سندھ میں نئی سیاسی صف بندی
الیکشن قریب ہیں اور ملک کی سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندی شروع کردی ہے
ISLAMABAD:
قارئین ! آپ جانتے ہیں الیکشن قریب ہیں اور ملک کی سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندی شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے ایک جانب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور لاہورکو اپنا مرکز بنا لیا ہے، جب کہ دوسری جانب وزیراعظم میاں نوازشریف نے صوبہ سندھ کے تواتر سے دورے کرنا شروع کردیے ہیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری پنجاب کو پیپلزپارٹی کا دوبارہ گڑھ بنانے اوراپنا وزیراعظم لانے کے دعوے کررہے ہیں۔ اب سندھ میں ایک نئے سیاسی اتحاد کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے، جس میں مسلم لیگ ن کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔ آنیوالے دنوں میں سندھ کی سیاست میں کئی ڈرامائی تبدیلیاں ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں اور دوسرے پرانے سیاسی رفقا کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو اس کے اپنے سیاسی گھر میں ٹف ٹائم دے گی۔ اس امر میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی راہیں جدا ہیں اور دونوں پارٹیوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، فنکشنل لیگ اورکچھ دیگر سیاسی گروپوں سے رابطے کرلیے ہیں اور سیٹ ایڈجسمنٹ کے حوالے سے بھی کئی گروپوں سے بات چیت جاری ہے۔
پہلے ہم بات کرتے ہیں،آصف علی زرداری جو اچانک مفاہمت کی سیاست کا خاتمہ کر کے میدان سیاست میں خالی ہاتھ کود گئے ہیں ۔ ان پر اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پرکرپشن کے شدید الزامات ہیں جب کہ صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے ان کی کارکردگی صفر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے انھیں حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی صوبے میں جائیں لیکن ماضی کے مقابلے میں پنجاب میں اب پیپلز پارٹی کے پیر اکھڑ چکے ہیں۔ ایسے میں آصف علی زرداری پنجاب کے عوام کو کس طرح مطمئن کریں گے اور ترقی ، خوشحالی کے لیے خود سے کیا خواب دکھائیں گے۔؟
پیپلز پارٹی اپنے دونوں ادوار میں سندھ میں سوائے کرپشن کے کوئی قابل ذکرکارنامہ انجام نہیں دے سکی ہے ۔ سندھ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اورخاص طور پر کراچی کی حالت قابل رحم ہے۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی و بجلی غائب ٹرانسپورٹ کی نایابی اور ٹریفک جیسے مسائل نے اس بین الاقوامی شہرکو 100 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پورے سندھ میں دھول اڑ رہی ہے ایک عام شہری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے ترس رہا ہے۔ یہ ہے وہ کارکردگی جو پیپلز پارٹی کسی کو دکھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو بھی یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ سندھ یا کسی بھی صوبے کا دورہ کریں اور ملک کے تمام علاقوں کی ترقی وخوشحالی پر توجہ دیں۔ نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وفاق اور پنجاب حکومت کی سطح پر تاریخی اور قابل ذکر ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ طعنے دیتے تھے کہ لاہور علاوہ کسی دوسرے شہر میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے جب سندھ کے دورے شروع کیے، تو ان کے پاس سندھ کے عوام کی ترقی وخوشحالی کا واضح پروگرام موجود تھا۔
وزیراعظم نے منصب سنبھالنے کے بعد کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغازکرکے کراچی میں امن بحال کروایا جس کے اثرات سندھ کے دیگر شہروں میں ہوئے اور پورے صوبے میں امن کی فضا قائم ہوئی سندھ کی تاریخ کے بڑے میگا پروجیکٹ شروع کیے، کراچی لاہور موٹر وے کا کام دوبارہ شروع کیا ، جس سے سندھ میں ترقی وخوشحالی کا نیا دور شروع ہونے جارہا ہے اور اب یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نیا سندھ بنا رہے ہیں۔ جب کہ سندھ کی اقلیتوں کو بھی انھوں نے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مارچ میں کیے گئے تین طوفانی دوروں کے بعد سندھ کی سیاسی فضا تبدیل ہوچکی ہے اور مسلم لیگ ن ایک نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آچکی ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف 14 اپریل کو جیکب آباد اور دیگر علاقوں کا دورہ کریں گے۔ مسلم لیگ ن نے 2013 کے عام انتخابات میں جن نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے وہ خواہ کامیاب ہوئے یا نہیں لیکن وزیر اعظم نواز شریف ان تمام حلقوں کا دورہ کریں گے۔ جہاں تک سیاسی حکمت عملی کا تعلق ہے تو آیندہ دنوں میں نواز شریف اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کے درمیان ملاقات کا امکان بھی ہے۔ فنکشنل لیگ وفاق میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے۔
جہاں تک متحدہ قومی موومنٹ کا تعلق ہے تو دونوں جماعتوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں اورکئی مرتبہ وفاقی حکومت کی خصوصی دلچسپی کے باعث اسے ریلیف ملا ہے اور توقع ہے کہ آیندہ بھی وہ پیپلز پارٹی کے بجائے نواز شریف کی طرف ہی دیکھے گی۔ مسلم لیگ ن نے سندھ میں اپنے عہدیداروں اور کارکنوں کو بھی پہلے سے زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی ہے، جب کہ سندھ کی کئی اور ایسے دیگر سیاسی شخصیات سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ کے بعد تیسری بڑی جماعت ہے۔
اس طرح جب ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو سندھ میں مسلم لیگ نے اس محاذ پر بھی پیش قدمی کی، اور سندھ بھرکے بلدیاتی اداروں میں مسلم لیگ ن تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جب کہ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت بن گئی ہے اس دوران مسلم لیگ ن نے سندھ میں گورنر محمد زبیرکی تقرری کر کے اپنی سیاست گرفت کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔ گورنر سندھ صوبے کی مختلف سیاسی شخصیات سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔
غیر متنازع شخصیت ہونے کی وجہ سے صوبے کے مسلم لیگی کارکن انھیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے سندھ کے صدر اسماعیل راہو کی درخواست پر ان کو تبدیل کردیا ہے اور مسلم لیگ ن کی قیادت ضلع لاڑکانہ کے صدر سرفراز جتوئی کو سونپ دی ہے اور سینئرسیاستدان سید شاہ محمد شاہ کو مرکزی نائب صدر مقررکر کے ملک بھر میں ان سے پارٹی کی خدمات لی جائیں گے اور سندھ کی بھرپور نمایندگی ساتھ مرکزمیں پارٹی کے لیے بھرپور سیاسی تجربات کے ساتھ اپنا کام کریں گے ۔ سرفراز جتوئی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
میری رائے میں پارٹی کے کسی جاگیردار اور وڈیرے کے مقابلے میں متوسط طبقے کے ایک رہنما کو صوبائی صدر نامزد کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی طرف جاگیرداروں اور وڈیروں کی جماعت نہیں ہے اورکارکردگی کی بنیاد پرغریب اور مڈل کلاس سے بھی مسلم لیگ میں قیادت کو آگے لایا جاتا ہے، جب کہ صوبائی جنرل سیکریٹری سینیٹر نہال ہاشمی بھی مڈل کلاس اور عوامی رہنما ہیں جو پہلے سے پارٹی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ کی قیادت میں تشکیل پانیوالا سیاسی اتحاد، پیپلز پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگا، کیونکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت طویل عرصے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن اس نے عوام کی خدمت، صوبے کی ترقی اور خوشحالی کو بری طرح نظر انداز کر کے کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ سرکاری نوکریاں فروخت کی پہلے ترقیاتی کاموں کے لیے بندربانٹ کی ہے یہی وجہ ہے کہ مجوزہ اتحاد کے امکانات سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت شدید دباؤکا شکار نظر آرہی ہے جب کہ بعض صوبائی رہنما، وزراء اور حکومت کے ترجمان بلاجواز بیان بازی کرکے اپنا اور عوام کا وقت ضایع کر رہے ہیں۔
یہ سوال کہ پہلے کیوں نہیں آئے یا پھر یہ طنزکہ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات محض اعلانات ہیں محض بچکانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ انتخابات میں عوام پیپلز پارٹی کے وڈیروں کو بائے بائے کہہ دیں گے اور 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سندھ حکومت بنا کر ایک نئی تاریخ رقم کر ے گی۔
