کراچی کی بے گھر عوام کی فریاد
ایک کمرے کے گھر میں رہائش پذیر شہریوں کی حالت زار۔
کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی نے جن بے شمار مسائل کو جنم دیا ان میں رہائش کا مسئلہ بھی انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔
شہریوں کی اس پریشانی سے غیرقانونی امداد باہمی کی انجمنوں، بلڈرز مافیا اور نام نہاد جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور جعلی یا پھر ناقص رہائشی منصوبوں کے ذریعے معصوم عوام کے اربوں روپے ہضم کیے گئے۔
دوسری طرف ذرایع کے مطابق 30 فی صد لوگ شہر کی تنگ تاریک گلیوں میں 40 گز پر تعمیر کیے گئے ایک کمرے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جہاں سونے، کھانے، نہانے، ٹی وی دیکھنے اور سلائی کرنے جیسے دیگر کام بھی ہوتے ہیں، مگر چارپائی رکھنے کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ان آبادیوں کے رہائشی دوسرا کمرہ تعمیر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اسی ایک کمرے میں ساس، سسر، بیٹے، بیٹیاں، بہو اور ان کے بچے رہتے ہیں۔ جب کہ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ افراد کے رہنے کی وجہ سے یہ لوگ وبائی امراض کا شکار ہیں۔ یہ غریب شہری اپنے بچوں کو احساس محرومی سے نکالنے کے لیے استطاعت سے بڑھ کر سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی مختلف آبادیوں میں ایک کمرے کے 65 ہزار سے زاید گھروں کے علاوہ بے شمار ایسے گھر بھی ہیں، جنھیں کئی حصوں میں تقسیم کرکے کرائے پر دے دیا گیا ہے۔ 80 گز کے رقبے کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرکے دونوں یا تینوں حصوں کا مشترکہ بیت الخلا بنادیا جاتا ہے۔
اگر 80 گز کے گھر میں تین خاندان رہائش پذیر ہیں تو باورچی خانے اور غسل خانے سمیت ڈیڑھ کمرے کی جگہ حصے میں آتی ہے۔ ایک حصے کا کرایہ کم از کم اٹھارہ سو روپے سے تین ہزار کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ رہائشی سہولتوں کے فقدان کے باعث 80 گز کے رقبے میں قائم کم از کم 20 سے 25 افراد انتہائی مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان حالات میں انسان کیسی زندگی بسر کرتے ہیں اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
نیو کراچی ٹاؤن میں راجپوت کالونی، بسم اﷲ کالونی، المصطفیٰ کالونی، نیو کراچی سیکٹر 5-D،5-E،11-5،F-5 وغیرہ میں ایک کمرے کے گھر کا کرایہ پانچ سے چھے ہزار روپے کے درمیان وصول کیا جاتا ہے جب کہ ایڈوانس 10 سے 15 ہزار جمع کرانے ہوتے ہیں۔ یہاں کی مقامی فلاحی و سماجی تنظیم '' بے گھر ویلفیئر سوسائٹی'' کے اراکین کے مطابق یہاں کی مختلف کالونیوں سمیت کچی آبادیوں میں ایک کمرے کے تقریباً 3 ہزار مکانات ہیں۔ ان میں زیادہ تر رہائشی ذاتی مکان کے مالک ہیں۔
شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے لوگ دور دراز جگہوں پر رہائش اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ ڈالمیا، مغل ٹاؤن، ضیاالحق کالونی، خدا کی بستی، عظیم گوٹھ، بھکر گوٹھ، صفورا گوٹھ، پہلوان گوٹھ، شاہ بھٹائی کالونی، سکندر گوٹھ اور چشتی نگر سمیت شہر میں 94 مقامات پر تین ہزار سے زاید ایک کمرے کے مکانات ہیں جب کہ ٹاؤن کی سطح پر درجنوں مساجد کی ملکیت میں ایک کمرے کے سیکڑوں کوارٹر ہیں جن میں ہزاروں غیر شادی شدہ افراد مقیم ہیں، یہ کوارٹر مساجد کی آمدنی کا بہترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔
بلاشبہ بنیادی سہولتوں سے محروم ایک کمرے کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکین اعصاب شکن زندگی گزارتے ہیں، معاشی مسائل سے نکلنے کی ہزار کوششوں کے باوجود بھی مسلسل ناکامی انھیں ذہنی اور نفسیاتی مریض بنادیتی ہے۔ محدود رقبے اور کم جگہ پر زیادہ افراد کے رہنے سے تہذیب و اخلاقیات کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ جب کہ ملک کی زمین پر حق سب کا برابر کا ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ بے گھر خاندانوں کے لیے سستی زمین فراہم کریں اور ہر خاندان کو اس قیمت پر جس کی وہ استطاعت رکھتا ہو گھر بنانے کے لیے زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت دے۔
