فلکیات کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت
بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کو پہلی بار عام دوربین سے دیکھ لیا گیا!
حال ہی میں فلکیاتی تاریخ میں ایک اور نیا باب رقم ہوا ہے۔
ہماری اپنی دودھیا کہکشاں میں ایک دوسرے نظام شمسی کی دریافت ہوئی ہے، جسے ٹریپسٹ اوّل (TRAPPIST-1) کا نام دیا گیا ہے۔ فلکیات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب زمین سے مشابہہ سات سیّارے دریافت کیے گئے ہیں جو کہ سورج سے اتنے فاصلے پر ہیں ان میں زندگی پائی جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ سیارے ہم سے40 نوری سالوں کی دوری پر ہیں۔
عمومی نظریہ اضافیت کے 100 برس(1915-2015) مکمل ہوتے ہی ڈرامائی طور پر کائنات اور بلیک ہولز کے بارے میں تحقیقات میں تیزی سے پیش قدمی جاری ہے اور خاص طور پر بلیک ہولوں کے بارے میں نت نئی معلومات سامنے آرہی ہیں اور سیاہ گڑھے یا بلیک ہولز جو کہ اب تک انسانوں کے لیے محض ایک معما بنے رہے ہیں بڑے امکانات روشن ہیں کہ ہم جلد ان کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل کرلیں گے۔
ستمبر 2015 ء میں ثقلی لہروں کے وجود ثابت ہونے کے ساتھ ہی سیاہ گڑھوں کی حقیقت اور ان کی سچائی مجسم حقیقت بن چکی ہیں۔ فلکیات کے دو اہم ترین ایونٹس کے علاوہ پچھلے سال ہی بلیک ہول کے حوالے سے ایک نہایت اہم پیش رفت ممکن ہوچکی ہے جس میں بلیک ہول کو ایک عام فلکیاتی دوربین کی مدد سے بھی دیکھ لیا گیا ہے، جو کہ اب تک محض مخصوص ایکس ریز یا مقناطیسی نوعیت کی فلکیاتی دوربینوں کی مدد سے دیکھا جانا ممکن تصور کیا جاتا تھا۔
بلیک ہول دراصل ستارے کی زندگی کے مختلف ادوار کی ایک ممکنہ شکل ہے، جب کوئی ستارہ اپنی زندگی پوری کرلیتا ہے تو پھر اس میں سکڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور ایک مقام پر وہ اپنی ہیت تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوتی ہیں کہ بونے ستارے کے طور پر اپنا وجود قائم رکھے یا پھر دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ ستارہ بڑھنے کے عمل کی طرف تیزی سے گام زن ہوجائے اور اتنا بڑھ جائے کہ ایک زور دھماکے سے پھٹ پڑے۔
یہ دھماکا کائنات میں ''سپرنووا'' کہلاتا ہے جب کہ آخری ممکنہ صورت یہ ہے کہ ستارہ مزید سکڑنا شروع کردے اور اس عمل میں اتنا چھوٹا ہوجائے ہے کہ اس کا وجود محض ایک نقطے (سنگولیٹری) پر آجائے، اب یہ ستارے کی آخری منزل ہے وہ ُمردار ستارہ(Dead Star) کہلاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کشش ثقل بے انتہا بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے اطراف کے اجرام فلکی، گیس و دھول کو اپنے اندر جذب یا ہڑپ کرنا شروع کردیتا ہے، جس سے تاب کاری خارج ہوتی ہے۔ اس کے اطراف کھا جانے والی مادّے کی اسی روشنی و اثرات سے ''سیاہ گڑھے'' کی نشان دہی ہوتی ہے ورنہ بلیک ہول کا وجود آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے، جہاں روشنی جیسی شے کا بھی فرار ممکن نہیں۔
