لاپتہ افراد کیس ہائیکورٹ نے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کو طلب کرلیا

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں جو لاپتہ افراد ہیں ان کی تفصیلات بھی پیش کی جائے، عدالت عالیہ کی ہدایت

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں جو لاپتہ افراد ہیں ان کی تفصیلات بھی پیش کی جائے، عدالت عالیہ کی ہدایت۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جواب داخل نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور جج ایڈوکیٹ جنرل ہیڈ کوارٹر کور 5 کو طلب کرلیا۔

عدالت نے حساس اداروں سے لاپتہ افراد کی فہرست طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں جو لاپتہ افراد ہیں ان کی تفصیلات پیش کی جائے اور مذکورہ افراد کے خلاف اگر کوئی مقدمہ یا الزام ہے تو اس کی نوعیت اور تفصیلات بھی پیش کی جائیں، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے پاک فوج اور فوج کے متعلقہ اداروں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں، اگر فوج اور متعلقہ ادارے عدالتوں کا احترام نہیں کرتے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بہتر ہیں عوام کے دلوں میں انکا احترام بھی متاثر ہوتا ہے۔

عدالت نے حکم کی نقول وزارت دفاع اور داخلہ کے ذریعے آرمی چیف کو بھی بھیجنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے 40سے زائد لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، اجمل وحید اور اسامہ وحید کی گمشدگی سے متعلق مسماۃ امینہ بتول کی درخواست کے حوالے سے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایف آئی اے،آئی ایس آئی اور آئی بی کو خطوط لکھے گئے ہیں مگر کوئی جواب نہیں آیا، درخواست گزرکے وکیل سید عبدالوحید ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ خدشہ ہے کہ دونوں افراد ملٹری انٹیلی جنس کی تحویل میں ہیں، بینچ نے آبزرو کیا کہ عدالت حساس اداروں کے رویے پر پہلے بھی ناراضگی کا اظہار کرچکی ہے۔

لوگوں کی انگلیاں ان افراد کی طرف اٹھ رہی ہیں، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع بھی ان اداروں کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظرآتی ہے،لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے ٹھوس اقدامات نظرنہیں آتے، عدالت نے آبزروکیا کہ اٹارنی جنرل آفس بھی سست رفتاری سے عدالتی احکامات کو متعلقہ حکام تک پہنچاتا ہے،اٹارنی جنرل آفس کی نااہلی اور غفلت بھی قابل افسوس ہے، عدالت نے ہدایت کی کہ پاک فوج اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کی تحویل میں لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی جائے، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہاکہ اگر کسی ادارے نے عدالت سے تعاون نہ کیا تو اس ادارے کے اعلیٰ ترین افسر کو طلب کیا جائے گا۔

 




عدالت نے واٹربورڈ کے ملازم خالد شمیم کی گمشدگی سے متعلق ان کی اہلیہ بینا خالد کی درخواست کی بھی سماعت کی، عدالت نے محمدرمضان کی گمشدگی کے حوالے سے اس کی اہلیہ مسماۃ فاطمہ کی درخواست کی سماعت کے موقع پر حساس اداروں کا جواب موصول نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس مشیر عالم نے اپنی آبزرویشن میں کہاکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے یکم نومبر2012کو بھی عدالت کو بتایا تھا کہ محمدرمضان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلیے آئی ایس آئی،ایم آئی،آئی بی اور دیگر اداروں کے سربراہان کو خطوط لکھے گئے ہیں مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا، عدالت نے حساس اداروں کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔

عدالت نے ڈی جی ایم آئی کو 14جنوری کو خود پیش ہونے کی ہدایت کی، اکبرخان اور مومن خان کی گمشدگی کے حوالے سے علی خان کی درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ 28نومبر2012کووزارت دفاع کے زریعے جج ایڈووکیٹ جنرل ہیڈکوارٹرکورVسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جج ایڈوکیٹ جنرل ہیڈکوارٹرکور V آئندہ سماعت پر خود پیش ہوں، گلفام بی بی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس بیٹا اشفاق احمد 13اگست2009کو اردوبازار گیا تھا واپس نہیں آیا،فضل رحیم نے کہا ہے کہ اس کا بیٹا سجاد رحیم 13مئی2011سے لاپتا ہے،مسمات سمعیہ نے کہا ہے کہ اس کے بیٹے فیاض علی کو 7جنوری2011کو گرفتار کیا گیا۔

سعید خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسکے بھائی فیاض خان اور اسکے دوست محمد عمران خان کو 17اپریل2011کو حراست میں لیا گیا،مسعود حسن نے کہا ہے کہ اس کے بھائی آصف اقبال کو 21جون2011کو حراست میں لیا گیا،مسمات عائشہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے شوہر محمدافضل کو 22اپریل2011کو جوڑیابازار سے حراست میں لیا گیا جبکہ اسکے دیور سعود میمن کو بھی حراست میں لیکر امریکا کے حوالے کردیا گیا تھا اور گزشتہ برس پانچ سال بعد رہائی کے بعدواپس آیا ہے تو اس کی حالت انتہائی خراب ہے، محمدزمان نے کہا ہے کہ اس کے عزیزوں محمد سلیمان، پیرزادہ، محمد طاہر، ایازخان،باسن خان،فرحان اللہ اور بسم اللہ خان کو بھی چند ماہ قبل حراست میں لیا گیا مگر رہا نہیں کیا گیا۔

عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتاافراد کی بازیابی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی، سندھ ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ، ملٹری اینٹلی جنس اور دیگر کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیاہے کہ وہ وضاحت کریں کہ کیوں نے ان کے خلاف لاپتا شہری کے متعلق عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے کے الزام میں کارروائی کی جائے ، اظہاروجوہ کا یہ نوٹس مسمات آمنہ کی آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا گیا، مسمات آمنہ کے وکیل سید عبدالوحید نے بینچ کو بتایاکہ دینی مدرسے میں زیر تعلیم درخواست گزار کے بیٹے عبدالماجد کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے 18اکتوبر 2008کو خدا کی بستی سے حراست میں لیاتھا،اس کے بعد سے اسکے بارے میںکوئی علم نہیں ،تاہم گزشتہ سال 25جن کو رہا ہونیوالے ایک شہری نے اہل خانہ کو بتایاکہ عبدالماجد کو اس نے اینٹلی جنس اداروںکی تحویل میں دیکھا تھا۔
Load Next Story