حکومتی پالیسی تو یہ ہونی چاہیے کہ کہ جو خاندان اتنے غریب ہیں کہ وہ ایک چھوٹا سا گھر بنانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے ان کو حکومت کی جانب سے گھر بناکر دیے جائیں۔ مقامی سماجی راہ نماؤں کی یہ تجویز بھی ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے گھر بناکر دیے جاتے ہیں تو وہ عوام کے پیسے سے ہی بنائے جائیں لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ان کی تعمیر میں کسی قسم کی بدعنوانی نہ ہو اور وہ صرف انہی خاندانوں کو دیے جائیں جو واقعی اس امداد کے مستحق ہوں۔ خدا کی بستی جیسی اسکیم غریبوں کے لیے نعمت ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ اس طرح کی اور اسکیمیں شروع کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بے گھر خاندانوں کو گھر مل سکے۔
یہ بات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا بے گھر لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے اور حکومتیں اس کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت ایسا نہیں تھا۔ اس دور میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بے گھر لوگوں کو انتہائی کم قیمت پر مکان بنانے کے لیے پلاٹ مہیا کیے گئے۔
دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ محترمہ شہید کے دور حکومت سے قبل کی عبوری حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹریکچرل ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کرچکی تھی جس کے تحت حکومت صرف مارکیٹ کی قیمتوں پر گھر بنانے کے لیے زمین دے سکتی تھی جب کہ محترمہ شہید کی حکومت میں ایک عبوری اور درمیانہ راستہ یہ نکالا گیا کہ پہلے قائم کچی بستیوں کو انتہائی معمولی قیمت پر لیز دی گئی اور گوٹھ آباد اسکیم کے تحت اجتماعی استعمال کے لیے ایک روپے گز کے نرخ پر زمین فراہم کی گئی جو حکومت کا خوش آیند اقدام تھا۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی حکومت اور دیگر ادارے ایک ہاؤسنگ پروگرام شروع کریں۔ اس طرح یقینا ہم اپنے ملکی اور مقامی وسائل کے اندر رہتے ہوئے روز بہ روز بڑھتے ہوئے اس گمبھیر ہوتے بے گھر اور کم آمدنی والوں کے رہائشی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
شہریوں کی اس پریشانی سے غیرقانونی امداد باہمی کی انجمنوں، بلڈرز مافیا اور نام نہاد جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور جعلی یا پھر ناقص رہائشی منصوبوں کے ذریعے معصوم عوام کے اربوں روپے ہضم کیے گئے۔
دوسری طرف ذرایع کے مطابق 30 فی صد لوگ شہر کی تنگ تاریک گلیوں میں 40 گز پر تعمیر کیے گئے ایک کمرے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جہاں سونے، کھانے، نہانے، ٹی وی دیکھنے اور سلائی کرنے جیسے دیگر کام بھی ہوتے ہیں، مگر چارپائی رکھنے کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ان آبادیوں کے رہائشی دوسرا کمرہ تعمیر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اسی ایک کمرے میں ساس، سسر، بیٹے، بیٹیاں، بہو اور ان کے بچے رہتے ہیں۔ جب کہ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ افراد کے رہنے کی وجہ سے یہ لوگ وبائی امراض کا شکار ہیں۔ یہ غریب شہری اپنے بچوں کو احساس محرومی سے نکالنے کے لیے استطاعت سے بڑھ کر سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی مختلف آبادیوں میں ایک کمرے کے 65 ہزار سے زاید گھروں کے علاوہ بے شمار ایسے گھر بھی ہیں، جنھیں کئی حصوں میں تقسیم کرکے کرائے پر دے دیا گیا ہے۔ 80 گز کے رقبے کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرکے دونوں یا تینوں حصوں کا مشترکہ بیت الخلا بنادیا جاتا ہے۔
اگر 80 گز کے گھر میں تین خاندان رہائش پذیر ہیں تو باورچی خانے اور غسل خانے سمیت ڈیڑھ کمرے کی جگہ حصے میں آتی ہے۔ ایک حصے کا کرایہ کم از کم اٹھارہ سو روپے سے تین ہزار کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ رہائشی سہولتوں کے فقدان کے باعث 80 گز کے رقبے میں قائم کم از کم 20 سے 25 افراد انتہائی مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان حالات میں انسان کیسی زندگی بسر کرتے ہیں اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
