کے ساتھ نگہداشت کی اہمیت ہے۔ کسی ایک کی کمی مطلوبہ نتائج کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔انسانی زندگی کی تمام تر رکاوٹیں کسی نہ کسی کمی کو ظاہرکرتی ہیں۔ چاہے وہ ارادے کی ناپختگی ہی کیوں نہ ہو۔ مضبوط ارادے، تکمیل کا ہنر جانتے ہیں۔ جب کہ بے یقینی بنتے کام بھی بگاڑ دیتی ہے۔ بقول ول ڈیورائٹ کے کہ ''یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ ماضی مرچکا ہے۔ کوئی بھی واقعہ جوکبھی رونما ہوا اس کا اثر لمحہ موجود تک باقی ہے۔ حال بھی دراصل تھان کی طرح لپٹا ہوا ماضی ہے اور وقت کے موجود ثانیے میں مرتکز ہوگیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم کسی طور ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ماضی، ہمارے حال کا مستقل پیچھا کرتا رہتا ہے۔ مثال 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد بھٹو کی پھانسی سے لے کر آج تک غیر انسانی واقعات کے تسلسل میں کہیں نہ کہیں ماضی کی غلطیاں ضرور یاد آتی ہیں۔
نفرت کا بیج بوکے محبت کی فصل سے فیض یاب نہیں ہوا جاسکتا۔ لہٰذا حکمرانوں کے غلط فیصلے کئی نسلوں کے روشن خوابوں کو تاریکی میں بدل دیتے ہیں۔
ول ڈیورائٹ مزید کہتا ہے ''آپ بھی اپنا ماضی ہیں۔ اکثر آپ کا چہرہ آپ کی سوانح عمری سناتا ہے۔ آپ آج جو کچھ ہیں وہ اس لیے ہیں جو آپ ماضی میں تھے۔ آپ جوکچھ ہیں اپنے ورثے کی وجہ سے ہیں اگرچہ وہ اب گزشتہ نسلوں کے دھندلکوں میں گم ہوچکا ہے۔'' یہ سچ ہے گزرا ہوا وقت، حال کے لمحوں سے جھلکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا ماضی، موروثی بیماریوں اور ورثے میں منتقل ہونے والی اچھی بری عادات سمیت ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ایک دور میں کسی حادثے سے گزرنے والی نسل کا خوف اور خود رحمی تمام آنے والی نسلوں کے لیے ڈراؤنے خوابوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
جھوٹ، منافقت کا پیچھا کرتا ہے۔ بے ایمانی ، موقعہ پرستی کو ڈھونڈتی ہے۔ خود رحمی، شیطانی قوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ آپ کی ذات میں اگر خامیاں ہیں تو وقت پر ان کا ازالہ کرلیں۔ تاکہ برائی کا یہ دیمک آپ کی نسلوں میں منتقل نہ ہونے پائے۔
ماضی کو فقط سبق سیکھنے کی حد تک یاد رکھنا چاہیے۔ یورپ و امریکا سمیت کئی قومیں برے حالات و حادثات سے گزرتے ہوئے قومی زندگی میں بہتری لے کر آئیں۔ ماضی کا زہر ایک بار پی کر اسے آب حیات بنالیا۔
ماضی سے وابستگی کے کئی نقصانات ہیں۔ انسان حال سے کٹ جاتا ہے۔ حقیقت پسند رویوں سے دور ہوجاتا ہے اور خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سوچ اور رویوں کا دوغلا پن، ماضی سے وابستگی کی نشانی ہے۔ یہ نرگسی رویوں کی علامت بھی ہے۔ جس میں انسان کی ذات اہمیت کی حامل ہے۔ وہ اپنا ایک الگ جہاں بنالیتا ہے۔ مغالطوں اور واہموں کا شکار ہوجاتا ہے۔
ماضی کی سوچ فراریت پسندی کا عارضی سائبان ہے۔ جو انسان کو حال میں غیر موجود کردیتا ہے۔ ہماری قومی زندگی کا المیہ بھی ماضی میں رہنے کی عادت کے اردگرد گھومتا ہے ۔ ایک دوسرے سے کل کی باتوں کی وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔ یہ کوئی نہیں غور کرتا کہ آج کیا ہو رہا ہے۔ آج، جو ہماری ذاتی ذمے داری ہے۔ ہمیں اسے بہتر بنانا ہے۔ گزرتے ہوئے کل کی بات کرکے، حال کے لمحوں کا حسن کیوں غارت کریں۔
غلطیاں انفرادی ذمے داری ہے۔ غلطی کرنے والے کو خود محاسبہ کرنا چاہیے۔ اسے کوئی اور کیوں احساس دلائے۔ ہم دوسروں کی پرکھ میں ذات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
ماضی، حد درجہ وابستگی ہے دنیاوی زندگی سے۔ یہ نفرت، رقابت اور حسد کو زندہ رکھتا ہے۔ وابستگی کرب کا دوسرا نام ہے۔ وہ توقعات جو پوری نہ ہوسکیں۔ نفرت کا زہر بن کے رگوں میں دوڑتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب لوگ آپس میں لڑتے ہیں تو پرانی باتوں کے حوالے دیتے ہیں۔ جب کہ برے رویے یا احساس کو محسوس کرکے اچھی طرح اس دکھ کو اپنے اندر جذب کرکے بھلا دینا چاہیے۔
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دشمن اس کا ماضی ہے۔ جو اسے حال میں جینے نہیں دیتا۔ ماضی، لاشعور میں محفوظ ہوتا ہے۔ لاشعور ایک گہرا بھنور ہے۔ جو اس بھنور میں ڈوبے اپنا نشان تک گنوا بیٹھے۔
پرانی یادیں، گزری ہوئی تلخیاں یا خوشگوار لمحے اور ان کی ذہن میں تکرار بہت سی سچائیوں اور حقائق سے دور لے کر جاتی ہیں۔ انسان کا سرمایہ گزرا ہوا وقت نہیں بلکہ لمحہ موجود ہے۔ ذہن میں ماضی کی تکلیف دہ یادوں کا کاٹھ کباڑ نکال کر باہر پھینک دینا، مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ ذہن کے خلیوں کو اچھی طرح سانس لینے کے لیے کشادہ جگہ چاہیے تاکہ سانسیں زندگی کی روانی کو محسوس کرسکیں۔ تلخ رویوں کی یاد، انسان کا رابطہ متحرک توانائی سے منقطع کردیتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں جتنے بھی مسائل ہیں۔ وہ حال سے غفلت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دکھ، ندامت اور پشیمانی کے بوجھ سے آزاد ایک تازہ اور خوشگوار دن آپ کا منتظر ہے۔