اخلاص سے عاری دنیا کے کردار
وسط سے مراد ہے درمیان اور رب العزت نے ہر معاملے میں مسلمانوں کو امت وسط بنایا۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر143 میں ہے کہ: ترجمہ : ''اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنادیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بنیں۔''
وسط سے مراد ہے درمیان اور رب العزت نے ہر معاملے میں مسلمانوں کو امت وسط بنایا۔ یہ خطاب ''امت وسط'' ایک عظیم خطاب ہے جسے مسلمانوں کو نوازا گیا کیونکہ اس کی شریعت، اخلاق، عقائد، معاشیات، سیاست اور معاشرت میں ایک خوبصورت توازن ہے کوئی افراط و تفریط نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ہر چیز کا درمیانی حصہ عمرہ ہوتا ہے شروع کا یا تو شدید یا کمزور اور آخر کا بھی اسی طرح یا تو کمزور یا شدید ہوتا ہے جب کہ مسلمانوں کو اللہ کی جانب سے یہ اعزاز نوازا گیا اور ان کے دین پر اسلام کو مکمل کردیا گیا۔
اگر ہم کچھ تشریح میں جائیں تو انسان کی زندگی کا درمیانی حصہ یعنی عہد شباب زندگی کا خوبصورت ترین وقت ہے تو اسی وقت کی عبادت کو بھی پسندیدہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح اخلاق میں بھی میانہ روی کو پسند فرمایا گیا، فضول خرچی اور کنجوسی کو ناپسند اور اس کے درمیان سخاوت کو پسند فرمایا گیا، بزدلی اور غصے یا طیش کو ناپسند تو اس کے درمیان شجاعت بہترین قرار پایا، ہم مسلمان بنیادی طور پر خوش نصیب ہیں کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے بہت سی آسانیوں سے نوازا گیا لیکن ہم ان سہولیات کو سمجھ نہیں رہے بلکہ دنیا میں ہم خود اپنے اخلاق اور ایمان کی کمزوری کے باعث جس طرح بدنام اور رسوا ہو رہے ہیں اس کا احساس بھی ہمیں نہیں آخر ایسا کیوں ہے۔
ہم اپنے کمزور عقائد کے باعث الجھتے جاتے ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے کوششیں بھی نہیں کرتے کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر ایسے بے شمار بدنما کردار سامنے آرہے ہیں جنھوں نے اسلام کے نام پر کاروبار اختیار کیے ہوئے ہیں جو ان کے گھناؤنے نفس کو اور جیبوں کو بھی سیراب کر رہا ہے اور یہ سب کچھ کروانے والے بڑی آسانی سے یہ سب کرتے جا رہے ہیں، ان بھیانک واقعات کو پڑھیے جو آئے دن اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں کہ جن میں کبھی کوئی مظلوم بچہ تو کبھی بیمار لڑکی کبھی کوئی بزرگ تو کبھی کوئی خاتون ایسے فریبی اور دھوکے باز لوگوں کے شعبدوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اپنے پیاروں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
''مجھے ابھی تک وہ جمعدار یاد ہے جس کے چہرے کا ایک حصہ مسخ تھا،اس کا کہنا تھا کہ اسے ایک جعلساز بابے نے دھوکہ دیا اور کہا کہ اس پر کسی نے کالا علم کرایا ہے اور وہ مرنے والا ہے اس چکر میں اس نے اس جمعدار سے ہزاروں روپے اینٹھے اور نجانے کیا الٹا عمل کیا کہ اس کا چہرہ بگڑ گیا، خدا جانے کیسی کیسی دوائیں لگائیں پتا نہیں تیزاب تھا یا کیا۔ پر اب اس جمعدار کا یہ حال تھا کہ ذرا لوگ اس سے بات کرتے گٹر کھلواتے تو وہ کام کرتے کرتے تلقین کرتا رہتا کہ ان جھوٹے عاملوں کے چکر میں نہ پڑنا سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے کوئی بھی کسی انسان کو زندگی یا موت نہیں دے سکتا اس جمعدار کی اس ہذیانی کیفیت کا ذمے دار یقینا وہ جھوٹا عامل تھا جو خود بھی گندے عمل کرتا تھا اور اس نے اس جمعدار سے بھی گندے عمل کروائے لیکن جمعدار پر اس کا جو ردعمل ہوا اس نے اسے جھوٹے عامل سے دور کردیا۔
