رحمت العالمین ﷺ کا غیرمسلموں سے حسن سلوک
غیر مسلم خواہ مہمان، ہمسایہ یا مسلم ریاست کا ایک شہری ہو ہر صورت میں اس سے حسن سلوک کا حکم دیا
سرکار دوعالم نبی پاک ﷺ کی سیرت مبارک تمام عالم کے لیے قابل تقلید اور ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، جس کا ہر ایک مطالعہ کرسکتا اور اس سے راہ نمائی لے سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ''بلاشبہ تمہارے لیے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔
تاج دار مدینہ ﷺ نے جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی بل کہ غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی تعلیم دی اور اس کا خود بھی عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔ پیغمبر انسانیتؐ نے جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی بل کہ غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی بھی تعلیم دی۔ غیر مسلم خواہ مہمان، ہمسایہ یا مسلم ریاست کا ایک شہری ہو ہر صورت میں اس سے حسن سلوک کا حکم دیا اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت اور مسلم معاشرے کی ذمے داری قرار دیا۔
بہ حیثیت انسان غیرمسلم کے احترام کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ حضور پاک ﷺ نے جب ایک یہودی کا جنازہ گزرتے دیکھا تو آپؐ کھڑے ہوگئے۔ امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمی اہل کتاب کو قتل کر دیا، معاملہ رسول خدا ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھ پر ذمی کے عہد کو پورا کرنے کی زیادہ ذمے داری ہے اور مسلمان کا قصاص میں قتل کرنے کا حکم فرمایا۔
جب ہم عہد نبوی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آغاز اسلام میں تین گروہ مسلمانوں کے مدمقابل نظر آتے ہیں، مشرکین عرب، یہودی اور عسیائی۔ نبی پاک ﷺ نے ان تینوں غیرمسلم گروہوں سے جو حسن سلوک فرمایا اور رواداری برتی اس سے اغیار کو بھی انکار نہیں۔ سب سے پہلے مشرکین مکہ کو لیجیے کہ انہوں نے حضور پاک ﷺ اور صحابہ کرامؓؓ کو بہت ستایا یہاں تک کہ ان کا جینا دوبھر کردیا اور وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا، مگر اﷲ نے ان سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا۔ چناں چہ سورہ توبہ میں ارشاد الہیٰ ہے : '' اور اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیے تاکہ وہ اﷲ کا کلام سن سکے پھر اسے بہ حفاظت محفوظ جگہ پر پہنچا دیجیے، یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔''
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ پناہ میں آنے والا مشرک کلام اﷲ سننے اور اسلام کی تبلیغ کے باوجود اسلام قبول نہیں کرتا مگر پھر بھی اسے کسی قسم کی گزند پہنچانے کی اجازت نہیں ہے بل کہ ارشاد ربانی ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں، سیدھی راہ ٹیڑھی راہ سے واضح اور روشن ہوچکی۔ اسی طرح مسلمانوں کو مشرکین کو کوسنے اور برا بھلا کہنے سے بھی منع فرمایا گیا۔ جیسے ارشاد الہیٰ ہے: '' اور تم مت برا کہو ان لوگوں کو جو اﷲ کے ماسوا کو پکارتے ہیں، کہیں وہ اﷲ کو بلا سمجھے زیادتی کرتے ہوئے برا نہ کہنے لگیں۔''
مشرکین مکہ نے سرکار دوعالم ﷺ کو دین حق پیش کرنے کی پاداش میں مکہ سے نکال دیا اور مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا بل کہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے عرب قبائل کا متحدہ محاذ بنالیا اور برسوں مسلمانوں سے جنگ کرتے رہے اور ان کے استحصال کا کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ چناں چہ اسلام نے ان سے جنگ کرنے کا حکم تو دیا لیکن جنگ کی حالت میں بھی ظلم و زیادتی کرنے کی ممانعت کی۔
ارشاد ربانی ہے: '' اور لڑو اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حد سے مت بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' جن لوگوں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں مسجد الحرام کی زیارت سے زبردستی روک دیا تھا ان کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے روکا گیا۔ فرمان الہیٰ ہے: '' اور جن لوگوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا ان کی عداوت تم کو ان کے ساتھ زیادتی کرنے کا سبب نہ بنے۔'' فتح مکہ کے موقعے پر نبی پاک ﷺ کے سامنے وہ لوگ تھے جن کے دامن پر عداوت اسلام کے سیکڑوں دھبے تھے، حضور پاک ﷺ کا ایک ہی اشارہ ان کی گردن زنی کے لیے کافی تھا، لیکن رحمت کائناتؐ کے سیل کرم کی ایک موج ان کی سیاہ کاریوں کو بہا کر لے گئی۔ آپؐ نے فرمایا: '' آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں جاؤ تم آزاد ہو۔''
