بھارت کے گھناؤنے عزائم بے نقاب
بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دے۔
بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کا نام پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں بلکہ اس کے گھناؤنے عزائم سے پوری دنیا واقف ہے۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کورٹ مارشل کرکے سزائے موت کے اعلان نے بھارت میں صف ماتم بچھادی ہے۔
بھارتی حکومت بہت سیخ پا ہے اور بھارتی میڈیا نے بھی آسمان سر پر اٹھالیا ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل گزشتہ سال مارچ میں بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار ہوا، جو کہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس آفیسر 41885 کمانڈر ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اس کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا، مقدمے کے دوران اسے اپنے دفاع کے لیے وکیل کی سہولت بھی مہیا کی گئی، کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں جرم کا اقرار کیا۔
پاکستان کی عسکری عدالت نے پوری ذمے داری اور قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں را کی مداخلت کل کا قصہ نہیں بلکہ بھارت نے اپنے ہمسایوں کو عدم استحکام سے دو چار کرنے اور باری باری اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے لیے یہ ادارہ تشکیل دیا۔
اصل میں بھارت شروع دن سے خطے میں بالادستی قائم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے، اسی خبط کی وجہ سے ایک جانب بھارت پاکستان سے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کوکمزور کرنے کے لیے تخریبی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے، بھارت نے عرصہ دراز سے پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ، بلوچستان میں مداخلت اور خود کش دھماکے کرانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستان سے راء کے ایجنٹ کی گرفتاری کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے، ملک کے حساس ادارے اس سے قبل بھی کئی خفیہ ایجنٹس گرفتار کرچکے ہیں، ان میں بہت سے ایجنٹس کو پاکستان کی عدالتیں سزائیں بھی دے چکی ہیں، سربجیت سنگھ، سرجیت سنگھ، کشمیرسنگھ وہ نام ہیں جو پاکستان کی جیلوں میں سزائیں کاٹ کر بھارت جاچکے ہیں، کچھ بھارتی ایجنٹس کی سزائیں ملک کے صدرمملکت نے معاف کیں، حیران کن طور پر پاکستان کی عدالتوں میں را سے تعلق کا انکار کرنیوالے تمام ایجنٹس نے بھارت جاکر را سے اپنی وابستگی کا اعتراف کیا۔
کلبھوشن کے سلسلے میں بھارتی واویلا اور اسے بچانے کے لیے حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ کلبھوشن کوئی عام جاسوس نہیں بلکہ ایک تربیت یافتہ اعلیٰ عہدے پر فائز را کا ایجنٹ ہے جسے بچانے کے لیے بھارت کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ ہمارے قبضے میں موجود کلبھوشن یادیو کا شمار ایسے جاسوس میں ہوتا ہے جو بھارت کے ریاستی اداروں کے اہلکار ہیں، اگر بھارت کلبھوشن کو واپس نہیں لے پاتا تو اس کے تمام خفیہ ایجنٹ اس خوف کا شکار ہوجائیں گے کہ ان کی ریاست برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتی، اس خوف سے بھارتی خفیہ کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
کلبھوشن کے معاملے میں ہمیں یہ برتری حاصل ہے کہ ہم نے اسے اپنی سرزمین سے پکڑا، دوسرا یہ کہ اس نے اپنے بھارتی جاسوس ہونے کا اعتراف کیا، تیسرا یہ کہ اس کا فیصلہ دنیا بھر میں قابل قبول اپنے قانونی نظام پرچھوڑ دیا ہے، بھارت جتنا بھی شور مچالے اب کلبھوشن کو واپس لینے کے لیے پہلے اسے یہ ماننا پڑے گا کہ کلبھوشن واقعی اس کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو پاکستان میں دہشتگردی کروارہا تھا اور اس طرح بھارت خود دہشتگردی کا مجرم قرار پائے گا۔
اس صورتحال سے بچنے کے لیے اس کے سامنے یہی آپشن باقی بچتا ہے کہ وہ کلبھوشن جتنے اہم کسی پاکستانی کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر پاکستان کے ساتھ اس کا تباد لہ کرلے، کرنل (ر) حبیب کا نیپال میں اغوا اسی بھارتی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے پاکستان نے میڈیا کے ذریعے بروقت فاش کرکے ناکام بنادیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ کہنا کہ کلبھوشن کی پھانسی سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے، دراصل اپنی ناکامی اور ہماری کامیابی کا اعتراف ہے کیونکہ کلبھوشن کی گرفتاری کے ایک سال بعد بھی بھارتی ایجنسیاں کسی ایسے پاکستانی کو پکڑنے میں ناکام رہی ہیں جس کے بدلے وہ اپنا افسر واپس لے سکیں۔
