موسیقار

ہم ہرشعبے میں ناقدری کرنے والے لوگ ہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

استاد سلیم اقبال سے ملاقات کیسے ہوئی۔ اس معاملے کا قطعاًادراک نہیں ہے۔1979ء میں کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کانیوہاسٹل بالکل اسی جگہ پرتھاجہاں آج موجود ہے۔نیوہاسٹل اس لیے کہلاتاتھاکہ یہ نیا تعمیر ہوا تھا۔خیراب تویہ ہاسٹل تیس چالیس برس کا معمرنوجوان ہے۔ایک دن شام کومجھے کوئی کام تھا،شائدکوئی چیزخریدنی تھی۔

گوالمنڈی جو اب فوڈسٹریٹ کہلاتی ہے،اُس کے آخرمیں پہنچا توسازکی خوبصورت آوازسنائی دی۔ ذرا آگے جاکردیکھاتوایک چھوٹی سی دکان تھی جس میں مختلف سازلٹکے ہوئے تھے۔ حیرت ہوئی کہ پہلے نظرکیوں نہیں پڑی۔ دکان کے عین درمیان میں ایک نوجوان لکڑی کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑرہاتھا اورباریک تاریں بھی لگارہا تھا۔ یہ ستارکی تیاری تھی۔ دکان کے کونے میں سادہ سے کرتے شلوار میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی ستار بجا رہا تھا۔ چہرے پر نظر کا چشمہ تھا۔پہلی نظرمیں پروفیسرکا گمان ہوتا تھا۔

دکان کے سامنے کھڑے ہوئے چندمنٹ گزرے تھے کہ ایک نوجوان دکان میں داخل ہونے لگا اور مجھ سے کہا کہ آپ اندرآجاؤ۔ اندردوسٹول پڑے تھے۔ایک پر اجازت لے کربیٹھ گیا۔ بزرگ آدمی بدستور ستاربجانے میں محو تھا۔ پکے رنگ کایہ آدمی میرے لیے اجنبی تھا۔ خیر باتیں شروع ہوگئیں۔ستاربنانے والے نے پوچھاکہ میں کون ہوں۔جونوجوان دکان میں داخل ہواتھا،وہ بھی پوچھنے لگاکہ کیامجھے موسیقی سے کوئی شغف ہے۔

خیر تعارف پرپتہ چلاکہ نوجوان کا نام حنیف ہے اوریہ دکان اس کے بڑے بھائی کی تھی۔ حنیف، کونے میں بیٹھے ہوئے مدبرآدمی سے گانے کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔حنیف غضب کاگلوکارتھا۔خیرکونے میں بیٹھاہواشخص باتوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔بتانے لگاکہ میرانام سلیم اقبال ہے اور میوزک ڈائریکٹرہوں۔مجھے نام سے قطعاًکوئی دلچسپی نہیں تھی۔حنیف کوہاسٹل کاکمرہ نمبربتایااورکہاکہ جب بھی وقت ہو،ہاسٹل آجائے۔چنددن بعد،شام کو حنیف میرے کمرے میں آگیا۔اس کے ساتھ سلیم اقبال بھی تھے۔

دوسری ملاقات میں بھی قطعاً اندازہ نہیں تھاکہ یہ بوڑھا انسان کتنے اعلیٰ درجہ کامیوزک ڈائریکٹرہے۔ چند دنوں بعدحنیف دکان سے پرانا ساہارمونیم لے آیا اور کمرے میں رکھ دیا۔جب بھی موڈمیں ہوتاتوکمال کی غزلیںسناتا۔سلیم اقبال صاحب نے بھی اب ہاسٹل آنا شروع کردیا۔تین چارمہینے گزرگئے۔ ہفتہ میں تین چار بار سلیم اقبال دوپہرکوہاسٹل آجاتے تھے۔نیچے لگے ہوئے اخباروں کوپڑھتے تھے۔اگرمیں کمرے میں نہ ہوتا تو بند ہاسٹل کے سامنے بنچ پر انتظار کرتے تھے۔ یقین فرمائیے کہ میں اس عظیم ڈائریکٹرکے مقام سے مکمل طور پر نابلد تھا۔سلیم اقبال کمرے میں آکرہارمونیم پرگانا شروع کردیتے تھے۔