نبی کریم ﷺ کے اس حسن سلوک کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپؐ کی جان کے دشمن آپؐ پر جان قربان کرنے والے بن گئے۔ ثمامہ بن اثالؓ اس کی واضح مثال ہیں، یہ اسلام کے بدترین دشمن جب گرفتار ہوکر آپؐ کے سامنے پیش ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ ثمامہ نے جواب دیا کہ اگر آپ میرے بارے میں قتل کا حکم دیں تو میں اس کا سزا وار ہوں، اگر بخش دیں تو میں شکر گزار ہوں گا، اگر جرمانہ لینا چاہیں تو رقم کا تعین فرما دیجیے۔ آپؐ نے اسے بغیر سزا کے معاف فرما دیا۔
چناں چہ رہا ہوتے ہی وہ ایک قریبی باغ میں گئے، وہاں غسل کرکے واپس آئے اور آتے ہی مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ میں دنیا میں آپؐ سے زیادہ نفرت کسی سے نہیں کرتا تھا لیکن اب آپؐ سے زیادہ دنیا میں میرا محبوب بھی کوئی نہیں۔ آپؐ کے شہر مدینہ سے مجھے انتہائی نفرت تھی مگر اب یہ دنیا کے ہر مقام سے زیادہ مرغوب ہے۔ آپؐ کا دین میرے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن اب وہی دین میرا مقصد حیات ہے۔ اسی طرح سرکار دوعالم ﷺ کا عکرمہ کے ساتھ قبول اسلام سے قبل کا برتاؤ اور صفوان بن امیہ کے ساتھ حسن سلوک اور ابوسفیان کے ساتھ اخلاق برتری اور اس طرح کی اور کئی رواداری کی مثالیں ہیں جو اس بات کی شاہد ہیں کہ آپؐ کے حسن سلوک سے کئی مشرکین عرب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت میں یہودیت اور نصرانیت کو بہ حیثیت مذاہب احترام کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے، ان کا پکا ہوا کھانا کھانے اور اپنا کھانا انہیں کھلانے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں آیا تو آپؐ ان سے بے حد محبت اور احترام سے پیش آئے، ان کو مہمان بنایا اور بہ نفس نفیس مہمان داری کے فرائض سرانجام دیے۔
اسی طرح نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد آپؐ کے پاس مدینہ منورہ آیا تو آپؐ نے اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور مسجد نبوی میں انہیں اپنے طریقے پر عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور ان لوگوں نے جب اپنے دین کے حق میں نبی پاک ﷺ سے بحث کی تو آپؐ نے ان کی باتیں سنیں اور نرمی سے سوالات کے جوابات دیے۔ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں تقریبا پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلا معاملہ نجران کے عیسائیوں سے پیش آیا۔ آپؐ نے انہیں جو حقوق دیے وہ تاریخ میں درج ہیں۔
اہل نجران سے معاہدے کے مطابق حسب ذیل حقوق متعین کیے گئے تھے۔
٭ ان کی جان محفوظ رہے گی۔
٭ ان کی جائیداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
٭ ان کے مذہبی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، وہ اپنے مذہبی اور اپنے دیگر عہدوں پر برقرار رہیں گے۔
٭ صلیبوں اور عورتوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
٭ ان کی نہ تو کسی چیز پر قبضہ کیا جائے اور نہ فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا اور نہ ان کے ملک میں فوج بھیجی جائے گی۔
٭ ان کے معاملات و مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا اور نہ کسی کو ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔
ان حقوق کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ آج کی مہذب غیر مسلم ریاستیں بھی اپنی رعایا کو اتنے حقوق نہیں دے سکتیں۔ جہاں تک یہودیوں سے حسن سلوک کا تعلق ہے تو رحمت تمام ﷺ نے ان سے بھی ہمیشہ مشفقانہ رویہ اپنایا۔ جب تک وہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف سازشوں سے باز رہے اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا اور اگر آپ ﷺ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں بے شک اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔
امام الانبیاء ﷺ نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد سکونت پذیر تھی۔ آپؐ نے وہاں اسلامی حکومت کے قیام کے سلسلے میں جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے کیا جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں۔ اس معاہدے سے سرکار دوجہاں ﷺ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے کس طرح مذہبی رواداری کے اصولوں کو اسلامی تہذیب کے خمیر میں پہلے دن سے داخل کردیا۔ رسول خدا ﷺ ہمیشہ اہل کتاب یہودیوں اور عیسائیوں سے حسن سلوک سے پیش آئے۔
غیر مسلموں سے حسن سلوک اور رواداری کی ان تعلیمات اور مثالوں نے آپؐ کی تربیت یافتہ جماعت صحابۂ کرامؓ پر بھی یہ اثر ڈالا کہ انہوں نے بھی اپنے آقا ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر مسلموں سے حسن سلوک کو اپنا شعار بنایا اور رواداری کی اعلی مثالیں قائم فرمائیں۔
