بجلی کا مسئلہ اور جماعت اسلامی
یہ کنڈا سسٹم امرا کے علاقوں، متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کی بستیوں میں آیا۔
بجلی کا مسئلہ گزشتہ کئی عشروں سے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کررہا ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (K.E.S.C) آزادی سے قبل قائم ہوئی تھی۔ کے ای ایس سی نے بجلی کی پیداوار اور صارفین کو بجلی کی فراہمی کا فریضہ 60 سال سے زیادہ عرصہ تک انجام دیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے 80ء کی دہائی تک یہ کمپنی اپنے فرائض تسلی بخش طور پر انجام دیتی رہی۔ نئی آباد ہونے والی بستیوں کو بجلی فراہم کی گئی اور صارفین کی مانگ پوری کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار کا ہدف پورا کیا گیا۔ پھر کے ای ایس سی کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاق کے حوالے کیا گیا۔ اب یہ ادارہ اسلام آباد سے کنٹرول ہونے لگا۔ سیاسی بھرتیاں شروع ہوئیں، بجلی کی چوری بھی بڑھی، پہلے صرف میٹر میں ٹیمپرنگ ہوتی تھی، پھر کنڈا سسٹم آگیا۔
یہ کنڈا سسٹم امرا کے علاقوں، متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کی بستیوں میں آیا۔ کنڈا لگانے کا طریقہ عملے نے لوگوں کو سکھایا۔ میٹر میں ہیر پھیر، بل میں کمی اور نئے کنکشن کی فراہمی کے ریٹ ہر علاقے کے الگ الگ طے ہوئے۔ اس طرح کے ای ایس سی میں خسارے کا آغاز ہوا۔
90ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کراچی میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے اثرات کے ای ایس سی پر پڑنے لگے۔ لسانی بنیادوں پر بھرتیاں ہونے لگیں، انتظامیہ کو مفلوج کیا جانے لگا اور مزدور تنظیمیں لسانی رنگ میں ڈھل گئیں۔ کے ای ایس سی کا خسارہ خطرناک حد تک پہنچ گیا۔
پرویز مشرف حکومت نے 2003ء میں ایماندار سی ایس پی افسر ملک شاہد حامد کو کے ای ایس سی کا سربراہ مقرر کیا۔ شاہد حامد انجنیئر نہیں تھے مگر ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انھوں نے کے ای ایس سی میں بنیادی اصلاحات کے نفاذ کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ کچھ افسران نکالے گئے اور کچھ کے نام وفاقی تحقیقاتی اداروں کو بھیجے گئے۔ کے ای ایس سی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز ہوا۔
کارکنوں کے لیے سخت شرائط کے لیے ملازمت کا نیا طریقہ کار وضح کیا گیا۔ پھر ایک روز موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے شاہد حامدکو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ صبح اپنے گھر سے دفتر جارہے تھے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں نے طویل جدوجہد کے بعد ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کیا اور انھیں سزائے موت دی گئی اور کے ای ایس سی کی تنظیمِ نو کا سلسلہ رک گیا۔ پھر کے ای ایس ا ی کو فوجی افسروں کے حوالے کیا گیا۔
ان افسروں نے بجلی کی چوری روکنے، بجلی کی پیداوار کو بڑھانے اور غیر حاضر کارکنوں کے احتساب کے لیے اہم اقدامات کیے جس کی بنا پر کے ای ایس سی کے حالات میں تبدیلی رونما ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔ کے ای ایس سی کی مزدور انجمنوں نے اس فیصلے کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے مزدوروں کی اس تحریک کی حمایت نہیں کی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں مزدوروں کے ساتھ تھیں مگر عوامی حمایت نہ ہونے کی بنا پر مزدوروں کی یہ تحریک ناکام ہوگئی۔ پھر مزدور انجمنوں نے زرداری دور میں احتجاجی تحریک چلائی مگر یہ تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
