الزامات نہیں کارکردگی ضروری

عوام کو پتا ہے کہ سب سے زیادہ کماکر دینے والے شہر کے ساتھ نا انصافی ہی نہیں زیادتی ہورہی ہے

پاکستانی قوم جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے بعد 1988 سے اب تک 29 سالوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی تین تین وفاقی حکومتوں کے علاوہ جنرل پرویز کی اپنی تین سال کی حکومت اور بعد میں ان کی سربراہی میںقائم سیاسی حکومت پانچ سال تک دیکھتی آئی ہے۔

جنرل پرویز کی صدارت میں مسلم لیگ ق نے بھی اپنے 5 سال مکمل کیے تھے اور تین وزیراعظم دیکھے تھے، صدر آصف زرداری کی پیپلزپارٹی کی حکومت میں قوم نے دو وزیراعظم 5 سال اقتدار میں دیکھے اور اب جون 2013سے اب تک وزیراعظم نواز شریف کو دیکھ رہی ہے جو جلد اپنے مسلسل اقتدار کے چار سال مکمل کرنے والے ہیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی تین تین حکومتیں مکمل سیاسی قرار پاتی ہیں اور خود کو جمہوری بھی قرار دیتی ہیں۔ جب کہ 2002 سے 2007 تک پانچ سال پورے کرنے والی مسلم لیگ ق بھی اپنی حکومت کو جمہوری قرار دیتی تھی جس کے سربراہ پہلے جنرل پرویز اور پھر صدر پرویز مشرف کے مکمل صدارتی اختیارات کے ساتھ سایا فگن رہے۔ قوم نے جنرل پرویز جیسی سیاسی حکومت جنرل ضیا الحق کے دور میں دیکھی تھی جس کے وزیراعظم مسلم لیگ میں اچھی شہرت رکھنے والے محمد خان جونیجو تھے۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں پہلے مکمل فوجی اور بعد میں سیاسی رہنماؤں کی سربراہی میں قائم سیاسی حکومتوں میں دونوں جنرلوںپر آمریت کے الزامات ضرور لگے مگر کرپشن کے اتنے سنگین الزامات نہیں لگے جتنے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں پر لگے جب کہ اب تک کسی فوجی حکومت میں کسی بھی سابق فوجی حکومت پر الزامات نہیں لگائے گئے۔

بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں جنرل ضیا الحق کے متعلق تحقیقات بھی کرائی گئی مگر کچھ نہیں ملا۔ پیپلز پارٹی کی سابق اور مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومتیں اپنے اقتدار کے نو سالوں میں جنرل پرویز پر کوئی کرپشن ثابت کرنا تو کیا کسی بھی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا سکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومتیں مسلم لیگ ق پر الزامات ضرور لگاتی آرہی ہیں مگر جنرل پرویز دور کے وزرائے اعظم ظفر اﷲ جمالی اور شوکت عزیز پر بھی کرپشن کا الزام کسی نے نہیں لگایا اور جنرل ضیا دور کے وزیراعظم محمد خان جونیجو پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا اور فوجی صدور کے کسی دور میں ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے جب کہ 1988 سے اب تک پیپلزپارٹی کے تین اور مسلم لیگ ن کے تیسری بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر 29 سالوں سے مسلسل کرپشن کے سنگین الزامات لگتے آرہے ہیں اور دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے اور دونوں پارٹیوں کی دو دو سیاسی حکومتیں سویلین صدر غلام اسحاق خان، فاروق احمد لغاری اور فوجی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کرپشن سمیت سنگین الزامات میں برطرف ہوئیں۔ پی پی کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو تو ان کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے ہی برطرف کیا تھا۔

اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سمیت پی پی رہنما وزیراعظم سمیت وفاقی اور پنجاب حکومت پر الزامات پر اتر آئے ہیں تو مسلم لیگ ن کے وزرا اور رہنما آصف زرداری سمیت سندھ حکومت پر جوابی وار کررہے ہیں اور شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں اور سابق صدر زرداری پر بھی برس رہے ہیں اور ماڈل ایان علی کے نام سے پی پی پر الزام تراشی جاری ہے۔


آصف زرداری کے پنجاب میں مورچے کے بعد وزیراعظم نے سندھ کا رخ کیا اور عوام سے کہاکہ وہ پی پی سے اس کی کارکردگی کا پوچھیں۔