ایک جاننے والے نے اس چلتے پھرتے کردار کے متعلق بتایا جو آج بھی گلی محلوں میں لوگوں کی گندگیاں صاف کرتا ہے لیکن اس کے دل میں صفائی کا عمل جاری ہے۔ سانحہ سرگودھا ایسے ہی اندھے اعتقاد کی کھلی داستان ہے جس نے شہروں میں بسنے والوں کے لیے تو عبرت کا سبق روشن کردیا ہے لیکن یقین جانیے ابھی بھی پنجاب اور سندھ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں لاتعداد جھوٹے اور مکار پیروں اور عاملوں سے سجے ہیں جو اپنی خباثت اور چالاکی سے معصوم لوگوں کی عزتوں اور جیبوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ملزم عبدالوحید جیسے خبیث لوگوں کو اس طرح کی عبرت ناک سزا ملنی چاہیے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ اس طرح کے فراڈی لوگ خود دوسروں کے گناہوں کو جھاڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں خود قانون کے شکنجے میں آتے ہی کیسے بے بس ہوجاتے ہیں۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ہر قول و فعل میں اخلاص کا پہلو ہر حال میں مدنظر رکھا جائے چاہے معاشرتی رویے ہوں یا کاروباری معاملات اخلاص اس قدر اہم اور مسائل کے انبار سے بچنے کا آسان طریقہ ہے کہ جس پر عمل کرکے ہم محفوظ رہ سکتے ہیں، اخلاص سے مراد ہے کہ جو بھی کام کیا جائے وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ یہاں تک کہ عبادت میں بھی اخلاص کی اہمیت ہے اس سے مراد ہے کہ دکھاوا، خودغرضی یا بنا لالچ کے اپنے رب سے رجوع کیا جائے۔ گویا ملاوٹ سے پاک اور ملاوٹ میں شامل ہے لالچ، بدنیتی، حسد، شرک، منافقت، جھوٹ اور ریاکاری یعنی تسبیح کے دانے تو انگلی سے پھسل رہے ہیں اور لب بھی ورد کر رہے ہیں لیکن دل میں کچھ اور چل رہا ہے، مثلاً کوئی واقعہ، حادثہ، گانا یا کسی سے گفتگو جو کسی طرح بھی ہمارے کسی کام کی نہ ہو لیکن نفس اسے بظاہر نہایت ضروری اور اہم بناکر پیش کررہا ہے اس قدر اہم کہ لب کے ورد کو کہیں پیچھے ڈال رہا ہے اسے ہم نفس کی کشمکش کہتے ہیں اس پر قابو پانا ہی دراصل رب کی رضا کے قریب کردیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نفس کو بہت سے لوگ ضمیر کی آواز بھی کہہ دیتے ہیں دراصل یہ ضمیر صاحب ہمارے اندر کی سوچ کو اس قدر آلودہ کر دیتے ہیں کہ ہم ہر شخص، ہر بات غرض اٹھتے بیٹھتے شک کرتے ہیں۔ شک کا خمیر جہاں سے اٹھا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ہے کہ انسان کو اپنے رب کی جانب اچھی نظر سے دیکھنا ہے یعنی شک سے نہیں الجھنا کیونکہ ناکامی کی پہلی سیڑھی اسی شک سے جنم لیتی ہے یہاں تک کہ وہ انسان کو بربادی کی دلدل میں اتار کر اسے غم کے آنسو بہانے اور اپنے آپ کو کوسنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ضمیر صاحب صرف آلودگی کی مدد سے انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں کئی بار انسان کو اس قدر نفع پہنچاتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ آپ اس قدر نیک اور باکردار اور لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے ہیں کہ انسان تکبر کے ستون سے ٹکرا ٹکرا کر خود ہی پاش پاش ہوجاتا ہے ایسے بہت سے پیر، عامل آپ کو نظر آئیں گے جو درحقیقت خود اخلاص سے خالی ہیں لیکن نفس کی پہنچ سے اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے ممتاز سمجھتے سمجھتے سرگودھا کے عبدالوحید جیسے کردار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ خدا ہم سب کو اخلاص کی خوبصورتی سے نوازے ۔
