مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کا نیا مؤقف
امریکا کے متعلقہ حکام سفارتی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔
QUETTA:
امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کو مجموعہ اضداد کہا جاتا ہے، وہ جہاں شام پر حملے کی تیاری کررہے ہیں، وہیں انھیں اس بات کا خیال بھی آرہا ہے کہ 70سالوں سے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی بھی بامعنی سعی کریں۔ ہم نے بامعنی سعی اس لیے کہا ہے کہ 70 سالوں سے امریکا کے صدور نے ہمیشہ بے معنی سعی ہی کی ہے۔
کشمیر کے حوالے سے ہر امریکی حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کو دونوں متعلقہ ملک بھارت اور پاکستان ہی حل کرسکتے ہیں۔ امریکا انھیں اس مسئلے کو حل کرنے کا مشورہ مفت دے سکتا ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اس امریکی پالیسی کو ہم غیر اصولی بلکہ شرمناک اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ امریکا ایک سپر طاقت ہے اور بزعم خود دنیا کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری بھی لیتا ہے لیکن امریکا اس مشن میں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکا کہ وہ اس حوالے سے نہ کبھی غیر جانب دار رہا نہ اصولوں کی سیاست پر عمل پیرا رہا۔ بلکہ اس کی جانبداری کا عالم یہ ہے کہ اگر فلسطینی کسی ایک اسرائیلی پر حملہ کرتے ہیں تو وہ فوری مذمتی بیان کے ساتھ اسرائیل کی مکمل حمایت پر تیار ہوجاتا ہے۔ جب کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر وحشیانہ حملے کرکے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے تو اس کی زبان سے ایک مذمتی بیان تک نہیں نکلتا بلکہ اگر کوئی ملک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد پیش کرتا ہے تو امریکا فوری اس کی مخالفت کرتا ہے اور ویٹو تک استعمال کرتا ہے۔ فلسطین میں اب تک لاکھوں فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار ہوچکے ہیں لیکن کسی امریکی حکمران نے کبھی اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ کوشش نہیں کی۔
بہ ایں ہمہ اگر امریکی صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں سنجیدہ ہیں تو اس کی حمایت ہی کی جاسکتی ہے۔ میڈیائی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ دونوں ملکوں کے درمیان عرصے سے معطل مذاکرات کی بحالی کی کوشش کریںگے۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ آیندہ ہفتوں میں امریکا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ آیندہ چند دنوں میں پہلے مرحلے کے طور پر اہم سفارتی حکام ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے سفارتی خود رابطے کریںگے۔
باخبر ذرائع کے مطابق امریکا کے متعلقہ حکام سفارتی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اقوام متحدہ بھی اس حوالے سے متحرک ہوگئی ہے، کہا جارہا ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں امریکا فرنٹ لائن کا کردار ادا کرے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے صدر ٹرمپ جلد دونوں ملکوں کی حکومتوں سے رابطے کریںگے۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی بحالی پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو پہلے سیکریٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے گا اگر یہ ڈول ڈھول نہیں بنتا بلکہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی سطح پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔ لیکن 70 سالہ مذاکراتی تجربات کے بعد اس کوشش کو ''باپ مرا تو بیل کٹے گا''ہی کہا جائے گا۔
امریکا کی اس نئی کوششوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکا اس بار ثالثی کے فرائض بھی انجام دے گا لیکن ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان آگیا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔
اصل مسئلہ مذاکرات کی بحالی نہیں ہے کیونکہ بارہا مذاکرات بحال ہوتے رہے ہیں اور ملتوی یا منسوخ ہوتے رہے ہیں۔ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کے مستقبل ناشناس حکمرانوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ مذاکرات کے ایجنڈے کا پہلا اور آخری آئٹم ''مسئلہ کشمیر'' ہوگا اور بھارت کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا احمقانہ حربہ استعمال نہیں کرے گا امریکی صدر اگر مذاکرات کو بامقصد بنانے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے انھیں بھارت کے ساتھ جڑے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔
امریکا نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری نہیں بلکہ تیاری کے ارادے پر ہی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں اور ایران کی طرف سے ایٹمی پروگرام سے دست برداری کے باوجود ایران پر اقتصادی پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکا اگر اس حوالے سے سنجیدہ اور نیک نیت ہے تو فوری طور پر اسے بھارت سے کیے ہوئے فوجی معاہدے سے دست برداری کا اعلان کرنا چاہیے اگر ٹرمپ میں ہمت ہے اور برصغیر کا امن انھیں عزیز ہے تو بے معنی بے مقصد مذاکرات کی بحالی کی رسمی کوششوں کے بجائے بھارت کے حکمرانوں کو سنجیدگی سے یہ باور کرانا ہوگا کہ اگر بھارت کشمیر پر پاکستان سے بامقصد مذاکرات نہیں کرتا تو امریکا بھارت سے کیا ہوا فوجی معاہدہ پہلے اقدام کے طور پر ختم کردے گا اگر اس پر بھی بھارت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو بھارت سے کیا ہوا سول جوہری معاہدہ ختم کیا جائے گا۔
