پنجاب دیگر صوبوں سے بہتر کیوں
میرٹ اور اہلیت کے معاملے میں سب سے زیادہ شکایات سندھ میں پائی گئی ہیں
میرٹ اور اہلیت کے معاملے میں سب سے زیادہ شکایات سندھ میں پائی گئی ہیں، جہاں میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہے اور میرٹ صرف اورصرف رشوت اور سیاسی سفارش کی مرہون منت ہوکر رہ گیا ہے جس کا ثبوت سندھ پبلک سروس کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔ جس میں متنازعہ کامیاب امیدواروں کی فہرست منسوخ کرکے دوبارہ امتحان لینے کا حکم دیا گیا ہے، سپریم اور سندھ ہائی کورٹ میں دیگر محکموں میں میرٹ کی پامالی کے خلاف متعدد شکایات پر سخت عدالتی فیصلے اور ریمارکس بھی پاس ہوچکے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاق سمیت تمام صوبوں میں میرٹ پر نام کی حد تک عمل ہوا ہے اور بعض جگہوں پر میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں اور ہر جگہ تقرریاں کرنے والے اعلیٰ افسران نے میرٹ کو نظر انداز کرکے رشوت اور سفارش کو معیار بنایا اور یہاں تک کہ اپنے اہل خانہ کو بھی اعلیٰ ملازمتیں دینے اور ترقیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا جس کی ایک واضح مثال سندھ کے صوبائی محتسب بھی تھے جنھیں عدالتی حکم پر فارغ کیا گیا ہے۔
سندھ واحد صوبہ ہے جہاں چار عشروں سے شہری و دیہی کوٹا سسٹم قائم ہے جو دس سال کے لیے مقرر ہوا تھا اور چالیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نافذ العمل ہے۔
سندھ میں پسماندگی کے نام پر کوٹا سسٹم نافذکیا گیا تھا۔اس وقت صرف سندھ نہیں ہر صوبے میں پسماندگی تھی جس میں بلوچستان بھی نمایاں تھا مگر سندھ کے حکمرانوں نے سندھ کو ترجیح دی اور کوٹا سسٹم کے نتیجے میں سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم ہوئی جس سے صوبے میں باہمی اختلافات بڑھے اور سندھ میں آباد لوگوں کو ناانصافیوں کی شکایات کا موقع دے کر سندھ کا مہمان نواز اور اچھا کردار متاثر ہوا اور لسانی تفریق پیدا ہونے سے دو بار لسانی فسادات بھی ہوئے ۔
1990 کے بعد سے دیہی سندھ میں امن ہے تو شہری سندھ غیر مطمئن اور بے چین ہے اور ہر جگہ ہونے والی نا انصافیاں ہی تعصبات پیدا کرتی ہیں جس کا ثبوت سندھ ہی نہیں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں موجود شکایات ہیں۔ پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں جنوبی پنجاب سے امتیازی سلوک کی شکایات بڑھیں تو سندھ اور کے پی کے بھی پنجاب کی شکایتوں پر مجبور ہوئے جس میں میگا پروجیکٹس سے محرومی، پانی، بجلی اور گیس میں کمی کی شکایات نمایاں رہتی ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور میں صرف بلوچستان سے معافی مانگ کر سمجھ لیا تھا کہ بلوچستان مطمئن ہوجائے گا۔ انھوں نے عملی طور پر بلوچستان کو مطمئن نہیں کیا تھا اور سابق صوبہ سرحد کو کے پی کے کا نام دے کر تصور کرلیا گیا تھا کہ نام ملنے سے عوام مطمئن ہوگئے مگر ایسا نہیں تھا۔ سابق دور میں دیہی سندھ مطمئن تھا مگر اب پی پی پی کو شکایات ہیں کہ وزیراعظمکو چار سال بعد سندھ یاد آیا ہے اور ٹھٹھہ آکر انھیں سندھ کی محرومیوں کا احساس ہوا ہے۔ سندھ میں بھی ساڑھے آٹھ سال بعد دیہی سندھ کے حکمرانوں کو شہری سندھ خصوصاً کراچی یاد آیا ہے مگر شہری سندھ کی قیادت مطمئن نہیں۔
