کوثر نام کی وہ بچی
حافظے کی سلیٹ سے جو واقعات چمٹ جاتے ہیں وہ عموما خوشگوار نہیں ہوتے
حافظے کی سلیٹ سے جو واقعات چمٹ جاتے ہیں وہ عموما خوشگوار نہیں ہوتے، میں آج تک کسی کا نام'' کوثر'' سنوں تو مجھے اپنے بچپن کی وہ کوثر یاد آ جاتی ہے جو لگ بھگ میری ہی ہم عمر ہو گی، اسے اچانک بیٹھے بیٹھے دورہ پڑ جاتا، اسکول میں ہوتی یا ہم جولیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول۔ اس کی اماں ہمارے سامنے ہی سب کو بتاتیں کہ وہ ان کا خاندان کسی شادی میں گاؤں گیا تھا، وہاں پر اس نے کسی '' کچی'' جگہ پر رفع حاجت کر لی، تب سے اسے کوئی جن یا چڑیل چمٹ گئی ہے اور اسے دورے پڑتے ہیں، خاص طور پر جب سورج کی طرف دیکھتی ہے، پانی کا لشکارا یا اچانک کوئی روشنی اس کی آنکھ میں پڑے تو۔( اب ان باتوں کو یاد کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے مرگی رہی ہو گی) اس وقت اس کی اماں اسے کوشش کر کے اندھیرے میں رکھتیں، ان کا خیال تھا کہ جب ان کی بیٹی پر روشنی پڑتی ہے وہ اپنے ساتھ چمٹی ہوئی چڑیل یا جن کو نظر آنے لگتی ہے۔
کوثر کی اماں اسے لے کر ہمہ وقت پیروں فقیروں کے پاس گھومتی رہتی یا کوئی نہ کوئی جن نکالنے والا ان کے ہاں آیا رہتا۔ ہمارے لیے اس کے جنوں کو اذیت دینے کا طریقہ ایک کھیل تماشے کی طرح ہی ہوتا تھا مگر آج تک دماغ سے اس کی ان چیخوں کی آوازیں اور اس کے جسم کی اذیت نہیں نکلتی۔ ہر عامل کے دورے کے بعد اس کا وجود کئی دن تک بخار میں پھنکتا رہتا۔ اس روز بھی شنید تھا کہ کوئی نامی گرامی پیر صاحب کوثر کے گھر آنیوالے ہیں اور اس کا جن نکالنے والے ہیں۔ ہم ساری سکھیاں سہیلیاں بھی اس لیے وہاں پہنچ گئیں کہ ہم کوثر کا جن دیکھ سکیں گے جب وہ اس کے وجود سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گا۔
کوثر اس روز ہشاش بشاش لگ رہی تھی، نہا دھو کر اس نے بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کررکھی تھی، اس کی اماں نے اسے عید والا جوڑا پہنایا ہوا تھا، وہ بالکل بھی بیمار نہیں لگ رہی تھی، ہم سب اس کے والدین کے ساتھ بیٹھ کر '' تماشہ'' دیکھ رہے تھے۔ پیر صاحب نے اس کا نام پوچھا جو اس نے صحیح بتا دیا، کہنے لگے، '' تم خاموش رہو... تم سے نہیں پوچھ رہا!!'' کوثر خاموش ہو گئی، انھوں نے پھر اپنا سوال دہرایا تو کوثر پھر بول اٹھی۔انھوں نے اسے سختی سے خاموش رہنے کو کہا اور تیسری دفعہ اس سے نام پوچھا، کوئی جواب نہ آیا تو انھوں نے اپنی پوری طاقت سے اپنا دایاں ہاتھ کوثر کے بائیں گال پر جڑ دیا، اس کرارے تھپڑ سے کوثر کی چیخ نکل گئی۔
''اب کیوں چیخی ہو، نام بتاؤ اپنا!!'' پیر صاحب نے دھاڑ کر کہا، '' جلدی بتا، مرد ہے یا عورت؟ '' ان کے ہر تھپڑ سے کوثر کی چیخ اور بلند ہونے لگتی، یہاں تک کہ اسے دورہ پڑ گیا اور وہ اپنے ارد گرد سے غافل ہو گئی... '' لے گئے آپ کی بیٹی کو، اب اس جسم میں صرف وہ ہے جس سے میرا مقابلہ ہے... اسے کمرے میں پہنچائیں اور آپ سب لوگ اس کمرے سے کئی گز دور ہو جائیں، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور کو پکڑ لے!!!'' پیر صاحب اس وقت کچھ مدہوش اور کچھ جلال میں تھے۔
