چل بلھیا چل اوتھے چلیے
ٹیلی ویژن ہے کہ رات دن نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولے سنائے اور دکھائے جا رہا ہے۔
ISLAMABAD:
چل بلھیا، چل اوتھے چلیے
جتھے سارے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑے
نہ کوئی سانوں منّے
صدیاں بیت گئیں درد والے یوں ہی کلبتے رہے ہیں، بے دردوں نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرے۔ ہماری دنیا ہمارا پاکستان ہے۔ جہاں ظلم و ستم کے ڈیرے ہیں، انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، ایک ظلم کی داستان کی گونج دھیمی نہیں پڑتی، دوسری داستان سامنے آجاتی ہے۔ طاقت والے لوگ باز ہی نہیں آرہے، طاقت کا نشہ، خمار اتر ہی نہیں رہا۔ نشہ اترے بھی تو کیسے؟
زمینیں ان کی ہیں، سیٹیں ان کی ہیں۔ بظاہر حکمران کہتے ہیں ''اسلحہ کی نمائش پر جیل جانا ہوگا'' مگر موٹے موٹے بڑے بڑے پیٹوں والوں کے نوکر کلاشنکوفیں بھر بھر کے انھیں پکڑاتے ہیں، اور یہ اللہ کے آسمان کی طرف گولیاں برساتے رہتے ہیں، ایک کلاشن خالی ہوئی دوسری پکڑ لی، تیسری پکڑ لی اور یہ ایک نہیں ان کے ساتھ ان کے بھائی بند، بھتیجے، بھانجے، پوتے، نواسے سب شامل ہوتے ہیں۔ فیض نے ایک فلم بنائی تھی ''دور ہے سکھ کا گاؤں'' فلم فیل ہوگئی تھی، اسے فیل ہونا ہی تھا۔ سکھ کا گاؤں بہت دور، بہت ہی دور لگتا ہے۔ کوئی پتا نہیں ہم سکھ کے گاؤں میں کب پہنچیں گے۔ جالب نے شام غم سے پوچھا:
اے شام غم بتا کہ سحر کتنی دور ہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے
جالب اپنا سوال لیے دنیا سے چلا گیا۔ مگر جس نگر میں آنسو نہیں ہوتے وہ دور دور نظر نہیں آرہا ہے، ٹیلی ویژن ہے کہ رات دن نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولے سنائے اور دکھائے جا رہا ہے۔ جنھوں نے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرلی وہ اب بھی مزید لوٹ مار کیے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے کالے کرتوتوں پر ان ظالم لٹیروں کو ذرہ برابر شرم و حیا نہیں آرہی، بلکہ وہ بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اور وہ صبح کب آئے گی، وہ سحر کب آئے گی:
''وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے''
جالب کا وہ سورج کب نکلے گا، اور دکھیاروں کے دن رات کب بدلیں گے؟ اللہ جانے۔ سنا ہے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک راہداری ہے جسے رضا ربانی چیئرمین سینیٹ نے جمہور کی داستان بنادیا ہے۔ اس دھرتی پر کتنے طالع آزما آئے سب کا احوال وہاں موجود ہے اور کس کس نے سچ کا علم بلند رکھا، ان کا بھی ذکر ہے۔ ابھی دو دن پہلے ایک اور چونکا دینے والی خبر بھی سنائی دی۔ پارلیمنٹ کے عین سامنے ان گمنام شہیدوں کی یادگار بنائی گئی ہے جنھوں نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی میں حصہ لیتے ہوئے جانیں قربان کردیں اور گمنامی کے باوجود سرخروئی کی منزل کو پالیا۔
یہ خبریں حیرت انگیز ہیں۔ بہت پہلے کالم نگار ایاز امیر نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''جب دور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں سے برف پگھل جائے، جب آخری طالع آزما بھی خود کو آزما لے، تب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے حبیب جالب کا تانبے میں ڈھلا مجسمہ نصب کردیا جائے اور اس کے نیچے اس کی نظم ''ایسے دستور کو' صبح بے نور کو' میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا'' لکھ دی جائے تو کیا وہ گھڑی آن پہنچی؟ میں نے خود سے سوال پوچھا، تو اندر سے درویش شاعر ساغر صدیقی کی آواز آئی:
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ، بڑا اندھیرا ہے
اور ساغر صدیقی نے اسی غزل میں یہ بھی کہا تھا:
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
جب تک قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ظالم کلاشنکوف بردار موجود ہیں جب تک ساری زمین کو چند گھرانے گھیرے ہوئے ہیں جب تک ''خونخوار شکاری کتے'' موجود ہیں، ہم مظلوم عوام اور ان کے لیے دردمند دل رکھنے والے، کسی ''فریب'' میں نہیں آئیں گے۔ کیونکہ ہم کو وہاں جانا ہے، وہ ہماری منزل ہے۔ جو سکھ کا گاؤں ہے جہاں سب برابر ہوں گے۔ جہاں آنسو نہیں ہوں گے۔
یہ ہمارا آج! یہ تو وہ نہیں ہے۔ آج تو حکمران وہ ہیں جو ظالموں کی گردنیں نہیں دبوچتے، ہاتھ نہیں توڑتے، ان کے مظلوموں کی جانب بڑھتے قدم نہیں روکتے۔ یہ حکمران ظلم کے ساتھی ہیں سابقہ حکمران ہوں یا موجودہ۔ یہ سارے کے سارے ظالموں کے شراکت دار رہے ہیں۔ ''ان سے امید خیر! لاحاصل''۔ جالب کا شعر اور بس:
کسی رہبر کو اب زحمت نہ دوں گا
میں خود اپنی قیادت میں چلوں گا
چل بلھیا، چل اوتھے چلیے
جتھے سارے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑے
نہ کوئی سانوں منّے
صدیاں بیت گئیں درد والے یوں ہی کلبتے رہے ہیں، بے دردوں نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرے۔ ہماری دنیا ہمارا پاکستان ہے۔ جہاں ظلم و ستم کے ڈیرے ہیں، انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، ایک ظلم کی داستان کی گونج دھیمی نہیں پڑتی، دوسری داستان سامنے آجاتی ہے۔ طاقت والے لوگ باز ہی نہیں آرہے، طاقت کا نشہ، خمار اتر ہی نہیں رہا۔ نشہ اترے بھی تو کیسے؟
زمینیں ان کی ہیں، سیٹیں ان کی ہیں۔ بظاہر حکمران کہتے ہیں ''اسلحہ کی نمائش پر جیل جانا ہوگا'' مگر موٹے موٹے بڑے بڑے پیٹوں والوں کے نوکر کلاشنکوفیں بھر بھر کے انھیں پکڑاتے ہیں، اور یہ اللہ کے آسمان کی طرف گولیاں برساتے رہتے ہیں، ایک کلاشن خالی ہوئی دوسری پکڑ لی، تیسری پکڑ لی اور یہ ایک نہیں ان کے ساتھ ان کے بھائی بند، بھتیجے، بھانجے، پوتے، نواسے سب شامل ہوتے ہیں۔ فیض نے ایک فلم بنائی تھی ''دور ہے سکھ کا گاؤں'' فلم فیل ہوگئی تھی، اسے فیل ہونا ہی تھا۔ سکھ کا گاؤں بہت دور، بہت ہی دور لگتا ہے۔ کوئی پتا نہیں ہم سکھ کے گاؤں میں کب پہنچیں گے۔ جالب نے شام غم سے پوچھا:
اے شام غم بتا کہ سحر کتنی دور ہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے
جالب اپنا سوال لیے دنیا سے چلا گیا۔ مگر جس نگر میں آنسو نہیں ہوتے وہ دور دور نظر نہیں آرہا ہے، ٹیلی ویژن ہے کہ رات دن نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولے سنائے اور دکھائے جا رہا ہے۔ جنھوں نے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرلی وہ اب بھی مزید لوٹ مار کیے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے کالے کرتوتوں پر ان ظالم لٹیروں کو ذرہ برابر شرم و حیا نہیں آرہی، بلکہ وہ بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اور وہ صبح کب آئے گی، وہ سحر کب آئے گی:
''وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے''
جالب کا وہ سورج کب نکلے گا، اور دکھیاروں کے دن رات کب بدلیں گے؟ اللہ جانے۔ سنا ہے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک راہداری ہے جسے رضا ربانی چیئرمین سینیٹ نے جمہور کی داستان بنادیا ہے۔ اس دھرتی پر کتنے طالع آزما آئے سب کا احوال وہاں موجود ہے اور کس کس نے سچ کا علم بلند رکھا، ان کا بھی ذکر ہے۔ ابھی دو دن پہلے ایک اور چونکا دینے والی خبر بھی سنائی دی۔ پارلیمنٹ کے عین سامنے ان گمنام شہیدوں کی یادگار بنائی گئی ہے جنھوں نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی میں حصہ لیتے ہوئے جانیں قربان کردیں اور گمنامی کے باوجود سرخروئی کی منزل کو پالیا۔
یہ خبریں حیرت انگیز ہیں۔ بہت پہلے کالم نگار ایاز امیر نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''جب دور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں سے برف پگھل جائے، جب آخری طالع آزما بھی خود کو آزما لے، تب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے حبیب جالب کا تانبے میں ڈھلا مجسمہ نصب کردیا جائے اور اس کے نیچے اس کی نظم ''ایسے دستور کو' صبح بے نور کو' میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا'' لکھ دی جائے تو کیا وہ گھڑی آن پہنچی؟ میں نے خود سے سوال پوچھا، تو اندر سے درویش شاعر ساغر صدیقی کی آواز آئی:
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ، بڑا اندھیرا ہے
اور ساغر صدیقی نے اسی غزل میں یہ بھی کہا تھا:
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
جب تک قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ظالم کلاشنکوف بردار موجود ہیں جب تک ساری زمین کو چند گھرانے گھیرے ہوئے ہیں جب تک ''خونخوار شکاری کتے'' موجود ہیں، ہم مظلوم عوام اور ان کے لیے دردمند دل رکھنے والے، کسی ''فریب'' میں نہیں آئیں گے۔ کیونکہ ہم کو وہاں جانا ہے، وہ ہماری منزل ہے۔ جو سکھ کا گاؤں ہے جہاں سب برابر ہوں گے۔ جہاں آنسو نہیں ہوں گے۔
یہ ہمارا آج! یہ تو وہ نہیں ہے۔ آج تو حکمران وہ ہیں جو ظالموں کی گردنیں نہیں دبوچتے، ہاتھ نہیں توڑتے، ان کے مظلوموں کی جانب بڑھتے قدم نہیں روکتے۔ یہ حکمران ظلم کے ساتھی ہیں سابقہ حکمران ہوں یا موجودہ۔ یہ سارے کے سارے ظالموں کے شراکت دار رہے ہیں۔ ''ان سے امید خیر! لاحاصل''۔ جالب کا شعر اور بس:
کسی رہبر کو اب زحمت نہ دوں گا
میں خود اپنی قیادت میں چلوں گا