پی ایچ ڈی پروگرام میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائیں مجاہد کامران

قومی و بین الاقوامی ہم نصابی اور غیر نصابی مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

دنیا میں انہی اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوں نے تحقیق کے عمل کو اپنا شعار بنایا، ایکسپریس فورم کے شرکا کا ظہار خیال۔ فوٹو : فائل

ملک میں تعلیم وتربیت کے بعد تدریس وتحقیق کا عمل قوم کا مستقبل سنوارنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

دنیا میں انہی اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوں نے تحقیق کے عمل کو اپنا شعار بنایا ہے اوراس عمل کو جاری رکھتے ہوئے آج دنیا پر راج کر رہی ہیں۔ وطن عزیز میں تعلیم کے میدان میں ہونے والے اقدامات بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں۔

خصوصا اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں جامعات کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو جامعہ پنجاب اس اعتبارسے سرفہرست پائی جاتی ہے کہ یہاں تحقیق کے عمل کو نہ صرف پروان چڑھایا جارہا ہے بلکہ تدریس کو تحقیق سے منسلک کرکے نت نئے علوم دریافت کیے جارہے ہیں اور ملکی طلب اور وسائل کے پیش نظر ان علوم کو بروئے کار لاکر ملک وقوم کے مسائل کو حل کرنے کا عزم کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایکسپریس میڈیا گروپ (روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز)نے پنجاب یونیورسٹی کی تحقیق کے میدان میں جاری کاوشوں کو زیربحث لاکر اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں تحقیق کے عمل کی اہمیت کواجاگر کرنے کے لیے ایک فورم کااہتمام کیا جس میں حاضرین کی جانب سے کی جانے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسرڈاکٹرمجاہد کامران
وائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی

نئے علم کی تخلیق یونیورسٹیوں کابنیادی کام ہے۔ موجودہ انتظامیہ نے گزشتہ پانچ سالوں میں پی ایچ ڈی پروگرام میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائی ہیں جس کی بدولت سال 2012ء میں پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سال میں 206 پی ایچ ڈیز پیدا کئے ہیں جن میں 85 خواتین اور 121 مرد شامل ہیں جبکہ اس سے قبل 1990-2007ء تک اوسط 41 پی ایچ ڈیز سالانہ پیدا کئے جاتے تھے اور موجودہ انتظامیہ سے قبل یونیورسٹی میں کبھی بھی ایک سال میں 100 پی ایچ ڈیز بھی پیدا نہیں کئے۔ 2007ء میں یونیورسٹی کے 162 تحقیقی رسالے امپیکٹ فیکٹر جرنلز میں شائع ہوئے تھے جو کہ موجودہ انتظامیہ کے چارج لینے کے بعد 2010ء تک یہ تعداد 352 اور 2011 میں یہ تعداد 519 تک پہنچ چکی ہے۔

فیکلٹی کی جانب سے کتابیں لکھنے کے رحجان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2007ء میں یہ تعداد 27 تھی جبکہ 15 اکتوبر 2012ء تک یہ تعداد 94 تھی۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کی 61 میٹنگز میں 792 پی ایچ ڈی مقالے/ پروپوزل منظور کئے ہیں۔ فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 2007-08ء میں 45 ملین روپے رکھے گئے تھے جبکہ 2012-13ء میں یہ رقم اپنے ذرائع سے بڑھا کر 85 ملین کر دی گئی ہے جس کا مقصد پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہے۔ 2003ء سے 2007ء کے دوران صرف 26 اساتذہ کو فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت باہر بھیجا گیا تھا جبکہ 2008-2011ء تک 44 اساتذہ کوبھجوایا جا چکا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیکلٹی کی استعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اب یونیورسٹی کے پاس 1084 اساتذہ ہیں جن میں 793 مستقل اور 291 عارضی ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی اساتذہ کی شرکت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 2004-2008ء تک 57 اساتذہ نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی جبکہ موجودہ انتظامیہ کے دور میں جنوری 2008ء سے دسمبر 2012ء تک 246 اساتذہ کو باہر بھیجا گیا۔