وسط سے مراد ہے درمیان اور رب العزت نے ہر معاملے میں مسلمانوں کو امت وسط بنایا۔ یہ خطاب ''امت وسط'' ایک عظیم خطاب ہے جسے مسلمانوں کو نوازا گیا کیونکہ اس کی شریعت، اخلاق، عقائد، معاشیات، سیاست اور معاشرت میں ایک خوبصورت توازن ہے کوئی افراط و تفریط نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ہر چیز کا درمیانی حصہ عمرہ ہوتا ہے شروع کا یا تو شدید یا کمزور اور آخر کا بھی اسی طرح یا تو کمزور یا شدید ہوتا ہے جب کہ مسلمانوں کو اللہ کی جانب سے یہ اعزاز نوازا گیا اور ان کے دین پر اسلام کو مکمل کردیا گیا۔
اگر ہم کچھ تشریح میں جائیں تو انسان کی زندگی کا درمیانی حصہ یعنی عہد شباب زندگی کا خوبصورت ترین وقت ہے تو اسی وقت کی عبادت کو بھی پسندیدہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح اخلاق میں بھی میانہ روی کو پسند فرمایا گیا، فضول خرچی اور کنجوسی کو ناپسند اور اس کے درمیان سخاوت کو پسند فرمایا گیا، بزدلی اور غصے یا طیش کو ناپسند تو اس کے درمیان شجاعت بہترین قرار پایا، ہم مسلمان بنیادی طور پر خوش نصیب ہیں کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے بہت سی آسانیوں سے نوازا گیا لیکن ہم ان سہولیات کو سمجھ نہیں رہے بلکہ دنیا میں ہم خود اپنے اخلاق اور ایمان کی کمزوری کے باعث جس طرح بدنام اور رسوا ہو رہے ہیں اس کا احساس بھی ہمیں نہیں آخر ایسا کیوں ہے۔
ہم اپنے کمزور عقائد کے باعث الجھتے جاتے ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے کوششیں بھی نہیں کرتے کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر ایسے بے شمار بدنما کردار سامنے آرہے ہیں جنھوں نے اسلام کے نام پر کاروبار اختیار کیے ہوئے ہیں جو ان کے گھناؤنے نفس کو اور جیبوں کو بھی سیراب کر رہا ہے اور یہ سب کچھ کروانے والے بڑی آسانی سے یہ سب کرتے جا رہے ہیں، ان بھیانک واقعات کو پڑھیے جو آئے دن اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں کہ جن میں کبھی کوئی مظلوم بچہ تو کبھی بیمار لڑکی کبھی کوئی بزرگ تو کبھی کوئی خاتون ایسے فریبی اور دھوکے باز لوگوں کے شعبدوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اپنے پیاروں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
''مجھے ابھی تک وہ جمعدار یاد ہے جس کے چہرے کا ایک حصہ مسخ تھا،اس کا کہنا تھا کہ اسے ایک جعلساز بابے نے دھوکہ دیا اور کہا کہ اس پر کسی نے کالا علم کرایا ہے اور وہ مرنے والا ہے اس چکر میں اس نے اس جمعدار سے ہزاروں روپے اینٹھے اور نجانے کیا الٹا عمل کیا کہ اس کا چہرہ بگڑ گیا، خدا جانے کیسی کیسی دوائیں لگائیں پتا نہیں تیزاب تھا یا کیا۔ پر اب اس جمعدار کا یہ حال تھا کہ ذرا لوگ اس سے بات کرتے گٹر کھلواتے تو وہ کام کرتے کرتے تلقین کرتا رہتا کہ ان جھوٹے عاملوں کے چکر میں نہ پڑنا سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے کوئی بھی کسی انسان کو زندگی یا موت نہیں دے سکتا اس جمعدار کی اس ہذیانی کیفیت کا ذمے دار یقینا وہ جھوٹا عامل تھا جو خود بھی گندے عمل کرتا تھا اور اس نے اس جمعدار سے بھی گندے عمل کروائے لیکن جمعدار پر اس کا جو ردعمل ہوا اس نے اسے جھوٹے عامل سے دور کردیا۔
