سدھار کراچی یا خاموش مفاہمت
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کیمطابق دنیا کے گندے اورآلودہ ترین شہروں میں کراچی پانچویں نمبر پر ہے
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کیمطابق دنیا کے گندے اورآلودہ ترین شہروں میں کراچی پانچویں نمبر پر ہے اور یہ رپورٹ صاحب اقتدار واختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور یہ بات بھی کون نہیں جانتا کہ کراچی پاکستان کا اکنامک حب ہے، یہ شہر ملکی ریونیو کا 60 فیصد سے زائد ادا کرتا ہے لیکن 2010 سے ہے، شہر کچرا سٹی کے نام سے مشہور چلا آرہا ہے۔ بالخصوص سندھ حکومت کی حد درجہ نالائقی، محکمہ بلدیات، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنزکی عدم دلچسپی، بدانتظامی، مالیاتی عدم استحکام اورقانونی پیچیدگیوں نے کراچی کوکچرے اور غلاظت کا ڈھیر بنادیا ہے۔
بلدیاتی اداروں کو ان کے حق سے محروم رکھ کر کراچی کے ساتھ جو سوتیلی ماں کا سا سلوک ہمارے ارباب اختیار کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے اور اس شہرکو اس کے حصے کیمطابق وسائل دینا وقت کی ضرورت ہے لیکن صوبائی حکومت کی سات سالہ مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ شہر بنیادی سہولتوں کے اعتبار سے بہت پیچھے جا چکا ہے۔
کراچی جسے ایک زمانے میں عروس البلاد کہا جاتا تھا، یہ روشنیوں، علم و ادب کا شہر تھا، تہذیب واخلاق، صحت و صفائی اور امان میں اپنی مثال آپ تھا، لیکن اب گزشتہ سات برس سے ہر طرف گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بے ہنگم ٹریفک، پانی و بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کسی ادارے،کسی شخص کی طرف سے اس شہرکے سدھار کی کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے مقامی حکومت کا خودمختار اور فعال نظام ناگزیر ہوتا ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ اس نظام کے تحت عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے دنیا بھر میں یہ نظام رائج ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ ہمارے ملک میں 2006 کے یعنی 10 سال بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا، صوبائی حکومتوں نے بادل نخواستہ انتخابات تو کرادیے لیکن ان کے نتیجے میں جو قیادت منتخب ہوکر آئی اس کو اختیارات نہیں دیے گئے نتیجے میں یہ شہر مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ صفائی ستھرائی کے متعلقہ اداروں کے ارباب اختیارکا یہ کہنا کس قدر شرم کی بات ہے کہ ''موجودہ صلاحیت اور وسائل روزانہ بننے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں کرسکتے۔''
کراچی شہر یومیہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جو میونسپل حکام آدھے سے بھی کم کچرا اٹھا پاتے ہیں اور وہ گلیوں، چوراہوں اور سڑکوں وغیرہ میں پڑا سڑتا رہتا ہے۔ حکام اور رہائشیوں نے ایک خطرناک اور صحت کے حوالے سے انتہائی مضر طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ کچرے کو جلا دیتے ہیں جس سے زہریلی گیس خارج ہوکر شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیتی ہے۔
بحیرہ عرب سے منسلک بلند عمارتوں اور غیر قانونی تعمیرات سے بھرے میگا شہر کراچی نے حالیہ دہائیوں میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کی ایک فوج ظفر موج کا سامنا کیا ہے۔ باوثوق ذرایع کے مطابق کراچی کو دانستہ غلاظت اورگندگی کا شہر بنایا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے پر یومیہ ایک کروڑ روپے لاگت آتی ہے اور دوسری جانب کچرے کے انھی ڈھیروں سے روزانہ کئی کروڑ روپے بھی کمائے جا رہے ہیں اور کچرے کی ری سائیکلنگ کی صنعت کے علاوہ اس کاروبار سے وابستہ کباڑی تک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔
اس کے علاوہ کچرا چننے والے افراد بھی روزانہ اچھی خاصی معقول رقم کما لیتے ہیں۔ اور اس ''کام'' کی کشش اور چمک دمک دیکھ کر سندھ حکومت کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے ''سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ'' تشکیل دے دیا ہے جس کے چیئرمین سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں، اس بورڈ کے قانون کے تحت سندھ میں پیدا ہونے والا تمام کچرا حکومت سندھ کی ''ملکیت'' بن گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بورڈ اپنے طے شدہ طریقہ کار کیمطابق کچرا اٹھانے کا آغاز نہیں کرسکا ہے۔
بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایک ''خاموش مفاہمت'' کے تحت کراچی میں کچرے کے انبار لگائے جا رہے ہیں، کیونکہ مستقبل میں جب کبھی کسی کمپنی کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکا دیا جائے گا، ریٹس کا تعین فی ٹن کے حساب سے ہوگا جو ممکنہ طور پر بیس سے پچیس ڈالر فی ٹن مقررکیے جاسکتے ہیں، جتنا زیادہ کچرا ہوگا رقم بھی اتنی زیادہ ہوگی۔
یہ قیاس نہیں بلکہ کراچی کے حوالے سے المناک حقیقت ہے کہ اہل کراچی نے جو توقعات مستقبل میں وابستہ کر رکھی تھیں وہ 30 برس گزر جانے کے بعد بھی پوری نہ ہوسکیں، ہزاروں نوجوان قتل، لاکھوں گرفتار اور فرار ہوئے، لاپتہ افراد کا مسئلہ پہلے سے سر اٹھائے چلا آرہا ہے یوں نسل کشی اردو داں طبقے کی حد سے بڑھ کر ہوتی چلی گئی اور ان سب کے مستقبل تاریک ہوگئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ کراچی میں چپے چپے پر کچی آبادیاں، نیم پختہ مکانات، فلیٹوں کی تعمیرکا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
دوسرے شہروں سے آنیوالے لوگوں کی وجہ سے بھی اس شہرکے مسائل میں حد درجہ اضافہ ہوا اس کے برعکس پانی، گیس، بجلی اور صفائی ستھرائی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوتا گیا، سڑکیں، گلیوں، نالے اور پارکوں پر پلاٹنگ المعروف ''چائنا کٹنگ'' نے اس شہر کو مسائل کی ماں بنا کر رکھ دیا ہے۔ برسہا برس سے اس شہر میں لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا، ڈرگ مافیا، قبضہ مافیا، بھتہ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہے۔اسٹریٹ کرائم، دن دہاڑے لوٹ مار، قتل ، اغوا اور گھروں اور دکانوں میں لوٹ مار عام ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ نہ ماضی میں کراچی اور اس کے باسیوں کا کوئی پرسان حال تھا اور نہ آج ہے۔
دن رات اداروں اور بااثر شخصیات کی اربوں روپے کی کرپشن کی کہانیوں کے سوا عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ مقام تشویش و فکر ہے کہ کراچی کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔شہر قائد ہمارے ارباب اختیار کی فوری توجہ کا طالب ہے یہی عصر حاضرکی حقیقت ہے اور اس کی سدھار کی پہلی سیڑھی شہر کو پاک صاف رکھنا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ بلدیاتی سربراہوں اور اداروں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل کو بہتر طور پر حل کیا جاسکے۔
بلدیاتی میئر اور چیئرمینوں کو مقامی سطح پر اختیارات دینے سے نچلی سطح پر یہ ادارے نہ صرف عوام کو سہولتیں مہیا کریں گے بلکہ ترقیاتی منصوبوں میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے خصوصاً تعلیم و صحت کے شعبوں میں عوام کو سہولتیں مہیا کرسکیں گے، اس کے لیے یونین کونسلز کی سطح پر انھیں زیادہ سے زیادہ فنڈز دیے جائیں اور ان کی نگرانی و رہنمائی کے لیے مانیٹرنگ سسٹم روشناس کرایا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نچلی سطح کے ادارے جتنے فعال ہوں گے جمہوری اداروں کو اتنا ہی زیادہ مستحکم بنایا جاسکے گا۔