ایک دن ارشدبٹ کے گھرگیاتوارشدکمرے میں بیٹھا بادل ناخواستہ میڈیکل کی ضخیم کتابیں پڑھنے میں مصروف تھا۔ارشدبٹ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھ رہاتھا۔ ارشدکے والدریٹائرمنٹ کے بعد لائل پور سے لاہورمنتقل ہوگئے تھے۔ ریگل چوک سے تھوڑا آگے گھرخریدا تھا۔والدکی شدیدخواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے۔ ارشدبنیادی طورپرادب اورموسیقی کاانسان تھا اور ہے۔ اسے ہمیشہ مردِصحرالکھتاہوں۔ مجھے موسیقی کی بنیادسے متعارف کروانے والایہی مردِ صحرا ہے۔

عرض کرتا چلوں۔ ارشدکے والدمحترم ایس ڈی بٹ صاحب امریکا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی تھے۔ پچاس کی دہائی میں امریکا جاکرعلم حاصل کرنے والے بہت کم لوگ تھے۔ بڑے بٹ صاحب کویونیورسٹی نے امریکی شہریت لینے کا کہا۔ساٹھ ستربرس پہلے امریکی شہریت حاصل کرنا بہت آسان تھی۔ بڑے بٹ صاحب نے یونیورسٹی کے ڈین کو یہ کہاکہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ اپنے آبائی ملک یعنی پاکستان کی خدمت کرناچاہتے ہیں۔

امریکی شہریت سے انکارکرکے لائل پورکی زرعی یونیورسٹی میں پڑھاناشروع کردیا۔آخری دم تک پڑھاتے رہے۔انتہائی وجیہہ اوربلندقامت شخصیت۔جب جناح کالونی کی کسی سڑک سے گزرتے توہماری عمرکے بچے ان کے رعب کی بدولت آگے پیچھے ہوجاتے۔ خیر ارشد بٹ سے باتوں باتوں میں کہاکہ ایک موسیقارسلیم اقبال چندمہینوں سے میرے کمرے میں آرہے ہیں۔ آج تک یاد ہے۔ مردِصحرا ایک دم چوکنا ہوگیا۔ کتابیں ایک طرف رکھ دیں۔


پوچھنے لگا، کون،کس کی بات کررہے ہو۔جب دوبارہ سلیم اقبال کا بتایاتوحیرت سے پوچھنے لگاکہ کیاتم استادجی کوجانتے ہو۔ میراجواب نفی میں تھا۔ ارشد کو تو ایسے ہواجیسے ایک کرنٹ لگاہو۔بتانے لگاکہ نہ صرف پاکستان،بلکہ سلیم اقبال تو برصغیرکے نایاب اوربلند پایہ موسیقاروں میں سے ایک ہیں۔مردِصحرانے مجھے استادجی کی دس بارہ پرانے نغموں کی دھنیں سنانی شروع کردیں۔

ارشد کا بہت بڑاوصف ہے کہ اسے موسیقی پرمکمل عبورحاصل ہے۔آج بھی اس کے سامنے کسی غزل یانغمہ کاذکرکریں۔وہ شاعر، موسیقار اور گلوکارکے متعلق سب کچھ بتائیگا۔ ارشدکوخیریقین نہ آیاکہ سلیم اقبال ہاسٹل آتے رہتے ہیں۔ اگلے دن وقت مقرر ہوا۔تقریباًشام کے چارپانچ بجے ہاسٹل میں اکٹھے ہوگئے۔سلیم اقبال صاحب بھی آگئے۔مردِصحرااورسلیم اقبال کی باہمی گفتگواس درجہ دلچسپ اوراعلیٰ تھی کہ واقعی حیران ساہوگیا۔پتہ چلاکہ،آفاقی نغمہ''اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویرو''کی دھن سلیم صاحب نے ترتیب دی تھی۔

پنجابی کامشہورترین نغمہ،''دیساں داراجہ میرے بابل داپیارا'' بھی انھی کی دھن تھی۔''سانوں نہر والے پُل تے بلاکے'' بھی اسی عظیم موسیقارکے ذہن میں ترتیب ہواتھا۔اس کے علاوہ سیکڑوں ایسے زبان زدعام نغمے تھے جواسی عظیم انسان نے ترتیب دیے تھے۔خیراب سلیم اقبال کی قدروقیمت کابتدریج اندازہ شروع ہوگیا۔

ایک دن امتحان سے فارغ ہوکرکمرے میں بیٹھا تھا،سلیم صاحب آئے اورکہاکہ ریڈیوپاکستان چلتے ہیں۔ میرے پاس موٹرسائیکل تھی۔ہم دونوں شملہ پہاڑی کے ساتھ ریڈیوپاکستان کی بلڈنگ میں پہنچ گئے۔انھیں آدھے گھنٹے کاکوئی کام تھا۔ اس کے بعد دونوں کینٹین میں آگئے۔وہاں غلام علی بیٹھاہواتھا۔یہ1979-80ء کی بات ہے۔غلام علی اس وقت تک شہرت کے زینہ پرقدم رکھ چکاتھا۔حددرجہ عاجزاورملنسارانسان۔میںنے فرمائش کی کہ غلام علی صاحب کچھ سنائیے۔کینٹین میں یہ فرمائش کافی حدتک غیرمناسب تھی۔غلام علی نے بالکل برا نہیں منایا۔ انتہائی تمیزسے سلیم اقبال سے اجازت لی۔