ہمیں بھی اسوہ رسول کریم ؐ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے غیرمسلموں کے حقوق کی پاس داری کرنا چاہیے۔
تاج دار مدینہ ﷺ نے جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی بل کہ غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی تعلیم دی اور اس کا خود بھی عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔ پیغمبر انسانیتؐ نے جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی بل کہ غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی بھی تعلیم دی۔ غیر مسلم خواہ مہمان، ہمسایہ یا مسلم ریاست کا ایک شہری ہو ہر صورت میں اس سے حسن سلوک کا حکم دیا اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت اور مسلم معاشرے کی ذمے داری قرار دیا۔
بہ حیثیت انسان غیرمسلم کے احترام کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ حضور پاک ﷺ نے جب ایک یہودی کا جنازہ گزرتے دیکھا تو آپؐ کھڑے ہوگئے۔ امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمی اہل کتاب کو قتل کر دیا، معاملہ رسول خدا ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھ پر ذمی کے عہد کو پورا کرنے کی زیادہ ذمے داری ہے اور مسلمان کا قصاص میں قتل کرنے کا حکم فرمایا۔
جب ہم عہد نبوی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آغاز اسلام میں تین گروہ مسلمانوں کے مدمقابل نظر آتے ہیں، مشرکین عرب، یہودی اور عسیائی۔ نبی پاک ﷺ نے ان تینوں غیرمسلم گروہوں سے جو حسن سلوک فرمایا اور رواداری برتی اس سے اغیار کو بھی انکار نہیں۔ سب سے پہلے مشرکین مکہ کو لیجیے کہ انہوں نے حضور پاک ﷺ اور صحابہ کرامؓؓ کو بہت ستایا یہاں تک کہ ان کا جینا دوبھر کردیا اور وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا، مگر اﷲ نے ان سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا۔ چناں چہ سورہ توبہ میں ارشاد الہیٰ ہے : '' اور اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیے تاکہ وہ اﷲ کا کلام سن سکے پھر اسے بہ حفاظت محفوظ جگہ پر پہنچا دیجیے، یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔''
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ پناہ میں آنے والا مشرک کلام اﷲ سننے اور اسلام کی تبلیغ کے باوجود اسلام قبول نہیں کرتا مگر پھر بھی اسے کسی قسم کی گزند پہنچانے کی اجازت نہیں ہے بل کہ ارشاد ربانی ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں، سیدھی راہ ٹیڑھی راہ سے واضح اور روشن ہوچکی۔ اسی طرح مسلمانوں کو مشرکین کو کوسنے اور برا بھلا کہنے سے بھی منع فرمایا گیا۔ جیسے ارشاد الہیٰ ہے: '' اور تم مت برا کہو ان لوگوں کو جو اﷲ کے ماسوا کو پکارتے ہیں، کہیں وہ اﷲ کو بلا سمجھے زیادتی کرتے ہوئے برا نہ کہنے لگیں۔''
مشرکین مکہ نے سرکار دوعالم ﷺ کو دین حق پیش کرنے کی پاداش میں مکہ سے نکال دیا اور مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا بل کہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے عرب قبائل کا متحدہ محاذ بنالیا اور برسوں مسلمانوں سے جنگ کرتے رہے اور ان کے استحصال کا کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ چناں چہ اسلام نے ان سے جنگ کرنے کا حکم تو دیا لیکن جنگ کی حالت میں بھی ظلم و زیادتی کرنے کی ممانعت کی۔
ارشاد ربانی ہے: '' اور لڑو اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حد سے مت بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' جن لوگوں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں مسجد الحرام کی زیارت سے زبردستی روک دیا تھا ان کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے روکا گیا۔ فرمان الہیٰ ہے: '' اور جن لوگوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا ان کی عداوت تم کو ان کے ساتھ زیادتی کرنے کا سبب نہ بنے۔'' فتح مکہ کے موقعے پر نبی پاک ﷺ کے سامنے وہ لوگ تھے جن کے دامن پر عداوت اسلام کے سیکڑوں دھبے تھے، حضور پاک ﷺ کا ایک ہی اشارہ ان کی گردن زنی کے لیے کافی تھا، لیکن رحمت کائناتؐ کے سیل کرم کی ایک موج ان کی سیاہ کاریوں کو بہا کر لے گئی۔ آپؐ نے فرمایا: '' آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں جاؤ تم آزاد ہو۔''