کمپنی نے بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ شہر کو طبقاتی طور پر تقسیم کردیا گیا۔ امراء کے علاقے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیدیے گئے، متوسط طبقے اور نچلی متوسط طبقے کی بستیوں میں 4سے 6گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جانے لگی اور غریبوں کی بستیوں میں 8سے 10گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ ہونے لگی جو آج تک جاری ہے۔ پھر بجلی کے ٹیرف میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا۔ اضافی سرچارج عوام پر ڈال دیا گیا ۔ دو کمرے کا مکان جس میں صرف ایک ٹی وی، ریفریجریٹر اور کپڑے دھونے کی مشین ہوتی ہے، وہاں دس ہزار سے زائد کا بل بھیجا جانے لگا۔ بعض لوگوں کو تو ایک کمرے کے مکان کا بل دس ہزار روپے سے زائد آنے لگا۔
شکایات درج کرانا بھی خاصا مشکل ہوگیا ۔ پی ای سی ایچ ایس سمیت کئی علاقے جو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں وہ بھی بجلی کے نئے بحران کا شکار ہوئے۔ ان علاقوںمیں بغیر کوئی وجہ بتائے 10،10 گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی ۔ کنڈا سسٹم کے تدارک کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں کاپر کے تار تبدیل کر کے المونیم کے تار نصب کردئیے۔ مگر دو سال پہلے جب کراچی گرمی کی شدید لہر کا شکار ہوا تو المونیم کے تار اس گرمی کو برداشت نہ کرسکے جس پر شہر میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہوا۔ بجلی کے نرخ مزید بڑھا دیئے گئے۔
سول سوسائٹی کے فعال اراکین حاجی ناظم اور کرامت علی وغیرہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ یہ صاحبان بنیادی حقوق کے لیے جلسہ جلوس، مظاہرے اور عدالتوں سے رجوع کرنے کے تمام طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ حاجی ناظم اور ان کے ساتھیوں نے سرچارج یا شہریوں کے ساتھ ہونے والی دیگر زیادتیوں کے ازالہ کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
شہریوں کو امید ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کراچی کے شہریوں کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے جامع فیصلہ دے گی۔ مگر شہریوں کے اس حق کا تحفظ محض غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں سے ہی ممکن نہیں، جب تک سیاسی جماعتیں ان حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد نہیں کرتیں مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کراچی کی قیادت نے اس معاملہ کی گہرائی کو محسوس کیا۔ جماعت کے کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں ایک منظم مہم شروع کی گئی۔
اس مہم کے دوران پولیس نے جماعت اسلامی کے دفتر کا گھیراؤ کیا، اس دوران کچھ کارکن گرفتار بھی ہوئے۔ جماعت کی قیادت نے عوامی کلچر کو اپناتے ہوئے اپنے مظاہرے میں بھینسوں کو بھی استعمال کیا اور اردو کے محاورے ''بھینس کے آگے بین بجانا'' کی مشق کی۔ 70ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کے اکابرین ذاتی ملکیت کے تحفظ کے نظریہ کے اسیر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ریاست کو حق نہیں کہ صنعتی اداروں اور بینکوں وغیرہ کو قومی تحویل میں لے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی جیرہ دستی اور پھر فری مارکٹ اکانومی کے دور میں شہری کی حیثیت محض ''جنس'' میں تبدیل ہوئی۔
اب صورتحال کے ادراک کے بعد جماعت کی قیادت بنیادی سہولتوں کے اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کے حق میں ہے جو مسائل کا بنیادی حل ہے۔ پھر تنقید نگار یہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ صرف ان شہریوں کے لیے جدوجہد کی ہے جو مسلمان ہیں جس کی بناء پر غیر مسلم شہری اس طرح کی جدوجہد سے متاثر نہیں ہوئے مگر ایک مثبت بات یہ ہے کہ اب جماعت اسلامی کی قیادت ان تمام مسائل پر جدوجہد کرنے لگی ہے جو پاکستان کے ہر شہری کا مسئلہ ہے۔