لکڑی کی میزپراپنے ہاتھوں سے ایک آوازپیداکی اور پھر اس نے جادوئی آوازسے سماں باندھ دیا۔اپنی تین چار شہرہ آفاق غزلیں سنائیں کہ لطف آگیا۔اس کے بعدہم سب نے بوسیدہ سے برتنوں میں چائے پی اورہاسٹل واپس آگئے۔میں نے محسوس کیاکہ بڑے انسان اپنے رویہ میں بھی بڑے ہوتے ہیں۔شہرت،دولت یاغربت ان کے لیے بے معنی ہوتی ہے۔ان لوگوں کی اپنی ایک الگ دنیاہوتی ہے۔تمام اہل فن لوگ حقیقت اور غیرحقیقت کے درمیان بے نیازی سے زندگی گزارتے ہیں۔ کسی انعام یاصلہ کی توقع کے بغیر۔

سلیم صاحب اب اکثرہاسٹل آجاتے تھے۔ ایک دن لائل پورسے ظفرآیاہواتھا۔احمدفرازکی ایک غزل کی دھن بن رہی تھی۔ظفرنے اس دھن پرانتہائی اچھے طریقے سے غزل کوگاناشروع کردیا۔سلیم صاحب نے ظفرکومشورہ دیاکہ باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرے۔ ظفر تقریباً دو سے تین سال اس عظیم موسیقار سے علم حاصل کرتا رہا۔ ظفر نے باقاعدہ کئی مقامات پربہت اچھاگاناشروع کردیا۔ آج کل نیویارک میں ہے۔جب بھی پاکستان آتاہے تو سلیم اقبال کی تیارکردہ غزلیں ضرور سناتا ہے۔ظفربھی ایک عجیب ساشخص ہے۔ لاابالی نظرآنے والاانتہائی سنجیدہ شخص۔ پربہاراورقہقہے بکھیرنے والاانسان۔

سلیم اقبال صاحب میں اس درجہ قناعت اورسنجیدگی تھی کہ کسی پربوجھ نہیں بنتے تھے۔ایک دوپہرکوگوالمنڈی میں کھانے کا وقت ہوگیا۔انھوں نے ایک نان لیا اور آلوکی ٹکی کے ساتھ خاموشی سے کھالیا۔پانی پیتے ہوئے خدا کا باربار شکر ادا کررہے تھے۔جس وقت ان سے ملاقات ہوئی، ان پر زوال کاوقت تھا۔شہرت اور آسودگی کی دیوی ان کی زندگی سے بہت دورجاچکی تھی۔ مگرمیں نے کبھی بھی انھیں شکوہ کرتے نہیں سنا۔وہ ہرووقت خداکاشکراداکرتے رہتے تھے۔

سلیم اقبال جیسا موسیقارانتہائی مشکل حالات سے دوچاررہا۔اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کی دوڑ اور گھریلو ضروریات کوکیسے باہمی طورپرباندھ کر رکھے۔ شدید ناقدری اورزمانے کی سفاکی سے بے بس انسان ایک دن فالج کا شکار ہوگیا۔ کوئی اس کی مالی امدادکے لیے نہ پہنچا۔اسی رنج واَلم اوربے بسی میں سلیم اقبال دنیاسے چلاگیا۔اس کی بنائی ہوئی دھن''اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویرو'' پر لوگ آنسوبہاتے ہیں۔روتے ہیں۔ مگرکوئی اس عظیم موسیقار کو یاد نہیں کرتا جو اس ترانے کی دھن کاخالق تھا۔

ہم ہرشعبے میں ناقدری کرنے والے لوگ ہیں۔ سلیم اقبال بھی اسی ناقدری کا شکاررہا۔ اسے آج تک اس کامقام نہیں مل سکا مگریہاں ہربڑے آدمی کواس کا مقام کہاں ملتا ہے۔موسیقارکیا،یہاں تمام اہل فن اپنی اپنی جگہ المیہ کی تصویر ہیں۔ دولت تودورکی بات ہے،عزت کی تلاش میں ہی فناکے راستے پرچل پڑتے ہیں۔سلیم اقبال جیسا عظیم موسیقاراسی راہِ فنا کا مسافرتھا!
Load Next Story