کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لئے بھارت کو بھی پاکستان کی طرح مثبت رویہ اپنانا چاہیے تھا۔
بدھ کو پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ٹیلی فونک رابطے میں کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس طرح 6 جنوری سے کنٹرول لائن پر شروع ہونے والی خون ریز فائرنگ 11 دن کے بعد دونوں ممالک کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان اتفاق رائے کے بعد ختم ہو گئی ہے۔ منگل کو بھی کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے پاک بھارت فلیگ میٹنگ ہوئی تھی مگر اس فلیگ میٹنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارتی فوج نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلااشتعال لائن آف کنٹرول پر درہ شیر خان سیکٹر پر سول آبادی پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔
جس سے ایک نوجوان زخمی ہو گیا۔ اس طرح سرحدوں پر امن قائم کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کو بھارتی فوج نے چند گھنٹوں بعد ہی سبوتاژ کر دیا۔یوں حالات خاصے خراب ہوگئے ۔معاملات اس وقت زیادہ کشیدہ ہوئے جب بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ ہم پاکستان سے بدلہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان اشتعال انگیز تھا۔ادھرپاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس موقع پر زیرکی اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا جس سے حالات مزید بگڑتے۔
چند روز پہلے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی مخالفانہ بیان جاری کرتے ہوئے کہہ دیا تھاکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہ سکتے' جو لوگ اس کے ذمے دار ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انھیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ اس سے چند روز پیشتر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید اور بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے بھی اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز لہجہ اپنایا تھا۔ یوں بھارتی ارباب حکومت سے لے کر عسکری قیادت تک نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی کو ہوا دینے والا رویہ اپنایا۔ اس کے برعکس پاکستانی حکومت نے اس خطے کو آگ کے شعلوں کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش پر زور دیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک کہا کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعے میں پاکستانی فوج کا کوئی ہاتھ نہیں' پاکستان انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا' ہمیں دشمنی کا ماحول نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے بالکل درست رویہ اپنایا گیا بھارتی حکومت کو بھی ایسا ہی رویہ اپنانا چاہیے تھا تاکہ امن کے سلسلے میں جاری کوششوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جس سے معاملہ اتنا بڑھے کہ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔
اتوار 6 جنوری کو بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کنٹرول لائن پر حاجی پیر سیکٹر میں دراندازی کرتے ہوئے سواں پتراں پوسٹ پر بلااشتعال فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک لانس نائیک شہید اور ایک جوان زخمی ہو گیا۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا اور ان سے کہا گیا کہ بھارتی حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کے انسداد کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
مگر افسوس بھارت کی جانب سے اس کا جواب مثبت انداز میں دینے کے بجائے گولی سے دیا گیا اور جمعرات کو بھارتی فوج نے ایک بار پھر جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے بٹل سیکٹر میں چوکی کنڈی کو نشانہ بنا ڈالا جس سے ایک پاکستانی حوالدار شہید ہو گیا۔ بھارت کی جانب سے ہونے والی بلا جواز فائرنگ سے دونوں ممالک کے درمیان جاری امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا اور پورے ماحول میں کشیدگی پھیل گئی۔ بھارتی حکومت اور عسکری قیادت کے بیانات سے بھی جارحیت کی بو آنے لگی۔ بھارتی حکومت کا رویہ بھی شیوسینا جیسا تھا، یوں معلوم ہونے لگا کہ وہ اپنے ہاں کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے سرحدوں پر ماحول گرم رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف بھارتی قیادت نے پاکستان کو دھمکیاں دیں تو دوسری جانب اب بھارتی وزیر تجارت آنند شرما کا یہ بیان سامنے آ گیا ہے کہ کنٹرول لائن واقعات پر تشویش ہے' پاک بھارت تجارتی تعلقات بڑی جدوجہد کے بعد قائم ہوئے انھیں ہر گز نہیں توڑیں گے' خطے میں خوشحالی کے لیے یہ تعلقات اہم ہیں۔ بھارتی حکومت کی پاکستان کے بارے میں دوغلی پالیسی ہے، ایک جانب وہ سرحدوں پر فائرنگ کے واقعات کے بعد دھمکی آمیز رویہ اپناتی ہے تو دوسری جانب امن کا واویلا بھی مچانا شروع کر دیتی ہے۔