پہلے حافظ نعیم اور ان کے ساتھیوں نے چین کے تیار کردہ چنگ چی رکشوں پر پابندی کے خلاف جدوجہد کی تھی اور اب بجلی کے مسئلے پر جدوجہد کر کے تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی ہر شہری کو سستی اور بلا رکاوٹ بجلی کی فراہمی کی جدوجہد ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے 80ء کی دہائی تک یہ کمپنی اپنے فرائض تسلی بخش طور پر انجام دیتی رہی۔ نئی آباد ہونے والی بستیوں کو بجلی فراہم کی گئی اور صارفین کی مانگ پوری کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار کا ہدف پورا کیا گیا۔ پھر کے ای ایس سی کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاق کے حوالے کیا گیا۔ اب یہ ادارہ اسلام آباد سے کنٹرول ہونے لگا۔ سیاسی بھرتیاں شروع ہوئیں، بجلی کی چوری بھی بڑھی، پہلے صرف میٹر میں ٹیمپرنگ ہوتی تھی، پھر کنڈا سسٹم آگیا۔
یہ کنڈا سسٹم امرا کے علاقوں، متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کی بستیوں میں آیا۔ کنڈا لگانے کا طریقہ عملے نے لوگوں کو سکھایا۔ میٹر میں ہیر پھیر، بل میں کمی اور نئے کنکشن کی فراہمی کے ریٹ ہر علاقے کے الگ الگ طے ہوئے۔ اس طرح کے ای ایس سی میں خسارے کا آغاز ہوا۔
90ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کراچی میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے اثرات کے ای ایس سی پر پڑنے لگے۔ لسانی بنیادوں پر بھرتیاں ہونے لگیں، انتظامیہ کو مفلوج کیا جانے لگا اور مزدور تنظیمیں لسانی رنگ میں ڈھل گئیں۔ کے ای ایس سی کا خسارہ خطرناک حد تک پہنچ گیا۔
پرویز مشرف حکومت نے 2003ء میں ایماندار سی ایس پی افسر ملک شاہد حامد کو کے ای ایس سی کا سربراہ مقرر کیا۔ شاہد حامد انجنیئر نہیں تھے مگر ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انھوں نے کے ای ایس سی میں بنیادی اصلاحات کے نفاذ کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ کچھ افسران نکالے گئے اور کچھ کے نام وفاقی تحقیقاتی اداروں کو بھیجے گئے۔ کے ای ایس سی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز ہوا۔
کارکنوں کے لیے سخت شرائط کے لیے ملازمت کا نیا طریقہ کار وضح کیا گیا۔ پھر ایک روز موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے شاہد حامدکو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ صبح اپنے گھر سے دفتر جارہے تھے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں نے طویل جدوجہد کے بعد ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کیا اور انھیں سزائے موت دی گئی اور کے ای ایس سی کی تنظیمِ نو کا سلسلہ رک گیا۔ پھر کے ای ایس ا ی کو فوجی افسروں کے حوالے کیا گیا۔
ان افسروں نے بجلی کی چوری روکنے، بجلی کی پیداوار کو بڑھانے اور غیر حاضر کارکنوں کے احتساب کے لیے اہم اقدامات کیے جس کی بنا پر کے ای ایس سی کے حالات میں تبدیلی رونما ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔ کے ای ایس سی کی مزدور انجمنوں نے اس فیصلے کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے مزدوروں کی اس تحریک کی حمایت نہیں کی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں مزدوروں کے ساتھ تھیں مگر عوامی حمایت نہ ہونے کی بنا پر مزدوروں کی یہ تحریک ناکام ہوگئی۔ پھر مزدور انجمنوں نے زرداری دور میں احتجاجی تحریک چلائی مگر یہ تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
کمپنی نے بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ شہر کو طبقاتی طور پر تقسیم کردیا گیا۔ امراء کے علاقے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیدیے گئے، متوسط طبقے اور نچلی متوسط طبقے کی بستیوں میں 4سے 6گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جانے لگی اور غریبوں کی بستیوں میں 8سے 10گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ ہونے لگی جو آج تک جاری ہے۔ پھر بجلی کے ٹیرف میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا۔ اضافی سرچارج عوام پر ڈال دیا گیا ۔ دو کمرے کا مکان جس میں صرف ایک ٹی وی، ریفریجریٹر اور کپڑے دھونے کی مشین ہوتی ہے، وہاں دس ہزار سے زائد کا بل بھیجا جانے لگا۔ بعض لوگوں کو تو ایک کمرے کے مکان کا بل دس ہزار روپے سے زائد آنے لگا۔
