ووٹ کا فیصلہ کیسے ہو۔۔۔۔۔
پاناما لیکس پر عدالت کی جانب سے جو بھی فیصلہ آئے، نئے عام انتخابات اب چند ماہ دور کی ہی بات ہیں
پاناما لیکس پر عدالت کی جانب سے جو بھی فیصلہ آئے، نئے عام انتخابات اب چند ماہ دور کی ہی بات ہیں۔ انتخابات2017ء میں ہوں یا 2018ء میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں عوام کے پاس جانے کے لیے کیا تیاری کی ہے۔اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ہمارے ملک میں مختلف علاقوں کے عوام کی آراء کیا ہیں اور قوم کا مجموعی مائنڈ سیٹ کیا ہے۔
پاکستان میں ووٹرزکا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے ووٹ کی اہمیت اور قدر سے واقف نہیں ہے۔ اس ناواقفیت کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں کئی ووٹرزکا لسانی، علاقائی، برادری وغیرہ کی وابستگیوں کو اہمیت دینا بھی شامل ہے۔ صرف دیہی علاقوں کے کم پڑھے لکھے یا ناخواندہ ووٹرز ہی نہیں شہری علاقوں کے انٹر، گریجویٹ یا ماسٹرز سطح تک تعلیم یافتہ کئی ووٹرز بھی اُمیدوار کی دیانت اور اس کی اہلیت کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے وابستگیوں یا مجبوریوں کی بنیاد پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔
پاکستان میں کئی مسائل پچھلی کئی دہائیوں سے جوں کے توںہیں یا ان مسائل کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کئی نئے مسائل شہریوں کے لیے اذیت کا سبب بن رہے ہیں۔ ان مسائل کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ کئی سیاستدانوں کا یہ یقین ہے کہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں ووٹ تو ہمیں مل ہی جائیں گے۔ زندگی کے تقریباًہر شعبے میں کرپشن اور اقربا پروری بہت زیادہ سرایت کرچکی ہے۔ عوام کے کئی منتخب نمایندوں پر بھی کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن ایسے کئی سیاستدانوں کو یہ یقین بھی ہے کہ الزامات چاہے جو بھی لگتے رہیں وہ اپنے حلقے سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کرپشن اور اقرباپروری کو معاشرے کا ایک عام چلن سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔
الیکشن میں لسانی یا برادری کی بنیادوں پر فیصلہ کرنا ہو یا کرپشن اور اقربا پروری کو قبول ِ عام مل جانا ہو، نقصان بہرحال اس معاشرے کے ایک عام آدمی کا ہی ہوتا ہے۔ عام آدمی یہ نقصان ٹوٹی ہوئی سڑکوں، گلیوں میں بہتے گندے پانی، چوراہوں پر کچروں کے ڈھیر، پبلک ٹرانسپورٹ میں اپنی تذلیل، ملاوٹ شدہ غذائی اشیاء خریدنے پر مجبوری، امن و امان کی انتہائی مخدوش صورت حال، سرکاری اسکولوں میں مناسب تعلیم کی عدم فراہمی، سرکاری اسپتالوں میں علاج سے محرومی،بڑھتی ہوئی ناخواندگی،تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماریوں،بے روزگاری، غربت اور دیگر کئی مصیبتوں کی شکل میں برداشت کرتا ہے۔گورنمنٹ اسکول میں اچھی تعلیم نہیں دی جارہی، لہٰذا اپنے بچے کی تعلیم کے لیے فکر مند شہری اپنی محدود آمدنی میں بچے کوپرائیوٹ اسکول میں داخل کروانے پر مجبور ہے۔
علاج کے لیے حکومتی اسپتال یا ڈسپنسریز سے غیر مطمئن لوگ پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ شہری سہولتوں کی فراہمی کے معاملات ہوں یا تعلیم اور صحت کے شعبے یہ سب بنیادی طور پر حکومت کی ذمے داریاں ہیں۔ حکومتیں ان ذمے داریوں کو کس طرح ادا کررہی ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اپنے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں اپنی ذمے داریوں سے غافل کیوں ہیں۔۔۔۔۔؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے پولیٹیکل سائنس یا سوشیالوجی یا کسی اور علم کے ماہرین کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔جواب بہت آسان ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹرز اپنے ووٹ کی اہمیت اور طاقت کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں ووٹرزکی دلچسپی کے مختلف انداز اور مختلف پہلوؤںسے خوب واقف ہیں۔