اگر بھارتی قیادت خطے میں واقعی امن چاہتی ہے تو پھر اسے سرحدوں پر ماحول کو کشیدہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس خطے پر ہر وقت جنگ کا خوف چھایا رہتا ہے۔ اسے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کی مذمت کرنی چاہیے اور سرحدوں پر ایسیاقدامات کرنا چاہیے کہ آیندہ ایسے افسوسناک واقعات رونما نہ ہوں۔ حیرت ناک امر ہے کہ جب بھی پاک بھارت امن کی فضا قائم ہوتی ہے کچھ نادیدہ قوتیں اسے سبوتاژ کرنے اور خطے میں آگ بھڑکانے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ دونوں ممالک کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ امن کے سفر کو بلاروک ٹوک جاری رکھیں اور سرحدوں پر کشیدگی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔
جس سے ایک نوجوان زخمی ہو گیا۔ اس طرح سرحدوں پر امن قائم کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کو بھارتی فوج نے چند گھنٹوں بعد ہی سبوتاژ کر دیا۔یوں حالات خاصے خراب ہوگئے ۔معاملات اس وقت زیادہ کشیدہ ہوئے جب بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ ہم پاکستان سے بدلہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان اشتعال انگیز تھا۔ادھرپاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس موقع پر زیرکی اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا جس سے حالات مزید بگڑتے۔
چند روز پہلے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی مخالفانہ بیان جاری کرتے ہوئے کہہ دیا تھاکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہ سکتے' جو لوگ اس کے ذمے دار ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انھیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ اس سے چند روز پیشتر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید اور بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے بھی اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز لہجہ اپنایا تھا۔ یوں بھارتی ارباب حکومت سے لے کر عسکری قیادت تک نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی کو ہوا دینے والا رویہ اپنایا۔ اس کے برعکس پاکستانی حکومت نے اس خطے کو آگ کے شعلوں کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش پر زور دیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک کہا کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعے میں پاکستانی فوج کا کوئی ہاتھ نہیں' پاکستان انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا' ہمیں دشمنی کا ماحول نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے بالکل درست رویہ اپنایا گیا بھارتی حکومت کو بھی ایسا ہی رویہ اپنانا چاہیے تھا تاکہ امن کے سلسلے میں جاری کوششوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جس سے معاملہ اتنا بڑھے کہ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔
اتوار 6 جنوری کو بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کنٹرول لائن پر حاجی پیر سیکٹر میں دراندازی کرتے ہوئے سواں پتراں پوسٹ پر بلااشتعال فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک لانس نائیک شہید اور ایک جوان زخمی ہو گیا۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا اور ان سے کہا گیا کہ بھارتی حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کے انسداد کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
مگر افسوس بھارت کی جانب سے اس کا جواب مثبت انداز میں دینے کے بجائے گولی سے دیا گیا اور جمعرات کو بھارتی فوج نے ایک بار پھر جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے بٹل سیکٹر میں چوکی کنڈی کو نشانہ بنا ڈالا جس سے ایک پاکستانی حوالدار شہید ہو گیا۔ بھارت کی جانب سے ہونے والی بلا جواز فائرنگ سے دونوں ممالک کے درمیان جاری امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا اور پورے ماحول میں کشیدگی پھیل گئی۔ بھارتی حکومت اور عسکری قیادت کے بیانات سے بھی جارحیت کی بو آنے لگی۔ بھارتی حکومت کا رویہ بھی شیوسینا جیسا تھا، یوں معلوم ہونے لگا کہ وہ اپنے ہاں کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے سرحدوں پر ماحول گرم رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف بھارتی قیادت نے پاکستان کو دھمکیاں دیں تو دوسری جانب اب بھارتی وزیر تجارت آنند شرما کا یہ بیان سامنے آ گیا ہے کہ کنٹرول لائن واقعات پر تشویش ہے' پاک بھارت تجارتی تعلقات بڑی جدوجہد کے بعد قائم ہوئے انھیں ہر گز نہیں توڑیں گے' خطے میں خوشحالی کے لیے یہ تعلقات اہم ہیں۔ بھارتی حکومت کی پاکستان کے بارے میں دوغلی پالیسی ہے، ایک جانب وہ سرحدوں پر فائرنگ کے واقعات کے بعد دھمکی آمیز رویہ اپناتی ہے تو دوسری جانب امن کا واویلا بھی مچانا شروع کر دیتی ہے۔
اگر بھارتی قیادت خطے میں واقعی امن چاہتی ہے تو پھر اسے سرحدوں پر ماحول کو کشیدہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس خطے پر ہر وقت جنگ کا خوف چھایا رہتا ہے۔ اسے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کی مذمت کرنی چاہیے اور سرحدوں پر ایسیاقدامات کرنا چاہیے کہ آیندہ ایسے افسوسناک واقعات رونما نہ ہوں۔ حیرت ناک امر ہے کہ جب بھی پاک بھارت امن کی فضا قائم ہوتی ہے کچھ نادیدہ قوتیں اسے سبوتاژ کرنے اور خطے میں آگ بھڑکانے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ دونوں ممالک کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ امن کے سفر کو بلاروک ٹوک جاری رکھیں اور سرحدوں پر کشیدگی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