کاش ہمارے ارباب اختیار اس حقیقت کو مان لیں کہ بلدیاتی ادارے کمزور رکھنے سے پاکستان میں جمہوریت لاغر سمجھی جاتی ہے اور صوبہ سندھ میں بلدیاتی نظام کو آئین کی دفعہ A-140 کی روح کے مطابق قائم ہونی چاہیے۔ نہ جانے کب ارباب اختیار عقل کا یہ چھوٹا سا پتھر اٹھائیں گے؟
بلدیاتی اداروں کو ان کے حق سے محروم رکھ کر کراچی کے ساتھ جو سوتیلی ماں کا سا سلوک ہمارے ارباب اختیار کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے اور اس شہرکو اس کے حصے کیمطابق وسائل دینا وقت کی ضرورت ہے لیکن صوبائی حکومت کی سات سالہ مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ شہر بنیادی سہولتوں کے اعتبار سے بہت پیچھے جا چکا ہے۔
کراچی جسے ایک زمانے میں عروس البلاد کہا جاتا تھا، یہ روشنیوں، علم و ادب کا شہر تھا، تہذیب واخلاق، صحت و صفائی اور امان میں اپنی مثال آپ تھا، لیکن اب گزشتہ سات برس سے ہر طرف گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بے ہنگم ٹریفک، پانی و بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کسی ادارے،کسی شخص کی طرف سے اس شہرکے سدھار کی کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے مقامی حکومت کا خودمختار اور فعال نظام ناگزیر ہوتا ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ اس نظام کے تحت عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے دنیا بھر میں یہ نظام رائج ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ ہمارے ملک میں 2006 کے یعنی 10 سال بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا، صوبائی حکومتوں نے بادل نخواستہ انتخابات تو کرادیے لیکن ان کے نتیجے میں جو قیادت منتخب ہوکر آئی اس کو اختیارات نہیں دیے گئے نتیجے میں یہ شہر مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ صفائی ستھرائی کے متعلقہ اداروں کے ارباب اختیارکا یہ کہنا کس قدر شرم کی بات ہے کہ ''موجودہ صلاحیت اور وسائل روزانہ بننے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں کرسکتے۔''
کراچی شہر یومیہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جو میونسپل حکام آدھے سے بھی کم کچرا اٹھا پاتے ہیں اور وہ گلیوں، چوراہوں اور سڑکوں وغیرہ میں پڑا سڑتا رہتا ہے۔ حکام اور رہائشیوں نے ایک خطرناک اور صحت کے حوالے سے انتہائی مضر طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ کچرے کو جلا دیتے ہیں جس سے زہریلی گیس خارج ہوکر شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیتی ہے۔
بحیرہ عرب سے منسلک بلند عمارتوں اور غیر قانونی تعمیرات سے بھرے میگا شہر کراچی نے حالیہ دہائیوں میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کی ایک فوج ظفر موج کا سامنا کیا ہے۔ باوثوق ذرایع کے مطابق کراچی کو دانستہ غلاظت اورگندگی کا شہر بنایا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے پر یومیہ ایک کروڑ روپے لاگت آتی ہے اور دوسری جانب کچرے کے انھی ڈھیروں سے روزانہ کئی کروڑ روپے بھی کمائے جا رہے ہیں اور کچرے کی ری سائیکلنگ کی صنعت کے علاوہ اس کاروبار سے وابستہ کباڑی تک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔
اس کے علاوہ کچرا چننے والے افراد بھی روزانہ اچھی خاصی معقول رقم کما لیتے ہیں۔ اور اس ''کام'' کی کشش اور چمک دمک دیکھ کر سندھ حکومت کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے ''سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ'' تشکیل دے دیا ہے جس کے چیئرمین سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں، اس بورڈ کے قانون کے تحت سندھ میں پیدا ہونے والا تمام کچرا حکومت سندھ کی ''ملکیت'' بن گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بورڈ اپنے طے شدہ طریقہ کار کیمطابق کچرا اٹھانے کا آغاز نہیں کرسکا ہے۔
بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایک ''خاموش مفاہمت'' کے تحت کراچی میں کچرے کے انبار لگائے جا رہے ہیں، کیونکہ مستقبل میں جب کبھی کسی کمپنی کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکا دیا جائے گا، ریٹس کا تعین فی ٹن کے حساب سے ہوگا جو ممکنہ طور پر بیس سے پچیس ڈالر فی ٹن مقررکیے جاسکتے ہیں، جتنا زیادہ کچرا ہوگا رقم بھی اتنی زیادہ ہوگی۔
یہ قیاس نہیں بلکہ کراچی کے حوالے سے المناک حقیقت ہے کہ اہل کراچی نے جو توقعات مستقبل میں وابستہ کر رکھی تھیں وہ 30 برس گزر جانے کے بعد بھی پوری نہ ہوسکیں، ہزاروں نوجوان قتل، لاکھوں گرفتار اور فرار ہوئے، لاپتہ افراد کا مسئلہ پہلے سے سر اٹھائے چلا آرہا ہے یوں نسل کشی اردو داں طبقے کی حد سے بڑھ کر ہوتی چلی گئی اور ان سب کے مستقبل تاریک ہوگئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ کراچی میں چپے چپے پر کچی آبادیاں، نیم پختہ مکانات، فلیٹوں کی تعمیرکا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
دوسرے شہروں سے آنیوالے لوگوں کی وجہ سے بھی اس شہرکے مسائل میں حد درجہ اضافہ ہوا اس کے برعکس پانی، گیس، بجلی اور صفائی ستھرائی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوتا گیا، سڑکیں، گلیوں، نالے اور پارکوں پر پلاٹنگ المعروف ''چائنا کٹنگ'' نے اس شہر کو مسائل کی ماں بنا کر رکھ دیا ہے۔ برسہا برس سے اس شہر میں لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا، ڈرگ مافیا، قبضہ مافیا، بھتہ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہے۔اسٹریٹ کرائم، دن دہاڑے لوٹ مار، قتل ، اغوا اور گھروں اور دکانوں میں لوٹ مار عام ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ نہ ماضی میں کراچی اور اس کے باسیوں کا کوئی پرسان حال تھا اور نہ آج ہے۔
دن رات اداروں اور بااثر شخصیات کی اربوں روپے کی کرپشن کی کہانیوں کے سوا عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ مقام تشویش و فکر ہے کہ کراچی کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔شہر قائد ہمارے ارباب اختیار کی فوری توجہ کا طالب ہے یہی عصر حاضرکی حقیقت ہے اور اس کی سدھار کی پہلی سیڑھی شہر کو پاک صاف رکھنا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ بلدیاتی سربراہوں اور اداروں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل کو بہتر طور پر حل کیا جاسکے۔
بلدیاتی میئر اور چیئرمینوں کو مقامی سطح پر اختیارات دینے سے نچلی سطح پر یہ ادارے نہ صرف عوام کو سہولتیں مہیا کریں گے بلکہ ترقیاتی منصوبوں میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے خصوصاً تعلیم و صحت کے شعبوں میں عوام کو سہولتیں مہیا کرسکیں گے، اس کے لیے یونین کونسلز کی سطح پر انھیں زیادہ سے زیادہ فنڈز دیے جائیں اور ان کی نگرانی و رہنمائی کے لیے مانیٹرنگ سسٹم روشناس کرایا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نچلی سطح کے ادارے جتنے فعال ہوں گے جمہوری اداروں کو اتنا ہی زیادہ مستحکم بنایا جاسکے گا۔
کاش ہمارے ارباب اختیار اس حقیقت کو مان لیں کہ بلدیاتی ادارے کمزور رکھنے سے پاکستان میں جمہوریت لاغر سمجھی جاتی ہے اور صوبہ سندھ میں بلدیاتی نظام کو آئین کی دفعہ A-140 کی روح کے مطابق قائم ہونی چاہیے۔ نہ جانے کب ارباب اختیار عقل کا یہ چھوٹا سا پتھر اٹھائیں گے؟