زبان و ادب کے فروغ کے لئے موجودہ انتظامیہ نے بے مثال اقدامات کئے۔ روسی، چائنیز، جاپانی، اٹالین، ہسپانوی، ہبریو اور جرمن لینگوئج کے ڈپلومہ پروگرام شروع کئے جا چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی خصوصی توجہ کے باعث ہیلی کالج آف کامرس میں ایم فل پروگرام شروع کیا جا چکا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا باقاعدہ کانووکیشن موجودہ انتظامیہ کی روایت بن گئی ہے۔ موجودہ انتظامیہ کے دور میں پانچ کانووکیشنز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی عقلمندانہ پالیسیوں کے باعث انویسٹمنٹ کی رقم جو 30جون 2008ء کو 1.85 بلین روپے تھی، اب بڑھ کر 4.08 بلین روپے ہو گئی ہے۔ 2011ء میں ریسرچ انڈومنٹ فند کی رقم 250 ملین ڈالر تھی جبکہ اب یہ رقم 360 ملین ڈالر ہے جو کہ 2012-13ء کے لئے رکھی گئی 850 ملین روپے کی ریسرچ گرانٹ کے علاوہ ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کی مین لائبریری کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ 2000ء مینوسکرپٹس کو ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ 70 ہزار کتابوں پر مشتمل e لائبریری سیکشن قائم کیا گیا ہے۔ 600 افراد کے گنجائش لئے چار ایئرکنڈیشنڈ ریڈنگ رومز قائم کئے گئے ہیں اور وائی فائی سسٹم لگایا جا چکا ہے۔25 ہائی ٹیک پی فور کمپیوٹرز کا اضافہ، تیس لاکھ روپے سے میڈیکل بکس کے سیکشن کا اضافہ، بک لور ایوارڈ ، سٹاف ممبران کے تربیتی کورسز ایسے اقدماات 2012ء میں کئے گئے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی خصوصی توجہ کے باعث لائبریری ممبرشپ جو 2007ء میں دس ہزار تھی، اب 2011ء کے اختتام تک بڑھ کر 32000ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

قومی و بین الاقوامی ہم نصابی اور غیر نصابی مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس کے باعث طلباء نے 600 انعامات حاصل کئے ہیں جن میں 113 ٹیم ٹرافیزاور 530 انفرادی انعامات شامل ہیں۔ جرمنی میں منعقد ہونے والی ماڈل یونائیٹڈ نیشنز ڈیبیٹ میں ہارورڈ اور کیمبرج کے بچوں کو پچھاڑتے ہوئے 26 انعامات جیتے۔ کھیل کے میدانوں میں بھی پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی کے باعث طلباء و طالبات نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے کھلاڑیوں نے 32 ویں نیشنل گیمز میں مختلف ٹیموں میں شامل رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ ادبی مجلے محور کو دوبارہ نئی زندگی دی گئی ہے اور گولڈن جوبلی پر اس کی سالانہ باقاعدہ اشاعت کا آغاز کیا گیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے بلوچستان کے مسائل حل کرنے سے متعلق ایک تاریخ فیصلہ کیا ہے جس میں ہر شعبے کے ہر پروگرام میں بلوچ طلبہ و طالبات کے لئے ایک ایک نشست مقرر کی گئی ہے جس میں طلبا کو مفت تعلیم اورمفت رہائش کی سہولت دینے کے علاوہ تین ہزار روپے ماہانہ سکالرشپ بھی دی جا رہی ہے۔ اساتذہ اور ملازمین کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے فلیٹس کی تعمیر تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہے۔ نوجوان اساتذہ کے لئے بھی حال ہی میںہاسٹل کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔اسی طرح مختلف شعبہ جات کے اکیڈیمک بلاکس میں تعمیراتی کام پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ خواتین اساتذہ کو سہولت فراہم کرنے کے لئے پی یو سی آئی ٹی میں اور آئی بی آئی ٹی میں ڈے کئیر سینٹر قائم کئے گئے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کا ایک اور انقلابی اقدام، 1223 ڈیلی ویجز ملازمین ، 170 ایڈہاک/ عارضی ملازمین کو مستقل کیا جا چکا ہے۔ سلیکشن کمیٹی کے ذریعے 330 تقرریاں کی گئی ہیں۔ 199 ملازمین کومیرٹ پر ترقیاں دی گئی ہیں، 423 ملازمین کو کنفرمیشن دی گئی ہے اور 441 نشستوں کو re-designate and upgrade ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے کیا گیا ہے۔

خواجہ عمران نذیر
ایم اپی اے ومنتخب سنڈیکیٹ ممبر پنجاب یونیورسٹی


وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی سربراہی میں تعلیم کے میدان میں کیے گئے انقلابی اقدامات کی بدولت پنجاب یونیورسٹی کی روایات کو تبدیل کیاگیا ہے اور وہ تعلیمی پروگرام جاری کیے گئے ہیں جن کا تصور نہیں تھا بلکہ پنجاب یونیورسٹی جس کا تقدس کہیں کھوگیا تھا وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی حکمت عملی اوربہترین تعلیمی منصوبہ بندی کے بعد یونیورسٹی علم کا گہوارہ بن چکی ہے اور ایسے تمام ڈسپلن جن میں خصوصا کامرس کے مضامین شامل ہیں کو عام کرکے ایسے امیدواران کو محفوظ کیا ہے جو نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کی وجہ سے ان ڈسپلن میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے گزشتہ چند برسوں میں بعض مخصوص سیاسی طلبہ کی جماعت کے چنگل سے بھی یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو نکال لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کی تمام کامیابیوں کے پیچھے حکومت پنجاب کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے فیس برادشت نہ کرنے والے بچوں کوبھی مالی سہولت فراہم کی ہے جس کے تحت یونیورسٹی میں اس وقت795بچے زیرتعلیم ہیں جبکہ لیپ ٹاپ کی فراہمی کرکے آئی ٹی کے میدان میں سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے تحت صرف پنجاب یونیورسٹی کے تیس ہزار طالبعلموں کو میرٹ کی بنیادپر لیپ ٹاپ دیئے گئے۔