سشما سوراج کے بیان کے بعد یہ معاملہ خفیہ کاری کے میدان سے نکل کر سفارتکاری کی میز پر پہنچ گیا ہے اور جہاں ہماری حکومت کو بیٹھ کر اسے طے کرنا ہے لیکن حکومت کو دھیان رکھنا ہوگا کہ اس معاملے پر معمولی سی کمزوری کے نتائج بھی خطرناک ہونگے۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ریاستیں کلبھوشن جیسے معاملات کو ڈپلومیسی کا حصہ بنالیتی ہیں اور دونوں اطراف پکڑے گئے جاسوسوں کا تبادلہ کرلیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کرنل (ر) حبیب اللہ کے اغوا کے بعد بھارت پاکستان کے ساتھ اسی طرح کا سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ کرنل (ر) حبیب اللہ کے اغواء کا معاملہ ہر فورم پر اٹھایا جائے تاکہ بھارت مستقبل میں پاکستان کو بلیک میل نہ کرسکے او رکلبھوشن کے معاملے میں بھارت سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے، حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی سطح پر بھارت کے ساتھ ہونے والی بات چیت یا مذاکرات میں را کی مداخلت کا معاملہ ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، ان غداروں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو چند ٹکوں کے عوض کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمنوں کے ہاتھوں مادر وطن کا سودا کرلیتے ہیں۔
قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ را کی ریشہ دوانیوں اور پاکستان میں اس کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کی سازشوں اور کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے اب کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی جائے اور نہ ہی مصلحت پسندی سے کام لیا جائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت گزشتہ کئی عشروں سے خوفناک ہتھیار بنانے اور جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، امریکی سرپرستی اور معاونت سے بھارت ایٹم بم کے بعد ہائیڈروجن بم بنانے کی سمت بڑھ رہا ہے، بھارتی ریاست کرناٹک میں نیو کلیئر سٹی تقریباً تعمیر ہوچکا ہے، اس مرکز میں نہ صرف یورینیم افزودہ کیا جائے گا بلکہ ہائیڈروجن بم بھی بنایا جائے گا، اس جوہری ادارے سے بھارتی اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کو ایندھن فراہمی کا کام لیں گے، اپنی ایٹمی آبدوزوں کے لیے بھی جوہری توانائی کا بندوبست کرسکیں گے، یہ سب بھارت اپنے پڑوسی ممالک پر برتری حاصل کرنے کے لیے کررہا ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ و دیگر عالمی طاقتیں بھارت کے خلاف کوئی واویلا نہیں کررہی بلکہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں ایران کے خلاف متحد ہوگئیں، پابندیاں عائد کردی گئیں، عراق پر خطرناک ہتھیار بنانے کا الزام لگاکر تہس نہس کردیا گیا، لیبیا نے ایٹمی قوت بننے کی کوشش کی تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسلامی بم کا نام دیکر پوری دنیا میں منفی پروپیگنڈہ کیا گیا مگر بھارت کے معاملے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا دوہرا رویہ معنی خیز ہے۔ جس سے یہ تاثر تقویت پاتا جارہا ہے کہ بھارت کو امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو بھارت کو خفیہ طور پر بڑی ایٹمی طاقت بنانے میں معاونت کرکے ایک بہت خوفناک کھیل کھیل رہی ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت عالمی، ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کا بڑا کھلاڑی بننا چاہتا ہے مگر اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے بغیر وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، اگر بھارت امن کی راہ پر چلے تو اسے وہ مل سکتا ہے جس کا وہ خواہشمند ہے سوائے پاکستان پر برتری کے حصول کے۔ دوسرا راستہ جنگ کا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے جو نہ اس کے مفاد میں ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرسکے گا۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دے، پاکستان میں دہشتگردی سے باز آئے اور تخریب کاری کے لیے پاکستان میں ایجنٹ بھیجنا بند کرے، خطے کے امن و استحکام کے لیے بھارت منفی ہتھکنڈے ترک کرکے تعاون اور دوستی کی فضاء پیدا کرے کیونکہ جنوب مشرقی ایشیاء کی تقریباً 2 ارب کی آبادی کی اکثریت خستہ حالی، تنگ دستی، کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے، جنگی جنون کی بھٹی میں اپنے اور جواباً اپنے پڑوسیوں کے وسائل جھونکنے سے تو کہیں یہ بہتر نہیں کہ آپس میں جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے جائیں۔
