اقوام متحدہ روس نے شام کے کیمیائی حملے سے متعلق قرارداد ویٹو کردی

خفیہ معلومات ہیں امریکا شام میں کیمیائی حملوں کی سازش کر رہا ہے، روسی صدر پوتن

بشار الاسد کا رویہ جانوروں جیسا ہے، امریکی صدر۔ فوٹو: فائل

روس نے شام کے مبینہ کیمیائی حملے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ کی گئی جس میں شام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حال ہی میں ہونے والے کیمیائی حملے پر ہونے والی تحقیقات میں تعاون کرے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کیمیائی حملے کی تحقیقات سے متعلق شام کی مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے روس نے ویٹو کر دیا۔

روس کے دورے پر گئے ہوئے امریکا کے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ روس اور امریکا کے درمیان اعتماد کی کمی ہے، روس پر سے کوئی پابندی نہیں اٹھائی جبکہ روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ روس امریکا تعلقات میں غلط فہمیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور روس کے وزرائے خارجہ نے ماسکو میں ملاقات کی، ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ روسی صدر سے امریکی انتخاب میں مداخلت سے متعلق گفتگو ہوئی، ادلب حملے میں روس کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ شمالی کوریا کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکی بحری بیڑہ شمالی کوریا کے قریب موجود ہے اور بحیرہ اوقیانوس میں چکر لگا رہا ہے۔

اس موقع پر سرگئی لاروف نے کہا کہ شام میں حکومت نہیں داعش کا خاتمہ چاہتے ہیں، شام سے عسکریت پسندی ختم نہ کی تو داعش کیخلاف جنگ ہار جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ شام میں کیمیائی حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں، ادلب میں کیمیائی حملے میں باغی ملوث ہو سکتے ہیں، امریکا نے صدارتی انتخاب میں مداخلت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے، سائبر کرائم ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکا اور روس کے باہمی روابط شام میں زہریلی گیس کے حملے کے بعد سے تناؤ کا شکار ہیں اور شامی صدر اسد امریکہ اور روسی تعلقات میں ہڈی بن گئے ہیں۔

گزشتہ روز روسی صدر پوتن نے اپنے امریکی ہم منصب ٹرمپ پر تنقید کی جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ پیوٹن کیسے شامی صدر اسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ امریکی صدر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کے بقول پوتن ایک ایسے شخص کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو اصل میں ایک شیطان ہے اور وہ اس دنیا کیلیے بہت برا ہے۔ ٹرمپ نے شامی صدر کو ''جانور'' بھی کہا۔

امریکی صدر کے بقول بالکل غیر جانبداری سے بات کی جائے تو آپ کو بار بار ایسے بچے دکھائی دیتے ہیں، جن کے نہ تو ہاتھ ہوتے ہیں، نہ پیر اور ان کے چہرے بھی مسخ ہو چکے ہوتے ہیں، یہ جانوروں جیسا رویہ ہے۔ یہ بات انھوں نے فوکس نیوز چینل سے باتیں کرتی ہوئی کہی۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ان کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بات چیت کیلیے ماسکو میں ہیں۔ ٹلرسن اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے ملاقات کر چکے ہیں۔


دوسری طرف روسی صدر پوتن نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہی ہوئے ہیں۔ پیوٹن کے بقول یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان بڑھا ہے اور خاص طور پر عسکری شعبے میں تعلقات تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔

برطانوی میڈیا کے مطابق روس کے صدر پوتن نے کہا ہے کہ ہمارے پاس خفیہ معلومات ہیں کہ امریکا شام میں جعلی کیمیائی حملوں کی تیاری کر چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ گزشتہ ہفتے شام کے صوبے ادلب میں ہونے والے کیمیائی حملوں کی آزاد تحقیقات کو یقینی بنائے کیونکہ امریکہ جھوٹے الزام لگا کر شام کے صدر بشار الاسد کو بدنام کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔

ادھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے شام کے صدر کو ہٹلر سے تشبیہ دینے پر معافی مانگ لی، وائٹ ہاؤس ترجمان شون اسپائسر نے شام کے صدر کا ہٹلر سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہٹلر نے بھی کیمیائی ہتھیاراستعمال نہیں کیے، اس پر شدید تنقید ہوئی تو ترجمان نے معافی مانگ لی اورکہا کہ موازنے کیلیے میرے منہ سے غلط جملہ نکل گیا، الفاظ اور غلطی پر معافی مانگتا ہوں۔

دریں اثنا شام کے متحارب گروپوں کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں دو شیعہ قصبوں کی آبادی کو منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہے۔ اس ڈیل کے تحت دو دوسرے علاقوں سے سنی شہریوں اور باغیوں کی منتقلی کی جائے گی۔ شیعہ قصبے الفوعہ اور کیفریہ شمال مغربی صوبے اِدلِب میں واقع ہیں اور ان کا شامی باغیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔

دوسری جانب لبنانی سرحد کے قریب سنی شہریوں اور باغیوں کے قصبے زبادانی اور مدایہ ہیں، جو شامی حکومتی اور حزب اللہ کے گوریلوں کے محاصرے میں ہیں۔ مبصر گروپ سیرین آبزرویٹری کے مطابق ان چاروں قصبوں سے محصور آبادیوں کی منتقلی کے لیے امدادی بسوں کے قافلے روانہ ہو گئے ہیں۔

 
Load Next Story