کلبھوشن کی سزائے موت اور حافظ سعید کی نظر بندی  

پاکستان کی اکثریت نے حافظ سعید کی نظر بندی کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

کلبھوشن پر شور کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ یہ تو طے تھا کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر بھارت شور مچائے گا۔ شاید خبر اسی لیے جاری کی گئی کہ بھارت شور مچائے اور بھارت کی چیخیں سنی جا سکیں۔اگر یہی مقصد تھا تو کامیاب رہا۔ بھارت نے پاکستان کے ڈیزائن کے عین مطابق شور مچایا اور خوب واویلا کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا بھارت خاموش رہ سکتا تھا۔ ویسے تو ابھی تک کلبھوشن کے معاملہ پر بھارت نے نیم خاموشی ہی رکھی تھی۔

پاکستان نے اس معاملہ کو جس قدر نمایاں کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے جواب میں بھارت نے نہ صرف رویہ محتاط رکھا بلکہ ایک حد سے زیادہ شور بھی نہیں مچایا۔ لیکن اب سزائے موت کے اعلان نے بھارت کی نیم خاموشی اور محتاط رویہ سب کو ختم کر دیا ہے۔ اگر ہم یہی چاہتے تھے تو کامیاب رہے۔ دوسری طرف کلبھوشن سے رابطوں پر حکومت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کلبھوشن کے پاکستان میں نیٹ ورک کی یہ پہلی باضابطہ گرفتاری ہے۔

اس حوالے سے مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے پر آپ کلبھوشن کو تو سزائے موت دے دیں لیکن پاکستان میں اس حوالہ سے نہ تو کسی کو گرفتار کیا جائے اور نہ ہی کسی کو سزا دی جائے۔ کلبھوشن کی سزائے موت کو انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمیں پاکستان میں کلبھوشن کے نیٹ ورک کو بھی اسی قسم کی سزائیں دینا ہونگی۔ صرف کلبھوشن کی سزا کو نہ صرف دنیا قبول نہیں کرے گی بلکہ اس کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے گا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حالیہ ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے بعد بھی بھارت کو ایک مضبوط پیغام دینا ضروری تھا۔ کلبھوشن کی سزائے موت کے اعلان کو نیپال سے آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ کرنل حبیب کے اغوا سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لیے ریٹائرڈ کرنل حبیب کو نیپال سے اغوا کیاگیا ہے تا کہ کلبھوشن کی رہائی کے لیے ڈیل کی جا سکے، اسی لیے اس افسر کی گرفتاری ظاہر بھی نہیں کی جا رہی۔ جب کہ پاکستان نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے کلبھوشن کی سزائے موت کی خبر صرف اس لیے ظاہر کی ہے کہ پاکستان کلبھوشن کے معاملہ پر کسی قسم کی کوئی بھی ڈیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایک طرف تو ہم بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری طرف ہم نے حافظ سعید کو کس کو خوش کرنے کے لیے نظر بند رکھا ہوا ہے۔ کم از کم کلبھوشن کی پھانسی سے یہ تاثر تو ختم ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں حافظ سعید نظر بند رہیں یا نہ رہیں بھارت کے لیے یہ کوئی اہم بات نہیں۔ اب ان کے لیے اہم بات کلبھوشن کی سزائے موت ختم کروانا ہے۔


ایسے میں حافظ سعید کی نظر بندی کا نہ تو کوئی قانونی جواز ہے اور نہ ہی کسی سفارتی حکمت عملی کا حصہ نظرآرہی ہے۔ یہ ایک بے مقصد عمل کے علاوہ کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا۔ حکومت نے حافظ سعید کے خلاف ابھی تک کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا۔ انھوں نے پاکستان کے کسی بھی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ وہ پاکستان کی نہ تو کسی عدالت اور نہ ہی کسی ایجنسی کو کسی جرم میں مطلوب ہیں، وہ پاکستان کے ایک امن پسند اور قانون پسند شہری ہیں۔ کیا ہم بھارت کے پراپیگنڈہ اور الزمات کے اثر میں حافظ سعید کو قید رکھ سکتے ہیں۔

آجکل سروے کا زمانہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے سروے کا سہارا لیتی ہیں۔ اور پھر اس سروے کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اسی رسم کو آگے بڑھاتے ہوئے میں بھی گیلپ کا ایک سروے عوام کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔گیلپ کے تازہ سروے میں عوام سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا وہ حافظ سعید کی نظر بندی کو درست سمجھتے ہیں۔ 57 فیصد پاکستانیوں نے اس سروے میں برملا کہا ہے کہ وہ حافظ سعید کی نظر بندی کو غلط سمجھتے ہیں۔

پاکستان کی اکثریت نے حافظ سعید کی نظر بندی کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ حافظ سعید کی نظر بندی کے وقت یہ تاثر بھی دیا گیا کہ امریکا کی جانب سے حافظ سعید کے خلاف کارروائی کا دباؤ ہے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکا یہ دباؤ بھارت کی وجہ سے ڈال رہا ہے۔ اور پاکستان نے ٹرمپ سے نہ الجھنے کے لیے بلکہ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے حافظ سعید کو نظر بند کر دیا ہے۔ یہ منطق اور دلیل بھی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ امریکا نے بھی حافظ سعید کی گرفتاری کو بے وزن ہی سمجھا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حافظ سعید کی نظر بندی ایک گناہ بے لذت ثابت ہوئی ہے۔ اب جب کہ ہم نے کلبھوشن کو سزائے موت دے کر بھارت کے ساتھ وقتی طور پر مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں تو حافظ سعید کو بھی نظر بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ اب تو بھارت اس نظر بندی کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ہم نے بھارت کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ حافظ سعید کو سزا نہیں دی جا رہی اور کلبھوشن کو سزا دے دی گئی ہے۔ حافظ سعید کی مزید نظر بندی پاکستان کے نہیں بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس سے بھارت کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا۔

اگر ہم کلبھو شن کے معاملہ پر کرنل حبیب کے عوض کوئی ڈیل نہیں کرنا چاہتے تو کلبھوشن کے عوض حافظ سعید پر کسی ڈیل کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس ضمن میں گیلپ کا سروے پاکستانیوں کی رائے جاننے کے لیے بھی کافی ہے۔جہاں تک سفارتکاری کا تعلق ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ حافظ سعید کی مزید نظر بندی سفارتی محاذ پر فائدہ دینے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے حافظ سعید کے معاملہ کو کلبھوشن سے الگ رکھنا ہے ، اس کو جوڑنا بھارت کا مفاد ہے پاکستان کا نہیں۔
Load Next Story