2008 کے بعد جب وفاق میں ن لیگ کی حکومت 2013 میں قائم ہوئی تھی اس وقت لاہور کے حکمرانوں سے جنوبی پنجاب کو بے شمار شکایات تھیں جن میں اب کمی آرہی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے حالیہ ملتان اور لودھراں کے دورے میں جنوبی پنجاب میں ہونے والی ترقیوں کا فخریہ ذکر بھی کیا ہے جس میں ملتان کی میٹرو بس اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ تعلیمی اور صحت کی سہولیات کی واضح طور پر نظر آئی ہیں۔
جنوبی پنجاب کو توجہ ملنے سے سابق پی پی پی وفاقی دور میں سرائیکی صوبے کا نعرہ بلند ہوا تھا وہ ن لیگ کی وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے اقدامات سے دب گیا ہے۔ کے پی کے میں ہزارہ ڈویژن میں جہاں مسلم لیگ ن نمایاں مقام رکھتی تھی نظر انداز ہونے کے بعد وہاں بھی ہزارہ صوبے کا نعرہ بلند ہوا تھا جو مسلم لیگ ن کی وفاقی اور کے پی کے کی تحریک انصاف کی حکومتوں کے اقدامات سے اب بلند نہیں ہورہا۔
سندھ کے نئے وزیراعلیٰ متحرک تو ہیں مگر وہ اب تک سندھ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکے اور انھوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ کو پنجاب جیسا بنانے کی بات کی تو اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار اپنی ہنسی نہ روک سکے اور متحدہ کو کہاکہ وہ تعصب نہ پھیلائے۔ آصف زرداری چاہیں تو سندھ میں موجود تعصب اور نا انصافیاں کافی حد تک ختم اور سندھ میں رہنے والوں کو ان کے جائز حقوق مل سکتے ہیں جو انھیں متحدہ سالوں اقتدار میں رہ کر بھی نہیں دلاسکی۔ سندھ میں کرپشن اور من مانے فیصلے ابھی بھی جاری ہیں۔
پنجاب دیگر تین صوبوں سے بہتر اور مختلف اس لیے نظر آتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا گڑھ اور میاں برادران کا اپنا صوبہ ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کام بھی کررہے ہیں۔ پنجاب میں ترقی کافی حد تک میرٹ پر عمل اور گڈ گورننس کا کریڈٹ سو فی صد شہباز شریف کو جاتا ہے جن کی شب و روزکی محنت اور دلچسپی انھیں دیگر وزرائے اعلیٰ سے ممتاز کرتی ہے۔ سو فی صد مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ اپوزیشن وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی سراہنے کا ظرف رکھتی ہے۔ حالانکہ اچھے کام ہی تنقید کے ساتھ تعریف بھی ہونی چاہیے۔ مگر اچھائی کی تعریف کا کلچر ہمارے یہاں موجود نہیں ہے۔
پنجاب کے لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں سب کچھ درست ہے مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مشیر رانا مقبول احمد نے راقم کو بتایاکہ پنجاب میں اساتذہ کی پچاس ہزار آسامیوں پر تقرریاں صرف اور صرف میرٹ پر ہوئی ہیں اور محکمہ پولیس میں بھی پچاس ہزار آسامیاں کسی سفارش اور رشوت کے بغیر میرٹ پر پر کی گئی ہیں جو انتہائی شفاف طور پر عمل میں لائی گئی ہیں۔
رانا مقبول احمد جو سندھ کے کامیاب آئی جی پولیس رہے ہیں نے بتایاکہ پنجاب میں سی ٹی ڈی پولیس کی کارکردگی سب سے بہتر رہی ہے جسے پنجاب حکومت مکمل مراعات اورتنخواہیں دے رہی ہے جہاں رشوت کی شکایات بہت کم اور کارکردگی بہترین ہے۔ سی ٹی ڈی نے پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوں کا سراغ لگاکر حقیقی ملزموں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا ہے۔