ان کی ہدایت پر عمل کیا گیا، کوثر کو اس کے والدین نے اس پیر صاحب کے حوالے کیا، انہوں نے اس کمرے کو اندر سے بند کر لیا اور والدین باہر بے بسی سے اپنی بیٹی کی وہ چیخیں سن رہے تھے جو بقول پیر صاحب اس کی نہیں بلکہ اس چڑیل کی تھیں جو اس کے جسم پر قبضہ کیے ہوئے تھی... '' میں نے اس چڑیل کی ایسی کی تیسی کر دی ہے، آیندہ یہ آپ کی بیٹی کے نزدیک بھی نہیں پھٹکے گی!!'' اس کے والدین کو بتا کر پیر صاحب نے ان سے کچھ رقم وصول کی اور شاید کبھی دوبارہ نہ آنے کے لیے چلے گئے۔
مجھے آج تک کوثر کے وجود کا وہ نظارہ نہیں بھولتا جو اس کے والدین کے عقب میں کھڑے ہو کر میں نے اس کمرے کا دیکھا تھا، کوثر کے ساتھ کیا ہوا تھا، اس کا اندازہ مجھے کئی سالوں کے بعد ہوا تھا۔کچھ مہینوں کے بعد کوثر کو اس کی ماں نے زہر دے کر مار دیا تھا اور خود اس نے کنویں میں کود کر خود کشی کر لی تھی۔ بچپن کے اس معصومیت والے دور سے مجھے لفظ پیر سے ہی خوف کا احساس ہوتا تھا، یہ لفظ میرے دماغ کی لغت میں جعل سازی، جھوٹ، تشدد، غلط بیانی اور غلط کاری کے مفہوم جیسا تھا۔ ہمارے ہاں آپ کو ہر نوعیت کے پیر ملیں گے، گمراہی کی راہ پر خود چلتے ہیں تو کسی کی درست سمت میں کیا راہنمائی کریں گے۔
مذہب کو کئی فرقوں میں تفریق کر دینے میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ آئے دن اخبارات میں کئی طرح کے پیروں کی '' نقاب کشائی '' ہوتی ہے جو سادہ لوح لوگوں کو ان کے مسائل کے حل کا جھانسہ دے کر ، انھیں بیماریوں کے علاج کے نام پر، ان کے گناہ جھاڑنے کے نام پر یا ان کی قسمت بدلنے کا کہہ کر ان سے نہ صرف رقمیں بٹورتے ہیں بلکہ ان سے ان کی انا، ان کی عزت اور ان کا وقار بھی چھین لیتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے اخبارات میں ایک بڑے سکینڈل کے بارے میں سنا، اگر آپ ان معتقدین کی جگہ پر ہوں تو کیا آپ ایسا کریں گے؟ اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس کی معافی اللہ تعالی کے روبرو سچے دل سے معافی مانگنے سے ملتی ہے۔ انسان اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ماسوائے اس کے اپنے نفس کی گمراہی کے، اس کے اور اللہ کے درمیان کچھ حائل نہیں کہ وہ ہمار ی شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔
کون لوگ تھے ایسے جنھیں یہ بھی علم نہ ہو سکا کہ کسی کے سامنے خواہ مخواہ بے لباس ہو جانا ازخود ایک گناہ ہے، ایک کمرے میں کئی لوگوں کا بے لباس ہو کر اپنے جسم پر کسی کو کوڑے ، چھڑیاں یا ڈنڈے مارنے کی اجازت دینا، کھلی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ ترقی کی راہ پر ہم اتنا ہی آگے آئے ہیں کہ چالیس برس پہلے کا وہ پیر جس نے کوثر کو بے آبرو کر دیا تھا، وہ آج بھی موجود ہے اور ہماری جہالت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تف ہے ہم پر، ہم جان کر بھی کہ مذہب کے نام پر لٹیروں کے کاروبار چمک رہے ہیں، ہم ان کی ترقی کا حصہ بنتے ہیں۔
