جناح ہاؤس انتہا پسندوں کے نشانے پر

پاکستانی قوم کے نزدیک یہ گھر محبوب و محترم حیثیت رکھتا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے یہ گھر مریم جناح (رتی جناح) سے شادی کرنے سے کچھ عرصہ قبل فروری 1918ء میں خریدا تھا۔ فوٹو : فائل

لارڈ ایکٹن (1834ء۔1902ء) برطانیہ کا مورخ گزرا ہے۔ اس کا مشہور قول ہے: ''انسان کو جب طاقت ملے، تو وہ کرپٹ ہونے لگتا ہے اور جب مطلق طاقت مل جائے، تو وہ پوری طرح کرپٹ ہوجاتا ہے''۔ یہ قول بھارتی ریاست مہاراشٹر میں حکمران جماعت،بی جے پی کے نائب صدر منگل پربھات لودھا پر صادق آتا ہے۔ موصوف نے پچھلے دنوں بڑے غرور سے فرمایا ''ممبئی میں واقع بانی پاکستان، محمد علی جناح کا گھر مسمار کردیا جائے۔'' اس نے حکومت وقت سے سوال کیا کہ بھارت کے سب سے بڑے دشمن کی جائے رہائش اب تک کیوں قائم و دائم ہے؟

قائداعظم محمد علی جناح نے یہ گھر مریم جناح (رتی جناح) سے شادی کرنے سے کچھ عرصہ قبل فروری 1918ء میں خریدا تھا۔ دراصل اس گھر کے قریب ہی دلہن کے والدین کی جائے رہائش واقع تھی۔ یوں نوجوان قائد اپنی محبوب بیگم کو سسرال کے قریب رکھنے کے خواہش مند تھے۔ یہ گھر علاقہ مالا بارہلز کی ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع ہے۔ یہ سڑک اب ''سہو صاحب ہرے مرگ'' کہلاتی ہے۔ تب یہ گھر ''ساؤتھ کورٹ'' کہلاتا تھا۔ قائد کی اکلوتی بیٹی ،دینا جناح اسی گھر میں پیدا ہوئیں۔

قائداعظم نے 1930ء تا 1935ء کا بیشتر عرصہ برطانیہ میں گزارا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان چلے آئے اور مسلم لیگ کے تن مردہ میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کرنے لگے۔ 1936ء میں قائد نے بمبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ کو نئے سرے سے تعمیر کرایا۔ اس کی تعمیر پر دو لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ قائد نے زبردست سیاسی مصروفیات کے باوجود گھر کی تعمیر میں ذاتی دلچسپی لی اور اسے بڑے نفیس و خوبصورت انداز میں بنوایا۔

پاکستانی قوم کے نزدیک یہ گھر محبوب و محترم حیثیت رکھتا ہے۔ اسی گھر میں قیامِ پاکستان کے تصّور کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر عملی جدوجہد شروع ہوئی۔ اسی رہائش گاہ میں قائداعظم نے گاندھی جی، سبھاش چندر بوس، پنڈت نہرو اور ہندوستان کے دیگر سربرآوردہ لیڈروں سے تاریخی ملاقاتیں کیں۔ اس گھر کے چپے چپے سے قائد کی سہانی یادیں وابستہ تھیں۔ انہی یادوں نے بے جان اینٹوں و گارے سے بنے مسکن کو زندہ جاوید صورت دے ڈالی۔

یہی وجہ ہے، جب 1947ء میں قائداعظم پاکستان چلے آئے، تو انہوں نے جذباتی وابستگی کے باعث ساؤتھ کورٹ فروخت نہیں کیا۔ بھارتی میڈیا کی رو سے قائداعظم نے پنڈت نہرو کو خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ ساؤتھ کورٹ کو ''وقف جائیداد'' کا درجہ نہ دیجیے بلکہ اسے کرائے پر چڑھا دیا جائے۔ پنڈت نہرو نے یہ درخواست قبول کرلی تھی۔ چناں چہ 1983ء تک ساؤتھ کورٹ میں برطانوی سفارت خانہ کرائے دار کی حیثیت سے قائم رہا۔ انگریزوں ہی نے اس عمارت کو ''جناح ہاؤس'' کا نام دیا۔

