مسائل کا مناسب حل
آج کل اخبارات کا مطالعہ ذہنی خلجان کا سبب بن رہا ہے
آج کل اخبارات کا مطالعہ ذہنی خلجان کا سبب بن رہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت، ہر وزیر مملکت، الیکشن کمیشن، اقتصادی راہداری، سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد اوراس پر وزیرداخلہ کے بیانات وکارکردگی، پڑوسی ممالک کا رویہ، عالمی سیاسی صورتحال ،39 اسلامی ممالک کی متحد فوج اور اس کے بطور سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف، حکومت سندھ اور وفاق کے درمیان کھینچا تانی، سندھ حکومت اور بلدیاتی نمایندوں کی چپقلش، میئرکی مجبوریاں اورساتھ ہی ہمت وجرأت و عزائم، مہنگائی کا نیا طوفان،گرمی کی شدت اور بجلی کی عدم دستیابی،کہاں تک گنایا جائے۔
میرا خیال ہے کہ اس دریا کوکوزے میں یوں بند کیا جاسکتا ہے کہ ''ہمارے معاشرے کی مثال روئے زمین پر شاید ہی کہیں ملے'' اس سب پر مستزاد یہ کہ وطن عزیز میں آیندہ ہونے والے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں ہمارے سیاستدان اور حکمرانوں کی بوکھلاہٹ آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بڑی تو بڑی چھوٹی موٹی پارٹی جس کواس کے محلے کے علاوہ شاید کوئی اور جانتا بھی نہ ہو، اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ اس بار توکرسی اقتدار اسی کے قبضے میں ہوگی۔
رہ گئے راہ سیاست کے شہسوار اتنی دھول اڑا رہے ہیں کہ چہرہ مملکت ہی صاف نظر نہیں آرہا۔ کوئی فرما رہا ہے کہ اگلا وزیر اعظم تو ہمارا ہی ہوگا بلکہ ''میں بنوا کر چھوڑوں گا'' تو دوسرے صاحب فرما رہے ہیں کہ ''اگر ہم کرسی اقتدار چھوڑیں گے تب ہی توکسی کی باری آئے گی''۔ تیسرے صاحب کا فرمان معتبر ہے کہ تم دونوں کے کرتوتوں سے عوام بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں اب وہ تمہیں گھانس (ووٹ) نہیں ڈالیں گے۔ اس بار تو میں پکا پکا وزیر اعظم بلکہ مصدقہ اور قوم کی بے پناہ خواہش اور اصرار پر ہوں گا (حالانکہ گزشتہ انتخابات میں بھی انھیں یہ خوش یا پھر غلط فہمی تھی)
ادھر سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد، بلاگرز کے اغوا اور پھر واپس آجانے پر بھی کچھ زیادہ کارکردگی نہ دکھائی گئی مگر جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی اور دلائی تو حکومت حرکت میں آئی۔ آخری اطلاعات کے مطابق احسن اقدام یہ کیا گیا ہے کہ ''اگر گستاخانہ مواد اپ لوڈ ہوتا رہا تو ہم سوشل میڈیا ہی بند کر دیں گے'' دیکھا آپ نے اس حساس مسئلے کا کیا لاجواب حل تلاش ہوا ہے۔
لگتا ہے کہ جو عناصر عوام کو لاعلم، بے خبر اور جاہل رکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا دکھاوے کو گلی گلی تعلیمی ادارے جامعات کی سطح تک قائم توکردیے مگر وہ جہل ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی تجارت کو دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیمی شعبے تک میں مستحکم کرنے کے لیے۔ آپ ہماری تعریف کریں گے کہ ان تعلیمی اداروں سے علوم کی ترویج ہو ہی نہیں رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو نہ انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوتا نہ عدم برداشت کا جن بوتل سے باہر آتا۔ گزشتہ دنوں سرگودھا کے ایک آستانے پر قتل عام میں پڑھے لکھے افراد کی نشاندہی بھی ہمارے موقف کی حمایت کرتی ہے کہ وہ جن کو پڑھا لکھا کہا جا رہا ہے اور جو اچھے بھلے سرکاری یا نجی اداروں کے اہم عہدوں پر فائز بتائے جا رہے ہیں وہ ایسے ہی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ ہوں گے جہاں علم نہیں جہل قیمتاً تقسیم کیا جاتا ہے۔
