معاشی ترقی کو ریورس گیئر
گزشتہ چار برسوں سے ہمارے حکمراں یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
THARPARKAR:
نواز حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ تاثر عام ہو چلا تھاکہ اس کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب ملک ترقی و خوشحالی کے جانب بڑھنے لگا ہے۔ ملکی حالات 2013ء کی نسبت بہتر ہوئے ہیں لیکن اس میں معاشی پالیسیوں کی نسبت اس کی داخلی پالیسیوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے، جس میں اسے ہمارے عسکری اداروں کی مکمل مدد اور تعاون حاصل تھا۔ انھی کی کوششوں کے سبب دہشتگردی کا عفریت اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔
خودکش بمباروں کے حملوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اورجو تباہ کاریاں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی تھیں اب اکادکا واقعات تک محدود ہوکررہ گئی ہیں۔ کراچی کے شہری بھی امن کی نعمتوںاور لذتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ وہاں بھی سیاسی بدامنی کابڑی حد تک خاتمہ ہوچکا ہے اورآئے دن دس سے بارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔
بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کا بھی سدباب کردیا گیا ہے۔ اس میں ہمیں نواز حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذکرنے والے اداروں کی کوششوں کو بھی ضرور سراہنا چاہیے، جن کے تعاون کے بغیر یہ سب کچھ قطعاً ممکن نہ تھا۔ آج اگر ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں تو صرف اور صرف ہماری افواج کے جوانوں کی قربانیوں کے سبب ورنہ اگر حالات پہلے کی طرح جاری رہتے تو پھر ساری خوشحالی دھری کی دھری رہ جاتی۔
گزشتہ چار برسوں سے ہمارے حکمراں یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کے ابھرتی مارکیٹ کا درجہ حاصل کررہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے سے ملک کی قسمت بدل رہی ہے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے جال بچھائے جارہے ہیں۔ گوادر میں جدید طرز کا ائیرپورٹ بن رہا ہے۔ ساری دنیا اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش اور استدعا کررہی ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں۔
حالات ایک بار پھر تنزلی کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر جو 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے، دوبارہ کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ اب 22 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔ اسی طرح اسٹاک مارکیٹ کو بھی ریورس گیئر لگ چکا ہے۔ اس کا 100 انڈیکس پچاس ہزار کی نفسیاتی حد کو چھوکر واپس پیچھے کی جانب چل پڑا ہے۔ اضافی بجلی پیدا کرنے اور نئے نئے پاور پروجیکٹس لگانے کے سارے دعوے زمین بوس ہوتے جارہے ہیں۔
الیکشن سے صرف ایک سال قبل شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ کا وہی حال ہے جو 2013ء میں تھا۔ قومی ائیر لائن میں بھی بہتری کے کوئی آثار نہیں وہ اب بھی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس کے فلیٹ میں طیاروں کے تعداد 80 تک پہنچانے کا حسین خواب تشنہ تعبیر ہو کر رہ گیا۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے کا معاملہ بھی ہنوز لٹکا ہوا ہے۔ نہ اس کی نجکاری ممکن ہوپائی ہے اور نہ اسے لیز پر چلانے کی تجویز پر کوئی پیشرفت ہوپائی ہے۔
لگتا ہے حکمراں اسے جوں کا توں اگلی حکومت کے حوالے کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی کے جس جن کو حکومت نے کسی حد تک قابو میں رکھنے کی کوشش کی تھی وہ بھی اب بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ عوام شدید اضطراب اور بیچینی کی کیفیت میں گرفتار ہیں، مگر حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کے بقول اس سال ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیں گے۔ مگر حالات عندیہ دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں سے ہمیں ابھی نجات نہیں ملے گی۔ حکومت نے جیسے ہی اس سے چھٹکارے کا اعلان کیا، اسی روز سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر واپس نیچے کی جانب گرنے لگے۔ گویا ذخائر کی یہ ساری بلندی ان طلسماتی قرضوں کی بدولت تھی جو ہماری اس حکومت نے ریکارڈ سطح پر لے رکھے ہیں۔ معاشی پالیسیوں کی کامیابی کے دعوے داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنے والے دن ہمیں مزید بحران کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