کئی پولیٹیکل پلیئرز کو خوب اندازہ ہے کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے لسانی، علاقائی یا برادری کی وابستگی کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ جب تک پاکستان کا ایک عام ووٹر سیاسی جماعتوںکی گزشتہ کارکردگی اور موجودہ اہلیت کو پرکھنے کے بجائے محض جذبات یا وابستگیوں کی بنیاد پر ہی ووٹ ڈالتا رہے گا پاکستان میں عوام کی حقیقی نمایندگی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ معاشی معاملات ہوں یا سیاسی اُمور اخلاقیات کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔کئی سیاستدان خلافِ قانون کوئی کام کرنا بُرا نہیں سمجھتے ۔ اپنے عہدوں کی وجہ سے مختلف کاموں یا ٹھیکوں پر رشوت لینے کے لیے مشہور کئی سیاستدان شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے بڑی بے باکی سے کہتے ہیں کہ کسی کے پاس ثبوت ہے تو عدالت جاکر ثابت کرے۔
ہمارا حال عجب ہے، ہم حقائق کی دنیا میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے کے بجائے سبز باغ دکھانے والوںںکی میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرکے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وابستگیوں کی بنیاد پر یا جھوٹے وعدوں پر یقین کے تحت ووٹ کے فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان خود ووٹرکو ہوتا ہے۔ ووٹرز اپنے منتخب نمایندوں کی نااہلی یا بد عنوانیوں کی وجہ سے کئی تکالیف سہتے رہیں اور اگلے انتخابات میں بھی جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے پر تیار ہوجائیں تو سیاست کو تجارت سمجھنے والوں کو عوامی فلاح کی فکر کیوں ہو۔۔۔۔؟
حکمرانوں کا انتخاب ہو یا حکومتوںکی تبدیلی ایسے فیصلے ہمیشہ ووٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ کا فیصلہ کیسے ہو؟ یہ تعین کیسے ہو کہ بیلٹ بکس میں ڈالے جانے والے ووٹ کا فیصلہ خوف، تعصب، لالچ، بہکاووں سے آزاد ہوکر بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔۔۔۔۔؟ اس مقصد کو پانے کے لیے پاکستان کے ہر علاقے میں عوام کی سماجی اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق سے بخوبی آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جہاں مذہبی اور لبرل انتہاپسند دھونس اور دباؤ، خوف اور شکوک کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، جہاں مخالفوں کو کافر یا جاہل کہنے کے چلن عام ہیں، جہاں سیاست دان اپنے مخالفین کو وطن دشمن اور غدار کہتے رہے ہیں اور جہاں امیرو خوشحال طبقات بہت آسانی سے غریب اور کمزور طبقات کا استحصال کرتے رہے ہیں وہاں عوام کی فلاح کے لیے سماجی اور سیاسی تبدیلی کوئی آسان کام نہیںہے۔ یہ کام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کا بھی نہیں۔ بلکہ عوام کی تربیت کا یہ کام ایسے ادارو ں اور افراد کے ذریعے ہونا چاہیے جو خود انتخابات میں حصہ لینے یا کسی حکومتی عہدے کے خواہشمند نہ ہوں۔
انتخابی عمل سے بہتر نتائج کے حصول کے لیے یہ جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹرز میں قومی معاملات سے کس قدر وابستگی ہے ؟ پاکستان کے شہریوں میں ملک کے فائدے کو اپنا فائدہ اور ملک کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھنے کا احساس کتنا زیادہ ہے؟ ملک کے کسی بھی شہرکی ترقی کو اپنی ترقی سمجھنے اور کسی بھی شہر کے مسائل اور تکالیف کو اپنی تکالیف سمجھنے کے جذبوں کو کتنا بڑھاوا دیا گیا ہے؟ پاکستان سب پاکستانیوں کا ہے۔ اس ملک کے وسائل پر ہر پاکستانی کا حق ہے۔
ہمارا آئین تو یہی کہتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آئین نے عوام تک حقوق پہنچانے کے لیے حکمرانوں کو جو ذمے داری سونپی وہ پوری نہیں ہورہی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال تعلیم کی فراہمی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں 70فیصد دیہات پرائمری تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں اور صوبے میں ساٹھ ہزار اساتذہ کی کمی ہے ۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں 60لاکھ سے زائد بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستان کے صرف ایک صوبے کا یہ حال ہے ۔ پنجاب میں حالات کچھ بہتر ہورہے ہیں لیکن غریبوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے پنجاب سمیت ملک کے ہر صوبے میں ابھی بہت کام کرنا ہے۔ پاکستان میں تعلیم عام کیے بغیر اور لوگوں کو سماجی معاملات میں شامل کیے بغیر انتخابی عمل عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر پائے گا۔