اگر مشیر وزیراعلیٰ کا دعویٰ درست ہے تو پنجاب کے ایک لاکھ خاندان حکومت کے حامی کیوں نہیں ہوںگے جنھیں گھر بیٹھے غیر متوقع طور پر بغیر سفارش و رشوت سرکاری نوکری مل گئی ہیں پنجاب حکومت کی یہی کارکردگی اور عوامی فلاح کے اقدامات ووٹروں کو متاثر کریںگے اور پنجاب دیگر صوبوں سے ضرور بہتر قرار پائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاق سمیت تمام صوبوں میں میرٹ پر نام کی حد تک عمل ہوا ہے اور بعض جگہوں پر میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں اور ہر جگہ تقرریاں کرنے والے اعلیٰ افسران نے میرٹ کو نظر انداز کرکے رشوت اور سفارش کو معیار بنایا اور یہاں تک کہ اپنے اہل خانہ کو بھی اعلیٰ ملازمتیں دینے اور ترقیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا جس کی ایک واضح مثال سندھ کے صوبائی محتسب بھی تھے جنھیں عدالتی حکم پر فارغ کیا گیا ہے۔
سندھ واحد صوبہ ہے جہاں چار عشروں سے شہری و دیہی کوٹا سسٹم قائم ہے جو دس سال کے لیے مقرر ہوا تھا اور چالیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نافذ العمل ہے۔
سندھ میں پسماندگی کے نام پر کوٹا سسٹم نافذکیا گیا تھا۔اس وقت صرف سندھ نہیں ہر صوبے میں پسماندگی تھی جس میں بلوچستان بھی نمایاں تھا مگر سندھ کے حکمرانوں نے سندھ کو ترجیح دی اور کوٹا سسٹم کے نتیجے میں سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم ہوئی جس سے صوبے میں باہمی اختلافات بڑھے اور سندھ میں آباد لوگوں کو ناانصافیوں کی شکایات کا موقع دے کر سندھ کا مہمان نواز اور اچھا کردار متاثر ہوا اور لسانی تفریق پیدا ہونے سے دو بار لسانی فسادات بھی ہوئے ۔
1990 کے بعد سے دیہی سندھ میں امن ہے تو شہری سندھ غیر مطمئن اور بے چین ہے اور ہر جگہ ہونے والی نا انصافیاں ہی تعصبات پیدا کرتی ہیں جس کا ثبوت سندھ ہی نہیں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں موجود شکایات ہیں۔ پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں جنوبی پنجاب سے امتیازی سلوک کی شکایات بڑھیں تو سندھ اور کے پی کے بھی پنجاب کی شکایتوں پر مجبور ہوئے جس میں میگا پروجیکٹس سے محرومی، پانی، بجلی اور گیس میں کمی کی شکایات نمایاں رہتی ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور میں صرف بلوچستان سے معافی مانگ کر سمجھ لیا تھا کہ بلوچستان مطمئن ہوجائے گا۔ انھوں نے عملی طور پر بلوچستان کو مطمئن نہیں کیا تھا اور سابق صوبہ سرحد کو کے پی کے کا نام دے کر تصور کرلیا گیا تھا کہ نام ملنے سے عوام مطمئن ہوگئے مگر ایسا نہیں تھا۔ سابق دور میں دیہی سندھ مطمئن تھا مگر اب پی پی پی کو شکایات ہیں کہ وزیراعظمکو چار سال بعد سندھ یاد آیا ہے اور ٹھٹھہ آکر انھیں سندھ کی محرومیوں کا احساس ہوا ہے۔ سندھ میں بھی ساڑھے آٹھ سال بعد دیہی سندھ کے حکمرانوں کو شہری سندھ خصوصاً کراچی یاد آیا ہے مگر شہری سندھ کی قیادت مطمئن نہیں۔
2008 کے بعد جب وفاق میں ن لیگ کی حکومت 2013 میں قائم ہوئی تھی اس وقت لاہور کے حکمرانوں سے جنوبی پنجاب کو بے شمار شکایات تھیں جن میں اب کمی آرہی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے حالیہ ملتان اور لودھراں کے دورے میں جنوبی پنجاب میں ہونے والی ترقیوں کا فخریہ ذکر بھی کیا ہے جس میں ملتان کی میٹرو بس اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ تعلیمی اور صحت کی سہولیات کی واضح طور پر نظر آئی ہیں۔