جناح ہاؤس ڈھائی ایکڑ رقبے پر پھیلا عالی شان بنگلہ ہے۔ تاہم 1983ء کے بعد دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ خاصا اجاڑ و بیابان ہوچکا۔ حکومت پاکستان نے کئی بار بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ جناح ہاؤس پاکستانی قونصل خانے کو دے دیا جائے تاہم بھارتی حکمران لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ اور اب بھارت میں جناح ہاؤس مسمار کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔

دراصل کچھ عرصہ قبل ہی مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں ''دشمن پراپرٹی ایکٹ''(Enemy Property Act) میں تبدیلی کرائی ہے۔ اس کی رو سے تقسیم ہند کے وقت جو لوگ پاکستان یا چین چلے گئے تھے، ان کے وارث اب بھارت میں چھوڑی گئی جائیدادوں پر ملکیتی حقوق کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ یاد رہے، 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد اندرا گاندھی حکومت نے 1968ء میں ''دشمن پراپرٹی ایکٹ'' کا قانون بنایا تھا۔ اس کے ذریعے بھارتی حکومت کو پاکستانیوں اور چینیوں سے کسی بھی طرح وابستہ بھارتی جائیدادیں غضب کرنے کا اختیار مل گیا۔

پنڈت نہرو کا جھوٹ پکڑا گیا
قبل ازیں بتایا گیا کہ پنڈت نہرو نے قائداعظم کی فرمائش کا احترام کرتے ہوئے ساؤتھ کورٹ کو ''وقف جائیداد'' قرار نہیں دیا تھا۔ تاہم بھارت کے مشہور انگریزی اخبار، ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی ہے کہ جناح ہاؤس عرصہ پہلے نہ صرف وقف جائیداد قرار دیا جاچکا بلکہ ایک اور قانون کے ذریعے بھارتی حکومت اس کی مالک بھی بن بیٹھی۔ یہ انکشاف عیاں کرتا ہے کہ پنڈت نہرو جناح ہاؤس کے معاملے میں پاکستانی حکومت کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکا دہی سے کام لیتے رہے۔ واضح رہے، پہلے بھارتی وزیراعظم نے کئی بار اعلان کیا تھاکہ وہ ساؤتھ کورٹ بمبئی میں پاکستان قونصل خانے کو عطا کردیں گے، مگر ان کے وعدے ایفا نہ ہوسکے۔

20 مارچ 2017ء کو ٹائمز آف انڈیا میں سواتی دیش پانڈے کا مضمون ''Why the new enemy property law won't apply to iconic Jinnah House'' شائع ہوا۔ سواتی دیش پانڈے اخبار میں سینئر نائب مدیر ہے۔ عدلیہ اور قانون سے متعلق خبریں و مضامین لکھنا سواتی کی ذمے داری ہے۔ مضمون میں سواتی نے انکشاف کیا کہ ساؤتھ کورٹ وقف پراپرٹی ایکٹ (Evacuee Property Act)کے تحت وقف جائیداد قرار دیا جاچکا ۔ نہرو حکومت نے اپریل 1950ء میں پارلیمنٹ سے یہ قانون منظور کرایا تھا۔


نہرو حکومت نے وقف جائیدادوں کے سلسلے میں اکتوبر 1954ء میں ایک اور قانون ''دی ڈس پلیڈ پرسنز ایکٹ ( Displaced Persons (Compensation and Rehabilitations) Act) منظور کرایا۔ اس قانون کی رو سے طے پایا کہ اب وقف جائیدادوں کا مالک اپنی جائیداد کا قبضہ نہیں لے سکے گا۔ اسے صرف جائیداد کی قیمت بطور ہرجانہ ادا کی جائے گی۔ سواتی دیش پانڈے کے مطابق ساؤتھ کورٹ کو درج بالا قانون کے تحت بھارتی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔جب یہ گھر وزارت ِآباد کاری کی ملکیت بنا تو کچھ عرصے بعد اس نے بہ عوض آٹھ لاکھ روپے اسے وزارت ِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو فروخت کر دیا۔