خلیج اورعرب ممالک سے واپس آجانے والے ہزاروں محنت کشوںکی وجہ سے ملک کے اندر بیروزگاری کا طوفان کھڑا ہونے والا ہے اور جس کے سبب بیرون ملک سے ہمارے محنت کشوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں بھی خطرناک حد تک کمی واقع ہونے والی ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہماری ایکسپورٹ پہلے ہی بہت کم رہ گئی ہے۔ ایسی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان ایک لازمی امر ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسحاق ڈار کے پاس کوئی تجویز یا منصوبہ نہیں ہے، حالانکہ وہ تاحال خود کو ایک کامیاب وزیر خزانہ کے طور پر ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مزید برآں پانامہ کیس کا فیصلہ بھی کیا گل کھلاتا ہے، ابھی کسی کو پتہ نہیں۔ حکومت اگر اس میں سرخرو ہوگئی تو پھر شاید صورت حال کچھ مختلف ہوگی، ورنہ حالات یقیناً اس کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ ایک طرف بجلی کا بحران اور دوسری جانب اپوزیشن کا دباؤ اور پریشر، جسے شاید ہی وہ برداشت کرپائے۔ ویسے پانامہ کیس کا فیصلہ حکمرانوں کے حق میں آتا دکھائی نہیں دیتا، ہاں البتہ غیر واضح اور مبہم فیصلہ آجانے کی صورت میں بھی اسے عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا خدشہ بہرحال لاحق رہے گا اور اس تحریک میں پیپلز پارٹی بھی یقینا شامل ہوجائے گی۔
آنے والے دنوں میں ملک کے اندر سیاسی ہلچل اور ٹمپریچر بھی بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، جو قبل از وقت انتخابات پر منتج بھی ہوسکتا ہے۔ نواز حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اس نے اپنے تمام منصوبوں کی تکمیل اگلے سال سے وابستہ کر رکھی ہے، اور اگر الیکشن اگلے سال کے بجائے اسی سال کروانے پڑجائیں تو عوام کے پاس جانے کے لیے اس کے نامہ اعمال میں کوئی قابل ذکر کارنامہ درج نہیں ہوگا۔ ویسے بھی جب لوڈشیڈنگ کا ایک سال قبل یہ حال ہے تو اگلے برس بھی کسی کرشمے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
حکومت اگر سارے کام چھوڑ کر صرف اس ایک کام پر لگ جائے تو شاید ممکن ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرسکے، ورنہ اگلا الیکشن اس کے ہاتھوں سے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ ویسے بھی سیاسی جوڑ توڑ اور بارگیننگ کے ماہر اور مفاہمتی سیاست کے گرو سابق صدر آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیرِاعظم ہم بنائیں گے۔ انھوں نے 2008ء کے انتخابات کا حوالہ دے کر یہ بات بڑے وثوق سے کی ہے کہ جب ہم واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپنا وزیرِاعظم لاسکتے ہیں تو پھر اگلے انتخابات میں بھی ایسا کرکے دکھا سکتے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت واضح پیغام موجود ہے اگر وہ سمجھنا چاہیں۔
پانامہ کیس نے میاں صاحب کی سیاست پر بہت بڑا ڈینٹ مارا ہے۔ وہ خواہ کتنا ہی اس سے انکار کریں لیکن جو زک اور ضرب ان کے کردار پر لگنی تھی وہ لگ چکی۔ جس کا بالواسطہ فائدہ عمران خان اور آصف زرداری کو ضرور پہنچا ہے اور اگلے انتخابات میں یہ میاں صاحب کی کامیابی میں یقیناً حائل ہوگا۔ قطری شہزادے کا خط ایک مذاق بن چکا ہے۔ اسے کسی نے بھی معتبر نہیں جانا۔
میاں صاحب کے پاس سرخروئی کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے مطابق ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دکھائیں، بلکہ اسے 2018ء تک لے جانے کے بجائے اسی سال پورا کرکے دکھا دیں، تبھی جاکر وہ کارکردگی کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ مانگنے کے حقدار گردانے جاسکیں گے۔
