پاکستان اسٹیل میں پیپلز ورکرز یونین کے اقتدار کا سورج غروب
پیپلز ورکرز 2747 ووٹ لے سکی، موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی کیلیے ایک اور دھچکا
پاکستان اسٹیل میں اجتماعی سودا کار یونین کے انتخاب کے لیے ہونے والے انتخاب میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ورکرز ونگ پاکستان اسٹیل انصاف لیبر یونین، پاکستان اسٹیل لیبر یونین اور دیگر ٹریڈ یونینوں کے اتحاد نے پاکستان اسٹیل پیپلز ورکرز یونین کو بڑے مارجن سے شکست دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ورکرز ونگ پیپلز ورکرز یونین کی 21 سال سے جاری برتری کا خاتمہ کردیا۔
گزشتہ روز کو ہونے والے ریفرنڈم میں 8272 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 6946 کاسٹ کیے گئے جس میں پاکستان اسٹیل انصاف لیبر یونین، پاسلو اور دیگر ٹریڈ یونینز کے اتحاد نے 4199 ووٹ حاصل کیے جبکہ مد مقابل پیپلز ورکرز یونین نے2747 ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح انصاف لیبر یونین، پاسلو اور دیگر یونینز کے اتحاد نے1452ووٹوں کی واضح برتری کے ساتھ پیپلز ورکرز یونین کو شکست دے دی، ریفرنڈم کے لیے21 پولنگ اسٹیشن اور 31 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے جس میں پلانٹ کے مختلف حصوں کے علاوہ اسٹیل ٹاؤن، مکلی ،جھمپیر پروجیکٹ، بلک واٹر فلٹر پلانٹ اور لاہور اور اسلام آباد شامل تھے۔
سال 2008 کے بعد سے اب تک پاکستان اسٹیل کے واجبات اور خسارے کی مجموعی مالیت 425 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پیپلز ورکرز یونین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پیپلز ورکرز یونین اپنے 21 سالہ دور میں ادارے کی مالی اور انتظامی بدنظمی کو روکنے سمیت پاکستان اسٹیل کی اربوں روپے مالیت کی اراضی کی بندربانٹ روکنے قبضہ شدہ اراضی واگزار کرانے میں ناکام رہی، سال 2010 میں 4732 ملازمین کی بحالی اور ریگولرائزیشن پاکستان اسٹیل کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی درحقیقت انھی ملازمین نے پیپلز ورکرز یونین کی کارکردگی سے مایوس ہوکر انصاف ورکرز یونین کے اتحاد کو کامیاب کرایا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل پیپلز یونین کی شکست موجودہ سیاسی ماحول میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ پیپلز ورکرز یونین 1995سے بطور سی بی اے منتخب ہوتی چلی آرہی تھی اور ناقدین کی جانب سے پیپلز ورکرز یونین کی قیادت کو بھی پاکستان اسٹیل کی زبوں حالی اور اربوں روپے کے خسارے کا ذمے دار قرار دیا جارہا تھا جس سے اس کی مقبولیت میں کمی آئی۔
گزشتہ روز کو ہونے والے ریفرنڈم میں 8272 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 6946 کاسٹ کیے گئے جس میں پاکستان اسٹیل انصاف لیبر یونین، پاسلو اور دیگر ٹریڈ یونینز کے اتحاد نے 4199 ووٹ حاصل کیے جبکہ مد مقابل پیپلز ورکرز یونین نے2747 ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح انصاف لیبر یونین، پاسلو اور دیگر یونینز کے اتحاد نے1452ووٹوں کی واضح برتری کے ساتھ پیپلز ورکرز یونین کو شکست دے دی، ریفرنڈم کے لیے21 پولنگ اسٹیشن اور 31 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے جس میں پلانٹ کے مختلف حصوں کے علاوہ اسٹیل ٹاؤن، مکلی ،جھمپیر پروجیکٹ، بلک واٹر فلٹر پلانٹ اور لاہور اور اسلام آباد شامل تھے۔
سال 2008 کے بعد سے اب تک پاکستان اسٹیل کے واجبات اور خسارے کی مجموعی مالیت 425 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پیپلز ورکرز یونین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پیپلز ورکرز یونین اپنے 21 سالہ دور میں ادارے کی مالی اور انتظامی بدنظمی کو روکنے سمیت پاکستان اسٹیل کی اربوں روپے مالیت کی اراضی کی بندربانٹ روکنے قبضہ شدہ اراضی واگزار کرانے میں ناکام رہی، سال 2010 میں 4732 ملازمین کی بحالی اور ریگولرائزیشن پاکستان اسٹیل کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی درحقیقت انھی ملازمین نے پیپلز ورکرز یونین کی کارکردگی سے مایوس ہوکر انصاف ورکرز یونین کے اتحاد کو کامیاب کرایا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل پیپلز یونین کی شکست موجودہ سیاسی ماحول میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ پیپلز ورکرز یونین 1995سے بطور سی بی اے منتخب ہوتی چلی آرہی تھی اور ناقدین کی جانب سے پیپلز ورکرز یونین کی قیادت کو بھی پاکستان اسٹیل کی زبوں حالی اور اربوں روپے کے خسارے کا ذمے دار قرار دیا جارہا تھا جس سے اس کی مقبولیت میں کمی آئی۔