آئن اسٹائن کے گریوٹشنل (تجازبی) لہروں کی تصدیق سے اب بلیک ہولوں کے بارے میں پراسراریت ختم ہونے کو ہے اور اس اہم کائناتی ایونٹ سے پردہ اٹھنے کو ہے۔ یہاں بلیک ہول کو عام دوربین کی مدد سے دیکھے جانے کا حال بیان کیا جارہا ہے جو کہ معروف سائنسی جریدے ''نیچر'' میں شائع ہوا ہے۔
فلکیاتی تاریخ کا یہ پہلا اور یادگاری موقع تھا جب چند گھنٹوں کی آخری ساعتوں کے درمیان بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کی لہروں کو دیکھا گیا تھا۔
یہ بلیک ہول جو کہ ''سگنس'' ستاروں کے جھنڈ میں واقع ہے اور ہماری زمین سے 7.800 نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ یہ اب تک فلکیاتی نقطۂ نظر سے بلیک ہول کی تاریخ کا ناقابل یقین واقع حقیقت میں بدل چکا ہے کہ اس بلیک ہول سے نکلنے والی روشن چمک کی کوند کو شوقیہ فلکیاتی ٹیم نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے عام فلکیاتی 20 سینٹی میٹرز کی دوربین سے بلیک ہول کا مشاہدہ کیا جو کہ اس سے پہلے ناممکن سمجھا جاتا ہے جو کہ ایک بڑا ثبوت ہے کہ عام دوربین سے بھی بلیک ہول کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق کے روح ِرواں مرِیکو کمورا ہیں جو جاپان کی ''کیوٹو'' یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ اس بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مظاہر قدرت میں بلیک ہول کی قربت میں ہونے والا یہ واقعہ رونما ہوا تھا، جسے بنا کسی ہائی ایپک ایکس ریز یا گاماریز والی ٹیلی اسکوپ کے برعکس ایک عام درمیانے درجے کی آپٹیکل ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جانا ممکن ہوا۔ بلیک ہول کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جانے والی کوئی بھی شے واپس نہیں ہوتی، لیکن ہڑپ کی جانے والی گیسوں اور دھول کے پھٹنے کے عمل میں تمام ستاروں میں نئی پیدائش ظہور میں لاسکتی ہیں۔
ایک"Accretion Disk" اور بلیک ہول کی حدود واقعاتی افق (ایونٹ ہورائزن) کے قریب یہ ڈسکیں مادّہ کی چوتھی حالت 'پلازمہ' کے سرچشمے کو ڈھکیلتی ہیں اسے ـ"Relativistic Jets" کہتے ہیں۔ یہ تمام کہکشاں کی کل لمبائی کے اطراف اپنا عمل کرتی ہیں، جہاں کا درجۂ حرارت 10 ملین ڈگری سیلئیس یا 18 ملین ڈگری فارن ہائیٹ یا اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس جگہ بلیک ہول کی دیوانہ وار حرارت و تپش کی گرمیAccretion Disk کو ناقابل ِیقین روشن دہکتا ہوا بنادیتی ہے۔ جب اس کا مشاہد ہ کیا گیا تھا تو کیمورا انکی ٹیم کا فوکس V404 ستاروں جھنڈ تھا۔ اس مشاہدے نے 26 سال سے بے حس وحرکت بلیک ہول کو نیند سے جگا کر بیدار کردیا ہے۔
اس کا سراغ 15 جون 2015 ء میں ناسا کی سوئفٹ خلائی ٹیلی اسکوپ نے لگایا تھا تب اسے جاپانی تحقیق کاروں نے ٹریک کرلیا تھا جس کے تحقیق کرنے والے سائنس داں دنیا بھر میں چھبیس مقامات پر تاک لگائے بیٹھے تھے انکی نظروں کا محور بس ''سگنس۔V404 '' تھا۔ اس بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کی چکا چوند شعاعوں کو ماہرین دو ہفتوں تک دیکھنے کے قابل رہے اور 3.5 گھنٹے اس کی فلم بندی ہوئی۔ یہ ہماری زمین سے نزدیک ترین بلیک ہول ہے اور ناقابل بیان تاب کاری خارج کرتا ہے۔