پھر آپ بھی ماشا اللہ سے اخبارات کے قاری ہیں پرسوں ہی تو سو سے زیادہ مختلف جامعات کے کیمپس بند کرنے اور تقریباً 80 یونیورسٹیوں کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بند جب کہ 8 کو مکمل طور پر بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ لہٰذا جب دنیا علوم کے نئے نئے باب وا کر رہی ہے سوشل میڈیا نہ صرف معلومات میں اضافے، دنیا سے رابطے اور علوم کے حصول کا ذریعہ ہے کو بند کرنا بھی گویا لوگوں کو دنیا سے منقطع کرکے غاروں کے دور میں پہنچانے کے مترادف نہیں ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسئلے کا حل یہ نہیں جو تجویز کیا جا رہا ہے مسئلے کی جڑ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں ہے اگر سب ایک کلمے ایک رسول ایک شریعت پر متفق ہوجائیں تو پھر عالم اسلام کی مقدس ہستیوں کے بارے میں اختلاف گستاخانہ حد تک کیوں جائیں؟
اس سلسلے میں اگر پابندی عائد کرنا ہے تو ایسی مذہبی جماعتوں اور شخصیات پر لگنی چاہیے جو اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسلک اور عقیدے کو سب پر زبردستی مسلط کرنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ کئی اسلامی ریاستیں اسی کرہ ارض پر ایسی موجود ہیں جہاں جگہ جگہ مساجد موجود ہیں لیکن وہ کسی ایک فرقے سے منسوب نہیں ہر کوئی وہاں نماز پڑھ سکتا ہے۔ خطبہ جمعہ ریاست کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے کوئی خطیب اپنی طرف سے اس میں اپنے عقائد اور خیالات کا اضافہ نہیں کرسکتا۔ وہاں کے عوام مکمل یکجہتی اور اپنے اپنے انداز سے پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پھر آخر یہ ہمارا ملک جو اسلام کا قلعہ، گہوارا اور کلمے کی بنیاد پر بننے والا واحد ملک ہے وہاں یہ مذہبی اختلافات کا شور آخر کب تک جاری رہے گا۔
جو لوگ ہماری اس تجویز سے اختلاف کرتے ہیں وہ دراصل ملک میں امن و امان کے خواہاں ہی نہیں کیونکہ ان کا دانہ پانی اسی اختلاف سے تو چلتا ہے۔
اسلام واحد دین ہے جو کسی پر زور زبردستی نہیں کرتا، اسلامی ریاست میں بسنے والے ہر مسلم و غیر مسلم کو جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ معاشی تگ و دو، جائز اور حلال طور پر محنت سے کمائی پر اس کا حق تسلیم کرتا ہے اور اس میں نظام زکوٰۃ کے ذریعے غربا، مجبوروں، ضرورت مندوں کا حق بھی رکھا گیا ہے۔ مگر اسلام کے قلعے میں دن رات محنت کرنے والے دو وقت کی روٹی سے محروم اور صاحبان اقتدار اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر لاکھوں خرچ کر رہے ہیں اور پھر بھی ان محنت کشوں سے منہ ہاتھ دھو کر دوبارہ ووٹ مانگنے کو تیار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب آزمائے ہوؤں پر تاحیات سیاسی پابندی عائد کی جائے کہ دوبارہ ایوان میں تشریف نہ لاسکیں۔
میرا خیال ہے کہ اس دریا کوکوزے میں یوں بند کیا جاسکتا ہے کہ ''ہمارے معاشرے کی مثال روئے زمین پر شاید ہی کہیں ملے'' اس سب پر مستزاد یہ کہ وطن عزیز میں آیندہ ہونے والے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں ہمارے سیاستدان اور حکمرانوں کی بوکھلاہٹ آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بڑی تو بڑی چھوٹی موٹی پارٹی جس کواس کے محلے کے علاوہ شاید کوئی اور جانتا بھی نہ ہو، اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ اس بار توکرسی اقتدار اسی کے قبضے میں ہوگی۔
رہ گئے راہ سیاست کے شہسوار اتنی دھول اڑا رہے ہیں کہ چہرہ مملکت ہی صاف نظر نہیں آرہا۔ کوئی فرما رہا ہے کہ اگلا وزیر اعظم تو ہمارا ہی ہوگا بلکہ ''میں بنوا کر چھوڑوں گا'' تو دوسرے صاحب فرما رہے ہیں کہ ''اگر ہم کرسی اقتدار چھوڑیں گے تب ہی توکسی کی باری آئے گی''۔ تیسرے صاحب کا فرمان معتبر ہے کہ تم دونوں کے کرتوتوں سے عوام بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں اب وہ تمہیں گھانس (ووٹ) نہیں ڈالیں گے۔ اس بار تو میں پکا پکا وزیر اعظم بلکہ مصدقہ اور قوم کی بے پناہ خواہش اور اصرار پر ہوں گا (حالانکہ گزشتہ انتخابات میں بھی انھیں یہ خوش یا پھر غلط فہمی تھی)
ادھر سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد، بلاگرز کے اغوا اور پھر واپس آجانے پر بھی کچھ زیادہ کارکردگی نہ دکھائی گئی مگر جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی اور دلائی تو حکومت حرکت میں آئی۔ آخری اطلاعات کے مطابق احسن اقدام یہ کیا گیا ہے کہ ''اگر گستاخانہ مواد اپ لوڈ ہوتا رہا تو ہم سوشل میڈیا ہی بند کر دیں گے'' دیکھا آپ نے اس حساس مسئلے کا کیا لاجواب حل تلاش ہوا ہے۔