قارئین ! آپ جانتے ہیں الیکشن قریب ہیں اور ملک کی سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندی شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے ایک جانب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور لاہورکو اپنا مرکز بنا لیا ہے، جب کہ دوسری جانب وزیراعظم میاں نوازشریف نے صوبہ سندھ کے تواتر سے دورے کرنا شروع کردیے ہیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری پنجاب کو پیپلزپارٹی کا دوبارہ گڑھ بنانے اوراپنا وزیراعظم لانے کے دعوے کررہے ہیں۔ اب سندھ میں ایک نئے سیاسی اتحاد کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے، جس میں مسلم لیگ ن کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔ آنیوالے دنوں میں سندھ کی سیاست میں کئی ڈرامائی تبدیلیاں ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں اور دوسرے پرانے سیاسی رفقا کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو اس کے اپنے سیاسی گھر میں ٹف ٹائم دے گی۔ اس امر میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی راہیں جدا ہیں اور دونوں پارٹیوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، فنکشنل لیگ اورکچھ دیگر سیاسی گروپوں سے رابطے کرلیے ہیں اور سیٹ ایڈجسمنٹ کے حوالے سے بھی کئی گروپوں سے بات چیت جاری ہے۔
پہلے ہم بات کرتے ہیں،آصف علی زرداری جو اچانک مفاہمت کی سیاست کا خاتمہ کر کے میدان سیاست میں خالی ہاتھ کود گئے ہیں ۔ ان پر اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پرکرپشن کے شدید الزامات ہیں جب کہ صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے ان کی کارکردگی صفر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے انھیں حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی صوبے میں جائیں لیکن ماضی کے مقابلے میں پنجاب میں اب پیپلز پارٹی کے پیر اکھڑ چکے ہیں۔ ایسے میں آصف علی زرداری پنجاب کے عوام کو کس طرح مطمئن کریں گے اور ترقی ، خوشحالی کے لیے خود سے کیا خواب دکھائیں گے۔؟
پیپلز پارٹی اپنے دونوں ادوار میں سندھ میں سوائے کرپشن کے کوئی قابل ذکرکارنامہ انجام نہیں دے سکی ہے ۔ سندھ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اورخاص طور پر کراچی کی حالت قابل رحم ہے۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی و بجلی غائب ٹرانسپورٹ کی نایابی اور ٹریفک جیسے مسائل نے اس بین الاقوامی شہرکو 100 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پورے سندھ میں دھول اڑ رہی ہے ایک عام شہری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے ترس رہا ہے۔ یہ ہے وہ کارکردگی جو پیپلز پارٹی کسی کو دکھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو بھی یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ سندھ یا کسی بھی صوبے کا دورہ کریں اور ملک کے تمام علاقوں کی ترقی وخوشحالی پر توجہ دیں۔ نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وفاق اور پنجاب حکومت کی سطح پر تاریخی اور قابل ذکر ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ طعنے دیتے تھے کہ لاہور علاوہ کسی دوسرے شہر میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے جب سندھ کے دورے شروع کیے، تو ان کے پاس سندھ کے عوام کی ترقی وخوشحالی کا واضح پروگرام موجود تھا۔
وزیراعظم نے منصب سنبھالنے کے بعد کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغازکرکے کراچی میں امن بحال کروایا جس کے اثرات سندھ کے دیگر شہروں میں ہوئے اور پورے صوبے میں امن کی فضا قائم ہوئی سندھ کی تاریخ کے بڑے میگا پروجیکٹ شروع کیے، کراچی لاہور موٹر وے کا کام دوبارہ شروع کیا ، جس سے سندھ میں ترقی وخوشحالی کا نیا دور شروع ہونے جارہا ہے اور اب یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نیا سندھ بنا رہے ہیں۔ جب کہ سندھ کی اقلیتوں کو بھی انھوں نے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مارچ میں کیے گئے تین طوفانی دوروں کے بعد سندھ کی سیاسی فضا تبدیل ہوچکی ہے اور مسلم لیگ ن ایک نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آچکی ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف 14 اپریل کو جیکب آباد اور دیگر علاقوں کا دورہ کریں گے۔ مسلم لیگ ن نے 2013 کے عام انتخابات میں جن نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے وہ خواہ کامیاب ہوئے یا نہیں لیکن وزیر اعظم نواز شریف ان تمام حلقوں کا دورہ کریں گے۔ جہاں تک سیاسی حکمت عملی کا تعلق ہے تو آیندہ دنوں میں نواز شریف اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کے درمیان ملاقات کا امکان بھی ہے۔ فنکشنل لیگ وفاق میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے۔
جہاں تک متحدہ قومی موومنٹ کا تعلق ہے تو دونوں جماعتوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں اورکئی مرتبہ وفاقی حکومت کی خصوصی دلچسپی کے باعث اسے ریلیف ملا ہے اور توقع ہے کہ آیندہ بھی وہ پیپلز پارٹی کے بجائے نواز شریف کی طرف ہی دیکھے گی۔ مسلم لیگ ن نے سندھ میں اپنے عہدیداروں اور کارکنوں کو بھی پہلے سے زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی ہے، جب کہ سندھ کی کئی اور ایسے دیگر سیاسی شخصیات سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ کے بعد تیسری بڑی جماعت ہے۔
اس طرح جب ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو سندھ میں مسلم لیگ نے اس محاذ پر بھی پیش قدمی کی، اور سندھ بھرکے بلدیاتی اداروں میں مسلم لیگ ن تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جب کہ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت بن گئی ہے اس دوران مسلم لیگ ن نے سندھ میں گورنر محمد زبیرکی تقرری کر کے اپنی سیاست گرفت کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔ گورنر سندھ صوبے کی مختلف سیاسی شخصیات سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔
غیر متنازع شخصیت ہونے کی وجہ سے صوبے کے مسلم لیگی کارکن انھیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے سندھ کے صدر اسماعیل راہو کی درخواست پر ان کو تبدیل کردیا ہے اور مسلم لیگ ن کی قیادت ضلع لاڑکانہ کے صدر سرفراز جتوئی کو سونپ دی ہے اور سینئرسیاستدان سید شاہ محمد شاہ کو مرکزی نائب صدر مقررکر کے ملک بھر میں ان سے پارٹی کی خدمات لی جائیں گے اور سندھ کی بھرپور نمایندگی ساتھ مرکزمیں پارٹی کے لیے بھرپور سیاسی تجربات کے ساتھ اپنا کام کریں گے ۔ سرفراز جتوئی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
میری رائے میں پارٹی کے کسی جاگیردار اور وڈیرے کے مقابلے میں متوسط طبقے کے ایک رہنما کو صوبائی صدر نامزد کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی طرف جاگیرداروں اور وڈیروں کی جماعت نہیں ہے اورکارکردگی کی بنیاد پرغریب اور مڈل کلاس سے بھی مسلم لیگ میں قیادت کو آگے لایا جاتا ہے، جب کہ صوبائی جنرل سیکریٹری سینیٹر نہال ہاشمی بھی مڈل کلاس اور عوامی رہنما ہیں جو پہلے سے پارٹی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ کی قیادت میں تشکیل پانیوالا سیاسی اتحاد، پیپلز پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگا، کیونکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت طویل عرصے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن اس نے عوام کی خدمت، صوبے کی ترقی اور خوشحالی کو بری طرح نظر انداز کر کے کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ سرکاری نوکریاں فروخت کی پہلے ترقیاتی کاموں کے لیے بندربانٹ کی ہے یہی وجہ ہے کہ مجوزہ اتحاد کے امکانات سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت شدید دباؤکا شکار نظر آرہی ہے جب کہ بعض صوبائی رہنما، وزراء اور حکومت کے ترجمان بلاجواز بیان بازی کرکے اپنا اور عوام کا وقت ضایع کر رہے ہیں۔
یہ سوال کہ پہلے کیوں نہیں آئے یا پھر یہ طنزکہ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات محض اعلانات ہیں محض بچکانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ انتخابات میں عوام پیپلز پارٹی کے وڈیروں کو بائے بائے کہہ دیں گے اور 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سندھ حکومت بنا کر ایک نئی تاریخ رقم کر ے گی۔