جنوبی پنجاب کو توجہ ملنے سے سابق پی پی پی وفاقی دور میں سرائیکی صوبے کا نعرہ بلند ہوا تھا وہ ن لیگ کی وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے اقدامات سے دب گیا ہے۔ کے پی کے میں ہزارہ ڈویژن میں جہاں مسلم لیگ ن نمایاں مقام رکھتی تھی نظر انداز ہونے کے بعد وہاں بھی ہزارہ صوبے کا نعرہ بلند ہوا تھا جو مسلم لیگ ن کی وفاقی اور کے پی کے کی تحریک انصاف کی حکومتوں کے اقدامات سے اب بلند نہیں ہورہا۔
سندھ کے نئے وزیراعلیٰ متحرک تو ہیں مگر وہ اب تک سندھ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکے اور انھوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ کو پنجاب جیسا بنانے کی بات کی تو اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار اپنی ہنسی نہ روک سکے اور متحدہ کو کہاکہ وہ تعصب نہ پھیلائے۔ آصف زرداری چاہیں تو سندھ میں موجود تعصب اور نا انصافیاں کافی حد تک ختم اور سندھ میں رہنے والوں کو ان کے جائز حقوق مل سکتے ہیں جو انھیں متحدہ سالوں اقتدار میں رہ کر بھی نہیں دلاسکی۔ سندھ میں کرپشن اور من مانے فیصلے ابھی بھی جاری ہیں۔
پنجاب دیگر تین صوبوں سے بہتر اور مختلف اس لیے نظر آتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا گڑھ اور میاں برادران کا اپنا صوبہ ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کام بھی کررہے ہیں۔ پنجاب میں ترقی کافی حد تک میرٹ پر عمل اور گڈ گورننس کا کریڈٹ سو فی صد شہباز شریف کو جاتا ہے جن کی شب و روزکی محنت اور دلچسپی انھیں دیگر وزرائے اعلیٰ سے ممتاز کرتی ہے۔ سو فی صد مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ اپوزیشن وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی سراہنے کا ظرف رکھتی ہے۔ حالانکہ اچھے کام ہی تنقید کے ساتھ تعریف بھی ہونی چاہیے۔ مگر اچھائی کی تعریف کا کلچر ہمارے یہاں موجود نہیں ہے۔
پنجاب کے لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں سب کچھ درست ہے مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مشیر رانا مقبول احمد نے راقم کو بتایاکہ پنجاب میں اساتذہ کی پچاس ہزار آسامیوں پر تقرریاں صرف اور صرف میرٹ پر ہوئی ہیں اور محکمہ پولیس میں بھی پچاس ہزار آسامیاں کسی سفارش اور رشوت کے بغیر میرٹ پر پر کی گئی ہیں جو انتہائی شفاف طور پر عمل میں لائی گئی ہیں۔
رانا مقبول احمد جو سندھ کے کامیاب آئی جی پولیس رہے ہیں نے بتایاکہ پنجاب میں سی ٹی ڈی پولیس کی کارکردگی سب سے بہتر رہی ہے جسے پنجاب حکومت مکمل مراعات اورتنخواہیں دے رہی ہے جہاں رشوت کی شکایات بہت کم اور کارکردگی بہترین ہے۔ سی ٹی ڈی نے پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوں کا سراغ لگاکر حقیقی ملزموں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا ہے۔
اگر مشیر وزیراعلیٰ کا دعویٰ درست ہے تو پنجاب کے ایک لاکھ خاندان حکومت کے حامی کیوں نہیں ہوںگے جنھیں گھر بیٹھے غیر متوقع طور پر بغیر سفارش و رشوت سرکاری نوکری مل گئی ہیں پنجاب حکومت کی یہی کارکردگی اور عوامی فلاح کے اقدامات ووٹروں کو متاثر کریںگے اور پنجاب دیگر صوبوں سے ضرور بہتر قرار پائے گا۔