لگتا ہے کہ جو عناصر عوام کو لاعلم، بے خبر اور جاہل رکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا دکھاوے کو گلی گلی تعلیمی ادارے جامعات کی سطح تک قائم توکردیے مگر وہ جہل ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی تجارت کو دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیمی شعبے تک میں مستحکم کرنے کے لیے۔ آپ ہماری تعریف کریں گے کہ ان تعلیمی اداروں سے علوم کی ترویج ہو ہی نہیں رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو نہ انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوتا نہ عدم برداشت کا جن بوتل سے باہر آتا۔ گزشتہ دنوں سرگودھا کے ایک آستانے پر قتل عام میں پڑھے لکھے افراد کی نشاندہی بھی ہمارے موقف کی حمایت کرتی ہے کہ وہ جن کو پڑھا لکھا کہا جا رہا ہے اور جو اچھے بھلے سرکاری یا نجی اداروں کے اہم عہدوں پر فائز بتائے جا رہے ہیں وہ ایسے ہی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ ہوں گے جہاں علم نہیں جہل قیمتاً تقسیم کیا جاتا ہے۔
پھر آپ بھی ماشا اللہ سے اخبارات کے قاری ہیں پرسوں ہی تو سو سے زیادہ مختلف جامعات کے کیمپس بند کرنے اور تقریباً 80 یونیورسٹیوں کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بند جب کہ 8 کو مکمل طور پر بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ لہٰذا جب دنیا علوم کے نئے نئے باب وا کر رہی ہے سوشل میڈیا نہ صرف معلومات میں اضافے، دنیا سے رابطے اور علوم کے حصول کا ذریعہ ہے کو بند کرنا بھی گویا لوگوں کو دنیا سے منقطع کرکے غاروں کے دور میں پہنچانے کے مترادف نہیں ہے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسئلے کا حل یہ نہیں جو تجویز کیا جا رہا ہے مسئلے کی جڑ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں ہے اگر سب ایک کلمے ایک رسول ایک شریعت پر متفق ہوجائیں تو پھر عالم اسلام کی مقدس ہستیوں کے بارے میں اختلاف گستاخانہ حد تک کیوں جائیں؟
اس سلسلے میں اگر پابندی عائد کرنا ہے تو ایسی مذہبی جماعتوں اور شخصیات پر لگنی چاہیے جو اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسلک اور عقیدے کو سب پر زبردستی مسلط کرنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ کئی اسلامی ریاستیں اسی کرہ ارض پر ایسی موجود ہیں جہاں جگہ جگہ مساجد موجود ہیں لیکن وہ کسی ایک فرقے سے منسوب نہیں ہر کوئی وہاں نماز پڑھ سکتا ہے۔ خطبہ جمعہ ریاست کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے کوئی خطیب اپنی طرف سے اس میں اپنے عقائد اور خیالات کا اضافہ نہیں کرسکتا۔ وہاں کے عوام مکمل یکجہتی اور اپنے اپنے انداز سے پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پھر آخر یہ ہمارا ملک جو اسلام کا قلعہ، گہوارا اور کلمے کی بنیاد پر بننے والا واحد ملک ہے وہاں یہ مذہبی اختلافات کا شور آخر کب تک جاری رہے گا۔
جو لوگ ہماری اس تجویز سے اختلاف کرتے ہیں وہ دراصل ملک میں امن و امان کے خواہاں ہی نہیں کیونکہ ان کا دانہ پانی اسی اختلاف سے تو چلتا ہے۔
اسلام واحد دین ہے جو کسی پر زور زبردستی نہیں کرتا، اسلامی ریاست میں بسنے والے ہر مسلم و غیر مسلم کو جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ معاشی تگ و دو، جائز اور حلال طور پر محنت سے کمائی پر اس کا حق تسلیم کرتا ہے اور اس میں نظام زکوٰۃ کے ذریعے غربا، مجبوروں، ضرورت مندوں کا حق بھی رکھا گیا ہے۔ مگر اسلام کے قلعے میں دن رات محنت کرنے والے دو وقت کی روٹی سے محروم اور صاحبان اقتدار اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر لاکھوں خرچ کر رہے ہیں اور پھر بھی ان محنت کشوں سے منہ ہاتھ دھو کر دوبارہ ووٹ مانگنے کو تیار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب آزمائے ہوؤں پر تاحیات سیاسی پابندی عائد کی جائے کہ دوبارہ ایوان میں تشریف نہ لاسکیں۔