پاکستان میں ووٹرزکا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے ووٹ کی اہمیت اور قدر سے واقف نہیں ہے۔ اس ناواقفیت کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں کئی ووٹرزکا لسانی، علاقائی، برادری وغیرہ کی وابستگیوں کو اہمیت دینا بھی شامل ہے۔ صرف دیہی علاقوں کے کم پڑھے لکھے یا ناخواندہ ووٹرز ہی نہیں شہری علاقوں کے انٹر، گریجویٹ یا ماسٹرز سطح تک تعلیم یافتہ کئی ووٹرز بھی اُمیدوار کی دیانت اور اس کی اہلیت کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے وابستگیوں یا مجبوریوں کی بنیاد پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔
پاکستان میں کئی مسائل پچھلی کئی دہائیوں سے جوں کے توںہیں یا ان مسائل کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کئی نئے مسائل شہریوں کے لیے اذیت کا سبب بن رہے ہیں۔ ان مسائل کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ کئی سیاستدانوں کا یہ یقین ہے کہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں ووٹ تو ہمیں مل ہی جائیں گے۔ زندگی کے تقریباًہر شعبے میں کرپشن اور اقربا پروری بہت زیادہ سرایت کرچکی ہے۔ عوام کے کئی منتخب نمایندوں پر بھی کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن ایسے کئی سیاستدانوں کو یہ یقین بھی ہے کہ الزامات چاہے جو بھی لگتے رہیں وہ اپنے حلقے سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کرپشن اور اقرباپروری کو معاشرے کا ایک عام چلن سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔
الیکشن میں لسانی یا برادری کی بنیادوں پر فیصلہ کرنا ہو یا کرپشن اور اقربا پروری کو قبول ِ عام مل جانا ہو، نقصان بہرحال اس معاشرے کے ایک عام آدمی کا ہی ہوتا ہے۔ عام آدمی یہ نقصان ٹوٹی ہوئی سڑکوں، گلیوں میں بہتے گندے پانی، چوراہوں پر کچروں کے ڈھیر، پبلک ٹرانسپورٹ میں اپنی تذلیل، ملاوٹ شدہ غذائی اشیاء خریدنے پر مجبوری، امن و امان کی انتہائی مخدوش صورت حال، سرکاری اسکولوں میں مناسب تعلیم کی عدم فراہمی، سرکاری اسپتالوں میں علاج سے محرومی،بڑھتی ہوئی ناخواندگی،تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماریوں،بے روزگاری، غربت اور دیگر کئی مصیبتوں کی شکل میں برداشت کرتا ہے۔گورنمنٹ اسکول میں اچھی تعلیم نہیں دی جارہی، لہٰذا اپنے بچے کی تعلیم کے لیے فکر مند شہری اپنی محدود آمدنی میں بچے کوپرائیوٹ اسکول میں داخل کروانے پر مجبور ہے۔
علاج کے لیے حکومتی اسپتال یا ڈسپنسریز سے غیر مطمئن لوگ پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ شہری سہولتوں کی فراہمی کے معاملات ہوں یا تعلیم اور صحت کے شعبے یہ سب بنیادی طور پر حکومت کی ذمے داریاں ہیں۔ حکومتیں ان ذمے داریوں کو کس طرح ادا کررہی ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اپنے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں اپنی ذمے داریوں سے غافل کیوں ہیں۔۔۔۔۔؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے پولیٹیکل سائنس یا سوشیالوجی یا کسی اور علم کے ماہرین کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔جواب بہت آسان ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹرز اپنے ووٹ کی اہمیت اور طاقت کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں ووٹرزکی دلچسپی کے مختلف انداز اور مختلف پہلوؤںسے خوب واقف ہیں۔کئی پولیٹیکل پلیئرز کو خوب اندازہ ہے کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے لسانی، علاقائی یا برادری کی وابستگی کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ جب تک پاکستان کا ایک عام ووٹر سیاسی جماعتوںکی گزشتہ کارکردگی اور موجودہ اہلیت کو پرکھنے کے بجائے محض جذبات یا وابستگیوں کی بنیاد پر ہی ووٹ ڈالتا رہے گا پاکستان میں عوام کی حقیقی نمایندگی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ معاشی معاملات ہوں یا سیاسی اُمور اخلاقیات کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔کئی سیاستدان خلافِ قانون کوئی کام کرنا بُرا نہیں سمجھتے ۔ اپنے عہدوں کی وجہ سے مختلف کاموں یا ٹھیکوں پر رشوت لینے کے لیے مشہور کئی سیاستدان شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے بڑی بے باکی سے کہتے ہیں کہ کسی کے پاس ثبوت ہے تو عدالت جاکر ثابت کرے۔