نبی کریم ﷺ کے اس حسن سلوک کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپؐ کی جان کے دشمن آپؐ پر جان قربان کرنے والے بن گئے۔ ثمامہ بن اثالؓ اس کی واضح مثال ہیں، یہ اسلام کے بدترین دشمن جب گرفتار ہوکر آپؐ کے سامنے پیش ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ ثمامہ نے جواب دیا کہ اگر آپ میرے بارے میں قتل کا حکم دیں تو میں اس کا سزا وار ہوں، اگر بخش دیں تو میں شکر گزار ہوں گا، اگر جرمانہ لینا چاہیں تو رقم کا تعین فرما دیجیے۔ آپؐ نے اسے بغیر سزا کے معاف فرما دیا۔
چناں چہ رہا ہوتے ہی وہ ایک قریبی باغ میں گئے، وہاں غسل کرکے واپس آئے اور آتے ہی مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ میں دنیا میں آپؐ سے زیادہ نفرت کسی سے نہیں کرتا تھا لیکن اب آپؐ سے زیادہ دنیا میں میرا محبوب بھی کوئی نہیں۔ آپؐ کے شہر مدینہ سے مجھے انتہائی نفرت تھی مگر اب یہ دنیا کے ہر مقام سے زیادہ مرغوب ہے۔ آپؐ کا دین میرے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن اب وہی دین میرا مقصد حیات ہے۔ اسی طرح سرکار دوعالم ﷺ کا عکرمہ کے ساتھ قبول اسلام سے قبل کا برتاؤ اور صفوان بن امیہ کے ساتھ حسن سلوک اور ابوسفیان کے ساتھ اخلاق برتری اور اس طرح کی اور کئی رواداری کی مثالیں ہیں جو اس بات کی شاہد ہیں کہ آپؐ کے حسن سلوک سے کئی مشرکین عرب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت میں یہودیت اور نصرانیت کو بہ حیثیت مذاہب احترام کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے، ان کا پکا ہوا کھانا کھانے اور اپنا کھانا انہیں کھلانے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں آیا تو آپؐ ان سے بے حد محبت اور احترام سے پیش آئے، ان کو مہمان بنایا اور بہ نفس نفیس مہمان داری کے فرائض سرانجام دیے۔
اسی طرح نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد آپؐ کے پاس مدینہ منورہ آیا تو آپؐ نے اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور مسجد نبوی میں انہیں اپنے طریقے پر عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور ان لوگوں نے جب اپنے دین کے حق میں نبی پاک ﷺ سے بحث کی تو آپؐ نے ان کی باتیں سنیں اور نرمی سے سوالات کے جوابات دیے۔ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں تقریبا پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلا معاملہ نجران کے عیسائیوں سے پیش آیا۔ آپؐ نے انہیں جو حقوق دیے وہ تاریخ میں درج ہیں۔
اہل نجران سے معاہدے کے مطابق حسب ذیل حقوق متعین کیے گئے تھے۔
٭ ان کی جان محفوظ رہے گی۔
٭ ان کی جائیداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
٭ ان کے مذہبی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، وہ اپنے مذہبی اور اپنے دیگر عہدوں پر برقرار رہیں گے۔
٭ صلیبوں اور عورتوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
٭ ان کی نہ تو کسی چیز پر قبضہ کیا جائے اور نہ فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا اور نہ ان کے ملک میں فوج بھیجی جائے گی۔
٭ ان کے معاملات و مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا اور نہ کسی کو ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔
ان حقوق کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ آج کی مہذب غیر مسلم ریاستیں بھی اپنی رعایا کو اتنے حقوق نہیں دے سکتیں۔ جہاں تک یہودیوں سے حسن سلوک کا تعلق ہے تو رحمت تمام ﷺ نے ان سے بھی ہمیشہ مشفقانہ رویہ اپنایا۔ جب تک وہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف سازشوں سے باز رہے اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا اور اگر آپ ﷺ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں بے شک اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔
امام الانبیاء ﷺ نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد سکونت پذیر تھی۔ آپؐ نے وہاں اسلامی حکومت کے قیام کے سلسلے میں جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے کیا جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں۔ اس معاہدے سے سرکار دوجہاں ﷺ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے کس طرح مذہبی رواداری کے اصولوں کو اسلامی تہذیب کے خمیر میں پہلے دن سے داخل کردیا۔ رسول خدا ﷺ ہمیشہ اہل کتاب یہودیوں اور عیسائیوں سے حسن سلوک سے پیش آئے۔
غیر مسلموں سے حسن سلوک اور رواداری کی ان تعلیمات اور مثالوں نے آپؐ کی تربیت یافتہ جماعت صحابۂ کرامؓ پر بھی یہ اثر ڈالا کہ انہوں نے بھی اپنے آقا ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر مسلموں سے حسن سلوک کو اپنا شعار بنایا اور رواداری کی اعلی مثالیں قائم فرمائیں۔
ہمیں بھی اسوہ رسول کریم ؐ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے غیرمسلموں کے حقوق کی پاس داری کرنا چاہیے۔