بھارتی حکومت بہت سیخ پا ہے اور بھارتی میڈیا نے بھی آسمان سر پر اٹھالیا ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل گزشتہ سال مارچ میں بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار ہوا، جو کہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس آفیسر 41885 کمانڈر ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اس کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا، مقدمے کے دوران اسے اپنے دفاع کے لیے وکیل کی سہولت بھی مہیا کی گئی، کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں جرم کا اقرار کیا۔
پاکستان کی عسکری عدالت نے پوری ذمے داری اور قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں را کی مداخلت کل کا قصہ نہیں بلکہ بھارت نے اپنے ہمسایوں کو عدم استحکام سے دو چار کرنے اور باری باری اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے لیے یہ ادارہ تشکیل دیا۔
اصل میں بھارت شروع دن سے خطے میں بالادستی قائم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے، اسی خبط کی وجہ سے ایک جانب بھارت پاکستان سے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کوکمزور کرنے کے لیے تخریبی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے، بھارت نے عرصہ دراز سے پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ، بلوچستان میں مداخلت اور خود کش دھماکے کرانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستان سے راء کے ایجنٹ کی گرفتاری کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے، ملک کے حساس ادارے اس سے قبل بھی کئی خفیہ ایجنٹس گرفتار کرچکے ہیں، ان میں بہت سے ایجنٹس کو پاکستان کی عدالتیں سزائیں بھی دے چکی ہیں، سربجیت سنگھ، سرجیت سنگھ، کشمیرسنگھ وہ نام ہیں جو پاکستان کی جیلوں میں سزائیں کاٹ کر بھارت جاچکے ہیں، کچھ بھارتی ایجنٹس کی سزائیں ملک کے صدرمملکت نے معاف کیں، حیران کن طور پر پاکستان کی عدالتوں میں را سے تعلق کا انکار کرنیوالے تمام ایجنٹس نے بھارت جاکر را سے اپنی وابستگی کا اعتراف کیا۔
کلبھوشن کے سلسلے میں بھارتی واویلا اور اسے بچانے کے لیے حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ کلبھوشن کوئی عام جاسوس نہیں بلکہ ایک تربیت یافتہ اعلیٰ عہدے پر فائز را کا ایجنٹ ہے جسے بچانے کے لیے بھارت کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ ہمارے قبضے میں موجود کلبھوشن یادیو کا شمار ایسے جاسوس میں ہوتا ہے جو بھارت کے ریاستی اداروں کے اہلکار ہیں، اگر بھارت کلبھوشن کو واپس نہیں لے پاتا تو اس کے تمام خفیہ ایجنٹ اس خوف کا شکار ہوجائیں گے کہ ان کی ریاست برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتی، اس خوف سے بھارتی خفیہ کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
کلبھوشن کے معاملے میں ہمیں یہ برتری حاصل ہے کہ ہم نے اسے اپنی سرزمین سے پکڑا، دوسرا یہ کہ اس نے اپنے بھارتی جاسوس ہونے کا اعتراف کیا، تیسرا یہ کہ اس کا فیصلہ دنیا بھر میں قابل قبول اپنے قانونی نظام پرچھوڑ دیا ہے، بھارت جتنا بھی شور مچالے اب کلبھوشن کو واپس لینے کے لیے پہلے اسے یہ ماننا پڑے گا کہ کلبھوشن واقعی اس کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو پاکستان میں دہشتگردی کروارہا تھا اور اس طرح بھارت خود دہشتگردی کا مجرم قرار پائے گا۔
اس صورتحال سے بچنے کے لیے اس کے سامنے یہی آپشن باقی بچتا ہے کہ وہ کلبھوشن جتنے اہم کسی پاکستانی کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر پاکستان کے ساتھ اس کا تباد لہ کرلے، کرنل (ر) حبیب کا نیپال میں اغوا اسی بھارتی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے پاکستان نے میڈیا کے ذریعے بروقت فاش کرکے ناکام بنادیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ کہنا کہ کلبھوشن کی پھانسی سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے، دراصل اپنی ناکامی اور ہماری کامیابی کا اعتراف ہے کیونکہ کلبھوشن کی گرفتاری کے ایک سال بعد بھی بھارتی ایجنسیاں کسی ایسے پاکستانی کو پکڑنے میں ناکام رہی ہیں جس کے بدلے وہ اپنا افسر واپس لے سکیں۔