2010ء میں قائداعظم کی صاحب زادی، دینا جناح نے ممبئی ہائی کورٹ میں یہ درخواست دائر کی کہ وہ جناح ہاؤس کی وارث ہیں لہٰذا اس عمارت کا قبضہ انہیں عطا کردیا جائے۔ اسی مقدمے کے دوران بھارتی وزارت خارجہ نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ درج بالا دو قوانین کی رو سے بھارتی حکومت جناح ہاؤس کی اصل مالک بن چکی۔ اب جناح ہاؤس کے وارث اس کی قیمت تو لے سکتے ہیں، مگر جائیداد ان کے حوالے نہیں کی جائے گی۔

اسی مقدمے کے دوران وزارت خارجہ نے قائداعظم کی بہن، محترمہ فاطمہ جناح کا ایک تار بھی پیش کیا۔ یہ تار محترمہ فاطمہ جناح نے 6 دسمبر 1948ء کو بمبئی کے وزیراعلیٰ، پی جی کھیر کو بھجوایا تھا۔ اس تار میں محترمہ نے افشا کیا کہ ان کے بھائی، قائداعظم محمد علی جناح نے 30 مئی 1939ء کو ایک وصیت کے ذریعے ساؤتھ کورٹ ان کے نام کردیا تھا۔ لہٰذا ان کو اس رہائش گاہ کی مالک قرار دے دیا جائے۔ساؤتھ کورٹ کی ملکیت کے سلسلے میں 2008ء میں نئی صورت حال جنم لے چکی تھی۔ ممبئی میں مقیم بہتر سالہ محمد رجب علی ابراہیم اور ان کے بیٹے نے دعویٰ کیا کہ وہ فاطمہ جناح کے رشتے دار ہیں۔ لہٰذا اس رشتے کے لحاظ سے جناح ہاؤس کی ملکیت انہیں عطا کردی جائے۔ دینا جناح اور محمد رجب علی ابراہیم، دونوں کے دعویٰ ملکیت ممبئی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

پاکستان کی نئی نسل کم ہی جانتی ہے کہ قائداعظم نے دہلی میں بھی ایک گھر خریدا تھا۔ وہ جناح ہاؤس کی طرح وسیع و عریض نہیں تھا، تاہم نفاست و خوبصورتی کے امتزاج کی خصوصیت ضرور رکھتا تھا۔ دراصل سیاسی سرگرمیوں کے باعث قائداعظم مسلسل دہلی جانے لگے، تو انہوں نے 10، اورنگ زیب روڈ پر واقع بنگلہ خرید لیا۔ یہ سڑک اب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام روڈ کہلاتی ہے۔(انتہا پسند ہندو اورنگ زیب عالمگیر سے شدید نفرت کرتے ہیں،انہی کے احتجاج پہ سڑک کا نام بدل دیا گیا)

قائداعظم نے یہ بنگلہ بیساکھا سنگھ نامی سکھ سے 1938ء میں خریدا تھا۔ یہ بنگلہ 1920ء میں مشہور برطانوی ماہر تعمیرات، سر ایڈون لوٹینز (Sir Edwin Lutyens) نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہی سر لوٹینز ''نئی دہلی'' کے ڈیزائن کا بھی خالق ہے۔ نیز اس نے ''انڈیا گیٹ'' اور وائسرائے ہاؤس (اب راشٹر پتی بھون) کے ڈیزائن بھی بنائے۔1938ء سے 1947ء تک 10، اورنگ زیب روڈ بھی قائداعظم اور مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز رہا۔ اسی بنگلے میں مسلمانان ہند کی تقدیر بدلنے کے لیے اہم ترین فیصلے کیے گئے اور ایک نئی اسلامی مملکت کی نیو ڈالی گئی۔