اب ماہرین فلکیات کے پاس ایسا ثبوت ہاتھ آگیا ہے کہ اس واقعے میں عام نظر آنے والی روشنی (Visible Light) کو دکھانے والی فلکی دوربین نے ہی کام کر دکھایا ہے کہ اس طرح کی دوربین بھی بلیک ہول کے ایونٹس کو دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
میگزین ''نیچر'' کی ٹیم کا اس بارے میں مفروضہ ہے کہ روشنی جو کہ ایکس ریز شعاعیں پید ا کرتی ہیں، یہ Accretion Disk کے مرکز سے خارج ہوتی ہیں اور روشن ہونے کے ساتھ گرم ترین ہوتی ہیں۔ یہ ڈسک کے بیرونی اطراف ظہور پذیر ہوتی ہیں جو کہ روشنی ''آپٹیکل'' شعاعوں کی مرہونِ منت ہیں۔ تمام تر پُرتجسّس تحقیق کا حاصل ہے اور اس بات کی تصدیق نے ماہرین کائنات میں جوش و ولولہ پید ا کردیا ہے۔
بلیک ہول کے اس پار ہونے والے واقعے نے سوچ کی نئی راہیں کھول دی ہیں، جس سے ہمیں نئے مشاہداتی راستے کا ایک نیا وسیلہ میسر آگیا ہے اور اب شوقیہ فلکیات دانوں کے لیے بھی کھلے مواقع ہیں کہ وہ بلیک ہول کی تحقیق میں براہ راست شامل ہوسکتے ہیں اگر ان کے پاس گھر پر ایک اچھی فلکی دوربین ہے۔ فزکس کاسمولوجی کے ماہرین اس مشاہداتی نیٹ ورک سے بے حد مسرور اور پرامید دکھائی دیتے ہیں اور سب ہی نے مل کر حقیقی دستاویزی و ڈیجیٹل ذرایع سے اس اہم ایونٹ میں اپنا حصّہ بٹایا ہے۔ وہ اس نئی ممکنہ صورت حال سے جو کہ اچانک بلیک ہول کی طرف سے پید ا ہوئی ہے، کچھ حیرت میں مبتلا بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ہماری اپنی دودھیا کہکشاں میں ایک دوسرے نظام شمسی کی دریافت ہوئی ہے، جسے ٹریپسٹ اوّل (TRAPPIST-1) کا نام دیا گیا ہے۔ فلکیات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب زمین سے مشابہہ سات سیّارے دریافت کیے گئے ہیں جو کہ سورج سے اتنے فاصلے پر ہیں ان میں زندگی پائی جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ سیارے ہم سے40 نوری سالوں کی دوری پر ہیں۔
عمومی نظریہ اضافیت کے 100 برس(1915-2015) مکمل ہوتے ہی ڈرامائی طور پر کائنات اور بلیک ہولز کے بارے میں تحقیقات میں تیزی سے پیش قدمی جاری ہے اور خاص طور پر بلیک ہولوں کے بارے میں نت نئی معلومات سامنے آرہی ہیں اور سیاہ گڑھے یا بلیک ہولز جو کہ اب تک انسانوں کے لیے محض ایک معما بنے رہے ہیں بڑے امکانات روشن ہیں کہ ہم جلد ان کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل کرلیں گے۔
ستمبر 2015 ء میں ثقلی لہروں کے وجود ثابت ہونے کے ساتھ ہی سیاہ گڑھوں کی حقیقت اور ان کی سچائی مجسم حقیقت بن چکی ہیں۔ فلکیات کے دو اہم ترین ایونٹس کے علاوہ پچھلے سال ہی بلیک ہول کے حوالے سے ایک نہایت اہم پیش رفت ممکن ہوچکی ہے جس میں بلیک ہول کو ایک عام فلکیاتی دوربین کی مدد سے بھی دیکھ لیا گیا ہے، جو کہ اب تک محض مخصوص ایکس ریز یا مقناطیسی نوعیت کی فلکیاتی دوربینوں کی مدد سے دیکھا جانا ممکن تصور کیا جاتا تھا۔
