مثبت سیاسی تبدیلیاں

لاہور سے اسلام آباد کا سفر اور ہزاروں لوگوں کے دھرنے میں نظم و ضبط دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی نظیر ہے۔

دھرنے کے شرکا کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں عوام کے ردعمل کو روکنا ممکن نہ رہتا۔ فوٹو رانا تنویر

ملک میں تیزی سے سیاسی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔حکومت کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ اس بحران سے کیسے نکلے کیونکہ دھرنے میں کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوسکتا ہے۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس سارے میں اپنا موقف واضح کریں۔آخر کار بدھ کو اپوزیشن جماعتوں نے اس صورتحال پر اپنا مشترکہ موقف پیش کردیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ رائیونڈ جاتی عمرہ میں ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال پر غور کے بعد 10 نکاتی مشترکہ اعلامیے جاری کیا گیا ہے۔ ان جماعتوں نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت بلاتاخیر عام انتخابات کے جامع اور دوٹوک شیڈول کا اعلان کرے جس میں نگران حکومتوں کے قیام اور انتخابات کی تاریخوں کا واضح تعین کیا گیا ہو، اجلاس میں اس عہد کی تجدید کی گئی کہ کسی بھی ایسے غیر آئینی اقدام کو سختی سے مسترد کر دیا جائے گا جو عوامی رائے کا راستہ روکے اور عوام کے حق حکمرانی پر آنچ آئے، آئین اور جمہوریت پر حملہ آور ہونے والی قوتوں کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔

مشترکہ اعلامیے میں الیکشن کمیشن پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے مقاصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا اور ایسی کوششیں قابل تشویش ہیں، انتخابی اصلاحات کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی ضابطہ اخلاق کمیٹی کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ تمام شرکا نے اس امر پر اتفاق کیا کہ جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کو اس اعتبار سے مثالی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے شرکاء پرامن رہے۔


لاہور سے اسلام آباد کا سفر اور پھر وہاں چار روز تک ہزاروں لوگوں کا دھرنا انتہائی پرامن رہا' کسی قسم کی توڑ پھوڑ یا آتش زنی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا' یہ نظم و ضبط دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک نظیر ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں۔ ملک میں جلسہ کرنا' جلوس نکالنا اور تقریر کرنا' ہر شخص کا جمہوری حق ہے۔ ڈکٹر طاہر القادری نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا' یہ ان کا جمہوری حق ہے اور انھوں نے اپنے اس حق کا استعمال کیا ' ادھر حکومت کی جانب سے جس صبروتحمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے' وہ بھی اچھا طرز عمل ہے۔

پنجاب میں بھی حکومت نے مارچ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔اسلام میں بھی حکومت نے کوئی مداخلت نہیں کی لیکن بدھ کی رات میڈیا پر ایسی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں کہ حکومت نے دھرنے کو ختم کرانے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے' اس کے فوراً بعد ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس قسم کے آپریشن کی سخت مخالفت کا اعلان کردیا ۔ اسی دوران صدر مملکت آصف علی زرداری نے میڈیا پر آنے والی ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ دھرنے کے شرکاء پر کسی قسم کا آپریشن نہیں ہو گا۔ حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے' ممکن ہے کہ حکومت میں شامل بعض افراد آپریشن کے حق میں ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو حالات انتہائی خراب ہونے کا خطرہ تھا۔

دھرنے میں خواتین' بچے اور بوڑھے افراد بھی شریک ہیں' اگر آپریشن کے نتیجے میں چند جانیں چلی جائیں تو پھر عوام کے ردعمل کو روکنا ممکن نہ رہتا ۔ کوئٹہ اور پھر پشاور میں میتوں کے ہمراہ جو دھرنے دیے گئے' وہ سب کے سامنے ہے' ادھر جہاں تک اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ کا تعلق تو یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت پر متفق ہیں اور ان کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ جمہوریت پر حملہ آور ہونے والی قوتوں کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ جہاں تک عام انتخابات کے جامع شیڈول جاری کرنے اور نگران حکومت کے قیام کی بات ہے کہ اس میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔ موجودہ جمہوری سیٹ اپ تقریباً اپنی آئینی مدت پوری کر چکا ہے۔ مئی میں عام انتخابات کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اب معاملہ نگران حکومتوں کے قیام ہے ، اس معاملے کو حل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس سے ملک میں سیاسی ابہام ختم ہوجائے گا۔ وفاقی حکومت نے تحریک منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈال کر بھی اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی ٹیم کے مذاکرات کرکے مثبت رویے کامظاہرہ کیا، سیاسی قوتوں کو سیاسی معاملات ایسے ہی انداز سے حل کرنے چاہئیں۔ حالات کو بند گلی میں دھکیلنا دانشمندی نہیں ہوتی۔ ملک میں گزشتہ تین چار روز سے جو سرگرمیاں ہو رہی ہیں' انھیں زیادہ سنگین بنانے سے روکنا ہی سب سے بہتر طرز عمل ہے' ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا اور جمہوری سفر جاری و ساری رہے گا۔
Load Next Story