عمران خان کو پہلی بار کے پی کے میں جو حکومت ملی اس کی تعریف کرتے ہوئے عمران خان نہیں تھکتے بلکہ اس کی کارکردگی کو پنجاب سے بھی بہتر قرار دیتے ہیں اور ان کی اپوزیشن کے پی کے حکومت کو کرپشن میں ملوث قرار دیتے ہیں اور اب تک بلوچستان میں ن لیگی حکومت پر پی ٹی آئی اور پی پی نے الزام تراشی شروع نہیں کی کیونکہ وہاں سرداروں کی حکومت ہے جن کی وفاداری تبدیل ہوتی رہتی ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کو بھی ان سرداروں کی اپنی سیاست کے لیے ضرورت ہے۔

موجودہ دور کی مسلم لیگ ن کی وفاقی، پنجاب و بلوچستان، پیپلزپارٹی کی سندھ اور تحریک انصاف کی کے پی کے حکومتیں اپنی اپنی بہترین کارکردگی کے دعوے کررہی ہیں۔ اشتہاری مہمیں سرکاری مال پر چل رہی ہیں جن میں مسلم لیگ نمایاں ہے اور عمران خان سرکاری رقم سے شریف برادران کی ذاتی تشہیر پر تنقید کررہے ہیں مگر انھیں پی پی رہنماؤں کی تشہیر نظر نہیں آرہی اور ان کا ٹارگٹ صرف شریف برادران ہیں۔ جن کی طرف سے سرکاری میڈیا پر غلط بلند و بانگ دعوے بھی کیے جارہے ہیں جن میں کچھ درست بھی ہیں۔

اب عوام پہلے سے زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے ملک کے عوام جانتے ہیں کہ لاہور ملک کا خوبصورت شہر کیسے بنا اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ملک بھر میں کچروں کا ڈھیر بنانے والے کون ہیں۔ عوام کو پتا ہے کہ سب سے زیادہ کماکر دینے والے شہر کے ساتھ نا انصافی ہی نہیں زیادتی ہورہی ہے، کراچی والوں کو علم ہے کہ جنرل پرویز کے ضلعی نظام میں دنیا کا 13 واں میگا سٹی قرار دیا جانے اور ترقی کرنے والا کراچی موجودہ بد ترین صورت حال تک کس نے پہنچایا، لاہور، راولپنڈی اور ملتان کی میٹرو بسوں پر تنقید اور جنگلا بس قرار دینے والے میٹرو کی شہرت کے باعث اب پشاور میں بھی میٹروبس کے منصوبے بن رہے ہیں۔ لاہور میٹروبسوں کی مخالفت کے بعد اب سابق وزیراعلیٰ پنجاب پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے رہنما لاہور میں زیر تعمیر اورنج ٹرین پر مسلسل تنقید کررہے ہیں، موٹروے کے مخالفین اب خود بھی موٹروے بنانے کے مطالبے اور اس پر سفر کررہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ 2013کا الیکشن مسلم لیگ ن نے وزیراعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر جیتا تھا۔ پی پی قیادت کو سندھ کے بدتر حالت پر پہنچ جانے کے بعد اپنے عمر رسیدہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا خیال آیا مگر نئے متحرک وزیراعلیٰ کے پاس کارکردگی دکھانے کے لیے فری ہینڈ نہیں اور اہم فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں۔جس کی وجہ سے پہلے جیسی شکایات اب بھی موجود ہیں اور نمایاں تبدیلی نظر نہیں آرہی۔

اب الزام تراشیوں کا نہیں کچھ کر دکھانے کا دور ہے۔ وفاق میں لیگ اور تین صوبوں میں تین بڑی پارٹیوں اور بلوچستان میں مخلوط حکومت ہے جہاں ایک سیاست دان نے گورنری اور اہم عہدے اپنے گھر والوں کو دے رکھے ہیں۔ عمران خان اپنا وزیراعلیٰ تبدیل نہیں کررہے جن سے پی ٹی آئی کی بڑی توقعات تھیں پنجاب کے وزیراعلیٰ اب دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں جن سے پنجاب میں بڑی توقعات وابستہ کی گئی ہیں اور وہ رزلٹ بھی دے رہے ہیں اور الزام تراشیوں کے باوجود پر عزم ہیں اور جانتے ہیں کہ اب قوم کو اپنی کارکردگی سے ہی متاثر کرنا پڑے گا۔ اس لیے اب دوسروں کو بھی کارکردگی کو اپنی ترجیح بنانا ہوگی۔
Load Next Story