نیو کراچی ٹاؤن میں راجپوت کالونی، بسم اﷲ کالونی، المصطفیٰ کالونی، نیو کراچی سیکٹر 5-D،5-E،11-5،F-5 وغیرہ میں ایک کمرے کے گھر کا کرایہ پانچ سے چھے ہزار روپے کے درمیان وصول کیا جاتا ہے جب کہ ایڈوانس 10 سے 15 ہزار جمع کرانے ہوتے ہیں۔ یہاں کی مقامی فلاحی و سماجی تنظیم '' بے گھر ویلفیئر سوسائٹی'' کے اراکین کے مطابق یہاں کی مختلف کالونیوں سمیت کچی آبادیوں میں ایک کمرے کے تقریباً 3 ہزار مکانات ہیں۔ ان میں زیادہ تر رہائشی ذاتی مکان کے مالک ہیں۔
شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے لوگ دور دراز جگہوں پر رہائش اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ ڈالمیا، مغل ٹاؤن، ضیاالحق کالونی، خدا کی بستی، عظیم گوٹھ، بھکر گوٹھ، صفورا گوٹھ، پہلوان گوٹھ، شاہ بھٹائی کالونی، سکندر گوٹھ اور چشتی نگر سمیت شہر میں 94 مقامات پر تین ہزار سے زاید ایک کمرے کے مکانات ہیں جب کہ ٹاؤن کی سطح پر درجنوں مساجد کی ملکیت میں ایک کمرے کے سیکڑوں کوارٹر ہیں جن میں ہزاروں غیر شادی شدہ افراد مقیم ہیں، یہ کوارٹر مساجد کی آمدنی کا بہترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔
بلاشبہ بنیادی سہولتوں سے محروم ایک کمرے کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکین اعصاب شکن زندگی گزارتے ہیں، معاشی مسائل سے نکلنے کی ہزار کوششوں کے باوجود بھی مسلسل ناکامی انھیں ذہنی اور نفسیاتی مریض بنادیتی ہے۔ محدود رقبے اور کم جگہ پر زیادہ افراد کے رہنے سے تہذیب و اخلاقیات کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ جب کہ ملک کی زمین پر حق سب کا برابر کا ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ بے گھر خاندانوں کے لیے سستی زمین فراہم کریں اور ہر خاندان کو اس قیمت پر جس کی وہ استطاعت رکھتا ہو گھر بنانے کے لیے زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت دے۔
حکومتی پالیسی تو یہ ہونی چاہیے کہ کہ جو خاندان اتنے غریب ہیں کہ وہ ایک چھوٹا سا گھر بنانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے ان کو حکومت کی جانب سے گھر بناکر دیے جائیں۔ مقامی سماجی راہ نماؤں کی یہ تجویز بھی ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے گھر بناکر دیے جاتے ہیں تو وہ عوام کے پیسے سے ہی بنائے جائیں لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ان کی تعمیر میں کسی قسم کی بدعنوانی نہ ہو اور وہ صرف انہی خاندانوں کو دیے جائیں جو واقعی اس امداد کے مستحق ہوں۔ خدا کی بستی جیسی اسکیم غریبوں کے لیے نعمت ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ اس طرح کی اور اسکیمیں شروع کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بے گھر خاندانوں کو گھر مل سکے۔
یہ بات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا بے گھر لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے اور حکومتیں اس کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت ایسا نہیں تھا۔ اس دور میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بے گھر لوگوں کو انتہائی کم قیمت پر مکان بنانے کے لیے پلاٹ مہیا کیے گئے۔
دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ محترمہ شہید کے دور حکومت سے قبل کی عبوری حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹریکچرل ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کرچکی تھی جس کے تحت حکومت صرف مارکیٹ کی قیمتوں پر گھر بنانے کے لیے زمین دے سکتی تھی جب کہ محترمہ شہید کی حکومت میں ایک عبوری اور درمیانہ راستہ یہ نکالا گیا کہ پہلے قائم کچی بستیوں کو انتہائی معمولی قیمت پر لیز دی گئی اور گوٹھ آباد اسکیم کے تحت اجتماعی استعمال کے لیے ایک روپے گز کے نرخ پر زمین فراہم کی گئی جو حکومت کا خوش آیند اقدام تھا۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی حکومت اور دیگر ادارے ایک ہاؤسنگ پروگرام شروع کریں۔ اس طرح یقینا ہم اپنے ملکی اور مقامی وسائل کے اندر رہتے ہوئے روز بہ روز بڑھتے ہوئے اس گمبھیر ہوتے بے گھر اور کم آمدنی والوں کے رہائشی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