پروفیسرڈاکٹرلیاقت علی
کنٹرولرامتحانات،پرنسپل ہیلے کالج ،ممبرسنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی

یونیورسٹی ایک سال میں تین سو کے قریب امتحانات کاانعقادکراتی ہے جس میں پانچ لاکھ امیدواران شرکت کرتے ہیں جبکہ صرف بی اے ،بی ایس سی کے امتحانات میں ڈیڑھ لاکھ امیدواران شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ان امتحانات کے لیے 475امتحانی مراکز قائم کرتی ہے اوریہ اٹک، گلگت، کوئٹہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ یونیورسٹی امتحانی شعبہ میں بڑی کامیابی جوابی کاپیوں میں صفحات کی تعداد کوبڑھانا اور اضافی شیٹ امیدواران کو سنٹرز کے اندر الگ سے دینے کا رواج ختم کرنا ہے جس سے نہ صرف امتحانی عملہ کے لیے نگرانی کا عمل آسان ہوگیا ہے بلکہ امیدواران میںنقل کے رجحان میں بھی کمی کاعنصربڑھ گیا ہے جو اضافی شیٹوں کی صورت میں کیاجاتا رہا ہے۔

شمائلہ گل
لیکچرر آئی بی آئی ٹی وممبر سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی

یونیورسٹی نے خواتین اساتذہ کی فلاح وبہبودکے لیے بہترین اقدامات کیے ہیں جن کا سہرا وائس چانسلر کے سر جاتا ہے جنہوںنے خواتین اساتذہ اوران کے بچوں کی سہولت کے لیے تین ڈے کیئرسنٹرز قائم کیے ہیں جس سے اساتذ ہ میں تحفظ کا احساس بڑھا ہے جبکہ لائبریری کووسعت دے کر کتب بینی کے رواج کوبڑھایا گیا ہے جس کے باعث جہاںپہلے دس ہزار طالبعلم لائبریری کے ممبر تھے آج 32ہزارہیں۔

جاوید سمیع
اسٹنٹ پروفیسر،ممبرسنیڈیکیٹ،جنرل سیکرٹری اے ایس اے،ریزیڈنٹ آفیسر ون پنجاب یونیورسٹی

پنجاب یونیورسٹی نے ماحول کا صاف ستھرابنانے کے لیے اورآلودگی سے پاک بنانے کے لیے تیس ہزار پودے لگائے ہیں جبکہ طلبہ اورملازمین کی سہولت کے لیے56 بسیں ہیں جن میں تین کروڑ روپے کا سالانہ ڈیزل استعمال کیاجاتا ہے جبکہ کرایوں کی مد میں مسافروں سے انتہائی کم نرخ وصو ل کیے جاتے ہیں اورچھ مزیدنئی بسیں خریدی ہیں۔ مختلف تعمیر ومرمت کے کام میں یونیورسٹی نے اس سال اکیس لاکھ روپے کی بچت کی ہے جبکہ کھوکھا شاپ اوردیگر دکانوں سے ماہانا کرایہ کی وصول کی یقینی بنا کر بھتہ ازم کے کلچرکوختم کیا ہے۔

ڈاکٹراحسان شریف
اسسٹنٹ پروفیسر، صدر اے ایس اے

تحقیق وتدریس کے فروغ میں وی سی کی خدمات کے ممنون ہیں جن کی بدولت یونیورسٹی میں تحقیق کوفروغ ملا ہے۔

پروفیسر شوکت علی
چیئرمین فزکس ڈیپارٹمنٹ ،ممبر سنڈیکیٹ،ممبر الحاق کمیٹی

یونیورسٹی میں اکیڈیمک اورریسرچ کاماحول کا فقدان تھا۔ یہ وائس چانسلر کی بہترین پالیسی اور تعلیم دوست کاوشوں کا سبب ہے کہ آج یونیورسٹی میں اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کیے جاتے نہ ہی کسی ایک گروپ کی اجارہ داری ہے بلکہ جو محنت کرنے والے ہیں اورمحقق ہیں ان کی ضروریات پوری کرکے وائس چانسلر نے علم میں جدت پیداکرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وی سی کے میرٹ پر فیصلے اور تعیناتیاں آ ج مثبت تعلیمی ثمر کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ نااہل افرادکی بھرتی اور تعیناتی کو یونیورسٹی کو 36 سال کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج یونیورسٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آج یونیورسٹی نے سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں تعلیمی اداروں کو اپنے ساتھ الحاق کیا ہے جس سے بہترین تعلیم وتدریس کوفروغ مل رہا ہے۔
Load Next Story