ہمارا حال عجب ہے، ہم حقائق کی دنیا میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے کے بجائے سبز باغ دکھانے والوںںکی میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرکے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وابستگیوں کی بنیاد پر یا جھوٹے وعدوں پر یقین کے تحت ووٹ کے فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان خود ووٹرکو ہوتا ہے۔ ووٹرز اپنے منتخب نمایندوں کی نااہلی یا بد عنوانیوں کی وجہ سے کئی تکالیف سہتے رہیں اور اگلے انتخابات میں بھی جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے پر تیار ہوجائیں تو سیاست کو تجارت سمجھنے والوں کو عوامی فلاح کی فکر کیوں ہو۔۔۔۔؟
حکمرانوں کا انتخاب ہو یا حکومتوںکی تبدیلی ایسے فیصلے ہمیشہ ووٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ کا فیصلہ کیسے ہو؟ یہ تعین کیسے ہو کہ بیلٹ بکس میں ڈالے جانے والے ووٹ کا فیصلہ خوف، تعصب، لالچ، بہکاووں سے آزاد ہوکر بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔۔۔۔۔؟ اس مقصد کو پانے کے لیے پاکستان کے ہر علاقے میں عوام کی سماجی اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق سے بخوبی آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جہاں مذہبی اور لبرل انتہاپسند دھونس اور دباؤ، خوف اور شکوک کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، جہاں مخالفوں کو کافر یا جاہل کہنے کے چلن عام ہیں، جہاں سیاست دان اپنے مخالفین کو وطن دشمن اور غدار کہتے رہے ہیں اور جہاں امیرو خوشحال طبقات بہت آسانی سے غریب اور کمزور طبقات کا استحصال کرتے رہے ہیں وہاں عوام کی فلاح کے لیے سماجی اور سیاسی تبدیلی کوئی آسان کام نہیںہے۔ یہ کام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کا بھی نہیں۔ بلکہ عوام کی تربیت کا یہ کام ایسے ادارو ں اور افراد کے ذریعے ہونا چاہیے جو خود انتخابات میں حصہ لینے یا کسی حکومتی عہدے کے خواہشمند نہ ہوں۔
انتخابی عمل سے بہتر نتائج کے حصول کے لیے یہ جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹرز میں قومی معاملات سے کس قدر وابستگی ہے ؟ پاکستان کے شہریوں میں ملک کے فائدے کو اپنا فائدہ اور ملک کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھنے کا احساس کتنا زیادہ ہے؟ ملک کے کسی بھی شہرکی ترقی کو اپنی ترقی سمجھنے اور کسی بھی شہر کے مسائل اور تکالیف کو اپنی تکالیف سمجھنے کے جذبوں کو کتنا بڑھاوا دیا گیا ہے؟ پاکستان سب پاکستانیوں کا ہے۔ اس ملک کے وسائل پر ہر پاکستانی کا حق ہے۔
ہمارا آئین تو یہی کہتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آئین نے عوام تک حقوق پہنچانے کے لیے حکمرانوں کو جو ذمے داری سونپی وہ پوری نہیں ہورہی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال تعلیم کی فراہمی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں 70فیصد دیہات پرائمری تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں اور صوبے میں ساٹھ ہزار اساتذہ کی کمی ہے ۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں 60لاکھ سے زائد بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستان کے صرف ایک صوبے کا یہ حال ہے ۔ پنجاب میں حالات کچھ بہتر ہورہے ہیں لیکن غریبوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے پنجاب سمیت ملک کے ہر صوبے میں ابھی بہت کام کرنا ہے۔ پاکستان میں تعلیم عام کیے بغیر اور لوگوں کو سماجی معاملات میں شامل کیے بغیر انتخابی عمل عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر پائے گا۔