بلیک ہول دراصل ستارے کی زندگی کے مختلف ادوار کی ایک ممکنہ شکل ہے، جب کوئی ستارہ اپنی زندگی پوری کرلیتا ہے تو پھر اس میں سکڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور ایک مقام پر وہ اپنی ہیت تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوتی ہیں کہ بونے ستارے کے طور پر اپنا وجود قائم رکھے یا پھر دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ ستارہ بڑھنے کے عمل کی طرف تیزی سے گام زن ہوجائے اور اتنا بڑھ جائے کہ ایک زور دھماکے سے پھٹ پڑے۔
یہ دھماکا کائنات میں ''سپرنووا'' کہلاتا ہے جب کہ آخری ممکنہ صورت یہ ہے کہ ستارہ مزید سکڑنا شروع کردے اور اس عمل میں اتنا چھوٹا ہوجائے ہے کہ اس کا وجود محض ایک نقطے (سنگولیٹری) پر آجائے، اب یہ ستارے کی آخری منزل ہے وہ ُمردار ستارہ(Dead Star) کہلاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کشش ثقل بے انتہا بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے اطراف کے اجرام فلکی، گیس و دھول کو اپنے اندر جذب یا ہڑپ کرنا شروع کردیتا ہے، جس سے تاب کاری خارج ہوتی ہے۔ اس کے اطراف کھا جانے والی مادّے کی اسی روشنی و اثرات سے ''سیاہ گڑھے'' کی نشان دہی ہوتی ہے ورنہ بلیک ہول کا وجود آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے، جہاں روشنی جیسی شے کا بھی فرار ممکن نہیں۔
آئن اسٹائن کے گریوٹشنل (تجازبی) لہروں کی تصدیق سے اب بلیک ہولوں کے بارے میں پراسراریت ختم ہونے کو ہے اور اس اہم کائناتی ایونٹ سے پردہ اٹھنے کو ہے۔ یہاں بلیک ہول کو عام دوربین کی مدد سے دیکھے جانے کا حال بیان کیا جارہا ہے جو کہ معروف سائنسی جریدے ''نیچر'' میں شائع ہوا ہے۔
فلکیاتی تاریخ کا یہ پہلا اور یادگاری موقع تھا جب چند گھنٹوں کی آخری ساعتوں کے درمیان بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کی لہروں کو دیکھا گیا تھا۔
یہ بلیک ہول جو کہ ''سگنس'' ستاروں کے جھنڈ میں واقع ہے اور ہماری زمین سے 7.800 نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ یہ اب تک فلکیاتی نقطۂ نظر سے بلیک ہول کی تاریخ کا ناقابل یقین واقع حقیقت میں بدل چکا ہے کہ اس بلیک ہول سے نکلنے والی روشن چمک کی کوند کو شوقیہ فلکیاتی ٹیم نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے عام فلکیاتی 20 سینٹی میٹرز کی دوربین سے بلیک ہول کا مشاہدہ کیا جو کہ اس سے پہلے ناممکن سمجھا جاتا ہے جو کہ ایک بڑا ثبوت ہے کہ عام دوربین سے بھی بلیک ہول کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق کے روح ِرواں مرِیکو کمورا ہیں جو جاپان کی ''کیوٹو'' یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ اس بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مظاہر قدرت میں بلیک ہول کی قربت میں ہونے والا یہ واقعہ رونما ہوا تھا، جسے بنا کسی ہائی ایپک ایکس ریز یا گاماریز والی ٹیلی اسکوپ کے برعکس ایک عام درمیانے درجے کی آپٹیکل ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جانا ممکن ہوا۔ بلیک ہول کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جانے والی کوئی بھی شے واپس نہیں ہوتی، لیکن ہڑپ کی جانے والی گیسوں اور دھول کے پھٹنے کے عمل میں تمام ستاروں میں نئی پیدائش ظہور میں لاسکتی ہیں۔