ایک جاننے والے نے اس چلتے پھرتے کردار کے متعلق بتایا جو آج بھی گلی محلوں میں لوگوں کی گندگیاں صاف کرتا ہے لیکن اس کے دل میں صفائی کا عمل جاری ہے۔ سانحہ سرگودھا ایسے ہی اندھے اعتقاد کی کھلی داستان ہے جس نے شہروں میں بسنے والوں کے لیے تو عبرت کا سبق روشن کردیا ہے لیکن یقین جانیے ابھی بھی پنجاب اور سندھ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں لاتعداد جھوٹے اور مکار پیروں اور عاملوں سے سجے ہیں جو اپنی خباثت اور چالاکی سے معصوم لوگوں کی عزتوں اور جیبوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ملزم عبدالوحید جیسے خبیث لوگوں کو اس طرح کی عبرت ناک سزا ملنی چاہیے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ اس طرح کے فراڈی لوگ خود دوسروں کے گناہوں کو جھاڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں خود قانون کے شکنجے میں آتے ہی کیسے بے بس ہوجاتے ہیں۔
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ہر قول و فعل میں اخلاص کا پہلو ہر حال میں مدنظر رکھا جائے چاہے معاشرتی رویے ہوں یا کاروباری معاملات اخلاص اس قدر اہم اور مسائل کے انبار سے بچنے کا آسان طریقہ ہے کہ جس پر عمل کرکے ہم محفوظ رہ سکتے ہیں، اخلاص سے مراد ہے کہ جو بھی کام کیا جائے وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ یہاں تک کہ عبادت میں بھی اخلاص کی اہمیت ہے اس سے مراد ہے کہ دکھاوا، خودغرضی یا بنا لالچ کے اپنے رب سے رجوع کیا جائے۔ گویا ملاوٹ سے پاک اور ملاوٹ میں شامل ہے لالچ، بدنیتی، حسد، شرک، منافقت، جھوٹ اور ریاکاری یعنی تسبیح کے دانے تو انگلی سے پھسل رہے ہیں اور لب بھی ورد کر رہے ہیں لیکن دل میں کچھ اور چل رہا ہے، مثلاً کوئی واقعہ، حادثہ، گانا یا کسی سے گفتگو جو کسی طرح بھی ہمارے کسی کام کی نہ ہو لیکن نفس اسے بظاہر نہایت ضروری اور اہم بناکر پیش کررہا ہے اس قدر اہم کہ لب کے ورد کو کہیں پیچھے ڈال رہا ہے اسے ہم نفس کی کشمکش کہتے ہیں اس پر قابو پانا ہی دراصل رب کی رضا کے قریب کردیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نفس کو بہت سے لوگ ضمیر کی آواز بھی کہہ دیتے ہیں دراصل یہ ضمیر صاحب ہمارے اندر کی سوچ کو اس قدر آلودہ کر دیتے ہیں کہ ہم ہر شخص، ہر بات غرض اٹھتے بیٹھتے شک کرتے ہیں۔ شک کا خمیر جہاں سے اٹھا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ہے کہ انسان کو اپنے رب کی جانب اچھی نظر سے دیکھنا ہے یعنی شک سے نہیں الجھنا کیونکہ ناکامی کی پہلی سیڑھی اسی شک سے جنم لیتی ہے یہاں تک کہ وہ انسان کو بربادی کی دلدل میں اتار کر اسے غم کے آنسو بہانے اور اپنے آپ کو کوسنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ضمیر صاحب صرف آلودگی کی مدد سے انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں کئی بار انسان کو اس قدر نفع پہنچاتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ آپ اس قدر نیک اور باکردار اور لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے ہیں کہ انسان تکبر کے ستون سے ٹکرا ٹکرا کر خود ہی پاش پاش ہوجاتا ہے ایسے بہت سے پیر، عامل آپ کو نظر آئیں گے جو درحقیقت خود اخلاص سے خالی ہیں لیکن نفس کی پہنچ سے اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے ممتاز سمجھتے سمجھتے سرگودھا کے عبدالوحید جیسے کردار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ خدا ہم سب کو اخلاص کی خوبصورتی سے نوازے ۔