اگلے ہی روز میری ایک دوست جو کہ حال ہی میں عمرہ کر کے آئی ہیں، بتا رہی تھیں کہ وہاں ان کی ملاقات ایک مشہور شخصیت کی بیوی سے ہوئی جنہوں نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ان کے ہمراہ ان کے شوہر سے ملاقات کے لیے چلیں۔ میں ان کا نام نہیں لوں گی، آپ انھیں پیر کہہ لیں، بزرگ کہہ لیں یا کچھ بھی، ایک پانچ ستاروں والے ہوٹل میں پورا فلور ان کے لیے کسی نے بک کروا رکھا تھا جہاں وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ قیام پذیر تھے، رات کے بارہ بجے سے زائد کا وقت تھا جب انھیں ان کے پرائیویٹ کمرے میں لے جایا گیا تھا، وہاں چار خادمائیں انھیں مالش کر رہی تھیں، وہ فقط ایک کاچھا پہنے ہوئے تھے، انھیں دیکھ کر بھی خادمائیں اپنے کام میں مشغول رہیں، اس سے زائد تفصیل کی ضرورت نہیں، کیا پیری اور کیا بزرگی؟؟
سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسے وسائل اور پیسہ کہاں سے آتا ہے، ہمارے ہاں جو لوگ عالم دین بنے ہوئے ہیں ، پیری مریدی کے سلسلے ہیں، ان کے پاس حجرے، گھر اور گاڑیاں قابل دید ہیں۔ کہاں سے یہ سارے فنڈ آتے ہیں، مذہب کو ان لوگوں نے کس طرح مذاق بنا رکھا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی معرفت کے ایسے درجے پر ہوں مگر پھر ایسے لوگوں کو دنیا کا کوئی لالچ نہیں ہوتا۔درویش جب اللہ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو اسے دنیا کی چاہ نہیں ہوتی... اس کے لیے دنیا کی ہر آسائش ہیچ ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنی نمائش میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
لوگ تو مصائب کے مارے اللہ سے رجوع کرنے کی بجائے کمزور اور دنیاوی سہارے ڈھونڈتے ہیں مگر حکومت کی سطح پر اس نوعیت کے واقعات کے ظہور پذیر ہونے کے بعد کیا کاوشیں کی جاتی رہی ہیں؟ سوشل میڈیا پر سب کچھ میسر ہے ، پیروں کی اندر خانے حرکتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ، معرفت اور طریقت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کھلے عام ہو رہا ہے، حکومت بھی سب جانتی ہے... ہم بھی ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں، ہنستے ہیںاور اس پوسٹ کو اپنے باقی دوستوں کو بھیج کر فارغ ہو جاتے ہیں!!
کوثر کی اماں اسے لے کر ہمہ وقت پیروں فقیروں کے پاس گھومتی رہتی یا کوئی نہ کوئی جن نکالنے والا ان کے ہاں آیا رہتا۔ ہمارے لیے اس کے جنوں کو اذیت دینے کا طریقہ ایک کھیل تماشے کی طرح ہی ہوتا تھا مگر آج تک دماغ سے اس کی ان چیخوں کی آوازیں اور اس کے جسم کی اذیت نہیں نکلتی۔ ہر عامل کے دورے کے بعد اس کا وجود کئی دن تک بخار میں پھنکتا رہتا۔ اس روز بھی شنید تھا کہ کوئی نامی گرامی پیر صاحب کوثر کے گھر آنیوالے ہیں اور اس کا جن نکالنے والے ہیں۔ ہم ساری سکھیاں سہیلیاں بھی اس لیے وہاں پہنچ گئیں کہ ہم کوثر کا جن دیکھ سکیں گے جب وہ اس کے وجود سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گا۔