شکایات درج کرانا بھی خاصا مشکل ہوگیا ۔ پی ای سی ایچ ایس سمیت کئی علاقے جو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں وہ بھی بجلی کے نئے بحران کا شکار ہوئے۔ ان علاقوںمیں بغیر کوئی وجہ بتائے 10،10 گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی ۔ کنڈا سسٹم کے تدارک کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں کاپر کے تار تبدیل کر کے المونیم کے تار نصب کردئیے۔ مگر دو سال پہلے جب کراچی گرمی کی شدید لہر کا شکار ہوا تو المونیم کے تار اس گرمی کو برداشت نہ کرسکے جس پر شہر میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہوا۔ بجلی کے نرخ مزید بڑھا دیئے گئے۔
سول سوسائٹی کے فعال اراکین حاجی ناظم اور کرامت علی وغیرہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ یہ صاحبان بنیادی حقوق کے لیے جلسہ جلوس، مظاہرے اور عدالتوں سے رجوع کرنے کے تمام طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ حاجی ناظم اور ان کے ساتھیوں نے سرچارج یا شہریوں کے ساتھ ہونے والی دیگر زیادتیوں کے ازالہ کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
شہریوں کو امید ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کراچی کے شہریوں کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے جامع فیصلہ دے گی۔ مگر شہریوں کے اس حق کا تحفظ محض غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں سے ہی ممکن نہیں، جب تک سیاسی جماعتیں ان حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد نہیں کرتیں مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کراچی کی قیادت نے اس معاملہ کی گہرائی کو محسوس کیا۔ جماعت کے کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں ایک منظم مہم شروع کی گئی۔
اس مہم کے دوران پولیس نے جماعت اسلامی کے دفتر کا گھیراؤ کیا، اس دوران کچھ کارکن گرفتار بھی ہوئے۔ جماعت کی قیادت نے عوامی کلچر کو اپناتے ہوئے اپنے مظاہرے میں بھینسوں کو بھی استعمال کیا اور اردو کے محاورے ''بھینس کے آگے بین بجانا'' کی مشق کی۔ 70ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کے اکابرین ذاتی ملکیت کے تحفظ کے نظریہ کے اسیر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ریاست کو حق نہیں کہ صنعتی اداروں اور بینکوں وغیرہ کو قومی تحویل میں لے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی جیرہ دستی اور پھر فری مارکٹ اکانومی کے دور میں شہری کی حیثیت محض ''جنس'' میں تبدیل ہوئی۔
اب صورتحال کے ادراک کے بعد جماعت کی قیادت بنیادی سہولتوں کے اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کے حق میں ہے جو مسائل کا بنیادی حل ہے۔ پھر تنقید نگار یہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ صرف ان شہریوں کے لیے جدوجہد کی ہے جو مسلمان ہیں جس کی بناء پر غیر مسلم شہری اس طرح کی جدوجہد سے متاثر نہیں ہوئے مگر ایک مثبت بات یہ ہے کہ اب جماعت اسلامی کی قیادت ان تمام مسائل پر جدوجہد کرنے لگی ہے جو پاکستان کے ہر شہری کا مسئلہ ہے۔
پہلے حافظ نعیم اور ان کے ساتھیوں نے چین کے تیار کردہ چنگ چی رکشوں پر پابندی کے خلاف جدوجہد کی تھی اور اب بجلی کے مسئلے پر جدوجہد کر کے تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی ہر شہری کو سستی اور بلا رکاوٹ بجلی کی فراہمی کی جدوجہد ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