نواز حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ تاثر عام ہو چلا تھاکہ اس کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب ملک ترقی و خوشحالی کے جانب بڑھنے لگا ہے۔ ملکی حالات 2013ء کی نسبت بہتر ہوئے ہیں لیکن اس میں معاشی پالیسیوں کی نسبت اس کی داخلی پالیسیوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے، جس میں اسے ہمارے عسکری اداروں کی مکمل مدد اور تعاون حاصل تھا۔ انھی کی کوششوں کے سبب دہشتگردی کا عفریت اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔
خودکش بمباروں کے حملوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اورجو تباہ کاریاں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی تھیں اب اکادکا واقعات تک محدود ہوکررہ گئی ہیں۔ کراچی کے شہری بھی امن کی نعمتوںاور لذتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ وہاں بھی سیاسی بدامنی کابڑی حد تک خاتمہ ہوچکا ہے اورآئے دن دس سے بارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔
بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کا بھی سدباب کردیا گیا ہے۔ اس میں ہمیں نواز حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذکرنے والے اداروں کی کوششوں کو بھی ضرور سراہنا چاہیے، جن کے تعاون کے بغیر یہ سب کچھ قطعاً ممکن نہ تھا۔ آج اگر ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں تو صرف اور صرف ہماری افواج کے جوانوں کی قربانیوں کے سبب ورنہ اگر حالات پہلے کی طرح جاری رہتے تو پھر ساری خوشحالی دھری کی دھری رہ جاتی۔
گزشتہ چار برسوں سے ہمارے حکمراں یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کے ابھرتی مارکیٹ کا درجہ حاصل کررہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے سے ملک کی قسمت بدل رہی ہے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے جال بچھائے جارہے ہیں۔ گوادر میں جدید طرز کا ائیرپورٹ بن رہا ہے۔ ساری دنیا اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش اور استدعا کررہی ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں۔
حالات ایک بار پھر تنزلی کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر جو 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے، دوبارہ کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ اب 22 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔ اسی طرح اسٹاک مارکیٹ کو بھی ریورس گیئر لگ چکا ہے۔ اس کا 100 انڈیکس پچاس ہزار کی نفسیاتی حد کو چھوکر واپس پیچھے کی جانب چل پڑا ہے۔ اضافی بجلی پیدا کرنے اور نئے نئے پاور پروجیکٹس لگانے کے سارے دعوے زمین بوس ہوتے جارہے ہیں۔
الیکشن سے صرف ایک سال قبل شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ کا وہی حال ہے جو 2013ء میں تھا۔ قومی ائیر لائن میں بھی بہتری کے کوئی آثار نہیں وہ اب بھی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس کے فلیٹ میں طیاروں کے تعداد 80 تک پہنچانے کا حسین خواب تشنہ تعبیر ہو کر رہ گیا۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے کا معاملہ بھی ہنوز لٹکا ہوا ہے۔ نہ اس کی نجکاری ممکن ہوپائی ہے اور نہ اسے لیز پر چلانے کی تجویز پر کوئی پیشرفت ہوپائی ہے۔
لگتا ہے حکمراں اسے جوں کا توں اگلی حکومت کے حوالے کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی کے جس جن کو حکومت نے کسی حد تک قابو میں رکھنے کی کوشش کی تھی وہ بھی اب بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ عوام شدید اضطراب اور بیچینی کی کیفیت میں گرفتار ہیں، مگر حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کے بقول اس سال ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیں گے۔ مگر حالات عندیہ دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں سے ہمیں ابھی نجات نہیں ملے گی۔ حکومت نے جیسے ہی اس سے چھٹکارے کا اعلان کیا، اسی روز سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر واپس نیچے کی جانب گرنے لگے۔ گویا ذخائر کی یہ ساری بلندی ان طلسماتی قرضوں کی بدولت تھی جو ہماری اس حکومت نے ریکارڈ سطح پر لے رکھے ہیں۔ معاشی پالیسیوں کی کامیابی کے دعوے داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنے والے دن ہمیں مزید بحران کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