کوثر اس روز ہشاش بشاش لگ رہی تھی، نہا دھو کر اس نے بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کررکھی تھی، اس کی اماں نے اسے عید والا جوڑا پہنایا ہوا تھا، وہ بالکل بھی بیمار نہیں لگ رہی تھی، ہم سب اس کے والدین کے ساتھ بیٹھ کر '' تماشہ'' دیکھ رہے تھے۔ پیر صاحب نے اس کا نام پوچھا جو اس نے صحیح بتا دیا، کہنے لگے، '' تم خاموش رہو... تم سے نہیں پوچھ رہا!!'' کوثر خاموش ہو گئی، انھوں نے پھر اپنا سوال دہرایا تو کوثر پھر بول اٹھی۔انھوں نے اسے سختی سے خاموش رہنے کو کہا اور تیسری دفعہ اس سے نام پوچھا، کوئی جواب نہ آیا تو انھوں نے اپنی پوری طاقت سے اپنا دایاں ہاتھ کوثر کے بائیں گال پر جڑ دیا، اس کرارے تھپڑ سے کوثر کی چیخ نکل گئی۔
''اب کیوں چیخی ہو، نام بتاؤ اپنا!!'' پیر صاحب نے دھاڑ کر کہا، '' جلدی بتا، مرد ہے یا عورت؟ '' ان کے ہر تھپڑ سے کوثر کی چیخ اور بلند ہونے لگتی، یہاں تک کہ اسے دورہ پڑ گیا اور وہ اپنے ارد گرد سے غافل ہو گئی... '' لے گئے آپ کی بیٹی کو، اب اس جسم میں صرف وہ ہے جس سے میرا مقابلہ ہے... اسے کمرے میں پہنچائیں اور آپ سب لوگ اس کمرے سے کئی گز دور ہو جائیں، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور کو پکڑ لے!!!'' پیر صاحب اس وقت کچھ مدہوش اور کچھ جلال میں تھے۔
ان کی ہدایت پر عمل کیا گیا، کوثر کو اس کے والدین نے اس پیر صاحب کے حوالے کیا، انہوں نے اس کمرے کو اندر سے بند کر لیا اور والدین باہر بے بسی سے اپنی بیٹی کی وہ چیخیں سن رہے تھے جو بقول پیر صاحب اس کی نہیں بلکہ اس چڑیل کی تھیں جو اس کے جسم پر قبضہ کیے ہوئے تھی... '' میں نے اس چڑیل کی ایسی کی تیسی کر دی ہے، آیندہ یہ آپ کی بیٹی کے نزدیک بھی نہیں پھٹکے گی!!'' اس کے والدین کو بتا کر پیر صاحب نے ان سے کچھ رقم وصول کی اور شاید کبھی دوبارہ نہ آنے کے لیے چلے گئے۔
مجھے آج تک کوثر کے وجود کا وہ نظارہ نہیں بھولتا جو اس کے والدین کے عقب میں کھڑے ہو کر میں نے اس کمرے کا دیکھا تھا، کوثر کے ساتھ کیا ہوا تھا، اس کا اندازہ مجھے کئی سالوں کے بعد ہوا تھا۔کچھ مہینوں کے بعد کوثر کو اس کی ماں نے زہر دے کر مار دیا تھا اور خود اس نے کنویں میں کود کر خود کشی کر لی تھی۔ بچپن کے اس معصومیت والے دور سے مجھے لفظ پیر سے ہی خوف کا احساس ہوتا تھا، یہ لفظ میرے دماغ کی لغت میں جعل سازی، جھوٹ، تشدد، غلط بیانی اور غلط کاری کے مفہوم جیسا تھا۔ ہمارے ہاں آپ کو ہر نوعیت کے پیر ملیں گے، گمراہی کی راہ پر خود چلتے ہیں تو کسی کی درست سمت میں کیا راہنمائی کریں گے۔
مذہب کو کئی فرقوں میں تفریق کر دینے میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ آئے دن اخبارات میں کئی طرح کے پیروں کی '' نقاب کشائی '' ہوتی ہے جو سادہ لوح لوگوں کو ان کے مسائل کے حل کا جھانسہ دے کر ، انھیں بیماریوں کے علاج کے نام پر، ان کے گناہ جھاڑنے کے نام پر یا ان کی قسمت بدلنے کا کہہ کر ان سے نہ صرف رقمیں بٹورتے ہیں بلکہ ان سے ان کی انا، ان کی عزت اور ان کا وقار بھی چھین لیتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے اخبارات میں ایک بڑے سکینڈل کے بارے میں سنا، اگر آپ ان معتقدین کی جگہ پر ہوں تو کیا آپ ایسا کریں گے؟ اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس کی معافی اللہ تعالی کے روبرو سچے دل سے معافی مانگنے سے ملتی ہے۔ انسان اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ماسوائے اس کے اپنے نفس کی گمراہی کے، اس کے اور اللہ کے درمیان کچھ حائل نہیں کہ وہ ہمار ی شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔
کون لوگ تھے ایسے جنھیں یہ بھی علم نہ ہو سکا کہ کسی کے سامنے خواہ مخواہ بے لباس ہو جانا ازخود ایک گناہ ہے، ایک کمرے میں کئی لوگوں کا بے لباس ہو کر اپنے جسم پر کسی کو کوڑے ، چھڑیاں یا ڈنڈے مارنے کی اجازت دینا، کھلی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ ترقی کی راہ پر ہم اتنا ہی آگے آئے ہیں کہ چالیس برس پہلے کا وہ پیر جس نے کوثر کو بے آبرو کر دیا تھا، وہ آج بھی موجود ہے اور ہماری جہالت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تف ہے ہم پر، ہم جان کر بھی کہ مذہب کے نام پر لٹیروں کے کاروبار چمک رہے ہیں، ہم ان کی ترقی کا حصہ بنتے ہیں۔
اگلے ہی روز میری ایک دوست جو کہ حال ہی میں عمرہ کر کے آئی ہیں، بتا رہی تھیں کہ وہاں ان کی ملاقات ایک مشہور شخصیت کی بیوی سے ہوئی جنہوں نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ان کے ہمراہ ان کے شوہر سے ملاقات کے لیے چلیں۔ میں ان کا نام نہیں لوں گی، آپ انھیں پیر کہہ لیں، بزرگ کہہ لیں یا کچھ بھی، ایک پانچ ستاروں والے ہوٹل میں پورا فلور ان کے لیے کسی نے بک کروا رکھا تھا جہاں وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ قیام پذیر تھے، رات کے بارہ بجے سے زائد کا وقت تھا جب انھیں ان کے پرائیویٹ کمرے میں لے جایا گیا تھا، وہاں چار خادمائیں انھیں مالش کر رہی تھیں، وہ فقط ایک کاچھا پہنے ہوئے تھے، انھیں دیکھ کر بھی خادمائیں اپنے کام میں مشغول رہیں، اس سے زائد تفصیل کی ضرورت نہیں، کیا پیری اور کیا بزرگی؟؟
سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسے وسائل اور پیسہ کہاں سے آتا ہے، ہمارے ہاں جو لوگ عالم دین بنے ہوئے ہیں ، پیری مریدی کے سلسلے ہیں، ان کے پاس حجرے، گھر اور گاڑیاں قابل دید ہیں۔ کہاں سے یہ سارے فنڈ آتے ہیں، مذہب کو ان لوگوں نے کس طرح مذاق بنا رکھا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی معرفت کے ایسے درجے پر ہوں مگر پھر ایسے لوگوں کو دنیا کا کوئی لالچ نہیں ہوتا۔درویش جب اللہ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو اسے دنیا کی چاہ نہیں ہوتی... اس کے لیے دنیا کی ہر آسائش ہیچ ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنی نمائش میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
لوگ تو مصائب کے مارے اللہ سے رجوع کرنے کی بجائے کمزور اور دنیاوی سہارے ڈھونڈتے ہیں مگر حکومت کی سطح پر اس نوعیت کے واقعات کے ظہور پذیر ہونے کے بعد کیا کاوشیں کی جاتی رہی ہیں؟ سوشل میڈیا پر سب کچھ میسر ہے ، پیروں کی اندر خانے حرکتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ، معرفت اور طریقت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کھلے عام ہو رہا ہے، حکومت بھی سب جانتی ہے... ہم بھی ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں، ہنستے ہیںاور اس پوسٹ کو اپنے باقی دوستوں کو بھیج کر فارغ ہو جاتے ہیں!!