ساؤتھ کورٹ (جناح ہاؤس) کی طرح 10، اورنگ زیب روڈ بھی ولولہ انگیز تحریک پاکستان کی یادگار اور تاریخی نشانیوں میں شامل ہے۔پاکستان آتے ہوئے قائداعظم نے نئی دہلی کا اپنا بنگلہ ایک ہندو صنعت کار، رام کرشن ڈالمیا کو فروخت کردیا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ شخص ''سیکولر'' کی حیثیت سے مشہور تھا۔ مگر قائداعظم سے 10، اورنگ زیب روڈ کا بنگلہ خریدتے ہی اس کی سیکولر پسندی خاک میں مل گئی۔ موصوف نے سارا بنگلہ گنگا کے ''پوتر جّل'' سے دھلوایا تھا تاکہ ''ملیچھوں'' کی ساری نشانیاں دھل جائیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ جلد ہی سیٹھ ڈالمیا نے بنگلے میں اپنی ''گؤ رکھشا تحریک'' کا دفتر بھی قائم کردیا۔

قائداعظم کی نئی دہلی والی رہائش گاہ میں طویل عرصے سے ہالینڈ کا سفارت خانہ قائم ہے۔ ولندیزیوں نے عمارت کو اچھی طرح سنبھال رکھا ہے۔ لہٰذا اس کی آب و تاب ماند نہیں پڑی۔ تاہم بانی پاکستان کی بمبئی والی رہائش گاہ کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوچکے۔عقل کا تقاضا یہ تھا کہ پنڈت نہرو ساؤتھ کورٹ کو حکومت پاکستان کے حوالے کردیتے۔ یہ بھارت کی جانب سے دوستی و صلح کا ایک منفرد اظہار ہوتا۔ مگر نہرو حکومت نے تو خفیہ طور پر ساؤتھ کورٹ پر قبضہ کرلیا تھا، اسی لیے آنے والے بھارتی حکمران بھی پاکستانی حکومت کو ٹالتے اور لارے دیتے رہے۔

اب بھارت میں قوم پرست بلکہ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا زور بڑھ رہا ہے۔ ان لیڈروں کی ساری سیاست نفرت ودشمنی کے جذبات پر پلتی بڑھتی ہے۔ چناں چہ مودی حکومت عام ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے مستقبل میں جناح ہاؤس منہدم کرنے کا اعلان کرسکتی ہے۔ ویسے بھی اس بیش قیمت جائیداد پر سیکڑوں ہندو سیٹھوں کی رال ٹپک رہی ہے۔

جناح ہاؤس مسمار کردینے کی دہائی دینے والے منگل پربھات لودھا ہی کو لیجیے۔ موصوف بمبئی کی بہت بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی، لودھا گروپ کا بانی ہے۔ ظاہر ہے، جناح ہاؤس کی مسماری کے بعد حکومت ڈھائی ایکڑ زمین برائے فروخت پیش کردے گی۔ منگل پربھات اسی دن کا بے چینی سے انتظار کررہا ہے تاکہ زمین خرید کر وہاں کوئی پتھریلی عمارت بنائے اور اربوں روپے کمالے۔

جناح ہاؤس کی زمین اربوں روپے مالیت رکھتی ہے لیکن پاکستانیوں کے نزدیک اس رہائش گاہ سے قائداعظم اور تحریک پاکستان کی جو بیش بہا اور انمول یادیں جڑی ہیں... ان کی کوئی قیمت نہیں! ممکن ہے کہ انتہا پسند بھارتی آخر جناح ہاؤس کو قصہِ ماضی بنادیں لیکن وہ اس مقام سے وابستہ سہانی یادیں پاکستانی قوم کے دلوںسے تاقیامت نہیں مٹاسکیں گے۔
Load Next Story