ایک"Accretion Disk" اور بلیک ہول کی حدود واقعاتی افق (ایونٹ ہورائزن) کے قریب یہ ڈسکیں مادّہ کی چوتھی حالت 'پلازمہ' کے سرچشمے کو ڈھکیلتی ہیں اسے ـ"Relativistic Jets" کہتے ہیں۔ یہ تمام کہکشاں کی کل لمبائی کے اطراف اپنا عمل کرتی ہیں، جہاں کا درجۂ حرارت 10 ملین ڈگری سیلئیس یا 18 ملین ڈگری فارن ہائیٹ یا اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس جگہ بلیک ہول کی دیوانہ وار حرارت و تپش کی گرمیAccretion Disk کو ناقابل ِیقین روشن دہکتا ہوا بنادیتی ہے۔ جب اس کا مشاہد ہ کیا گیا تھا تو کیمورا انکی ٹیم کا فوکس V404 ستاروں جھنڈ تھا۔ اس مشاہدے نے 26 سال سے بے حس وحرکت بلیک ہول کو نیند سے جگا کر بیدار کردیا ہے۔
اس کا سراغ 15 جون 2015 ء میں ناسا کی سوئفٹ خلائی ٹیلی اسکوپ نے لگایا تھا تب اسے جاپانی تحقیق کاروں نے ٹریک کرلیا تھا جس کے تحقیق کرنے والے سائنس داں دنیا بھر میں چھبیس مقامات پر تاک لگائے بیٹھے تھے انکی نظروں کا محور بس ''سگنس۔V404 '' تھا۔ اس بلیک ہول سے خارج ہونے والی روشنی کی چکا چوند شعاعوں کو ماہرین دو ہفتوں تک دیکھنے کے قابل رہے اور 3.5 گھنٹے اس کی فلم بندی ہوئی۔ یہ ہماری زمین سے نزدیک ترین بلیک ہول ہے اور ناقابل بیان تاب کاری خارج کرتا ہے۔
اب ماہرین فلکیات کے پاس ایسا ثبوت ہاتھ آگیا ہے کہ اس واقعے میں عام نظر آنے والی روشنی (Visible Light) کو دکھانے والی فلکی دوربین نے ہی کام کر دکھایا ہے کہ اس طرح کی دوربین بھی بلیک ہول کے ایونٹس کو دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
میگزین ''نیچر'' کی ٹیم کا اس بارے میں مفروضہ ہے کہ روشنی جو کہ ایکس ریز شعاعیں پید ا کرتی ہیں، یہ Accretion Disk کے مرکز سے خارج ہوتی ہیں اور روشن ہونے کے ساتھ گرم ترین ہوتی ہیں۔ یہ ڈسک کے بیرونی اطراف ظہور پذیر ہوتی ہیں جو کہ روشنی ''آپٹیکل'' شعاعوں کی مرہونِ منت ہیں۔ تمام تر پُرتجسّس تحقیق کا حاصل ہے اور اس بات کی تصدیق نے ماہرین کائنات میں جوش و ولولہ پید ا کردیا ہے۔
بلیک ہول کے اس پار ہونے والے واقعے نے سوچ کی نئی راہیں کھول دی ہیں، جس سے ہمیں نئے مشاہداتی راستے کا ایک نیا وسیلہ میسر آگیا ہے اور اب شوقیہ فلکیات دانوں کے لیے بھی کھلے مواقع ہیں کہ وہ بلیک ہول کی تحقیق میں براہ راست شامل ہوسکتے ہیں اگر ان کے پاس گھر پر ایک اچھی فلکی دوربین ہے۔ فزکس کاسمولوجی کے ماہرین اس مشاہداتی نیٹ ورک سے بے حد مسرور اور پرامید دکھائی دیتے ہیں اور سب ہی نے مل کر حقیقی دستاویزی و ڈیجیٹل ذرایع سے اس اہم ایونٹ میں اپنا حصّہ بٹایا ہے۔ وہ اس نئی ممکنہ صورت حال سے جو کہ اچانک بلیک ہول کی طرف سے پید ا ہوئی ہے، کچھ حیرت میں مبتلا بھی دکھائی دیتے ہیں۔