یہ گولیاں بہت کڑوی ہیں لیکن اگر ٹرمپ جنوبی ایشیا میں امن اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام چاہتے ہیں تو یہ گولیاں انھیں بھی نگلنی پڑے گی اور بھارت کو بھی نگلوانی پڑے گی۔ اگر ٹرمپ یہ مہم پروپیگنڈے کے طور پر چلارہے ہیں اور اس سے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں تو اس مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کو مجموعہ اضداد کہا جاتا ہے، وہ جہاں شام پر حملے کی تیاری کررہے ہیں، وہیں انھیں اس بات کا خیال بھی آرہا ہے کہ 70سالوں سے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی بھی بامعنی سعی کریں۔ ہم نے بامعنی سعی اس لیے کہا ہے کہ 70 سالوں سے امریکا کے صدور نے ہمیشہ بے معنی سعی ہی کی ہے۔
کشمیر کے حوالے سے ہر امریکی حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کو دونوں متعلقہ ملک بھارت اور پاکستان ہی حل کرسکتے ہیں۔ امریکا انھیں اس مسئلے کو حل کرنے کا مشورہ مفت دے سکتا ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اس امریکی پالیسی کو ہم غیر اصولی بلکہ شرمناک اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ امریکا ایک سپر طاقت ہے اور بزعم خود دنیا کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری بھی لیتا ہے لیکن امریکا اس مشن میں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکا کہ وہ اس حوالے سے نہ کبھی غیر جانب دار رہا نہ اصولوں کی سیاست پر عمل پیرا رہا۔ بلکہ اس کی جانبداری کا عالم یہ ہے کہ اگر فلسطینی کسی ایک اسرائیلی پر حملہ کرتے ہیں تو وہ فوری مذمتی بیان کے ساتھ اسرائیل کی مکمل حمایت پر تیار ہوجاتا ہے۔ جب کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر وحشیانہ حملے کرکے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے تو اس کی زبان سے ایک مذمتی بیان تک نہیں نکلتا بلکہ اگر کوئی ملک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد پیش کرتا ہے تو امریکا فوری اس کی مخالفت کرتا ہے اور ویٹو تک استعمال کرتا ہے۔ فلسطین میں اب تک لاکھوں فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار ہوچکے ہیں لیکن کسی امریکی حکمران نے کبھی اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ کوشش نہیں کی۔
بہ ایں ہمہ اگر امریکی صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں سنجیدہ ہیں تو اس کی حمایت ہی کی جاسکتی ہے۔ میڈیائی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ دونوں ملکوں کے درمیان عرصے سے معطل مذاکرات کی بحالی کی کوشش کریںگے۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ آیندہ ہفتوں میں امریکا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ آیندہ چند دنوں میں پہلے مرحلے کے طور پر اہم سفارتی حکام ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے سفارتی خود رابطے کریںگے۔
باخبر ذرائع کے مطابق امریکا کے متعلقہ حکام سفارتی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اقوام متحدہ بھی اس حوالے سے متحرک ہوگئی ہے، کہا جارہا ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں امریکا فرنٹ لائن کا کردار ادا کرے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے صدر ٹرمپ جلد دونوں ملکوں کی حکومتوں سے رابطے کریںگے۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی بحالی پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو پہلے سیکریٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے گا اگر یہ ڈول ڈھول نہیں بنتا بلکہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی سطح پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔ لیکن 70 سالہ مذاکراتی تجربات کے بعد اس کوشش کو ''باپ مرا تو بیل کٹے گا''ہی کہا جائے گا۔
امریکا کی اس نئی کوششوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکا اس بار ثالثی کے فرائض بھی انجام دے گا لیکن ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان آگیا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔
اصل مسئلہ مذاکرات کی بحالی نہیں ہے کیونکہ بارہا مذاکرات بحال ہوتے رہے ہیں اور ملتوی یا منسوخ ہوتے رہے ہیں۔ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کے مستقبل ناشناس حکمرانوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ مذاکرات کے ایجنڈے کا پہلا اور آخری آئٹم ''مسئلہ کشمیر'' ہوگا اور بھارت کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا احمقانہ حربہ استعمال نہیں کرے گا امریکی صدر اگر مذاکرات کو بامقصد بنانے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے انھیں بھارت کے ساتھ جڑے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔
امریکا نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری نہیں بلکہ تیاری کے ارادے پر ہی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں اور ایران کی طرف سے ایٹمی پروگرام سے دست برداری کے باوجود ایران پر اقتصادی پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکا اگر اس حوالے سے سنجیدہ اور نیک نیت ہے تو فوری طور پر اسے بھارت سے کیے ہوئے فوجی معاہدے سے دست برداری کا اعلان کرنا چاہیے اگر ٹرمپ میں ہمت ہے اور برصغیر کا امن انھیں عزیز ہے تو بے معنی بے مقصد مذاکرات کی بحالی کی رسمی کوششوں کے بجائے بھارت کے حکمرانوں کو سنجیدگی سے یہ باور کرانا ہوگا کہ اگر بھارت کشمیر پر پاکستان سے بامقصد مذاکرات نہیں کرتا تو امریکا بھارت سے کیا ہوا فوجی معاہدہ پہلے اقدام کے طور پر ختم کردے گا اگر اس پر بھی بھارت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو بھارت سے کیا ہوا سول جوہری معاہدہ ختم کیا جائے گا۔
یہ گولیاں بہت کڑوی ہیں لیکن اگر ٹرمپ جنوبی ایشیا میں امن اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام چاہتے ہیں تو یہ گولیاں انھیں بھی نگلنی پڑے گی اور بھارت کو بھی نگلوانی پڑے گی۔ اگر ٹرمپ یہ مہم پروپیگنڈے کے طور پر چلارہے ہیں اور اس سے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں تو اس مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