سشما سوراج کے بیان کے بعد یہ معاملہ خفیہ کاری کے میدان سے نکل کر سفارتکاری کی میز پر پہنچ گیا ہے اور جہاں ہماری حکومت کو بیٹھ کر اسے طے کرنا ہے لیکن حکومت کو دھیان رکھنا ہوگا کہ اس معاملے پر معمولی سی کمزوری کے نتائج بھی خطرناک ہونگے۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ریاستیں کلبھوشن جیسے معاملات کو ڈپلومیسی کا حصہ بنالیتی ہیں اور دونوں اطراف پکڑے گئے جاسوسوں کا تبادلہ کرلیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کرنل (ر) حبیب اللہ کے اغوا کے بعد بھارت پاکستان کے ساتھ اسی طرح کا سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ کرنل (ر) حبیب اللہ کے اغواء کا معاملہ ہر فورم پر اٹھایا جائے تاکہ بھارت مستقبل میں پاکستان کو بلیک میل نہ کرسکے او رکلبھوشن کے معاملے میں بھارت سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے، حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی سطح پر بھارت کے ساتھ ہونے والی بات چیت یا مذاکرات میں را کی مداخلت کا معاملہ ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، ان غداروں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو چند ٹکوں کے عوض کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمنوں کے ہاتھوں مادر وطن کا سودا کرلیتے ہیں۔
قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ را کی ریشہ دوانیوں اور پاکستان میں اس کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کی سازشوں اور کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے اب کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی جائے اور نہ ہی مصلحت پسندی سے کام لیا جائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت گزشتہ کئی عشروں سے خوفناک ہتھیار بنانے اور جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، امریکی سرپرستی اور معاونت سے بھارت ایٹم بم کے بعد ہائیڈروجن بم بنانے کی سمت بڑھ رہا ہے، بھارتی ریاست کرناٹک میں نیو کلیئر سٹی تقریباً تعمیر ہوچکا ہے، اس مرکز میں نہ صرف یورینیم افزودہ کیا جائے گا بلکہ ہائیڈروجن بم بھی بنایا جائے گا، اس جوہری ادارے سے بھارتی اپنے ایٹمی ری ایکٹروں کو ایندھن فراہمی کا کام لیں گے، اپنی ایٹمی آبدوزوں کے لیے بھی جوہری توانائی کا بندوبست کرسکیں گے، یہ سب بھارت اپنے پڑوسی ممالک پر برتری حاصل کرنے کے لیے کررہا ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ و دیگر عالمی طاقتیں بھارت کے خلاف کوئی واویلا نہیں کررہی بلکہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں ایران کے خلاف متحد ہوگئیں، پابندیاں عائد کردی گئیں، عراق پر خطرناک ہتھیار بنانے کا الزام لگاکر تہس نہس کردیا گیا، لیبیا نے ایٹمی قوت بننے کی کوشش کی تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسلامی بم کا نام دیکر پوری دنیا میں منفی پروپیگنڈہ کیا گیا مگر بھارت کے معاملے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا دوہرا رویہ معنی خیز ہے۔ جس سے یہ تاثر تقویت پاتا جارہا ہے کہ بھارت کو امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو بھارت کو خفیہ طور پر بڑی ایٹمی طاقت بنانے میں معاونت کرکے ایک بہت خوفناک کھیل کھیل رہی ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت عالمی، ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کا بڑا کھلاڑی بننا چاہتا ہے مگر اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے بغیر وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، اگر بھارت امن کی راہ پر چلے تو اسے وہ مل سکتا ہے جس کا وہ خواہشمند ہے سوائے پاکستان پر برتری کے حصول کے۔ دوسرا راستہ جنگ کا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے جو نہ اس کے مفاد میں ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرسکے گا۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دے، پاکستان میں دہشتگردی سے باز آئے اور تخریب کاری کے لیے پاکستان میں ایجنٹ بھیجنا بند کرے، خطے کے امن و استحکام کے لیے بھارت منفی ہتھکنڈے ترک کرکے تعاون اور دوستی کی فضاء پیدا کرے کیونکہ جنوب مشرقی ایشیاء کی تقریباً 2 ارب کی آبادی کی اکثریت خستہ حالی، تنگ دستی، کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے، جنگی جنون کی بھٹی میں اپنے اور جواباً اپنے پڑوسیوں کے وسائل جھونکنے سے تو کہیں یہ بہتر نہیں کہ آپس میں جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے جائیں۔