خلیج اورعرب ممالک سے واپس آجانے والے ہزاروں محنت کشوںکی وجہ سے ملک کے اندر بیروزگاری کا طوفان کھڑا ہونے والا ہے اور جس کے سبب بیرون ملک سے ہمارے محنت کشوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں بھی خطرناک حد تک کمی واقع ہونے والی ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہماری ایکسپورٹ پہلے ہی بہت کم رہ گئی ہے۔ ایسی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان ایک لازمی امر ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسحاق ڈار کے پاس کوئی تجویز یا منصوبہ نہیں ہے، حالانکہ وہ تاحال خود کو ایک کامیاب وزیر خزانہ کے طور پر ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مزید برآں پانامہ کیس کا فیصلہ بھی کیا گل کھلاتا ہے، ابھی کسی کو پتہ نہیں۔ حکومت اگر اس میں سرخرو ہوگئی تو پھر شاید صورت حال کچھ مختلف ہوگی، ورنہ حالات یقیناً اس کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ ایک طرف بجلی کا بحران اور دوسری جانب اپوزیشن کا دباؤ اور پریشر، جسے شاید ہی وہ برداشت کرپائے۔ ویسے پانامہ کیس کا فیصلہ حکمرانوں کے حق میں آتا دکھائی نہیں دیتا، ہاں البتہ غیر واضح اور مبہم فیصلہ آجانے کی صورت میں بھی اسے عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا خدشہ بہرحال لاحق رہے گا اور اس تحریک میں پیپلز پارٹی بھی یقینا شامل ہوجائے گی۔
آنے والے دنوں میں ملک کے اندر سیاسی ہلچل اور ٹمپریچر بھی بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، جو قبل از وقت انتخابات پر منتج بھی ہوسکتا ہے۔ نواز حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اس نے اپنے تمام منصوبوں کی تکمیل اگلے سال سے وابستہ کر رکھی ہے، اور اگر الیکشن اگلے سال کے بجائے اسی سال کروانے پڑجائیں تو عوام کے پاس جانے کے لیے اس کے نامہ اعمال میں کوئی قابل ذکر کارنامہ درج نہیں ہوگا۔ ویسے بھی جب لوڈشیڈنگ کا ایک سال قبل یہ حال ہے تو اگلے برس بھی کسی کرشمے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
حکومت اگر سارے کام چھوڑ کر صرف اس ایک کام پر لگ جائے تو شاید ممکن ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرسکے، ورنہ اگلا الیکشن اس کے ہاتھوں سے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ ویسے بھی سیاسی جوڑ توڑ اور بارگیننگ کے ماہر اور مفاہمتی سیاست کے گرو سابق صدر آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیرِاعظم ہم بنائیں گے۔ انھوں نے 2008ء کے انتخابات کا حوالہ دے کر یہ بات بڑے وثوق سے کی ہے کہ جب ہم واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپنا وزیرِاعظم لاسکتے ہیں تو پھر اگلے انتخابات میں بھی ایسا کرکے دکھا سکتے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت واضح پیغام موجود ہے اگر وہ سمجھنا چاہیں۔
پانامہ کیس نے میاں صاحب کی سیاست پر بہت بڑا ڈینٹ مارا ہے۔ وہ خواہ کتنا ہی اس سے انکار کریں لیکن جو زک اور ضرب ان کے کردار پر لگنی تھی وہ لگ چکی۔ جس کا بالواسطہ فائدہ عمران خان اور آصف زرداری کو ضرور پہنچا ہے اور اگلے انتخابات میں یہ میاں صاحب کی کامیابی میں یقیناً حائل ہوگا۔ قطری شہزادے کا خط ایک مذاق بن چکا ہے۔ اسے کسی نے بھی معتبر نہیں جانا۔
میاں صاحب کے پاس سرخروئی کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے مطابق ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دکھائیں، بلکہ اسے 2018ء تک لے جانے کے بجائے اسی سال پورا کرکے دکھا دیں، تبھی جاکر وہ کارکردگی کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ مانگنے کے حقدار گردانے جاسکیں گے۔